قومی یکجہتی اور تعلیمی ترجیحات…
حقیقت یہ ہے کہ قومی یکجہتی اتفاق رائے اور یکساں انداز فکر سے جنم لیتی ہے۔
کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اس کے افراد کی شرح خواندگی پر ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ہر ممکن سہولیات اور آسانیاں فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، کیونکہ یہی بچے جوان ہو کر ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں اور اپنی اپنی فنی مہارت، ہنر اور علم کے ذریعے ملک کے بیشتر اداروں کو مزید مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ یہی انفرادی ترقی جب ہر شعبہ زندگی میں ہوتی ہے تو ملک کی مجموعی ترقی کا سبب بنتی ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم اپنے نظام تعلیم کی طرف آتے ہیں، یعنی پاکستان کے نظام تعلیم کی طرف۔ اگر دوسرے ممالک کے نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو جو بات سب سے اہم نظر آتی ہے وہ یہ کہ وہاں تعلیم اپنی قومی زبان میں ہی فراہم کی جاتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر ایسے ممالک بھی ہیں جن کی اپنی زبانیں دنیا میں کہیں بھی مقبول نہیں مگر وہ اپنے طلبا کو اپنی قومی زبان ہی میں تعلیم دیتے ہیں بلکہ دوسرے ممالک کے طلبا بھی اگر ان کی جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو ان کو بھی ان ممالک کی زبان سیکھنا ضروری ہوتی ہے، جن ممالک میں وہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک میں جرمنی، فرانس، چین اور جاپان خاص کر قابل ذکر ہیں۔
دوسری بات جو دنیا کے اکثر ممالک میں نظام تعلیم سے متعلق اہم ہے وہ یہ کہ وہ اپنے تمام طالب علموں کو ایک ہی نظام اور ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم دیتے ہیں، یعنی طلبہ میں ادنیٰ و اعلیٰ طبقے نہیں ہوتے۔ ہمارے وطن عزیز پاکستان کا نظام تعلیم اس لحاظ سے سب سے نرالا ہے کہ پورے ملک میں بلا کسی منصوبہ بندی کے بیک وقت کم از کم تین قسم کے نظام تعلیم رائج ہیں، ایک میٹرک سسٹم، دوسرا کیمبرج سسٹم اور تیسرا مدرسہ سسٹم۔ ان تینوں نظاموں کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے تین مختلف انداز فکر کے حامل ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ان تینوں کے میدان فکر و عمل بھی مختلف ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قومی یکجہتی اتفاق رائے اور یکساں انداز فکر سے جنم لیتی ہے۔ کسی قوم کا انداز فکر و عمل بنانے میں اس کا نظام تعلیم اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا یکساں نظام تعلیم اگر پورے ملک و معاشرے میں رائج ہو تو کم و بیش پوری قوم کی ترجیحات بھی ایک سی ہوتی ہیں۔ خاص کر ملکی ترقی، ملکی اداروں کی کارکردگی، ملکی دفاع، معیشت اور افراد معاشرہ کی فلاح و بہبود پر پوری قوم ایک ہی نقطہ نظر رکھتی ہے۔
بحیثیت انسان ملک کے ہر فرد کی بنیادی ضروریات اور حقوق کا یکساں ہونا ہمارے انداز فکر سے براہ راست منسلک ہے۔ جس ملک میں طبقاتی معاشرہ ہو اور ہر طبقہ دوسرے طبقے کے حقوق اور ضروریات کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچتا ہو تو وہاں ملکی ترقی میں تمام افراد کس طرح اپنا اپنا حصہ شامل کر سکتے ہیں۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے قومی یکجہتی پیدا کرنے والے بنیادی عناصر کو ہی دراصل قومی انتشار کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ یعنی ہمارے ملک کا نظام تعلیم جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ تین قسم کا ہے اور ان تینوں کا انداز فکر اور میدان عمل بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
کیمبرج نظام جو آج کل سب سے زیادہ مقبول اور مہنگا بھی ہے سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ خود کو دوسروں سے بہت اعلیٰ و ارفع، مہذب، بالغ نظر اور دنیا بھر سے ہم آہنگ تصور کرتے ہیں جب کہ میٹرک سسٹم سے تعلیم حاصل کرنے والے دوسرے درجے کے سمجھے جاتے ہیں اور اگر وہ اردو ذریعہ تعلیم سے پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں تو پھر وہ دوسرے درجے سے بھی گر جاتے ہیں اور کسی بھی شعبے میں ان کے لیے کسی قسم کی گنجائش نکلنی تقریباً محال ہوتی ہے۔
ہاں وہ جو اردو ذریعہ تعلیم سے پڑھنے کے باوجود اپنی انگریزی اچھی کر لیتے ہیں اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی اسناد پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اب رہ گئے مدرسہ سسٹم سے پڑھنے والے تو ان کے لیے زندگی کے محض چند مخصوص شعبے رہ جاتے ہیں جن میں وہ اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں۔
جہاں تک ان تینوں طریقوں سے علم حاصل کرنے والوں کے انداز فکر کا تعلق ہے وہ بھی ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک مغرب اور دوسرا مشرق تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ کا انداز فکر کیمبرج نظام تعلیم کے طلبہ سے بالکل مختلف ہو گا (اگرچہ بعض مدارس جدید علوم کی تعلیم بھی دے رہے ہیں) کیونکہ ان کے ذہن پر مخصوص چھاپ لگ چکی ہوتی ہے اور وہ تمام حالات و واقعات کو اپنے ہی زاویے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
کم و بیش یہی صورت حال کیمبرج کے طلبہ کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے دینی عقائد کو بھی مغربی ممالک کے تناظر میں دیکھتے ہیں (مگر سب نہیں)۔ رہ گئے میٹرک سسٹم سے پڑھنے والے تو وہ قوم و ملک کا وہ طبقہ ہیں جو مشکل سے مشکل اور برے سے برے حالات میں اپنا مستقبل روشن کرنے کی امید میں علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اب اگر انھوں نے اسی نظام میں انگریزی ذریعہ تعلیم کو اختیار کر لیا تو ان کے اچھے مستقبل کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ محض اردو میں پڑھنا فی الحال ہمارے احساس کمتری میں مبتلا معاشرے میں وقت کا ضیاع ہی کہلائے گا۔
جہاں تک انگریزی زبان کا تعلق ہے بے شک یہ بین الاقوامی زبان ہے (ذرا غور فرمائیے کہ یہ بین الاقوامی کیوں؟ اور کیسے بنی؟) اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے ہمیں یہ زبان ضرور سیکھنی چاہیے۔ مگر یہ کس دانشمند نے کہا ہے کہ اپنی قومی زبان کو جو ہماری ثقافت سے صد فی صد ہم آہنگ ہے اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیجیے تب ہی آپ کو انگریزی پر عبور حاصل ہو گا؟ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اچھی سے اچھی انگریزی بولنے والے اساتذہ بھی عموماً اپنے طلبہ کو پڑھاتے پڑھاتے اردو میں سمجھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ قومی زبان میں یہی طاقت ہوتی ہے۔
ہم پھر قومی یکجہتی کی جانب آتے ہیں، ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ قومی یکجہتی کے لیے افراد قوم کے درمیان فکری اور عملی اتحاد بھی بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اہم کردار نظام تعلیم اور قومی زبان (جو سارے ملک میں رابطے کا بہترین ذریعہ ہے) ہی ادا کر سکتی ہے، مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم نے ان دونوں ہی سے نظریں چرا رکھی ہیں۔ نہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہے اور نہ قومی زبان کسی بھی سطح پر فعال نظر آتی ہے بلکہ قومی زبان میں اعلیٰ سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ بھی عملی زندگی میں احساس کمتری اور اس کے نتیجے میں احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہی احساس محرومی قومی اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کاش! ہمارے صاحبان بست و کشاد اس اہم مسئلے پر غور ہی نہیں بلکہ جلد از جلد اس کو حل کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے عمل بھی کریں۔