’گوادر‘ بمقابلہ ’چاہ بہار‘
بھارت کے لیے بذریعہ چاہ بہار بندرگاہ بھی افغانستان مال بھجوانا خطرات سے خالی نہیں۔
وہ حرم کے راستے سے پہنچ گئے خدا تک
تیری رہ گزر سے جاتے تو کوئی اور بات ہوتی
سنا ہے ''گوادر پراجیکٹ '' پاکستان کی قسمت بدل دے گا، پاکستان کی تقدیر بدلتے اب دیر نہیں لگے گی، اب پاکستان کی عوام خوشحالی کے دن دیکھ سکے گی۔ لیکن ہوائیں کسی اور سمت جانے کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ کیونکہ گوادر کے مقابلے میں ایرانی بندرگاہ ''چابہار''پر پاکستان کے ہمسائے ایران، افغانستان اور بھارت اربوں ڈالر خرچ کرکے ہزاروں میل لمبی راہداریاں بھی بنا رہے ہیں اورجو کھربوں ڈالر کے منصوبے میں بدل جائے گا۔ جب کہ ہمارے حصے آنے والا سی پیک منصوبہ ''رکوڈک'' ،'' نیلم پراجیکٹ'' اور''کالاباغ پراجیکٹ''سمیت کئی منصوبوں کی طرح تاحال ہماری نااہلی کا ثبوت دے رہا ہے۔
ہمارے سیاستدان اپنے بچاؤ کی ترکیبیں سوچنے میں وقت صرف کر رہے ہیں جب کہ قومی ادارے انھیں گرفتار کرنے اور سزائیں دلوانے میں مصروف ہیں، دنیا میں کبھی پانامہ شروع ہوجاتا ہے، تو کبھی پیراڈائزپیپرز لیکن قیامت پاکستان میں آجاتی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارا حال امیرممالک میں گھیرے ہوئے اُس غریب ترین ملک جیسا ہوگا جو ان ممالک کی ''باقیات '' پر گزارہ کرتا ہے۔ اس کی ایک جھلک پورے پاکستان نے ملاحظہ کی جب گزشتہ روز ایران نے بھارت کے تعاون سے چاہ بہار بندگار کے توسیعی منصوبے کے پہلے مرحلے کو مکمل کر لیا ہے۔
گوادر بندرگاہ سے مغرب کی طرف چلیں تو کم و بیش 100کلومیٹر کے فاصلے پر ایرانی بندرگاہ ''چاہ بہار'' پر نظر پڑتی ہے۔ایران کو اس بندر گاہ کی تعمیر اور وسعت دینے کا خیال اُس وقت آیا جب پاکستان نے 20اپریل 2015ء میں چین کے ساتھ گوادر پورٹ سے کاشغر(چین) تک راہداری کے 46ارب ڈالر کے منصوبے پر دستخط کیے۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے محلے میں چمکتی دمکتی دوکان کے ساتھ کسی نے اپنی دکان کھول لی ہوتی کہ مقابلے اور مسابقت کی فضاء قائم کی جائے۔
بھارت نے ایران کا ساتھ خوبصورت ''انداز'' میں دیا، ایران پر پابندیاں تھیں لیکن دوائیں اور پابندیوں سے مستثنیٰ بعض دیگر اشیا ایران کو برآمد کیا کرتا تھا۔مودی کے گزشتہ سال کے دورے میں ساڑھے چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کا طریق کار طے کیا گیا، یہ رقم بھارت پر تیل کی خریداری کی مد میں واجب الادا تھی۔لہٰذابھارت ایران کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی اہم ملک بن گیا ہے، اس لیے ایران کو مجبوراََ بھارت سے ہاتھ ملانا پڑا۔
گزشتہ سال مئی 2016میں مودی کے دورہ ایران کے موقع پر چاہ بہار پر بھارت نے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی خواہش کا اظہار کرکے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کر ڈالے۔ اور اب جب کہ گزشتہ اتوار ''چاہ بہار'' میں توسیعی منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے تو کسی کو کانوں کان خبر کیے بغیر غیر اعلانیہ دورے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ایران میں ''چابہار'' پراجیکٹ کے لیے جشن منا رہی ہیں ۔حیرت تویہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں ایران کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کرنا خلاف قانون ہے۔
پاکستان پر ہمیشہ امریکی دباؤ رہا ہے کہ وہ ایران سے گیس پایپ لائن کو مکمل نہ کرے اور پاکستان نے ہمیشہ فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن بھارت دلیری کے ساتھ ایران کی بندر گاہ پر نہ صرف پیسے خرچ کر رہا ہے بلکہ گوادر پراجیکٹ کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ بھارت پاکستان کے خلاف اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے ، بھارت کو پاکستان فوبیا ہوگیا ہے، بھارت کو چین فوبیا ہوگیا ہے، بھارت ہر مقابلے میں چین پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ بھارت کو ایرانی بندرگاہ دور پڑتی ہے جب کہ تھائی لینڈکی بندرگاہ سمیت کئی بندرگاہیں اسے نزدیک پڑتی ہے۔ لیکن پھر بھی بھارت یہاں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ لیکن ہمارا اپنا آپ کہاں ہے؟ اس خطے میں ہمارا وجود کہاں ہے؟
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جہاں ہم ایران سے ناک بھوں چڑھا رہے ہیں وہیں پاکستان کا وفد چاہ بہار منصوبے کے پہلے مرحلے کی افتتاحی تقریب میں بیٹھا بھی نظر آرہا ہے۔ یہ حکمت عملی بہرحال پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن بھارت کے لیے بذریعہ چاہ بہار بندرگاہ بھی افغانستان مال بھجوانا خطرات سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ طالبان کو سمجھا جاتا ہے، لیکن ا س سے بھی بڑا خطرہ داعش ہے۔جس نے تاحال افغانستان کے 16علاقوں پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔
اور عین ممکن ہے کہ اسے امریکا کی اشیرباد حاصل ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کے ساتھ داعش مل کر پاکستان کو غیرمستحکم کرے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سامان کی صورت میں مال کمانے کا ایک ذریعہ داعش کے ہاتھ لگ جائے گا۔اور نقصان پھر بھی پاکستان کا ہی ہوگا۔ اب تو مزید خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ بھارت کئی بلین ڈالر کی لاگت سے چاہ بہار میںایک کنٹینر ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھارت کو ایک اور پیشکش بھی کی ہے کہ بھارت چاہ بہار پورٹ کا آپریشن بھی سنبھال لے۔
آج لوگ ''پریکٹیکل وار'' کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہم اندرونی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایک نااہل وزیر اعظم پوری دنیا میں سب کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ اپنی عدلیہ اور اپنی فوج کے خلاف جنگ لڑے گا۔ اور یہ انٹرنیشنل ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر لڑائی جھگڑوں میں پڑا رہے اور غیر مستحکم رہے اور اس کے ارد گرد ممالک ترقی کرتے رہیں۔ جیسا کہ چاہ بہار کے منصوبے کا افتتاح ہورہا ہے۔ جب کہ گوادر جیسے 46ارب ڈالر کے منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اُس کے کمزور پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔ آج دنیا میں جتنی بھی کامیاب حکومتیں چل رہی ہیں وہ مضبوط ''تھنک ٹینک'' کی بدولت کام کررہی ہیں۔ جب کہ پاکستان کا تھنک ٹینک اندرونی محاذ پر فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے اور ''مجھے کیوں نکالا'' کا جواب ڈھونڈنے کے لیے سابق وزیر اعظم کی خدمت میں دست بستہ کھڑا نظر آرہا ہے۔
تیری رہ گزر سے جاتے تو کوئی اور بات ہوتی
سنا ہے ''گوادر پراجیکٹ '' پاکستان کی قسمت بدل دے گا، پاکستان کی تقدیر بدلتے اب دیر نہیں لگے گی، اب پاکستان کی عوام خوشحالی کے دن دیکھ سکے گی۔ لیکن ہوائیں کسی اور سمت جانے کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ کیونکہ گوادر کے مقابلے میں ایرانی بندرگاہ ''چابہار''پر پاکستان کے ہمسائے ایران، افغانستان اور بھارت اربوں ڈالر خرچ کرکے ہزاروں میل لمبی راہداریاں بھی بنا رہے ہیں اورجو کھربوں ڈالر کے منصوبے میں بدل جائے گا۔ جب کہ ہمارے حصے آنے والا سی پیک منصوبہ ''رکوڈک'' ،'' نیلم پراجیکٹ'' اور''کالاباغ پراجیکٹ''سمیت کئی منصوبوں کی طرح تاحال ہماری نااہلی کا ثبوت دے رہا ہے۔
ہمارے سیاستدان اپنے بچاؤ کی ترکیبیں سوچنے میں وقت صرف کر رہے ہیں جب کہ قومی ادارے انھیں گرفتار کرنے اور سزائیں دلوانے میں مصروف ہیں، دنیا میں کبھی پانامہ شروع ہوجاتا ہے، تو کبھی پیراڈائزپیپرز لیکن قیامت پاکستان میں آجاتی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارا حال امیرممالک میں گھیرے ہوئے اُس غریب ترین ملک جیسا ہوگا جو ان ممالک کی ''باقیات '' پر گزارہ کرتا ہے۔ اس کی ایک جھلک پورے پاکستان نے ملاحظہ کی جب گزشتہ روز ایران نے بھارت کے تعاون سے چاہ بہار بندگار کے توسیعی منصوبے کے پہلے مرحلے کو مکمل کر لیا ہے۔
گوادر بندرگاہ سے مغرب کی طرف چلیں تو کم و بیش 100کلومیٹر کے فاصلے پر ایرانی بندرگاہ ''چاہ بہار'' پر نظر پڑتی ہے۔ایران کو اس بندر گاہ کی تعمیر اور وسعت دینے کا خیال اُس وقت آیا جب پاکستان نے 20اپریل 2015ء میں چین کے ساتھ گوادر پورٹ سے کاشغر(چین) تک راہداری کے 46ارب ڈالر کے منصوبے پر دستخط کیے۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے محلے میں چمکتی دمکتی دوکان کے ساتھ کسی نے اپنی دکان کھول لی ہوتی کہ مقابلے اور مسابقت کی فضاء قائم کی جائے۔
بھارت نے ایران کا ساتھ خوبصورت ''انداز'' میں دیا، ایران پر پابندیاں تھیں لیکن دوائیں اور پابندیوں سے مستثنیٰ بعض دیگر اشیا ایران کو برآمد کیا کرتا تھا۔مودی کے گزشتہ سال کے دورے میں ساڑھے چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کا طریق کار طے کیا گیا، یہ رقم بھارت پر تیل کی خریداری کی مد میں واجب الادا تھی۔لہٰذابھارت ایران کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی اہم ملک بن گیا ہے، اس لیے ایران کو مجبوراََ بھارت سے ہاتھ ملانا پڑا۔
گزشتہ سال مئی 2016میں مودی کے دورہ ایران کے موقع پر چاہ بہار پر بھارت نے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی خواہش کا اظہار کرکے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کر ڈالے۔ اور اب جب کہ گزشتہ اتوار ''چاہ بہار'' میں توسیعی منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے تو کسی کو کانوں کان خبر کیے بغیر غیر اعلانیہ دورے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ایران میں ''چابہار'' پراجیکٹ کے لیے جشن منا رہی ہیں ۔حیرت تویہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں ایران کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کرنا خلاف قانون ہے۔
پاکستان پر ہمیشہ امریکی دباؤ رہا ہے کہ وہ ایران سے گیس پایپ لائن کو مکمل نہ کرے اور پاکستان نے ہمیشہ فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن بھارت دلیری کے ساتھ ایران کی بندر گاہ پر نہ صرف پیسے خرچ کر رہا ہے بلکہ گوادر پراجیکٹ کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ بھارت پاکستان کے خلاف اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے ، بھارت کو پاکستان فوبیا ہوگیا ہے، بھارت کو چین فوبیا ہوگیا ہے، بھارت ہر مقابلے میں چین پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ بھارت کو ایرانی بندرگاہ دور پڑتی ہے جب کہ تھائی لینڈکی بندرگاہ سمیت کئی بندرگاہیں اسے نزدیک پڑتی ہے۔ لیکن پھر بھی بھارت یہاں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ لیکن ہمارا اپنا آپ کہاں ہے؟ اس خطے میں ہمارا وجود کہاں ہے؟
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جہاں ہم ایران سے ناک بھوں چڑھا رہے ہیں وہیں پاکستان کا وفد چاہ بہار منصوبے کے پہلے مرحلے کی افتتاحی تقریب میں بیٹھا بھی نظر آرہا ہے۔ یہ حکمت عملی بہرحال پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن بھارت کے لیے بذریعہ چاہ بہار بندرگاہ بھی افغانستان مال بھجوانا خطرات سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ طالبان کو سمجھا جاتا ہے، لیکن ا س سے بھی بڑا خطرہ داعش ہے۔جس نے تاحال افغانستان کے 16علاقوں پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔
اور عین ممکن ہے کہ اسے امریکا کی اشیرباد حاصل ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کے ساتھ داعش مل کر پاکستان کو غیرمستحکم کرے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سامان کی صورت میں مال کمانے کا ایک ذریعہ داعش کے ہاتھ لگ جائے گا۔اور نقصان پھر بھی پاکستان کا ہی ہوگا۔ اب تو مزید خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ بھارت کئی بلین ڈالر کی لاگت سے چاہ بہار میںایک کنٹینر ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھارت کو ایک اور پیشکش بھی کی ہے کہ بھارت چاہ بہار پورٹ کا آپریشن بھی سنبھال لے۔
آج لوگ ''پریکٹیکل وار'' کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہم اندرونی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایک نااہل وزیر اعظم پوری دنیا میں سب کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ اپنی عدلیہ اور اپنی فوج کے خلاف جنگ لڑے گا۔ اور یہ انٹرنیشنل ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر لڑائی جھگڑوں میں پڑا رہے اور غیر مستحکم رہے اور اس کے ارد گرد ممالک ترقی کرتے رہیں۔ جیسا کہ چاہ بہار کے منصوبے کا افتتاح ہورہا ہے۔ جب کہ گوادر جیسے 46ارب ڈالر کے منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اُس کے کمزور پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔ آج دنیا میں جتنی بھی کامیاب حکومتیں چل رہی ہیں وہ مضبوط ''تھنک ٹینک'' کی بدولت کام کررہی ہیں۔ جب کہ پاکستان کا تھنک ٹینک اندرونی محاذ پر فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے اور ''مجھے کیوں نکالا'' کا جواب ڈھونڈنے کے لیے سابق وزیر اعظم کی خدمت میں دست بستہ کھڑا نظر آرہا ہے۔