جمہوریت ہی راستہ وہی منزل بھی

اس بیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں آپ کے خاندان کے علاوہ کوئی اہل نہیں، بات صاف ہے، کوئی اور ہوگا تو کرپشن کیسے ممکن؟


راؤ سیف الزماں December 06, 2017

انصاف ہوگیا، مجرم کو سزا مل گئی، اصولی طور پر بات کو ختم ہوجانا چاہیے تھی۔ سزا پانے والا عام طور پر فیصلے پر تنقید کرتا ہے، کہتا ہے کہ انصاف نہیں ہوا، ظلمِ عظیم ہوگیا۔ لیکن سیاسی صورتحال بھی جدلیاتی طور پر متحرک ہوئی، ساتھ ہی میڈیا کو بھی پتہ چل گیا کہ اسی ملک میں کوئی ان سے بھی بڑا ہے، خادم حسین رضوی نے اور ان کی شوریٰ نے ملکی سیاست کی، طرزِ معاشرت کی کیمسٹری ہی تبدیل کردی، پتہ چلا اندر ہی اندر ایک طویل سرنگ کھودی جاچکی، ہر شہر، ہر نگر، ہر صوبے، ہر پہر، کیا ہونے جارہا ہے؟

ایک گاڑی جس میں ایک لاؤڈ اسپیکر لگا ہے، بلند آواز میں روزانہ میرے گھر کے سامنے سے گزرتی ہے، آواز آتی ہے تجدید ایمان کرالو، کہیں ٹائم نہ نکل جائے۔ یہ انجام ہوا جمہوریت کو کمزور کرنے کا۔ اور آپ اس سازش کا باقاعدہ نہ صرف یہ کہ حصہ بنے، بلکہ اب تو ایک فریق کی شکل اختیار کرگئے۔ لیکن یہ جنگل کی آگ ہے جس میں خس وخاشاک کے ساتھ پھول بھی جلتے ہیں، جن لوگوں کے ہاتھ میں عنانِ اقتدار جارہا ہے، ان کے حضور تجدید ایمان تو آپ کو بھی کرنا ہوگا، پھر، لگ پتہ جائے گا، سسلین مافیا کون ہے اور گاڈ فادر کون؟

اور بلاشبہ عظیم ہیں وہ لوگ، جن کے کہنے پر یا حکم پر آپ نے یہ سب کچھ کیا، ان کی عظمت کا تو ٹھکانہ ہی کیا، دنیا کے چنیدہ دماغ، ذہین ترین افراد، جن کی ذہانت کی بدولت پاکستان آج دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے، واحد اسلامی ایٹمی قوت جہاں اٹھانوے فیصد عوام بھوک اور افلاس کا بدترین شکار، جہاں تعلیم کا معیار، تعمیرِ معاشرت کی رفتار، صحت، روزگار نہ ہونے کے برابر، جہاں غربت اور جہالت کی بدولت کم عمری میں مرجانے والے کی موت کو اللہ کا فیصلہ قرار دیا جاتا ہے، اور نہیں سوچتے کے امریکا، یورپ، جاپان، چین میں پوری قوم کی ایوریج عمر 85 سے 90 سال کیونکر ہوگئی؟ کیا قدرت نے پوری قوم کی عمر ایک جتنی لکھ دی؟ جو نہیں جانتے کہ خدا فطرت کا خدا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے صاف اور واضح کہہ دیا کہ (تم بس وہی ہو، جس کی تم کوشش کرتے ہو)۔

قارئین کرام جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ موجودہ انتہاپسند وں کی افزائش سے پہلے طالبان کی پرورش کی گئی، باقاعدہ مدد کی گئی، انھیں ٹریننگ دی گئی، انھیں افغانستان میں لڑوایا گیا، وہاں سے افغان ٹریڈ حاصل کی گئی، لیکن جب امریکا میں نائن الیون ہوا اور وہاں سے دھمکی دی گئی کہ ہم تمہیں پتھروں کے دور میں بھیج دیں گے تو انھی طالبان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

اب مدد بند، پیسے بند، حتیٰ کہ ان کے لیے بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی، وہ بھی مرتے کیا نا کرتے، انھوں نے انڈیا کا رخ کیا، جس نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب تک لیا ہوا ہے، بلکہ اب تو اپنے لڑاکا بھی ان کو آفر کر رہے ہیں، لیکن بقول ان کے ہم لعنت بھیجتے ہیں ایسے بیوفا لوگوں پر۔ اب کچھ انتقام کے طور پر بھی لیکن زیادہ تر انڈیا کے کہنے پر وہ تقریباً تمام گروپ پاکستان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں، باقاعدہ پیڈ ہیں، ان کے گھر بار بال بچے سارا خرچ انڈیا کے ذمے۔ یعنی کس کس تباہی کا ذکر کیا جائے؟

جو ملک میں ایک مخصوص ادارے کے ہاتھوں رونما ہوئی، ان کی عاقبت نااندیش پالیسیاں، برباد کردینے کی حد تک غلط فیصلے۔ چلیے ایک موجودہ پالیسی پر بات کرتے ہیں، گویا اس وقت انھیں نواز شریف اینڈ کمپنی سے نمٹنا ہے، کسی بھی طرح کسی بھی قیمت پر نواز شریف، پی ایم ایل این کو الیکشن 2018ء میں حکومت بنانے سے روکنا ہے تو انھوں نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بھی مذہبی انتہاپسند قوتوں کے حوالے کردیا ہے۔

ایک زمانے کے طالبان کی طرح آج کل وہ ان کی پرورش فرما رہے ہیں کہ کسی طرح نواز شریف کا ووٹ بینک تقسیم کردیا جائے، اور ایک ایسی حکومت بنانے میں وہ کامیاب ہوجائیں جو ہر سمت سے ادھوری ہو کسی کو اکثریت نا ملے۔ اور بھائی لوگ پھر جسے چاہیں استعمال کریں، پارلیمنٹ ایک ٹشو پیپر سے زیادہ حیثیت نا رکھتی ہو، کوئی ایسا سویلین ایس او بی نہ ہو جو آیندہ سر اٹھا سکے۔ اور اگر پھر بھی کوئی یہ غلطی کر بیٹھے تو سزا کے طور پر مولانا خادم حسین رضوی سے تجدید ایمان کروائے نہیں تو... کے آگے بھی بہت سے نہیں تو موجود ہیں۔

لیکن اب آتے ہیں ملک کی نام نہاد جمہوری، سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی طرف۔ میرے تجربے و مشاہدے کے مطابق ان نالائق، عاقبت نااندیش، بے ایمان، ملک دشمن سیاستدانوں سے زیادہ بدتر کہیں پر کوئی دوسرا نہ ہوگا۔ یعنی صرف موجودہ حکومت کو دیکھ لیا جائے تو آپ وزیر خزانہ کی مثال لے لیجیے، پہلی بات تو یہ ہے کہ انھیں یہ بڑی وزارت دی کیوں گئی؟

ظاہر ہے نواز شریف کے سمدھی ہونے کی وجہ سے، اب دیکھیے، چھوٹا بھائی ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرِاعلیٰ، خود وزیرِاعظم، سمدھی وزیرِ خزانہ، بھانجا وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی، گویا اس بیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں آپ کے خاندان کے علاوہ کوئی اہل نہیں، بات صاف ہے، کوئی اور ہوگا تو کرپشن کیسے ممکن؟ کھربوں روپے کی جائیدادیں کیسے بنیں گی؟

آپ تو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے حکومت میں آتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں جس ملک کے چند ماہ پہلے وزیرِاعظم تھے وہاں سندھ کے صحرائے تھر میں ہر دن غذائی قلت کا شکار ہوکر کئی معصوم بچے مرجاتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں آپ نے کرپشن نہیں کی؟ جھوٹ بولتے ہیں آپ، سات ارب کے فلیٹ میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

اسحاق ڈار پر کیسز ہیں، نیب میں ان پر ریفرنسز دائر ہوچکے، انھیں مفرور قرار دے کر جائیداد قرق کرنے کا عدالتی حکم جاری ہوچکا اور وہ ملک میں نہیں ہیں، لیکن وزیرِ خزانہ پھر بھی ہیں۔ اب اگر عدالت عالیہ نے کوئی حکم جاری کردیا از خود نوٹس لے کر تو کل وہ کہیں گے انھیں کیوں نکالا؟

یعنی کہیں دیکھ لیجیے، آپ کو کچھ بہتر نہیں ملے گا، مسلسل ابتری، ابتلا، افراتفری، کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری، ایک ہی نعرہ ہر سمت گونج رہا ہے (بے وقوف بناؤ، مال کماؤ)۔ انفرادی طور پر اجتماعی حیثیت میں رتی برابر بہتری کے امکانات نہیں۔ تو کیا ہوا؟ یہاں کچھ نہیں ہونا، لیکن یہ کہہ کر بھی جان نہیں چھوٹ جائے گی۔ دنیا بجلی کی رفتار سے ترقی کی نت نئی منازل طے کر رہی ہے، ہم سے کہیں چھوٹے ممالک ترقی میں ہمیں کہیں پیچھے چھوڑ گئے۔ آخر ہمارا علاج کیا ہے؟

کیا ایسا ہو کہ ہماری حالت میں بھی سدھار آجائے تو میں اسی ایک اور واحد راستے کی جانب نشاندہی کروں گا جس پر چل کر دنیا نے ترقی کی، اور وہ ہے ''جمہوریت''۔ جی ہاں جمہوریت، جیسی تیسی، جس حال میں ہو لیکن یہی وہ راستہ ہے، منزل ہے، نظام ہے، جو ہمیں بچا سکتا ہے، ہمارے وجود کو باقی رکھ سکتا ہے، اگر الیکشن منصفانہ ہوں، اگر اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو مکمل آزادی کے ساتھ چلنے دیا جائے، کام کرنے دیا جائے تو ایک دن ہم ایک قوم بن سکتے ہیں، ورنہ، ورنہ... تو تجدید ایمان کروانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں