ابھی اور بحران آئیں گے
فیض آباد اور لاہور کا دھرنا بظاہر ختم ہوگیا ہے لیکن حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔
جن قوتوں نے کسی کو نشان عبرت بنانے کاتہیہ کرلیا ہو اور وہ اس کام کی طاقت اور استطاعت بھی رکھتی ہوں، تو کیا وہ اتنی آسانی سے اپنی ہار مان لیں گی؟ اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں تو یقیناً غلطی پر ہیں۔ ہمارے ایک صحافی دوست وسعت اللہ خان نے گزشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں بڑی خوبصورتی سے ملک کو درپیش حالیہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ فیض آباد اسلام آباد میں 22 روز تک چلنے والا دھرنا دراصل شکار کو تھکا دینے والے ''ہانکا'' کا ایک چھوٹا ساحصہ تھا۔ یہ ہانکا اس ملک میں 2014ء سے لگایا جارہا ہے۔ ہانکا کا مقصد شکار کو مسلسل تھکا تھکا کر گھیرنا ہوتا ہے۔ اور ہمارے یہاں آج کل ہونے والے تمام واقعات اس ہانکا کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ سیاسی بے چینی اور ابتری پیدا کرنے کے یکے بعد دیگرے یہ واقعات کوئی خوامخواہ یونہی نہیں ہورہے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کی اس تیسرے دور کی حکومت کو پہلے دن سے ہی سکون سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ اسلام آباد شہر میں 126 دنوں تک دھرنا، وہ بھی پارلیمنٹ کی عمارت کے عین سامنے کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں تھا۔ جہاں رات دن حکومت کو بلاوجہ مغلظات دی جاتی رہیں۔ وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملے تک ہوئے۔ جس سے ساری دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا رہا جیسے اس ملک کے عوام نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کردی ہو۔ چند ہزار لوگوں نے سارے ملک اور قوم کو ہیجان اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کیے رکھا۔ پھر 2016ء میں پاناما لیکس کا معاملہ ہاتھ آگیا۔
450 نامزد ملزمان میں سے صرف نواز شریف سے، جن کا نام بھی اس فہرست میں شامل نہ تھا ان دنوں کا حساب لیا جانے لگا جن دنوں وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے حالیہ دور کی کسی کرپشن کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا تو پرانے معاملات اٹھائے جانے لگے۔ جے آئی ٹی بنائی گئی۔ دس جلدوں پر مبنی تحقیقات میں بھی جب کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملے تو اس اقامہ پر فیصلہ سنادیا گیا جس کا پاناما پیپرز میں تو کیا پٹیشن میں بھی ذکر نہ تھا۔
نااہلی کے تاریخی فیصلے کو جواز بخشنے کے لیے نیب کو بیچ میں ڈالا گیا اور وہاں بھی لندن میں بنائے گئے فلیٹوں کے بجائے حدیبیہ پیپر ملز کے سابقہ کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کی گئی۔ میاں نواز شریف اقتدار سے بے دخل ہوکر بھی اپنے ووٹروں کی نظر میں وزیراعظم ہی رہے۔
خیال کیا جاتا تھا کہ معزولی کے بعد مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پارٹی اپنے لیڈر کی قیادت میں متحد و منظم رہی۔ پھر فیض آباد میں ایک ایسی تنظیم کے ذریعے دھرنے کا اہتمام کیا گیا جسے آج سے چند ماہ پہلے تک اس ملک میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ لاہور کے ضمنی الیکشن میں فرقہ وارانہ جماعتوں کی درپردہ سرپرستی کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اب انھیں ایک طاقتور گروپ کی شکل میں ابھار کر سامنے لے آیا گیا۔
حکومت کی جانب سے فیض آباد کے دھرنے کو جب عدالتوں کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور عسکری قوتوں سے مدد کی درخوست کی گئی تو کہا گیا کہ ہم اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ کہتے ہوئے ہم شاید یہ بھول گئے تھے کہ ہم آج جن دہشتگردوں کے خلاف ضرب العضب اور ردالفساد جیسے آپریشن کررہے ہیں وہ لوگ بھی اپنے ہی لوگ تھے۔ ہم نے انھیں تربیت دے کر سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے کے لیے افغانستان بھیجا تھا۔ وہ ہمارے لیے مجاہدین کا درجہ رکھتے تھے۔ پھر وہی لوگ ہمارے بچوں کے بھی دشمن بن گئے۔
کراچی اور بلوچستان میں بھی آپریشن کرتے ہوئے، یہ لوگ بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خان کی قیادت میں کیا جانے والا آپریشن کن لوگوں کے خلاف تھا؟ کیا وہ ہمارے اپنے لوگ نہیں تھے۔ ان کا قصور کیا تھا؟ وہ اس ملک کے سب سے صاف اور شفاف انتخابات کے نتائج کے مطابق اپنا حق حاکمیت ہی تو مانگ رہے تھے۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے لوگ کون تھے۔ ان میں اور فیض آباد کے دھرنے والوں میں کیا فرق تھا۔ یہی کہ لال مسجد کا معاملہ ایک فوجی حکومت کی رٹ کے لیے بڑا چیلنج تھا جب کہ فیض آباد کا دھرنا ایک ایسی سول حکومت کو درپیش تھا جسے آج ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت اس نہج پر پہنچایا جارہا ہے جہاں وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ آیندہ آنے والے الیکشن میں سر اٹھا کر بھی جی پائے۔
فیض آباد اور لاہور کا دھرنا بظاہر ختم ہوگیا ہے لیکن حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ وہ جتنی ہمت اور حوصلہ دکھائے گی اتنی ہی اس کے خلاف کارروائیاں کی جائیں گی۔ ہر مہینے اس کے لیے ایک نیا بحران کھڑا کیا جائے گا۔
جیسے جیسے نئے الیکشن قریب آتے جائیں گے ویسے ویسے اس کی مشکلات اور بھی بڑھیں گی۔ اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑا جائے گا کہ وہ آیندہ ہونے والے انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرپائے۔ ابھی اس کے اپنے اندر دراڑیں ڈالنا باقی ہے۔ کوشش تو بہت کی گئی لیکن کامیابی ہنوز نہ ہوپائی۔ جب کوئی حربہ کامیاب نہ ہوگا تو طاقت و اختیار کی حامل قوتوں کے پاس قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا آپشن تو بہرحال باقی ہی ہے۔
میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کے دیگر اکابرین یہ جان لیں کہ ان کا ٹکراؤ کسی معمولی فریق سے نہیں ہے۔ وہ جن قوتوں سے اپنا حق حاکمیت مانگ رہے ہیں وہ انھیں یوں آسانی سے دینے کے کبھی بھی روادار نہیں رہے ہیں۔ طاقت کا اصل سرچشمہ پہلے بھی وہی تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ جمہوریت کو اگر آپ پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر صرف انھی کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا، انھی کے بنائے گئے اصولوں اور ضابطوں پر عمل کرنا ہوگا۔
وہ اگر آج براہ راست آگے بڑھ کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں نہیں لے رہے تو یہ ان کی مہربانی ہے۔ ورنہ اگر ایسا ہوجائے تو آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ آزاد اور خودمختار عدلیہ کا بھرم تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ پھر کیوں، کس زعم اور مغالطے میں اپنی جاں جوکھوں میں ڈال رہے ہیں۔ خاموشی کے ساتھ سمجھوتہ کیجیے اور اپنی جاں بخشوائیں۔ عوام کے وعدوں پر بھروسہ کرکے خود کو مشکل میں نہ ڈالیں۔ یہ عوام نہ بھٹو کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے، نہ آپ کے لیے ایسا کریں گے۔ ہاں وہ تماشا دیکھنے کے لیے البتہ ضرور پہنچ جائیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی باتیں سن کر ہوسکتا ہے آپ کو کچھ حوصلہ ملا ہو، لیکن اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے۔ کیا ہم نے آج تک اپنی عدلیہ کے فیصلوں کو غور سے نہیں دیکھا۔ جسٹس منیر سے لے کر آج تک عدالت عالیہ نے عدل و انصاف پر مبنی کتنے تاریخی فیصلے کیے، جن سے آپ کو سو فیصد اتفاق ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ فیض آباد اسلام آباد میں 22 روز تک چلنے والا دھرنا دراصل شکار کو تھکا دینے والے ''ہانکا'' کا ایک چھوٹا ساحصہ تھا۔ یہ ہانکا اس ملک میں 2014ء سے لگایا جارہا ہے۔ ہانکا کا مقصد شکار کو مسلسل تھکا تھکا کر گھیرنا ہوتا ہے۔ اور ہمارے یہاں آج کل ہونے والے تمام واقعات اس ہانکا کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ سیاسی بے چینی اور ابتری پیدا کرنے کے یکے بعد دیگرے یہ واقعات کوئی خوامخواہ یونہی نہیں ہورہے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کی اس تیسرے دور کی حکومت کو پہلے دن سے ہی سکون سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ اسلام آباد شہر میں 126 دنوں تک دھرنا، وہ بھی پارلیمنٹ کی عمارت کے عین سامنے کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں تھا۔ جہاں رات دن حکومت کو بلاوجہ مغلظات دی جاتی رہیں۔ وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملے تک ہوئے۔ جس سے ساری دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا رہا جیسے اس ملک کے عوام نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کردی ہو۔ چند ہزار لوگوں نے سارے ملک اور قوم کو ہیجان اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کیے رکھا۔ پھر 2016ء میں پاناما لیکس کا معاملہ ہاتھ آگیا۔
450 نامزد ملزمان میں سے صرف نواز شریف سے، جن کا نام بھی اس فہرست میں شامل نہ تھا ان دنوں کا حساب لیا جانے لگا جن دنوں وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے حالیہ دور کی کسی کرپشن کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا تو پرانے معاملات اٹھائے جانے لگے۔ جے آئی ٹی بنائی گئی۔ دس جلدوں پر مبنی تحقیقات میں بھی جب کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملے تو اس اقامہ پر فیصلہ سنادیا گیا جس کا پاناما پیپرز میں تو کیا پٹیشن میں بھی ذکر نہ تھا۔
نااہلی کے تاریخی فیصلے کو جواز بخشنے کے لیے نیب کو بیچ میں ڈالا گیا اور وہاں بھی لندن میں بنائے گئے فلیٹوں کے بجائے حدیبیہ پیپر ملز کے سابقہ کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کی گئی۔ میاں نواز شریف اقتدار سے بے دخل ہوکر بھی اپنے ووٹروں کی نظر میں وزیراعظم ہی رہے۔
خیال کیا جاتا تھا کہ معزولی کے بعد مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پارٹی اپنے لیڈر کی قیادت میں متحد و منظم رہی۔ پھر فیض آباد میں ایک ایسی تنظیم کے ذریعے دھرنے کا اہتمام کیا گیا جسے آج سے چند ماہ پہلے تک اس ملک میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ لاہور کے ضمنی الیکشن میں فرقہ وارانہ جماعتوں کی درپردہ سرپرستی کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اب انھیں ایک طاقتور گروپ کی شکل میں ابھار کر سامنے لے آیا گیا۔
حکومت کی جانب سے فیض آباد کے دھرنے کو جب عدالتوں کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور عسکری قوتوں سے مدد کی درخوست کی گئی تو کہا گیا کہ ہم اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ کہتے ہوئے ہم شاید یہ بھول گئے تھے کہ ہم آج جن دہشتگردوں کے خلاف ضرب العضب اور ردالفساد جیسے آپریشن کررہے ہیں وہ لوگ بھی اپنے ہی لوگ تھے۔ ہم نے انھیں تربیت دے کر سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے کے لیے افغانستان بھیجا تھا۔ وہ ہمارے لیے مجاہدین کا درجہ رکھتے تھے۔ پھر وہی لوگ ہمارے بچوں کے بھی دشمن بن گئے۔
کراچی اور بلوچستان میں بھی آپریشن کرتے ہوئے، یہ لوگ بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خان کی قیادت میں کیا جانے والا آپریشن کن لوگوں کے خلاف تھا؟ کیا وہ ہمارے اپنے لوگ نہیں تھے۔ ان کا قصور کیا تھا؟ وہ اس ملک کے سب سے صاف اور شفاف انتخابات کے نتائج کے مطابق اپنا حق حاکمیت ہی تو مانگ رہے تھے۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے لوگ کون تھے۔ ان میں اور فیض آباد کے دھرنے والوں میں کیا فرق تھا۔ یہی کہ لال مسجد کا معاملہ ایک فوجی حکومت کی رٹ کے لیے بڑا چیلنج تھا جب کہ فیض آباد کا دھرنا ایک ایسی سول حکومت کو درپیش تھا جسے آج ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت اس نہج پر پہنچایا جارہا ہے جہاں وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ آیندہ آنے والے الیکشن میں سر اٹھا کر بھی جی پائے۔
فیض آباد اور لاہور کا دھرنا بظاہر ختم ہوگیا ہے لیکن حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ وہ جتنی ہمت اور حوصلہ دکھائے گی اتنی ہی اس کے خلاف کارروائیاں کی جائیں گی۔ ہر مہینے اس کے لیے ایک نیا بحران کھڑا کیا جائے گا۔
جیسے جیسے نئے الیکشن قریب آتے جائیں گے ویسے ویسے اس کی مشکلات اور بھی بڑھیں گی۔ اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑا جائے گا کہ وہ آیندہ ہونے والے انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرپائے۔ ابھی اس کے اپنے اندر دراڑیں ڈالنا باقی ہے۔ کوشش تو بہت کی گئی لیکن کامیابی ہنوز نہ ہوپائی۔ جب کوئی حربہ کامیاب نہ ہوگا تو طاقت و اختیار کی حامل قوتوں کے پاس قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا آپشن تو بہرحال باقی ہی ہے۔
میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کے دیگر اکابرین یہ جان لیں کہ ان کا ٹکراؤ کسی معمولی فریق سے نہیں ہے۔ وہ جن قوتوں سے اپنا حق حاکمیت مانگ رہے ہیں وہ انھیں یوں آسانی سے دینے کے کبھی بھی روادار نہیں رہے ہیں۔ طاقت کا اصل سرچشمہ پہلے بھی وہی تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ جمہوریت کو اگر آپ پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر صرف انھی کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا، انھی کے بنائے گئے اصولوں اور ضابطوں پر عمل کرنا ہوگا۔
وہ اگر آج براہ راست آگے بڑھ کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں نہیں لے رہے تو یہ ان کی مہربانی ہے۔ ورنہ اگر ایسا ہوجائے تو آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ آزاد اور خودمختار عدلیہ کا بھرم تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ پھر کیوں، کس زعم اور مغالطے میں اپنی جاں جوکھوں میں ڈال رہے ہیں۔ خاموشی کے ساتھ سمجھوتہ کیجیے اور اپنی جاں بخشوائیں۔ عوام کے وعدوں پر بھروسہ کرکے خود کو مشکل میں نہ ڈالیں۔ یہ عوام نہ بھٹو کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے، نہ آپ کے لیے ایسا کریں گے۔ ہاں وہ تماشا دیکھنے کے لیے البتہ ضرور پہنچ جائیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی باتیں سن کر ہوسکتا ہے آپ کو کچھ حوصلہ ملا ہو، لیکن اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے۔ کیا ہم نے آج تک اپنی عدلیہ کے فیصلوں کو غور سے نہیں دیکھا۔ جسٹس منیر سے لے کر آج تک عدالت عالیہ نے عدل و انصاف پر مبنی کتنے تاریخی فیصلے کیے، جن سے آپ کو سو فیصد اتفاق ہے۔