کتابوں کا طلسم
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دیگ کھلتے ہی مرغی پھڑ پھڑا کر اڑ گئی ہو۔
کتابوں کی دنیا بھی اپنے اندر طلسم پوشیدہ رکھتی ہے جو اس کو پانے یا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ طرح طرح کے رازوں اور باتوں کو منٹوں میں جان لیتا ہے اور کوسوں دور کا سفر گھر بیٹھے بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے، یہ وہ دنیا ہے جہاں معلومات کا خزانہ دفن ہے اس خزانے کو پانے کے لیے طالبعلم کو محنت تو کرنی پڑتی ہے تب ہی کچھ پا لینے کی طلب پوری ہوتی نظر آتی ہے۔
ان دنوں ہمارے مطالعے میں کئی اہم کتابیں رہیں (یہ اقبالیے!) تحقیق و تدوین شجاع الدین غوری کی ہے۔ علامہ اقبال کے بارے میں بے حد معلوماتی اور دلچسپ کتاب ہے اور یہ انیس (19) مضامین پر مشتمل ہے اور یہ سب مزاحیہ تحریریں ہیں اور ان تحریروں کے قلمکار نابغہ روزگار شخصیات ہیں۔ ابراہیم جلیس، ابن انشاء، ن۔ م راشد، ڈاکٹر سلیم اختر، قدرت اللہ شہاب، اے حمید، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، مولانا چراغ حسن حسرت، سعادت حسن منٹو، وغیرہ وغیرہ۔
اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں ''طبیعت باغ و بہار ہو گئی کہ علامہ کے حوالے سے آپ نے طنز و مزاح پر اتنے مضامین یکجا کر دیے، میں تو اسی پر حیران ہوں کہ منٹو اور ن۔ م راشد کی تحریریں آپ نے کیسے حاصل کیں؟'' عطاء الحق قاسمی جناب شجاع الدین غوری کی انتھک محنت اور کاوش کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''اقبال پر اس قدر دلچسپ اور مفید مواد فراہم کرنے پر حیرت ہوئی، اقبالیات کے ضمن میں یہ مضامین چونکا دینے والے ہیں'' ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی رائے کے مطابق شجاع الدین غوری نے جس خوش ذوقی اور عرق ریزی کے ساتھ اقبال کے حوالے سے مزاحیہ تحریروں کو یکجا کیا ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے، ہر مضمون دلچسپ اور معلوماتی ہے۔
''نام بڑے، درشن چھوٹے'' اس مضمون کے خالق جناب شجاع الدین غوری ہیں، ان کی تحریر کا مطالعہ قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے، تاریخ و مقام پیدائش کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ ''میری دلی خواہش تھی کہ میری پیدائش ٹھیک اسی دن ہو، جس دن پاکستان پیدا ہوا تھا، مگر نہ معلوم وجوہ کی بنا پر 47 دن کی تاخیر ہو گئی، پیدا ہونے کے لیے ما بدولت نے اس سر زمین کا انتخاب کیا، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا ہے:
نور کے ذروں سے قدرت نے بنائی یہ زمین
آئینہ ٹپکے دکن کی خاک اگر پائے شاد
ازدواجی حیثیت کے بارے میں اس طرح قارئین کو مطلع کیا ہے کہ ''ہم ایک عدد بیوی کے 45 سالہ پرانے شوہر ہیں، دو حاجہ کہلانے کا بہت شوق ہے لیکن ہماری کم عمری آڑے آ رہی ہے، صوبہ سندھ کی روایات کے مطابق کسی کمسن دوشیزہ سے شادی کرنے کے لیے کم از کم 80 سال کا ہونا ضروری ہے، ہم بھی 80 سال کا ہو کر دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ
ایک ایک عضو جسم کا دیتا ہے گواہی
انسان پر شباب ہی لاتا ہے تباہی
ثابت کروں گا عقد بڑھاپے میں کر کے میں
ہمت ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اسی مضمون سے دو شعر اور:
پردہ نشیں کے عشق میں ایمان بھی گیا
تحفے میں جو دیا تھا وہ سامان بھی گیا
جس دن سے ان کی ماں کو دیکھا ہے بے نقاب
اس دن سے ان کی دید کا ارمان بھی گیا
شجاع الدین غوری کی 2013 میں ایک کتاب اور آئی ہے، بعنوان ''نیرنگ خیال'' یہ بھی طنز و مزاح کے حوالے سے ہے۔ انتساب جناب مشتاق احمد یوسفی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے نام ہے ''صحرا میں اذان دے رہا ہوں'' اس موضوع کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ''غوری صاحب ایک خوش مزاج، زندہ دل، متواضح اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں، پہلی ہی ملاقات میں فریق ثانی کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہتے ہیں کہ گویا اس سے برسوں کی شناسائی ہو، چنانچہ ان کا حلقہ احباب وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے جو اس میں ایک دفعہ داخل ہو گیا اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا''۔
ان کے مضامین عرصہ دراز سے مختلف جرائد میں پڑھتے اور محافل میں سنتے آ رہے ہیں۔ ''نیرنگ مزاح'' اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ، ''نیرنگ مزاح'' میں 29 طنزیہ و مزاحیہ مضامین شامل ہیں، مضمون ''چار قلمکار'' پڑھ کر قاری محظوظ ہوتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے ''تلخی غم'' سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ کٹھن جیون اور دکھوں سے آراستہ زیست کی کتھا کو فراموش کر بیٹھتا ہے کہ ان کا انداز سخن دلچسپ ہے۔
اسی سے چند سطور ''یہ بریانی بھی خوب ہے! یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دیگ کھلتے ہی مرغی پھڑ پھڑا کر اڑ گئی ہو، چاولوں میں ڈھونڈنے سے بھی اس کے وجود کا نام و نشان نہیں ملتا، خدا بھلا کرے اس باورچی کا جس نے بریانی میں آلو ڈالنے کی بدعت شروع کی، بوٹیوں کے دھوکے میں آلوؤں سے پلیٹ بھر لی۔ اب ان آلوؤں کا کیا کریں؟'' آج کے ان قلمکاروں کا نقشہ بے حد موثر انداز میں کھینچا ہے، جو ایک دوسرے کی برائیاں کرنے کا فریضہ بحسن خوبی انجام دیتے ہیں، ادبی محافل میں کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے، خوب خوب غیبت اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور کھانے کے معاملے میں اس قدر فراخ دلی کہ میزبان اس وقت کو کوسے، جب اس نے یہ محفل سجائی تھی۔
نیرنگ مزاح میں ہنسنے کا وافر مقدار میں ذخیرہ موجود ہے۔ آج کل ایسے ایسے حالات و سانحات منظر عام پر آتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے، زندگی کی بے ثباتی کا احساس دامن گیر ہوتا ہے بلکہ زندہ رہنے ہی سے دل اٹھ جاتا ہے، تو ایسے ماحول میں اگر کوئی ہنسا دے اور دل کھول کر ہنسا دے تو تھوڑی ہی دیر کے لیے سہی خوشی کی کیفیت غالب آ جاتی ہے اور بقول طبیب کے کہ ہنسی اور خوشی بدن میں خون کے اضافے کا باعث بنتی ہے اور حصول خون کے لیے یہ ہی کہنا درست ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ ''عنایات اقبال'' بہت ہی دلچسپ اور مزاح سے بھر پور ہے جس میں معنویت بھی ہے متانت بھی اور معلومات بھی۔ دو دوستوں کی گفتگو ملاحظہ فرمائیے۔
بڑا لڑکا جس کا نام علامہ اقبال سے محبت و عقیدت کے نتیجے میں ''بانگ درا'' رکھا جاتا ہے، بڑا ہی نالائق نکلا، دوسرے کا نام ''بال جبریل'' اس نے تو خاندان کی لٹیا ہی ڈبو دی، آج کل وہ شہر کے امیر ترین علاقے میں گنجے سروں پر بال اگانے اور ہرے بھرے سروں سے بال اتارنے کا کام کر رہا ہے۔
تیسرا لڑکا ضرب کلیم اور بیٹی زبور عجم۔ زبور عجم بھی علامہ اقبال کی معتقد و شیدائی نکلی۔ علامہ کی عقیدت نے تو اس میں کرشماتی صفات پیدا کر دیں۔ قطع کلامی کرتے ہوئے ہم نے پوچھا کیا اس میں ولیوں والی صفات پیدا ہو گئی ہیں؟ نہیں ایسی کوئی بات نہیں (بلکہ بات یہ ہے کہ) ہماری بیٹی زبور عجم کلیات اقبال سے فال نکالتی ہیں اور فال سو فیصد درست نکلتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک عورت روتی پیٹتی آئی اور کہنے لگی زبور باجی! میری کوئی اولاد نہیں ہے میرے ساس سسر میرے شوہر کو اولاد کی خاطر دوسری شادی پر مجبور کر رہے ہیں، آپ فال دیکھ کر بتائیں کہ میرے کوئی اولاد ہو گی کہ نہیں؟'' میری بیٹی نے فال نکالا تو فال میں یہ شعر نکلا:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
فال نکلنے کے بعد اس عورت کے ہاں بیک وقت سات بچے پیدا ہوئے ۔ ''یہ عشق کا آزار ہے'' ظہیر خان کی یہ تحریر اور ''بیلاگ'' کراچی میں شایع ہوئی ہے۔ اس مضمون سے یہ اشعار جو مزاح کے پکے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور قاری کو دعوت مسکراہٹ دیتے ہیں:
سر چٹخنے کا سبب یاد آیا
تیری پاپوش تھی اب یاد آیا
گالیاں آپ کے منہ سے سن کر
آپ کا نام و نسب یاد آیا
یوں ہی جا پہنچے' لگایا نہ خضاب
اس نے چاچا کہا تب یاد آیا
''بیلاگ'' کراچی سے نکلتا ہے اس کے مدیر مسئول عزیز جبران انصاری ہیں۔
ان دنوں ہمارے مطالعے میں کئی اہم کتابیں رہیں (یہ اقبالیے!) تحقیق و تدوین شجاع الدین غوری کی ہے۔ علامہ اقبال کے بارے میں بے حد معلوماتی اور دلچسپ کتاب ہے اور یہ انیس (19) مضامین پر مشتمل ہے اور یہ سب مزاحیہ تحریریں ہیں اور ان تحریروں کے قلمکار نابغہ روزگار شخصیات ہیں۔ ابراہیم جلیس، ابن انشاء، ن۔ م راشد، ڈاکٹر سلیم اختر، قدرت اللہ شہاب، اے حمید، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، مولانا چراغ حسن حسرت، سعادت حسن منٹو، وغیرہ وغیرہ۔
اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں ''طبیعت باغ و بہار ہو گئی کہ علامہ کے حوالے سے آپ نے طنز و مزاح پر اتنے مضامین یکجا کر دیے، میں تو اسی پر حیران ہوں کہ منٹو اور ن۔ م راشد کی تحریریں آپ نے کیسے حاصل کیں؟'' عطاء الحق قاسمی جناب شجاع الدین غوری کی انتھک محنت اور کاوش کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''اقبال پر اس قدر دلچسپ اور مفید مواد فراہم کرنے پر حیرت ہوئی، اقبالیات کے ضمن میں یہ مضامین چونکا دینے والے ہیں'' ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی رائے کے مطابق شجاع الدین غوری نے جس خوش ذوقی اور عرق ریزی کے ساتھ اقبال کے حوالے سے مزاحیہ تحریروں کو یکجا کیا ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے، ہر مضمون دلچسپ اور معلوماتی ہے۔
''نام بڑے، درشن چھوٹے'' اس مضمون کے خالق جناب شجاع الدین غوری ہیں، ان کی تحریر کا مطالعہ قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے، تاریخ و مقام پیدائش کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ ''میری دلی خواہش تھی کہ میری پیدائش ٹھیک اسی دن ہو، جس دن پاکستان پیدا ہوا تھا، مگر نہ معلوم وجوہ کی بنا پر 47 دن کی تاخیر ہو گئی، پیدا ہونے کے لیے ما بدولت نے اس سر زمین کا انتخاب کیا، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا ہے:
نور کے ذروں سے قدرت نے بنائی یہ زمین
آئینہ ٹپکے دکن کی خاک اگر پائے شاد
ازدواجی حیثیت کے بارے میں اس طرح قارئین کو مطلع کیا ہے کہ ''ہم ایک عدد بیوی کے 45 سالہ پرانے شوہر ہیں، دو حاجہ کہلانے کا بہت شوق ہے لیکن ہماری کم عمری آڑے آ رہی ہے، صوبہ سندھ کی روایات کے مطابق کسی کمسن دوشیزہ سے شادی کرنے کے لیے کم از کم 80 سال کا ہونا ضروری ہے، ہم بھی 80 سال کا ہو کر دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ
ایک ایک عضو جسم کا دیتا ہے گواہی
انسان پر شباب ہی لاتا ہے تباہی
ثابت کروں گا عقد بڑھاپے میں کر کے میں
ہمت ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اسی مضمون سے دو شعر اور:
پردہ نشیں کے عشق میں ایمان بھی گیا
تحفے میں جو دیا تھا وہ سامان بھی گیا
جس دن سے ان کی ماں کو دیکھا ہے بے نقاب
اس دن سے ان کی دید کا ارمان بھی گیا
شجاع الدین غوری کی 2013 میں ایک کتاب اور آئی ہے، بعنوان ''نیرنگ خیال'' یہ بھی طنز و مزاح کے حوالے سے ہے۔ انتساب جناب مشتاق احمد یوسفی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے نام ہے ''صحرا میں اذان دے رہا ہوں'' اس موضوع کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ''غوری صاحب ایک خوش مزاج، زندہ دل، متواضح اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں، پہلی ہی ملاقات میں فریق ثانی کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہتے ہیں کہ گویا اس سے برسوں کی شناسائی ہو، چنانچہ ان کا حلقہ احباب وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے جو اس میں ایک دفعہ داخل ہو گیا اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا''۔
ان کے مضامین عرصہ دراز سے مختلف جرائد میں پڑھتے اور محافل میں سنتے آ رہے ہیں۔ ''نیرنگ مزاح'' اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ، ''نیرنگ مزاح'' میں 29 طنزیہ و مزاحیہ مضامین شامل ہیں، مضمون ''چار قلمکار'' پڑھ کر قاری محظوظ ہوتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے ''تلخی غم'' سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ کٹھن جیون اور دکھوں سے آراستہ زیست کی کتھا کو فراموش کر بیٹھتا ہے کہ ان کا انداز سخن دلچسپ ہے۔
اسی سے چند سطور ''یہ بریانی بھی خوب ہے! یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دیگ کھلتے ہی مرغی پھڑ پھڑا کر اڑ گئی ہو، چاولوں میں ڈھونڈنے سے بھی اس کے وجود کا نام و نشان نہیں ملتا، خدا بھلا کرے اس باورچی کا جس نے بریانی میں آلو ڈالنے کی بدعت شروع کی، بوٹیوں کے دھوکے میں آلوؤں سے پلیٹ بھر لی۔ اب ان آلوؤں کا کیا کریں؟'' آج کے ان قلمکاروں کا نقشہ بے حد موثر انداز میں کھینچا ہے، جو ایک دوسرے کی برائیاں کرنے کا فریضہ بحسن خوبی انجام دیتے ہیں، ادبی محافل میں کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے، خوب خوب غیبت اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور کھانے کے معاملے میں اس قدر فراخ دلی کہ میزبان اس وقت کو کوسے، جب اس نے یہ محفل سجائی تھی۔
نیرنگ مزاح میں ہنسنے کا وافر مقدار میں ذخیرہ موجود ہے۔ آج کل ایسے ایسے حالات و سانحات منظر عام پر آتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے، زندگی کی بے ثباتی کا احساس دامن گیر ہوتا ہے بلکہ زندہ رہنے ہی سے دل اٹھ جاتا ہے، تو ایسے ماحول میں اگر کوئی ہنسا دے اور دل کھول کر ہنسا دے تو تھوڑی ہی دیر کے لیے سہی خوشی کی کیفیت غالب آ جاتی ہے اور بقول طبیب کے کہ ہنسی اور خوشی بدن میں خون کے اضافے کا باعث بنتی ہے اور حصول خون کے لیے یہ ہی کہنا درست ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ ''عنایات اقبال'' بہت ہی دلچسپ اور مزاح سے بھر پور ہے جس میں معنویت بھی ہے متانت بھی اور معلومات بھی۔ دو دوستوں کی گفتگو ملاحظہ فرمائیے۔
بڑا لڑکا جس کا نام علامہ اقبال سے محبت و عقیدت کے نتیجے میں ''بانگ درا'' رکھا جاتا ہے، بڑا ہی نالائق نکلا، دوسرے کا نام ''بال جبریل'' اس نے تو خاندان کی لٹیا ہی ڈبو دی، آج کل وہ شہر کے امیر ترین علاقے میں گنجے سروں پر بال اگانے اور ہرے بھرے سروں سے بال اتارنے کا کام کر رہا ہے۔
تیسرا لڑکا ضرب کلیم اور بیٹی زبور عجم۔ زبور عجم بھی علامہ اقبال کی معتقد و شیدائی نکلی۔ علامہ کی عقیدت نے تو اس میں کرشماتی صفات پیدا کر دیں۔ قطع کلامی کرتے ہوئے ہم نے پوچھا کیا اس میں ولیوں والی صفات پیدا ہو گئی ہیں؟ نہیں ایسی کوئی بات نہیں (بلکہ بات یہ ہے کہ) ہماری بیٹی زبور عجم کلیات اقبال سے فال نکالتی ہیں اور فال سو فیصد درست نکلتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک عورت روتی پیٹتی آئی اور کہنے لگی زبور باجی! میری کوئی اولاد نہیں ہے میرے ساس سسر میرے شوہر کو اولاد کی خاطر دوسری شادی پر مجبور کر رہے ہیں، آپ فال دیکھ کر بتائیں کہ میرے کوئی اولاد ہو گی کہ نہیں؟'' میری بیٹی نے فال نکالا تو فال میں یہ شعر نکلا:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
فال نکلنے کے بعد اس عورت کے ہاں بیک وقت سات بچے پیدا ہوئے ۔ ''یہ عشق کا آزار ہے'' ظہیر خان کی یہ تحریر اور ''بیلاگ'' کراچی میں شایع ہوئی ہے۔ اس مضمون سے یہ اشعار جو مزاح کے پکے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور قاری کو دعوت مسکراہٹ دیتے ہیں:
سر چٹخنے کا سبب یاد آیا
تیری پاپوش تھی اب یاد آیا
گالیاں آپ کے منہ سے سن کر
آپ کا نام و نسب یاد آیا
یوں ہی جا پہنچے' لگایا نہ خضاب
اس نے چاچا کہا تب یاد آیا
''بیلاگ'' کراچی سے نکلتا ہے اس کے مدیر مسئول عزیز جبران انصاری ہیں۔