وہ جس نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا

وہ نت نئے آئیڈیاز رکھنے والے ایک بے حد ٹیلنٹڈ آدمی تھے۔


سردار قریشی December 06, 2017

لاہور: 1980-81ء کے دوران ایک روز، جب مجھے بھٹو کے جاری کردہ اخبار روزنامہ ہلال پاکستان، کراچی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے، ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے۔ انھوں نے اپنا نام منیر چانڈیو بتایا اور کہا کہ ان کے پاس اخبار کے حوالے سے ایک تجویز ہے، میں نے پوچھا کیا؟ تو بولے وہ سندھی نوجوانوں کو فرنچ زبان سکھانے کے لیے ''آئیے فرنچ سیکھیں'' کے زیر عنوان اپنا مستقل کالم شروع کرنا چاہتے ہیں۔

میرے دریافت کرنے پر کہ اس سے کیا ہوگا، فرمایا، ملک میں بیروزگاری کے سنگین مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت مشرق وسطیٰ اور براعظم افریقہ کے عرب ممالک میں ہنرمند اور غیر ہنرمند پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی خاطر زبردست سفارتی کوششیں کررہی ہے، دیگر صوبوں کی طرح سندھ کو بھی ان نوکریوں میں حصہ ملے گا، اور چونکہ ان عرب ممالک میں سے اکثر کی سرکاری زبان فرنچ ہے جو وہاں اسی طرح بولی جاتی ہے جیسے ہم یہاں انگریزی بولتے اور اس پر فخر کرتے ہیں۔

سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ اگر پڑھے لکھے اور ہنرمند سندھی نوجوانوں کو فرنچ بھی آتی ہوگی تو انھیں وہاں ملازمتوں میں ترجیح دی جائے گی۔ مجھے ان کی تجویز پسند آئی لیکن فی الحال مجوزہ کالم کے لیے جگہ نکالنا مشکل تھا، کیونکہ دستیاب اسپیس میں خبریں بھی پوری طرح نہیں سما پا رہی تھیں اور نامہ نگاروں کی بھیجی ہوئی بہت سی خبریں شامل اشاعت ہونے سے رہ جاتی تھیں۔

میں نے منیر صاحب کو بتایا کہ سرکولیشن کا شعبہ بھی اس معاملے میں نامہ نگاروں کا ہمنوا ہے جس کی دلیل یہ ہے اخبار مقامی خبروں کی اشاعت کی بنیاد پر فروخت ہوتا ہے، جس شہر یا قصبے کی خبریں نہیں چھپیں گی وہاں اخبار بھی کوئی نہیں خریدے گا۔

اخبار میں خبروں کو دوسری تمام چیزوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے، ہمارے پاس اداریہ، مضامین اور مستقل کالموں پر مشتمل ادارتی صفحہ کے علاوہ بین الاقوامی معاملات، ادب، خواتین، طلبہ، بچوں اور محنت کشوں کے ہفتہ وار صفحات بھی شایع ہوتے ہیں، ایسی صورت میں نئی چیزوں کے لیے جگہ نکالنا اس وقت تک مشکل ہی نہیں ناممکن ہے جب تک اخبار کے صفحات نہیں بڑھائے جاتے، اس کے لیے شیخ سلطان ٹرسٹ کی منظوری چاہیے جس کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر علی احمد بروہی کا بس چلے تو وہ اخبار ہی بند کردیں، چہ جائیکہ اخراجات میں اضافہ کی اجازت دیں۔ تاہم میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان کی تجویز منظور کروانے کی پوری کوشش کروں گا۔

ان سے ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوا کہ انھوں نے قانون میں بھی ڈگری لے رکھی ہے، مگر بطور وکیل پریکٹس جمانے کے لیے جو وسائل چاہئیں وہ ان کے پاس نہیں ہیں، سردست وہ ایک بینک کے ملازمین کی ٹریڈ یونین کے قانونی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں جو انھیں تنخواہ یا اعزازیہ وغیرہ دینے کی پوزیشن میں تو نہیں ہے البتہ اس نے انھیں میکلوڈ روڈ پر واقع اپنے دفتر میں رہائش کی سہولت فراہم کر رکھی ہے، وہ رات وہاں گزارتے ہیں اور دن کو اپنی پرانی موٹر سائیکل پر کام کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔

آدمی ہی دلچسپ نہیں تھے باتیں بھی دلچسپ کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے جوتوں کے گھسے ہوئے تلے دکھاتے ہوئے بتایا کہ ان کی جیب ایک لیٹر یومیہ سے زیادہ پٹرول ڈلوانے کی اجازت نہیں دیتی اور ایسی موٹر سائیکل ہونے کے باوجود جو پٹرول پیتی نہیں صرف سونگھتی ہے، اسے وہیں چھوڑ دیتے ہیں جہاں پٹرول ختم ہوتا ہے اور باقی سفر پیدل طے کرتے ہیں، کھانا بھی اپنے پیسوں سے صرف ایک وقت کا کھاتے ہیں، باقی کوئی دوسرا کھلائے تو تینوں وقت کھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔

کچھ عرصہ تک وہ اپنی تجویز کی منظوری ملنے کا پوچھنے کے لیے دفتر آتے رہے، لیکن پھر مایوس ہوکر انھوں نے آنا چھوڑ دیا، جب بھی ان کا خیال آتا میں یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا کہ انھیں کہیں موزوں جاب مل گئی ہوگی اور وہ مصروفیت کے باعث ملاقات کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے ہوں گے۔

ایک روز میں نے پریس کلب میں لنچ کرنے کے بعد پیدل دفتر لوٹتے ہوئے منیر صاحب کی ہونڈا ففٹی پاکستان چوک کی پولیس چوکی کے پاس کھڑی دیکھی تو سمجھا اندر بیٹھے اپنا چالان کٹوا رہے ہیں۔ پتہ کرنے پر میرا خیال غلط ثابت ہوا، چوکی میں موجود ٹریفک سارجنٹ نے بتایا کہ پٹرول ختم ہوگیا تھا اس لیے وہ اسے یہاں چھوڑ گئے۔

یہ سن کر مجھے ان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی جس میں انھوں نے خود بھی یہی بتایا تھا کہ جہاں پٹرول ختم ہوتا ہے وہ موٹر سائیکل وہیں چھوڑ کر پیدل چل پڑتے ہیں۔ وقت تیز رفتاری سے گزرتا رہا، جنرل ضیاء کے سیکریٹری اطلاعات، میجر جنرل مجیب الرحمان کی بیجا مداخلت اور علی احمد بروہی کی سازشوں سے تنگ آکر میں بھی مستعفی ہوگیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔

ایک روز اپنے دیرینہ دوست خادم حسین ابڑو ایڈووکیٹ کے پاس بیٹھا تھا کہ کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے منیر چانڈیو کا نام لیا، بعد میں میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ منیر نے کسی دوست کے توسط سے ان سے رابطہ کیا تھا، کچھ ملاقاتوں کے بعد وہ ان کے بھی دوست بن گئے اور اب اکثر دونوںکی ملاقاتیں انھی کے گھر پر ہوتی ہیں۔

مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ کراچی کی سڑکیں ناپنے کی ان کی ریاضت بالآخر رنگ لائی، قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی اور آج کل وہ خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں، ہم نے پیشگی اطلاع دیے بغیر کسی دن اچانک گھر جاکر ان سے ملنے کا پروگرام بنایا، وہ ان دنوں طارق روڈ پر پرانے اے جی آفس کے عقب میں واقع ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے اور اپنی این جی او چلاتے تھے۔ اب ان کے پاس ایک چھوڑ دو دو گاڑیاں تھیں، جو ہر وقت نیچے گلی میں کھڑی رہتی تھیں، ایک یہ خود استعمال کرتے تھے جب کہ دوسری بیوی بچوں کے کام آتی تھی۔ بڑے تپاک سے ملے اور ہماری خوب خاطر مدارت کی۔

میرے پوچھنے پر کہ یہ کایا پلٹ کیسے ہوئی، انھوں نے بتایا کہ ایک دن ان کی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایک غیر ملکی سے ملاقات ہوگئی، جن کی این جی او یہاں بھی تعلیم کے شعبے میں کچھ پروجیکٹس پر کام کر رہی تھی، اس نے منیر صاحب کو اپنے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش کی، انھوں نے اس کی پیشکش تو قبول نہیں کی البتہ اس سے رہنمائی لے کر زراعت کے شعبے میں اپنی الگ این جی او بنالی اور تب سے اس پر کام کر رہے ہیں۔

کچھ دنوں کے بعد مجھے ان کی این جی او کی طرف سے شہدادپور میں بلائی گئی ایک ورکشاپ میں شرکت کی دعوت ملی جس میں زرعی زمینوں کو مصنوئی کھاد سے پہنچنے والے نقصانات پر بحث کی جانی تھی۔ میں تو خیر نہیں گیا کہ یہ میرا شعبہ ہی نہیں تھا، نہ ہی مجھے موضوع کے حوالے سے کچھ زیادہ جانکاری تھی لیکن میں اخبارات میں ورکشاپ سے متعلق خبریں باقاعدگی سے پڑھتا تھا جو بے حد کامیاب رہی تھی۔

مجھے اس وقت بڑی خوشگوار حیرت ہوئی جب وہاں سے واپسی پر ایک روز بغیر بتائے وہ میرے پریس پر پہنچ گئے جو میں نے لالو کھیت سندھی ہوٹل میں لگایا تھا۔ میرا یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا اور کچھ ہی عرصہ بعد پریس بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد میرا منیر صاحب سے کبھی کوئی رابطہ نہیں رہا، وہ اب کہاں اور کس حال میں ہیں، میں نہیں جانتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ بہت آگے گئے ہوں گے، کیونکہ وہ نت نئے آئیڈیاز رکھنے والے ایک بے حد ٹیلنٹڈ آدمی تھے، وہ جہد مسلسل پر یقین رکھنے والے ایک ایسے پرعزم انسان تھے جس نے ہار ماننا سیکھا ہی نہیں تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں