ڈاکٹر ہودبھائی کے ساتھ نشست اور وہ سوالات جو میں نہ کرسکی

ڈاکٹر ہودبھائی کا ہر انٹرویو اس قدر دوستانہ ہوتا ہے کہ کچھ سوالات پوچھنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی


تزئین حسن December 07, 2017
ڈاکٹر ہودبھائی کا ہر انٹرویو اس قدر دوستانہ ہوتا ہے کہ سخت سوالات پوچھنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ (تصاویر بشکریہ: جمشید قریشی، میبل ٹی وی، کینیڈا)

کینیڈا کے شہر اور البرٹا کے صدر مقام ایڈمنٹن یعنی ہماری رہائش سے تین سو کلو میٹر دور کیلگری شہر سے میپل ٹی وی کے روح رواں جمشید قریشی صاحب نے پاکستان کے مایہ ناز سائنس دان اور سماجی ایکٹوسٹ پرویز امیرعلی ہودبھائی کے ٹاک شو میں مدعو کیا تو میرے پاس ہاں کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس ہاں میں ہودبھائی کی قد آور شخصیت سے زیادہ جمشید بھائی کا خلوص شامل تھا جن کی خواہش تھی کہ مہمان سے انٹلیکچوئل گفتگو میں یک رنگی نہ ہو، بحث کا ماحول ہو۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد کچھ ایسے سوالات ہیں جو ان کی گفتگو سن کر ذہن میں اٹھے۔

پرویز ہودبھائی کو پاکستان میں میڈیا ڈارلنگ کا درجہ حاصل ہے۔ انہیں عرصے سے ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے تھے۔ ان کا اصل مضمون تو نیوکلیئر فزکس ہے مگر شاید ہی پچھلے دس سال میں انہیں فزکس سے متعلق کسی موضوع پر اظہار خیال کےلیے بلایا گیا ہو۔ عام طور سے انہیں پاکستان کے سماجی مسائل اور ان کے حل پر گفتگو کرنے کےلیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کے خیالات اور نظریات سے مکمل نہ سہی مگر اس حد تک واقفیت ضرور تھی کہ بہت سے سوالات ذہن میں تھے۔ نرم اور شستہ لہجے میں اردو بولنے والے ہودبھائی کو صحیح یا غلط پاکستان کا نوم چومسکی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو ہمیشہ کی طرح تین مسائل پر مرکوز تھی: ایک پاکستان میں آبادی کے پھیلاؤ، دوسرا پاکستانی معاشرے میں مولوی کا کردار اور تیسرا ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی۔

پروگرام کے دوران شدت سے اس بات کا احساس ہوا کے ہمارا تعلیمی نظام واقعی بہت شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہم واقعی سوچنے سمجھنے اور علمی و سیاسی نظریات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور خصوصاً وی آئی پیز سے اختلاف کو تو گناہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں شرکاء کی جانب سے پرویز ہودبھائی کے برسوں پرانے اور ٹیلی ویژن پر بار بار دہرائے جانے والے افکار پر تعریف میں سر دھننے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے کی ہی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ میری اپنی تربیت کچھ اس ماحول میں ہوئی ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد ہم بچوں کو جو کتابیں اور رسائل گھر پر آتے، وہ پڑھنے کی اور کھانے کی میز پر ان پر سیر حاصل گفتگو اور کسی بھی نقطہ نظر سے اختلاف کی اجازت تھی چاہے وہ کتب والد صاحب کے قریبی دوستوں کی لکھی ہوئی اور افکار خود ان کے ذاتی ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لئے اس بات کا کوئی سوال نہیں ہوتا کہ کسی انٹلیکچوئل کی، خواہ وہ کتنا ہی بڑا میڈیا ڈارلنگ یا مقبول و معروف پبلک فیگر ہی کیوں نہ ہو، ہر بات کو من و عن تسلیم کرلیا جائے اور صرف ہاں میں سر ہلایا جائے۔ کسی کے بھی افکار کو دلائل، واقعاتی شہادتوں، تاریخی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرکے چیلنج کرنے کی جو عادت ہے وہ ہر جگہ جوتے پڑواتی ہے اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔



کیلگری کی انٹلیکچوئل کمیونٹی سوٹ بوٹ میں موجود تھی۔ اقبال حیدر صاحب کا یہاں سے وہاں تک پھیلا ہوا خوبصورت گھر اور ان کا بلا مبالغہ سینکڑوں کتب پر مبنی کتب خانہ۔ کینیڈا آنے کے بعد پہلی مرتبہ اردو کتب کا اتنا بڑا ذخیرہ دیکھنے کو ملا۔ کتابوں کو الٹنے پلٹنے کا تو نہ موقع تھا نہ وقت، مگر پروگرام کے دوران سینٹرل ٹیبل پر ارتقا کی ایک کاپی پر مسلسل للچائی ہوئی نظر ڈالتے رہے کہ 2010 میں حیدرآباد کا آبائی گھر چھوڑنے کے بعد ارتقا پڑھنے کو نہیں ملا تھا۔

بہرحال، اب آتے ہیں پروگرام کی طرف۔ ٹاک شو کے میزبان جنید بہادر نے گفتگو کا آغاز ڈارون اور کائنات کی ابتداء کے دیگر نظریات سے کیا جس میں ہودبھائی کا کہنا تھا کہ مذہب کا ان نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ سیکولر یا ایتھیسٹ (ملحد) ہوکر بھی اچھے سائنسدان ہوسکتے ہیں اور اسلام یا کسی اور مذہب کے پیروکار ہوکر بھی۔

پاکستان میں آبادی کا پھیلاؤ

جنید کا دوسرا سوال پاکستان کے پانچ بڑے مسائل سے متعلق تھا جس کے جواب میں ہودبھائی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے۔ ہر پچیس سال بعد پاکستان کی آبادی دگنی ہوجاتی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ ہمیں بیٹھ کر بات کرنے کی بھی جگہ نہ ملے گی۔ یہ بات ہودبھائی پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کرہ ارض پر جگہ ختم ہو رہی ہے۔ جب تک پاکستان آبادی کے مسئلے پر قابو نہیں پاتا، ترقی نہیں کرسکتا۔

اس سیشن میں سوالات کی اجازت نہ تھی۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ جنید کو بھی cross questioning کی اجازت نہ تھی. نہ جانے یہ ہودبھائی کی خواہش تھی یا ان کے گرد موجود میزبانوں کی جو ان کے احترام میں یہ چاہتے تھے کہ انٹرویو ''فرینڈلی'' ہی ہو اور کوئی سخت سوال نہ کیا جائے۔ اتفاق سے پرویز ہود بھائی کے جتنے انٹرویوز، پروگرام میں جانے سے پہلے ٹی وی پر دیکھے وہ سب فرینڈلی تھے۔ اس مضمون کا مقصد ان کے افکار پر کچھ سوالات نذرِ قارئین کرنا ہے جو ذہن میں آئے لیکن وقت کی کمی کے باعث پوچھ نہ سکی۔

میں ان سے یہ سوال پوچھنا چاہتی تھی کہ چین اور بھارت اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں اور اتفاق سے عرصے سے جی ڈی پی کی تیز ترین شرح کے لحاظ سے بھی دنیا بھر میں ٹاپ پر ہیں۔ تو کیا واقعی کسی قوم کی ترقی اس کی آبادی کے کم ہونے یا کنٹرول ہونے سے مشروط ہے؟

انڈیا کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی الیکشن مہم کے دوران سو کروڑ کی آبادی کا ذکر اپنی طاقت کے اظہار کے طور پر کرتے رہے ہیں۔ اور آج کی دنیا میں جہاں جنگیں معاشیات کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں اور جہاں cut-throat competition کا محاورہ زبان زد عام ہے تو بلا شبہ سو کروڑ کی مارکیٹ کو کسی بھی ملک کی طاقت گردانا جائے گا اور انڈیا شدید غربت کے باوجود بھی اپنی اس طاقت کو بیرونی تعلقات اور معاشی معاہدوں میں بخوبی مؤثر طریقے سے استمعال کر رہا ہے۔



دوسری طرف ہم سب اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک سے لے کر امریکا، کینیڈا اور یورپ تک کے شاپنگ مالز چین کی مصنوعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ جب انڈیا اور چین اپنی آبادی کو اپنی معیشت کی بہتری کےلیے استعمال کرسکتے ہیں تو ہودبھائی صاحب، کیا بڑھتی ہوئی آبادی کیا صرف پاکستان ہی کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟

میں یہ بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس وقت بہت سے ترقی یافتہ ممالک جن میں جرمنی اور جاپان جیسے صنعتی ممالک بھی شامل ہیں، آبادی کے شدید بحرانوں کا شکار ہیں۔ پورے یورپ میں کام کرنے والے نوجوانوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے اور کام کے بغیر پنشن لینے والے بوڑھوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آبادی میں مسلسل کمی سے جرمنی جیسے ممالک اتنے پریشان ہیں کہ بچے پیدا کرنے پر سرکار ماؤں کو کثیر مالی سہولتیں فراہم کرتی ہے مگر یہ جن ہے کہ قابو میں ہی نہیں آرہا۔

کیا ہمارے سیکھنے کےلیے بھی کچھ ہے اس بین الاقوامی منظر نامے میں؟ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کسی قوم کی بقا کےلیے آبادی کے جس شرح اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر مغربی ممالک اس کم از کم حد تک نہیں پہنچ پاتے۔ مغرب کی لاتعداد یونیورسٹیز اور تھنک ٹینکس میں اس موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر کچھ مغربی اخبارات کے لنکس حاضر ہیں جو شاید ہودبھائی کی نظر سے نہیں گزرے۔

نیویارک ٹائمز اگست 2013 کی ایک اشاعت میں لکھتا ہے کہ جرمنی اگلے 47 سال میں (یعنی 2060 تک) اپنی 19 فیصد آبادی سے محروم ہوجائے گا اور یہ صورت حال جرمنی ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام یورپ، آبادی کے اس بحران سے گزر رہا ہے۔ اسی مضمون کے مطابق جرمنی آبادی کی شرح میں کمی کو روکنے کےلیے 265 بلین یورو سالانہ فیملی سبسڈیز کی صورت میں دے رہا ہے مگر اس کے باوجود سرکار متوقع نتائج حاصل نہیں کر پارہی۔

اگست 2017 میں شائع ہونے والی برلن انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے کم شرح پیدائش اس وقت یورپ میں ہے اور سب سے زیادہ اوسط عمر بھی یورپ ہی میں ہے۔ گویا اس رپورٹ کے مطابق اب یورپ کو بوڑھا براعظم یا بوڑھوں کا براعظم کہا جا سکتا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ یورپ کی اپنی آبادی بچے پیدا کرنے پر راضی نہیں اور امیگرنٹس کے خلاف نسل پرستی کے جذبات کو ہر دہشت گرد حملہ بڑھا دیتا ہے۔ مغرب کی پوری سیاست اس وقت پناہ گزین مسئلے کے گرد گھوم رہی ہے۔

یورپی یونین کے مطابق 1960 میں یوروپ کے 27 ملکوں میں 57 لاکھ بچے پیدا ہوئے تھے جبکہ 2011 میں 31 ملکوں میں 45 لاکھ بچے پیدا ہوئے۔ پتا نہیں یہ اعداد و شمار جو مغربی پریس میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں، کبھی ڈاکٹر ہودبھائی کی نظر سے گزرے بھی ہیں یا نہیں؟

بھارت آبادی کی اس طاقت کو محض معاشی بہتری کےلیے ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کےلیے بھی استعمال کر رہا ہے جس کا اظہار کشمیری حریت پسند کمانڈر برہان وانی کی شہادت پر اس کی تصویر کو پروفائل فوٹو بنانے والے فیس بک صارفین کے اکاؤنٹس بند کروا کر کیا گیا۔

ہودبھائی صاحب! یہ تو آپ بھی مانتے ہیں کہ دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہورہی ہے؛ تو کیا بہتر یہ نہیں ہوگا کہ آپ جیسے ثقہ سائنس دان اور دانشور بجائے آبادی کم کرنے کی ترکیبیں سوچنے کے اپنی نوجوان آبادی کےلیے، جو خوش قسمتی سے پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہے، مناسب تعلیم و تربیت اور ٹریننگ کا انتظام کریں اور عزت و تکریم کے ساتھ نہ صرف اپنی لیبر کو ایکسپورٹ کریں بلکہ اس لیبر سے ملک میں بھی خود یا دوست ممالک کے تعاون سے ایسے منصوبے شروع کریں جن سے اس نوجوان آبادی کو اپنی طاقت کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔

ڈاکٹر صاحب! آپ کئی نامور بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ہیں اور رہے ہیں، پاکستان کی سائنس کمیونٹی میں بھی آپ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آپ ایسی پوزیشن پر ہیں کہ کوئی عملی قدم اٹھاسکتے ہیں۔



یہ وہ سوال تھا جو میں دوسرے کئی سوالوں کی طرح ڈاکٹر ہودبھائی سے نہ کرسکی کہ ارد گرد کے لوگ باقاعدہ ان کی حفاظت کر رہے تھے۔

پاکستانی معاشرے میں مولوی کا کردار

خیر، یہ وہ سوال تھا جو میں نہ پوچھ سکی مگر جنید کا اگلا سوال یہ تھا کہ آبادی کو کم کرنے کےلیے ہم کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟ ہودبھائی کا کہنا تھا کچھ بھی کرنا آسان نہیں کیونکہ مولوی یہ نہیں ہونے دے گا۔ ہم لوگوں سے کہتے ہیں کم بچے پیدا کرو اورمولوی یہ سکھاتا ہے کہ رزق دینے والا الله ہے۔

اب میرے لئے زبان بندی ممکن نہ رہی۔ بے ساختہ منہ سے نکلا کہ مولوی کی سنتا کون ہے، مولوی تو بیچارہ خود اپنے دین کو نہیں جانتا۔ ان کا برجستہ جواب یہ تھا کہ لاؤڈ اسپیکر تو مولوی ہی کے پاس ہے۔ ان کا جواب سننا تھا کہ ہر طرف سے داد و تحسین کے نعرے بلند ہونے لگے۔ میں مانتی ہوں، اور ہر سوچنے والا ذہن اس کی تائید بھی کرے گا، کہ مسجد کے لاوڈ سپیکر سے کہیں زیادہ طاقت ور اس وقت براڈ کاسٹ، کارپوریٹ اور سوشل میڈیا ہے۔ میں یہ نہ کہہ سکی کہ نقار خانے میں توتی کی کون سنتا ہے؟ پرویز ہودبھائی کی گفتگو اور شخصیت کا سحر کچھ ایسا تھا کہ تمام نشست گاہ پر مرعوبیت چھائی ہوئی تھی۔

مگر میرا اہل محفل سے اور خصوصاً بلند آواز سے ہودبھائی کی بات پر اتفاق کرنے والوں سے سوال ہے: ذرا سا آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد کو غور سے دیکھیے۔ آج پورا پاکستانی معاشرہ موبائل لے کر گھوم رہا ہے۔ تو کیا یہ مسجد کے مولوی نے کہا ہے؟ پاکستان کی تقریباً سو فیصد نوجوان آبادی اگر فیس بک پر وقت ضائع کرتی ہے تو کیا اس کا مشورہ کسی مولوی نے دیا ہے؟ پاکستان کے ہر گھر میں بالی ووڈ فلمیں دیکھی جاتی ہیں تو کیا یہ بھی مولوی کے کہنے پر ہورہا ہے؟ 99 فیصد پڑھے لکھے لوگ بھی اگر اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانے کو ہی تعلیم سمجھتے ہیں تو کیا مولوی ایسا چاہتا ہے؟ یہی لوگ اپنے بچوں کی تربیت اگر ایسے کررہے ہیں کہ تعلیم کا اصل مقصد محض اچھی ملازمت حاصل کرنا ہے تو یہ کسی مولوی کے کہنے پر کررہے ہیں؟ اگر بچے کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ تمہیں کسی بھی طرح (غلط یا صحیح) اچھے گریڈز حاصل کرنے ہیں تو کیا یہ خرابیاں جو ہمارے معاشرے کو گندے پانی کا جوہڑ بنارہی ہیں، مولوی کے لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے ہیں؟ مولوی سے شکایات مجھے بھی بہت ہیں مگر آٹھ ہزار روپے تنخواہ لینے والا مولوی بیچارہ خصوصاً مسجد کا امام تو اپنا دین صحیح طرح سے نہیں جانتا، وہ رائے عامّہ پر کیا اثر انداز ہوگا؟

اس وقت صرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں رائے عامّہ کو ہموار کرنے کا اصل کام نیوز میڈیا، اینٹرٹینمنٹ میڈیا، کارپوریٹ میڈیا اور ان سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کررہا ہے۔ مگر شاید ہودبھائی کو یہ معلوم نہیں۔ خود ان کی مذکورہ نورین لغاری کیا مسجد کے کسی خطبے کو سن کر داعش کے کسی رکن کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئیں؟ نہیں جناب نورین لغاری سوشل میڈیا پر داعش کے ایک جہادی پر فدا ہوئیں اور وہ مدرسے کی نہیں میڈیکل کالج کی طالبہ تھیں، اور غالباً ہیں۔

پاکستان میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی

اس سے اگلے مرحلے پر ہودبھائی صاحب نے پاکستان میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا قصّہ چھیڑ دیا۔ ان کے پروگرام باقاعدگی سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو وہ پاکستانیوں کے دہشت گرد ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔

میں ان سے یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ہورہی ہے اور پاکستانی ہی کررہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گرد یعنی پاکستانی طالبان 9/11 تک کہاں چھپے ہوئے تھے؟ ان پر مولوی کے خطبے کا اثر کیوں نہیں ہورہا تھا؟ ریکارڈ کے مطابق 9/11 سے پہلے پاکستان میں صرف ایک خود کش دھماکا ہوا تھا اور وہ بھی 1996 میں القاعدہ نے اسلام آباد کے مصری سفارت خانے پر کیا تھا۔ یعنی 1947 سے لے کر 2001 تک، پاکستان کی 54 سالہ تاریخ میں صرف ایک خود کش دھماکا! اب آئیے 9/11 کے بعد کی صورت حال کی طرف۔ 2001 سے لے کر 2011 تک، اگلے دس سال میں 3847 بم دھماکوں اور 381 خود کش حملوں میں 35000 پاکستانی دہشت گردی کی وارداتوں میں مارے گئے۔ کیا ہودبھائی صاحب ان اعداد و شمار کی کوئی تاویل پیش کرسکتے ہیں؟ اگر انتہاء پسندی مولوی کے خطبے کی وجہ سے ہی بڑھ رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ 9/11 کے بعد ہی کیوں مولوی کے لاؤڈ اسپیکر نے کام کرنا شروع کیا؟ اس سے پہلے ان کی آواز کہاں سنی جاتی تھی؟

اگر سوالات کی اجازت ہوتی اور وقت ہوتا تو میں ہود بھائی کو یہ بھی یاد دلاتی کہ تحریک طالبان پاکستان کا قیام کب عمل میں آیا اور کونسا واقعہ وزیرستان کے عوام اور پاکستانی فوج میں مخاصمت کا محرک بنا؟ ہودبھائی صاحب، تحریک طالبان پاکستان جسے ''ٹی ٹی پی'' بھی کہا جاتا ہے اور جو پاک فوج کے علاوہ اے پی ایس پشاور میں معصوم بچوں کے بہیمانہ قتل کی بھی ذمہ دارہے، اس کا قیام 2007 میں عمل میں آیا۔ لیکن اس سے قبل قبائلی علاقے کے عوام جو پاکستان کے قیام سے لے کر پاکستان کی مغربی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہے تھے، اچانک پاک فوج کے خلاف ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ قبائلی اچانک پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف کیوں ہوگئے؟

صاحب آپ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف اتنا بولتے ہیں، آپ کی امن پسندی کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ آپ کو تو یاد ہونا چاہیے کہ اے پی ایس پشاور سے پہلے بھی کسی واقعے میں پاکستانی بچے بڑی تعداد میں مارے گئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ شاید ہم انہیں پاکستانی نہ سمجھتے ہوں۔

جی ہاں، یہ اکتوبر 2006 کی بات ہے جب وزیرستان کے علاقے باجوڑ کے ایک مدرسے پر فجر سے پہلے ڈرون حملہ کیا گیا اور وضو اور نماز میں مصروف ساٹھ سے زائد بچوں نے اپنی جانیں، جان دینے والے کے حوالے کردیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے اس کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی اور کہا گیا کہ بمباری ہم نے کی مگر بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ وزیرستان پر پہلا امریکی ڈرون حملہ تھا جس میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر امریکیوں کو سپورٹ فراہم کررہے تھے۔ پاک فوجی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد تھے۔ بعد ازاں پاکستانی اخبار دی نیوز نے اپنی انویسٹی گیشن رپورٹ میں مارے جانے والوں کے نام، ولدیت اور گاؤں کے نام شائع کیے جن میں ساٹھ سے زائد پانچ سے پندرہ سال کے طلباء شامل تھے۔ ہودبھائی جیسے دانشوروں کو تو اظہار مذمت کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی ہوگی کہ دہشت گرد پانچ سال کا ہو یا اسی سال کا، دہشت گرد ہی ہوتا ہے۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان معصوم بچوں کے جنازوں کو سامنے رکھ کر پہلی بار ان قبائلیوں نے قسم کھائی تھی کہ پاک فوج سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ اور اس سے اگلے ہی مہینے ایک خود کش بمبار نے اپنے آپ کو سوات کے ایک ملٹری کیمپ میں اڑا دیا جس سے 42 پاکستانی فوجی شہید ہوگئے۔ یاد رہے کہ حملے کا محرک مولوی نہیں تھا بلکہ ایک مہینہ پہلے مدرسے میں مارے جانے والے پھول جیسے بچے تھے۔

ہودبھائی پاک فوج اور قبائلیوں کے مابین اس مخاصمت بلکہ خوں آشام دشمنی کا ذکر تو بہت کرتے ہیں مگر واقعات و شواہد کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ کبھی امریکی ڈرونز کا تذکرہ بھی نہیں کرتے۔

ہودبھائی کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک اسکول کے واقعے کے بعد پاکستانی فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کےلیے سنجیدہ ہوئی۔ پاکستان کے انتہاء پسندی کے منظرنامے پر آپ کی اتنی گہری نظر ہے، کیا آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ باجوڑ واقعے کے بعد ہی اگر فوج سنجیدہ ہوجاتی تو آج پاکستان میں صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

پاکستان انتہاء پسندی کا سرخیل ہے، امریکا اور بھارت اس کے پیچھے چل رہے ہیں

اس سے اگلے مرحلے کے کسی سوال پر انڈیا کا تذکرہ آگیا۔ ہودبھائی کا کہنا تھا کہ بھارت ابھی نیا نیا پاکستان کے نقش قدم پر چلنا شروع ہوا ہےاور مودی کے دور میں انڈیا میں بھی انتہاء پسندی شروع ہوگئی ہے ورنہ بھارت میں اس سے قبل یہ نہیں پائی جاتی تھی۔ اب پھر میرے لیے لقمہ دینا ضروری ہوگیا کہ 1992 میں بابری مسجد کو گرائے جانے کے وقت مودی کی حکومت نہیں تھی۔ نہ ہی 1993 میں بمبئی فسادات کے وقت اور نہ ہی 2002 میں گجرات سانحے کے وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ تو انتہاء پسندی انڈیا میں کوئی ابھی نئی نئی تو بڑھنا شروع نہیں ہوئی، اس کی تاریخ تو ہماری انتہاء پسندی سے (جو جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے 9/11 سے شروع ہوئی ہے) بہت پرانی ہے۔ اس سوال کا جواب ہودبھائی نے دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ بغیر دلیل کے اپنا مؤقف دہرا دیا۔

اگر مزید موقعہ دیا جاتا تو میں پوچھتی کہ گاندھی جی کو کسی پاکستانی یا مسلمان نے نہیں مارا تھا، انڈیا ہی کے ایک انتہاء پسند نے مارا تھا اور آج نہیں مارا بلکہ ستر سال پہلے مارا تھا۔ 1984 میں اندرا گاندھی اور 1991 میں راجیو گاندھی کو مارنے والا بھی کوئی مسلمان یا پاکستانی نہیں تھا۔

پاکستانی نصاب انتہاء پسندی میں اضافے کا باعث ہے

ہودبھائی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتہاء پسندی کے فروغ کی وجہ مولوی اور ہمارا نصاب ہے جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ فلاں قوم پلید ہوتی ہے۔ اس کے عبادت خانے گندے ہوتے ہیں۔ خودنمائی محسوس نہ ہو تو میں کہنا چاہوں گی کہ میں نے پرائمری اسکول سے لے کر آئیبی اے جیسے مستند تعلیمی ادارے تک میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ خود میرے بچوں نے مشرق وسطیٰ میں انڈیا کے سی بی ایس تعلیمی بورڈ کا سلیبس فالو کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں چند سال پہلے جنریشنز اسکول کراچی اے اور او لیول کے ٹیچنگ اسٹاف کو لیکچرز بھی دیتی رہی ہوں۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق طویل عرصہ پاکستانی اسکولوں کا نصاب پڑھنے اور بعد ازاں اس پر ریسرچ کے باوجود مجھے نصاب کی کسی کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں ملی جو ہودبھائی کے دعوے کی تصدیق کرتی ہو۔ (پاکستان اور انڈیا کے سرکاری نصابوں میں معیار کا جو فرق ہے، اس کا تذکرہ ان شاللہ کسی اور مضمون میں کروں گی۔)

سوالوں کی باری آئی تو مجھے صرف ایک سوال کی اجازت دی گئی۔ میرا سوال تھا کہ پاکستان میں اگر مولوی اشتعال دلا کر انتہاء پسندی بڑھا رہا ہے اور اقلیتوں اور بھارت کے خلاف عوام کو اکسا رہا ہے تو بھارت کی تو ملٹی بلین ڈالر فلم انڈسٹری اس کام پر لگی ہوئی ہے کہ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائے۔ اس سوال کو بھی ہود بھائی صاحب گول کرگئے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آج سے نہیں، پچھلی دو تین دہائیوں سے متعدد ایسی فلمیں سامنے آئی ہیں جن میں پاکستان کے خلاف باقاعدہ ایجنڈے کے تحت نفرت انگیز زبان استعمال کی گئی۔ کیا اسے روکنے کی کبھی ضرورت محسوس کی گئی؟ اور بالی ووڈ میں تو پھر سو میں سے کسی ایک فلم میں کبھی تصویر کے دونوں رخ پیش کر دیئے جاتے ہیں، ہالی ووڈ تو مسلسل تصویر کا صرف ایک ہی رخ دکھاتا ہے۔ اس سے تو اس بات کی امید ہی نہیں کی جاسکتی کہ ہیرو یا protagonist کبھی عراق یا افغانستان کا جنگ زدہ باشندہ بھی ہوسکتا ہے جو سپر پاور کی مسلط جنگ کی تباہ کاریوں کے بارے میں دنیا کو بتاسکے۔ اگر کسی عرب یا مسلمان کو فلم میں دکھایا بھی جاتا ہے تو دہشت گرد ہی کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ تو کیا اس سے کسی ایک قوم کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوتی؟ اس سے قبل جرمن اور روسی قوم کے ساتھ بھی عرصے تک یہی رویہ جاری رہا ہے۔

اقلیتوں کے ساتھ سلوک

ہودبھائی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ بہت بہتر سلوک ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتیں پاکستان میں اتنی ڈری ہوئی ہیں کہ انہوں نے اپنے نام بھی پاکستانی اور مسلمانوں جیسے رکھ لئے ہیں۔ یہ سب کچھ انڈیا سے آنے والی ان خبروں کے بعد تھا جن کے مطابق نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس وقت تک 64 افراد کو ''گئو رکشا'' (گائے کی حفاظت) کا بہانہ کرکے مارا جاچکا تھا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا کہ پاکستان میں بھی توہینِ رسالت (blasphemy) کا بہانہ کرکے lynching کے واقعات ہوئے جن میں مشال خان کے علاوہ ایک عیسائی جوڑے کا قتل بھی پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر کلنک کا ٹیکا ہے جس کا سدباب ہر صورت ہونا چاہیے۔ مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ انڈیا کے اعداد و شمار کےلحاظ سے یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔

میرے نزدیک انتہاء پسندی کے حوالے سے دو پڑوسی ملکوں میں مقابلہ مناسب نہیں لیکن اسی طرح تاریخی ریکارڈز اور اعداد و شمار کی موجودگی میں یہ کہنا کیسے مناسب ہے کہ انڈیا کو انتہاء پسندی پاکستان نے سکھائی ہے؟ گفتگو کے اختتام میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا بھی پاکستان کی دیکھا دیکھی اب انتہا پسندی کی راہ پر جارہا ہے۔ میرا خیال ہے ان کی اس رائے پر میرے تبصرے یا کسی سوال کی ضرورت نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔