سیاسی جماعتوں سے عوام کے مطالبات

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور، دعوؤں اور نعروں پر کبھی عمل نہیں کیا

advo786@yahoo.com

تمام سیاسی، انقلابی و مذہبی جماعتیں اپنا ایک منشور رکھتی ہیں جس میں ان کے اغراض و مقاصد، نظریات، اہداف، مسائل کی نشاندہی، ان کے حل کا طریقہ، ان معاملات سے متعلق پالیسی، تجاویز اور اہداف شامل ہوتے ہیں۔ دنیا کی کامیاب اور مخلص سیاسی جماعتیں اپنے منشور کا پاس کرتی ہیں اس پر سختی سے کاربند رہتی ہیں، عوام جو ان کے منشور و پروگرام سے متاثر ہو کر انھیں اختیار و اقتدار بخشتی ہے ان پر گہری نظر رکھتی ہے، منشور کو نظر انداز کرنے پر ان کا محاسبہ کر کے انھیں اس پر عملدرآمد کے لیے مجبور کرتی ہے۔

اگر جماعتیں اپنے منشور اور پالیسیوں پر پورا نہ اتر پائیں تو انھیں ذلیل و خوار کر کے اقتدار و اختیار سے محروم کر دیتی ہیں۔ جو جماعتیں اپنے نظریات اور پالیسیوں پر کاربند رہتے ہوئے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں ان کی عوام میں جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، عوام کو حکومت پر اعتماد اور حکومت کو عوام کی تائید و تعاون حاصل ہوتا ہے، ایسی جماعتیں تاریخ میں امر اور مثال بن جاتی ہیں۔ اسی بین الاقوامی مسلمہ اصول کے تحت پاکستان کی سیاسی، انقلابی و مذہبی جماعتیں اپنے منشور رکھتی ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے نہ تو وہ خود اپنے منشور سے مخلص اور پورے طور پر آگاہ ہوتی ہیں نہ ان کے پاس اپنے سیاسی منشور پر عمل کرنے کا طریقہ کار، صلاحیت اور عزم و نیک نیتی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے سیاسی کلچر میں محض الیکشن جیتنے کے لیے خوشنما، ناقابل عمل اور ناقابل فہم قسم کے پر فریب غیر حقیقی دعوے اور نعروں پر مشتمل انتخابی مہم کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا کسی بھی جماعت کی اولین ترجیح و آرزو ہوتی ہے۔ سیاسی شعور سے عاری عوام بھی اس پہلو کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں کہ کم از کم اس بات پر تو غور کر لیں کہ وہ جس سیاسی جماعت کا ایندھن بننے جا رہے ہیں اس کے نظریات کیا ہیں اور منشور اور دعوے کیا ہیں اور کیا عقلی و عملی اعتبار سے یہ قابل عمل بھی ہیں یا نہیں؟

اور اس جماعت کی ماضی کی کارکردگی و کردار کیا رہا ہے؟ عوام کی بھیڑ کو جب بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اور گاڑیوں میں سوار کر کے پولنگ اسٹیشنز پر پہنچایا جاتا ہے تو یہاں پر بھی مخالف سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے ساتھ ان کا رویہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتا ہے جس کے لیے وہ کسی سیاسی شخصیت یا سیاسی جماعت کی بے جا حمایت میں جانیں گنوانے اور جانیں لینے سے بھی گریز نہیں کرتے، پھر انتخابات کے بعد بھی ان کی کارکردگی دیکھنے کی بجائے ان منتخب سیاسی بھیڑیوں کے دفاع پر کمربستہ رہتے ہیں۔

اس میں سب سے بڑا دخل عوام کی جاہلیت، لاعلمی اور ان کا لسانی، علاقائی، مذہبی اور برادریوں کی بنیاد پر تقسیم کا ہوتا ہے۔ سیاستدان عوام کی اس کمزوری سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں انھیں اپنی جوابدہی کی کوئی فکر نہیں رہتی اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور انتخابی منشور اور اصلاحات پر توجہ دینے کی بجائے اپنے ذاتی، جماعتی و گروہی قسم کے مفادات کے حصول میں جٹ جاتے ہیں، یوں غریب عوام پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہوتا جاتا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے جس میں تین درجن سے زائد اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن میں دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں لانے، فوجی سربراہوں کی تقرریاں میرٹ پر کرنے، تعلیمی ایمرجنسی لگا کر ناخواندگی کو دور کرنے، یکساں تعلیمی نظام اور دینی مدارس کے نصاب کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، دو سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے، فاٹا میں عدالتی نظام قائم کرنے، ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبے بنانے، کم آمدنی والوں کے لیے ایک ہزار بستیاں تعمیر کرنے، نوجوانوں کو دس لاکھ ملازمتیں مہیا کرنے، کم از کم تنخواہ 15 ہزار مقرر کرنے، زراعت، صنعت و تجارت، درآمدات، برآمدات میں اصلاحات کرنے، افراط زر اور بجٹ خسارے کو بتدریج کم کر کے ٹیکس نیٹ بڑھانے، اختیارات کا ناجائز استعمال روکنے اور چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے جیسے بہت سے وعدے اور اعلانات کیے گئے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس منشور میں ترمیم و تبدیلی کی گنجائش موجود ہے۔ اس منشور میں مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان، ہم بدلیں گے پاکستان کا نعرہ دیا گیا ہے۔


نعرے یا سلوگن تو تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے بڑے دلکش اور پرکشش ہوتے ہیں مثلا پی پی پی کا نعرہ طاقت کا سرچشمہ عوام، مزدور و عوام راج و مساوات وغیرہ یا پی ٹی آئی کا نعرہ ''انصاف کی سیاست مدینہ کی ریاست، یا عوامی تحریک کا سلوگن ''عوام سب سے پہلے، سیاست نہیں ریاست بچاؤ'' وغیرہ۔ جہاں تک (ن) لیگ کے انتخابی منشور کی بات ہے تو بظاہر تو یہ ملک و قوم کو درپیش مسائل و مصائب کا بھر پور احاطہ کرتا نظر آتا ہے اور ایک اچھا منشور کہلایا جا سکتا ہے، لیکن اس میں بہت سے پہلو ناقص اور مبہم ہیں۔

دس لاکھ نئی ملازمتوں کی گنجائش کیسے نکالی جا سکے گی؟ بیروزگاری کے جن کو کیسے قابو میں لایا جائے گا؟ اگر بالفرض کم از کم تنخواہ 15 ہزار مقرر بھی کر دی گئی تو مہنگائی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح میں ایک مزدور 15 ہزار روپے میں قید زیست کیسے کاٹے گا؟ (ن) لیگ کے اس انتخابی منشور میں اخراجات کم کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کی بات تو کی گئی ہے، لیکن انتخابی عمل میں شرکت کے خواہشمند امیدواروں سے زر ضمانت اور پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے دی جانے والی رقم جو فی امیدوار کروڑوں روپوں پر محیط ہوتی ہے ختم کرنے کی بات نہیں کی گئی، حقیقت یہ ہے کہ جو ہزاروں امیدوار انتخابات میں پارٹی ٹکٹ اور انتخابی مہم پر دس دس کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں انھیں اختیارات کے غلط استعمال سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔

اس برائی کو ہمارے سیاسی کلچر میں کوئی برائی ہی نہیں سمجھا جاتا اور اس کے حصول کے لیے اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات تک شایع کیے جاتے ہیں جیسا کہ آج کل ایک جماعت کے اشتہارات سے قومی اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی متوسط طبقے کا فرد تو انتخابات کے اخراجات کا متحمل نہ ہونے کی وجہ سے اس میں شرکت کے لیے عملی طور پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہی عملی طور پر نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ لہٰذا کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنا ناممکن اور ان کے روکے بغیر گڈ گورننس اور مضبوط معیشت ایک ادھورا خواب ہی رہے گی۔

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور، دعوؤں اور نعروں پر کبھی عمل نہیں کیا بلکہ اپنی ہی جماعت میں موجود ایسے مخلص و نظریاتی لوگوں کو اقتدار میں آنے کے بعد کھڈے لائن لگادیا بلکہ تختہ مشق بنایا جنہوں نے پارٹی لیڈر کی خوشامد اور چاپلوسی کے بجائے اپنے منشور و نظریات کی پیروی کرنے کی کوششیں کیں۔

سیاسی جماعتوں کی اقتدار و اختیار کے حصول کے لیے تمام تر توجہ جوڑ توڑ، بلیک میلنگ، لوٹا کریسی، قومی سوچ کی جگہ علاقائی، لسانی، مذہبی اور طبقاتی تقسیم کے ذریعے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے حصول تک محدود رہی، غافل عوام بھی ایسے سیاسی عناصر کو توانائیاں فراہم کرتے رہے جو بھیس بدل بدل کر اور نئے نئے جالوں سے عوام کا استحصال کرنے پر کمر بستہ رہے۔ اس میں سیاسی جموروں کے علاوہ، درآمدی سربراہان حکومت ہوں یا درآمدی انقلابی نجات دہندہ و مسیحا سادہ لوح عوام ہر شعبدہ باز کی کارستانیوں پر کسی اچھے کی امید پر اپنا مستقبل داؤ پر لگاتی اور دیدہ و دل فراش کرتی رہی ہے۔

کاش ان کی نجات کے لیے کسی سونامی یا انقلابی کنٹینر سے ایسا مسیحا وارد ہو جو حقیقی معنوں میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام کا منشور و مطالبات پیش کرنے کے لیے دھرنا دے اور پریشر گروپ قائم کر کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو پابند و مجبور کرے کہ ملک کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔
Load Next Story