نواز شریف عمران خان اور مک مکا

دائمی اقتدار میں رہنے کا ایک طریقہ وہ ہے جو جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اختیار کیا ہوا ہے۔

عام انتخابات قریب آتے ہی سالوں سے اقتدار میں بیٹھے اور وزارتوں کے مزے لوٹتے با اثر سیاستدان اب وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ عمران خان نے سیاستدانوں کے لیے' گنگا اشنان' کی جو مہم شروع کی تھی اس سے اب کپتان سے زیادہ میاں نواز شریف استفادہ کر رہے ہیں۔

خان صاحب پہلے ہی 'رائٹ اور لیفٹ' کی تفریق ختم کر کے 'رائٹ اور رانگ' کی بنیاد ڈال چکے ہیں، نظریاتی سیاست پاکستان میں اب دم توڑ چکی ہے۔ اب رائٹ وہ ہو گا جو تحریک انصاف میں ہو گا اور رانگ وہ ہو گا جو مخالف کیمپ میں خواہ نظریہ اور اعمال کچھ بھی ہوں۔ میاں صاحب کو رائٹ اور رانگ کی فکر بھی نہیں بس امیدوار 'تگڑا' ہونا چاہیے ، سیٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

آیندہ کابینہ کے ارکان کا تعلق کن جماعتوں سے ہو گا؟ پالیسیوں میں کتنی تبدیلی آئے گی؟ ملکی معیشت اور عوام کی زندگیوں میں کس قدر بہتری آئے گی؟ ان سوالات کے جواب اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انتخابات کی صورت میں مستقبل کا سیٹ اپ کیا ہو گا؟ مگر آپ بے فکر رہیں کہ آیندہ حکومت میں بیشتر چہر ے اور جماعتیں وہی ہوں گی جو رواں صدی کی ابتداء سے ہی حکومتوں کا حصہ رہی ہیں۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں میاں نواز شریف براجمان ہوں یا پرویز مشرف بیٹھے ہوں، طاقت کا محور آصف علی زرداری ہوں یا عمران خان وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہوں! کچھ جماعتیں اور شخصیات ایسی ہیں جنھیں آپ ہمیشہ ایوان اقتدار کے طواف میں مصروف پائیں گے۔ یہ جماعتیں اور شخصیات بڑی جماعتوں کے ساتھ 'مک مکا' کرکے دائمی اقتدار میں رہنے کے فلسفے پر کاربند ہیں، بس ہر جماعت اور شخصیت کا طریقہ کار ذرا مختلف ہے۔

دائمی اقتدار میں رہنے کا ایک طریقہ وہ ہے جو جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اختیار کیا ہوا ہے۔ اکتوبر 2002 کے انتخابات کے بعد جو حکومت بنی تو کہنے کو مولانا قائد حزب اختلاف تھے مگر حکومت سے ذرا کم ہی اختلاف کرتے تھے، موصوف اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی 'گڈ بک' میں شامل تھے، صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں ان کے ہاتھ میں تھیں، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بے چین رہتے تھے، خود نہ جا سکے تو رفیق خاص وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پختونخوا اکرم درانی کو بھیج دیا۔

مشرف رخصت ہوئے تو آپ پی پی پی حکومت میں باقاعدہ شامل ہو گئے۔ اس بار ان کی جماعت کو وزارت بھی ملی، کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی، اسلامی نظریاتی کونسل کی صدارت بھی ملی اور بلوچستان حکومت میں حصہ بھی۔ تقریباً 3 سال تک آپ پیپلز پارٹی کے قریبی اتحادی رہے اور جب قبل از وقت انتخابات کے نعرے بلند ہونے لگے تو اپوزیشن میں آ گئے مگر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ تمام کمیٹیوں کی سربراہی محفوظ رہی۔


مسلم لیگ ن پارلیمنٹ میں جس معاملے پر اختلاف کرتی تو مولانا کا ووٹ اپوزیشن کے بجائے حکومت کے حق میں جاتا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ مستقبل کی حکومت میں' مولانا' کا کردار بہت اہم ہو گا۔ حالانکہ واقفان حال جانتے ہیں کہ 'حضرت' در حقیقت اپوزیشن میں کبھی آئے ہی نہیں تھے۔ اس طریقے کے تحت آپ بڑا وقت حکومت میں گزاریں اور آخری وقت سے کچھ قبل صرف اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہو جائیں مگر حاصل 'مراعات' چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں صرف حکومت کو 'رعایات' دیتے رہیں۔

دوسرا طریقہ و ہ ہے جس پر برسوں سے مسلم لیگ فنکشنل کاربند ہے، آپ پرویز مشرف کے قریب ترین اتحادی تھے، وہ رخصت ہوئے تو پیپلزپارٹی حکومت کا حصہ بن گئے، پانچ سالہ عرصے کا بڑا وقت اتحادی جماعت بن کر گزارا اور آخری وقت میں حکومت سے الگ ہو کر صوبے میں اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ اس وقت پیر صاحب پگارا سندھ میں پی پی پی مخالف دس جماعتی گرینڈ الائنس کو متحد کیے ہوئے ہیں، میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی بڑھتی قربت کوئی راز نہیں رہی۔ یوں پرویز مشرف یا شوکت عزیز حکومت، گیلانی حکومت اور اب آیندہ جو بھی حکومت بنے اس میں فنکشنل لیگ پھر حکومتی بنچوں پر نظر آئے گی۔

سدا اقتدار میں رہنے کا تیسرا مجرب طریقہ متحدہ قومی موومنٹ کا ہے۔ اس طریقے کے مطابق آپ کو صرف حکومت کی مدت ختم ہونے سے محض چند روز قبل حکومت سے باہر آنا ہو گا۔یہ تو نسبتاً تین بڑی سیاسی جماعتوں کا حال تھا ا ب کچھ ذکر ان امیدواروں کا بھی ہو جائے جنھیں آج کل' الیکٹ ایبلز' کا نام دیا جا رہا ہے یعنی جو امیدوار پارٹی حمایت کے بغیر بھی اپنی سیٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وطن عزیز میں آباد وڈیرے، جاگیردار اور سردار یوں تو ساری زندگی ہی اقتدار میں رہتے ہیں کہ ان کے حلقے کی افراد ان کی رعیت ہوتے ہیں مگر آبائی علاقے سے شہر اقتدار تک پہنچنے کی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر کچھ عرصے بعد قلابازی بہرحال کھانی پڑتی ہے۔ ان 'الیکٹ ایبلز' میں بعض تو ایسے ہیں کہ جو اتنی جماعتیں بدل چکے ہیں کہ شاید نام بھی یاد نہ ہو مگر ہم یہاں صرف کچھ کا ذکر کریں گے ۔

سابق وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور خورشید قصور ی اب پاکستان تحریک انصاف کو پیارے ہو چکے ہیں۔ قصوری صاحب ماضی میں اگر پرویز مشرف کے طاقتور وزیر خارجہ تھے تو اب وہ عمران خان کے کیمپ میں بیٹھے ہیں۔ حالانکہ خان صاحب جس خارجہ پالیسی کے بظاہر ناقد ہیں اس کی بنیاد قصوری نے ہی ڈالی تھی مگر تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد انسان شاید دودھ کا دھلا ہو جاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے معاملے بھی مختلف نہیں۔ آپ ماضی میں مسلم لیگ ن کا حصہ رہے، پھر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے، موجودہ حکومت کے تقریباً تین سال تک وزیر خارجہ رہے، سابق صدر پرویز مشرف کی پالیسیاں جاری رہیں، اب یہ بھی پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما ہیں اور' تبدیلی' کے نعرے لگا رہے ہیں۔

کتنے ہی نام ہیں جو اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں، کتنوں کے نام سے آپ بھی واقف ہیں، پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنما لشکری رئیسانی کو بھی دیکھیں جنہوں ہواؤں کا رخ بدلتے دیکھا تو آخری لمحات میں 22 ساتھیوں سمیت میاں صاحب کی کشتی میں سوار ہو گئے اور میاں صاحب نے بھی فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے لشکری رئیسانی کو گلے سے لگا لیا۔یوں اگر میاں صاحب یا عمران خان کا خیال ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں طاقت کا سرچشمہ وہ ہوں گے تو یہ ان کی بھول ہے اور شاید یہ صاحبان اتنے بھولے بھی نہیں! وزیر اعظم بننے کے لیے انھیں اُن جماعتوں اور شخصیات کا تعاون درکار ہوگا جو صرف ایوان اقتدار میں بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔

لہٰذا عمران خان اور میاں صاحب کا 'مک مکا' وہ نہیں جس کا الزام آپ ایک دوسرے کو دے رہے ہیں بلکہ' مک مکا ' وہ جو آپ دونوں صاحبان نے با اثر سیاستدانوں کے ساتھ ملکر عوام کے خلاف کیا ہوا ہے۔ بس کپتان تبدیل ہو جاتا ہے اور ٹیم وہی رہتی ہے، عوام میچ ہار جاتے ہیں اور کھلاڑی میچ فیس وصول کر لیتے ہیں۔
Load Next Story