پولیس آپریشن ناکام کیوں ہوا
پولیس افسر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انھیں مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا اور بلاوجہ بے توقیر کیا جاتا ہے۔
RAWALPINDI:
مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس پر نالاں ہے کہ فیض آباد پر دیے گئے دھرنے کو اٹھانے کے لیے پولیس آپریشن ناکام کیوں ہوا۔ وزیرِ داخلہ بھی اس کی وجوہات جاننے کے لیے ایک کمیٹی بناچکے ہیں۔ اب سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے بھی اس پر ناراضی کااظہار کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلام آباد کے محاصرے سے دنیا بھر میں ریاستِ پاکستان کے بارے میں بڑا منفی تاثر پیدا ہوا اور بڑا ہی خطرناک پیغام جاتا رہاہے کہ چند ہزار مولویوں نے اسلام آباد کا محاصرہ کررکھا ہے اور ریاست بے بس ہے۔
پاکستان کے دشمن شور مچارہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں، یو این اے فوری کاروائی کرے ۔ مگر ریاستی مشینری دھرنے سے موثّر طور پر کیوں نہ نمٹ سکی اور پولیس آپریشن ناکام کیوں ہوا؟ حضور اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ آپ مشکل وقت میں پولیس کا ساتھ نہیں دیتے، حکومت کے حکم پر آپریشن کرنے والے پولیس افسروں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتاہے اس لیے وہ بے دلی سے آپریشن میں حصّہ لیتے ہیں اور بے دلی سے کیا گیا آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اس ضمن میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا ریکارڈ بہتر ہے۔ اُن میں مردم شناسی کی صلاحیت زیادہ ہے اور وہ برے وقت میں بھی اپنے تعینات کیے گئے افسروں کی مدد اور سپورٹ کرتے ہیںمگر مسلم لیگ (ن) کے بارے میں تاثر اس کے برعکس ہے۔ اگر خلافِ قانون مجمعے کی تعداد زیادہ ہے، اس میں مسّلح افراد بھی ہیںاور لوگوں میں جوش وجذبہ بھی ہے تو یقیناً آپریشن مشکل ہوتا ہے اور اس کے لیے فورس اور اسے کمانڈ کرنے والے افسروں کا Motivation level بھی بہت بلند ہونا چاہیے۔
آج کل ایسے افسر ملنا ویسے ہی مشکل ہے۔ اُوپر سے حکومتی زعماء اس بنیادی حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ پولیس فورس کے افسر اور جوان روبوٹ نہیں ہوتے، جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں جن سے بٹن دباکر کام نہیں لیا جاسکتا، اس سلسلے میں بنیادی اور فیصلہ کن فیکٹر ٹیم کا انتخاب ہوتا ہے، وہ کمانڈر جو پر تشدّد مجمعے کا سامنا کرنے کا نہ حوصلہ رکھتے ہوں اور نہ تجربہ، انھیں میدان میں اتارا جائے گا تو وہ دم دباکر یا بہانہ بناکر بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔
جب کوئی وزیرِ داخلہ یا وزیرِ اعلیٰ کسی اہم آپریشن کے سلسلے میں میٹنگ بلاتا ہے تو پولیس افسر بڑے غورسے اُن کی بدن بولی (Body language) کا مشاہدہ کرتے ہیں، پولیس اور انتظامیہ کے گھاگ افسر باہر نکلتے ہی آپس میں notes کا تبادلہ کرتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے سے یہ کہیں کہ ''He is wavering...will not own it'' تو پھر ہدایات پر بے دلی سے عمل ہوگا۔
سینئر پولیس افسران اس پر متفق ہیں کہ مرکزی حکومت کو جنرل (ر) نصیر اللہ بابر جیسا موثّر وزیرِ داخلہ پھرنہیں مل سکا، وہ ہر وقت available رہتے تھے اور فورس کے لیے سائبان تھے۔ اگرچہ کراچی میں ایم کیوایم کے خلاف آپریشن متنازعہ تھا (کیونکہ اُن سے بڑے دہشت گرد مرتضٰے بھٹو کے ساتھ تھے جن کے خلاف پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی تھی) مگر وزیرِ داخلہ کی طرف سے پولیس کو بلینک چیک دیا گیا تھا کہ ''جونئیر ترین افسر کا بھی نیک نیّتی سے کیا گیا ہر آپریشن میں ownکروںگا اور یہ اعلان کروںگا کہ یہ میری ہدایات پر ہوا ہے''۔
ایسے جرنیل کے کہنے پر سپاہ آگ کے دریا میں بھی کود جاتی ہے،دھرنا ہٹانا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اچھا جرنیل سپاہ کے ہر فرد کو اپنے بچوں کی طرح عزیز سمجھتا ہے،اس کی تکلیف اور مصیبت میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، اُس پر مقدمے نہیں بننے دیتا ، اگر بن بھی جائے تو مقدمہ خود لڑتا ہے اور سب کچھ اپنے اُوپر لیتا ہے۔
2014کے دھرنوں میں دھرنے بازوں نے اسلام آباد کے پولیس چیف ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بناکر زخمی کردیا۔ دو روز بعد میں زخمی پولیس افسر کی خیریت دریافت کرنے اسپتال گیا تو پوچھا کہ وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی صاحب تو یقیناً تمہارا پتہ کرنے آئے ہوںگے۔ اُس نے بڑے دکھ سے کہا ''وہ تو تشریف نہیں لائے، سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک صاحب پتہ کرنے آئے تھے''۔ کیا زخمی کمانڈر کی خیریت پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کرنے والے جرنیلوں کے کہنے پر فورس جذبے سے لڑے گی اور دارلحکومت کا دفاع کرسکے گی؟۔
سانحۂ ماڈل ٹاؤن کا خوف اربابِ اقتدار کے اعصاب پر اس حد تک سوار ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی یا پُرتشدّد مجمعے کو منتشر کرنے کے لیے فورس استعمال کرنے کا حکم دینے سے ہی گریز کرتے ہیں، اگر حکم دے بھی دیں تو اسے ownنہیں کرتے، ماڈل ٹاؤن میں ہلاکتوں کے بعد وزیرِاعلیٰ اور وزیرِاعظم کے خلاف کیس درج ہوگئے تو یہ واقعی انہونی بات تھی۔
قانونی حلقے سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کی کمزوری اور وزیرِقانون اور ایڈووکیٹ جنرل کی نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہر صوبے میں آپریشن ہوتے ہیں اور حصّہ لینے والے پولیس افسروں کو قانونی تحفّظ حاصل ہوتا ہے لیکن کسی بھی صوبے میں حکومت کی ہدایات پر آپریشن کرنے پر کبھی کسی ڈی آئی جی یا وزیرِاعلیٰ کے خلاف پرچہ درج نہیں ہوا ؟
پنجاب میں کئی واقعات سے پولیس کا مورال اور حوصلہ پست ہوا ، مگر دو واقعات نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔2010 میںسیالکوٹ کے ضلعی پولیس سربراہ وقار چوہان (جس کا کوئی گناہ یا قصور نہیں تھا) کو گرفتار کرنا پولیس کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا، حکمرانوں نے ضلع کے پولیس چیف کی گرفتاری کا حکم دے کر ریاستی مشینری کو کمزور کردیا، اس کے بعد پولیس افسروں میں بددلی پھیل گئی اور حوصلے جاتے رہے۔ پولیس کی بددلی ریاستی مشینری کو کمزور اور غیر موثّربنادیتی ہے۔
2014 میں جب پولیس کو منہاج القرآن ہیڈکوارٹرز سے بیرئیر ہٹانے کے احکامات دیے گئے تو لاہور پولیس کے سینئر ترین افسروں نے اس کی مخالفت کی اوراس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں بھی خبردار کیاکہ ورکروں کی اپنے قائد کے ساتھ روحانی اور جذباتی عقیدت کا معاملہ ہے، یہ مناسب نہیں ہے، خون خرابہ ہوگا۔ مگرپنجاب کا سب سے بااخیتار بیوروکریٹ اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرانے پر مصر رہا کیونکہ باخبر حلقوں کے مطابق وہ سمجھتا تھا کہ آپریشن سے خوفزدہ ہوکر علّامہ طاہرالقادری صاحب پاکستان آنے کا پروگرام منسوخ کردیں گے اور منصوبہ ساز کوہر طرف سے شاباش ملیگی۔
اب منصوبہ ساز تو وزارتوں اور سفارتخانوں کے مزے لُوٹ رہے ہیں مگر اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے پولیس افسران خوار اور دربدر پھررہے ہیں، کیرئر افسر مفرور اور اشتہاری بن گئے ہیںاور اپنی جائیدادیں بیچ کر گزارہ کررہے ہیں۔کیا حکومت نے اُن افسران کا کبھی پتہ کیا ہے کہ وہ کس حال میں ہیں؟ ڈی آئی جی رانا جبار نے تو ایک فائر بھی نہیں کیا تھا ،کبھی کسی نے اس کا پتہ کیا ہے کہ بیٹیوں کو لے کر وہ کہاں گزارہ کررہا ہے؟۔
اگر وہ فوج کے افسر ہوتے تو ان کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا؟ہرگز نہیں کوئی ان کی طرف دیکھنے کی بھی جرأت نہ کرتا، فوجی جوانوں کی فائرنگ سے بعض اوقات ہلاکتیں بھی ہوجاتی ہیں مگر فوج کی اعلیٰ کمان جس آپریشن کا حکم دیتی ہے اسے ownکرتی ہے اور اپنے جوانوںکا پوری طرح دفاع کرتی ہے۔ انھیں مقدمے بھگتنے کے لیے بے یارومددگار نہیں چھوڑتی۔
اس سانحے کے بعد جب بھی کہیں دھرنا ہوا ہے۔ اس کی تعداد چاہے سو یا پچاس ہی کیوں نہ ہو پولیس نے فورس استعمال کرنے سے گریز کیا ہے کیونکہ کوئی پولیس افسر طاقت استعمال کرنے کے نتائج بھگتنے کے لیے تیّار نہیں ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ ہلاکتوں کی صورت میں حکومت اس کا ساتھ نہیں دے گی اور وہ اکیلا کھڑا ہوگا۔ لاہور میں بھی متعلقہ وزیر نے دھرنا اٹھانے کے لیے فورس استعمال کرنے کی بات کی تو پولیس افسر طَرح دے گئے۔کوئی بھی تیار نہ ہوا۔
پولیس افسر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انھیں مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا اور بلاوجہ بے توقیر کیا جاتا ہے۔ صرف چند دن پہلے ممبرانِ قومی اسمبلی کی مخالفت کے باوجود ایک فرسودہ نظام قبر سے نکال کر پھر سے نافذ کردیا گیا ہے جس میں پولیس کی آپریشنل اٹانومی ختم کرکے اسے مجسٹریٹوں کے ماتحتی میں دے دیا گیا ہے، دنیا آگے جارہی ہے اور ہم وقت کا پہیّہ پیچھے پھیرنے کی کوشش کررہے ہیں، ایسا احمقانہ فیصلہ کس کے کہنے پر ہوا ہے؟ ایسا فرسودہ نظام مسلّط کرنے والے حکومت کی حامی ہیں یا دشمن؟۔
پولیس کے بددل ہونے سے بڑے خطرناک نتائج نکلے ہیں، ریاستی مشینری غیر موثر ہوگئی ہے، حکومت کی رٹ ختم ہوگئی ہے، ریاست کی پسپائی اور حکومت کی کمزوری سے غیر ریاستی اداکار طاقت پکڑرہے ہیں اور عوام غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ ریاست عوام کو تخفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے تو اپنا جواز کھودیتی ہے۔
ان عوامل سے ریاستِ پاکستان بے توقیر ہوئی ہے، چند ماہ پہلے تک غیر ملکی سرمایہ کار یہاں آنے کے لیے لائن میں لگے ہوئے تھے، اب بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں نے بندھے ہوئے بستر کھول دیے ہیں۔ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ مجمع جسے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے کر اسے ہٹانے کا حکم دے چکی تھی، اس کے شرکاء میں ایک جرنیل کے ہاتھوں پیسے تقسیم کرنے کے کیا معنی ہیں؟
کیا جی ایچ کیو یا حکومت یا کوئی عدالت جرنیل صاحب کو بلاکر پوچھے گی کہ ان لوگوں نے لاکھوں شہریوں کو عذاب میں مبتلا کرکے اور ملک کو بے توقیر کرکے کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ آپ انھیں انعام دے رہے ہیں؟ یہ ملک ایسے کس طرح چل سکتا ہے، ملک تو کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت ہی چلتے ہیں، انھی قواعد اور ضوابط کو آئین کہتے ہیں، آئین کی اس طرح بے حرمتی ہوگی تو وطنِ عزیزکا تحفّظ کیسے کیا جاسکے گا؟ اﷲ تعالیٰ وطنِ عزیز کی حفاظت فرمائیں اور ہر ادارے کو آئین کا احترام کرنے کی توفیق بخشیں۔