اقلیتیں اور سیاسی جماعتیں
پنجاب میں مسیحی اور اندرون سندھ ہندوئوں کو نشانہ بنایا گیا، یوں اقلیتوں نے ملک سے باہر جانا شروع کیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق بادامی باغ لاہور کے علاقے جوزف کالونی میں 26سالہ ساون کی اسنوکر شاپ تھی، اس ہی علاقے میں شاہد عمران کی حجام کی دکان تھی ۔دومختلف مذاہب پر یقین رکھنے والے ان نوجوانوں میں دوستی تھی۔ شراب نوشی کرتے ہوئے دونوں میں ایک شام کو بحث و تکرار ہوئی ، شاہد عمران نے دوسرے دن ساون پر توہین رسالت کا الزام لگایا اور معاملہ تھانے تک پہنچ گیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کرکے ساون کو گرفتار کرلیا، 9مارچ کو کسی نے یہ خبر قریبی بستی میں پھیلادی کہ بہت سے لوگ مشتعل ہوئے، ان مشتعل افراد نے غریبوںکی بستی جوزف کالونی پر حملہ کردیا۔ یوں ایک گرجاگھر سمیت 100سے زائد گھروں کو نذر آتش کردیاگیا ۔غریب عیسائیوں کی موٹر سائیکلوں اور رکشوں کو بھی جلادیا گیا ۔ لاہور پولیس نے فرض شناسی کا احساس کرتے ہوئے بستی کومکینوں سے خالی کرا لیا تھا لیکن جلوس کے شرکاء کی ہنگامہ آرائی کا پولیس نظارہ کرتی رہی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق بعض اہم سیاسی افراداور تاجر بھی حملہ آور مشتعل ہجوم کے ساتھ رہے۔
ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے غریبوں کے جلے ہوئے مکانات ، عورتوں کی آہ و زاری کے فوٹیج دکھانا شروع کیے تو حکومت پنجاب کو صورتحال کا ادراک ہوا ، اب اس بدنما واقعے کی تحقیقات کرانے اور جلے ہوئے مکانات کی فوری تعمیر کا فیصلہ کیا گیا ۔ پنجاب میںحالیہ چند برسوں میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لاہور میں دو سال قبل ایک اور اقلیت کی دو عبادت گاہوں پر مسلح کمانڈوز نے حملہ کیا ، بیسیوں لوگ مارے گئے۔اس وقت بھی میڈیا میں یہ اطلاعات آئی تھیںکہ پولیس اورکمانڈوز کے دستے عبادت گاہوں تک پہنچ گئے تھے مگر یہ محافظین بھی مخصوص ذہن کے اسیر تھے۔
یوں انھوں نے عبادت گاہوں میں محصور افراد کو بچانے کے لیے کارروائی نہیں کی جب بعض لوگوں نے ایک حملہ آور کو اسلحہ ختم ہونے پر پکڑ لیا تو پولیس والوں نے اس شخص کو گرفتار کرکے اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شایع ہونے والی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ میں مسیحی آبادی کو یوں ہی تار تار کیا گیا تھا ، اس وقت بھی حکومت نے اقلیتوں کے تحفظ اور ملزمان کو سزا دینے کا اعلان کیا تھا مگر کچھ عرصے بعدسب کچھ فراموش کردیا گیا ۔
پاکستان میں یوں تو اقلیتیں شروع سے ہی امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ 1973میں نافذ ہونے والا متفقہ آئین اقلیتوں کو اکثریت کے برابر مساوی حیثیت دینے میں ناکام رہا مگر نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد جب امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل پر حملہ کیا اور طالبان کے سربراہ ملا عمر کی حکومت ختم ہوئی تو پھر طالبان اس لڑائی کو قبائلی علاقوں کے ذریعے لاہور اور کراچی تک لے آئے، اس لڑائی میں سب سے پہلے مری میں ایک چرچ پر حملہ کیا گیا پھر فوجی تنصیبات پر حملوں ، سڑکوں ، شاپنگ سینٹروں پر خود کش حملوں کے ساتھ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ،فرقہ واریت میں اب تک سیکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
اس لڑائی میں نشانہ قبائلی علاقوں میں آباد سکھ اور ہندو بھی بنے۔ پنجاب میں مسیحی اور اندرون سندھ ہندوئوں کو نشانہ بنایا گیا، یوں اقلیتوں نے ملک سے باہر جانا شروع کیا۔ پنجاب سے متعددمسیحیوں اور قادیانیوںبلوچستان سے ہزارہ برادری، سندھ سے ہندوئوں نے یورپ ، آسٹریلیا اور امریکا میںسیاسی پناہ لینا شروع کی ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس صورتحال کی گہرائی کو محسوس نہیں کیا۔
وہ لوگ جو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا ذکر کرتے تھے ان کے پاس اپنے ملک میں اقلیتوں کے حالات زار کے حوالے سے کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ یوں پاکستان کا امیج مجروح ہوا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ اسے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بنیادی اقدامات کرنے میں ناکام ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں نافذ کردہ بعض متنازعہ قوانین کی منسوخی اور اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے کے لیے پیپلزپارٹی قانون سازی پر تیارہوئی ۔ حکومت کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پیپلزپارٹی کی حکومت کی ان قوانین کے حوالے سے حمایت کے لیے موجود تھی۔
خاص طور پر ایم کیو ایم سے اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کے کنونشن کی توثیق کی ، آئین میں سے قرارداد مقاصد کو علیحدہ کرنے کی موقف کی واضح طور پر حمایت کی تاکہ ریاست کے تمام شہری یکساں حقوق کے دائرے میں آجائیں مگر مسلم لیگ ن نے اس تناظر میں وفاقی حکومت کی حمایت سے انکار کیا۔اس لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قانون سازی نہیں ہوسکی ۔اب وفاقی وزیر داخلہ مسلم لیگ ن پر بعض کالعدم تنظیموں کے ارکان سے رابطوں کی باتیں کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ میں انتہا پسندی کے حوالے سے کنفیوژن موجود ہے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ اب بھی جنرل ضیاء الحق کو اپنا رہبر سمجھتے ہیں اور ان کے دور کے قوانین کی تبدیلی کے خلاف ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سخت گیر شہرت کے باوجود پنجاب میں سب سے بڑی اقلیت پر حملے ہوئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسند کس قدر منہ زور ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ دینے اور انھیں اکثریت کے برابر حقوق دینے کے لیے بنیادی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ نئے قوانین کے نفاذ اور ان کے تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے ۔ اقوام متحدہ کے سول اور پولیٹیکل رائٹس کے کنونشن کی وفاقی حکومت نے توثیق کردی ہے مگر اس کنونشن کے تحت ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق دینے کے لیے ضروری ہے۔
اس کے ساتھ تعلیمی نصاب میں تبدیلی انتہائی ضروری ہے یہ تبدیلی پرائمری اسکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح کے نصاب میں ہونی چاہیے ۔ کسی مذہبی لسانی ،صنفی اور سیاسی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کو یکساں حقوق دے اس کے ساتھ میڈیا کے لیے ایک مربوط ضابطہ اخلاق بھی بنایا جائے اس ضابطہ اخلاق میں الیکٹرانک میڈیا کو خاص طور پر اس ضابطے میں مذہبی تفریق ودیگرمذاہب اور ملک کے خلاف نفرت پھیلانے کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے جو اس کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔
ان سب باتوں کی بنیاد قائد اعظم کی 11اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر ہونی چاہے اگر جناح کی 11اگست کی تقریر کو سمجھ لیا جائے تو ریاست کے تمام شہریوں کو تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سب سے پہلے اپنے انتخابی منشور کااعلان کیا ہے مگر اس منشور میں اقلیتی شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کے لیے آئینی او ر قانونی اقدامات کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے، یوں محض تباہی کے بعد متاثرہ خاندانوں کے مکانات تعمیر کرنے اور چیک باٹنے سے صورتحال بہتر نہیں ہوگیٍ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے عیسائی برادری کی بستی پر حملے کی مذمت کی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس اتفاق رائے کو ادارتی شکل دی جائے تو نہ صر ف بادامی باغ جیسے واقعات وقوع پذیر نہیں ہوںگے اور تمام شہریوں کی شراکت سے جمہوری نظام مستحکم ہوگا۔