آہ اعصاب پر آلو ہے سوار
صحت و صفائی کے ہر میگزین میں آلو پر مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں
''ملزم راحی تم نے خودکشی کی کوشش کیوں کی تھی؟ اگر کانسٹیبل شرافت نے تمھیں دیکھ نہ لیا ہوتا تو تم دوسری دنیا میں پہنچ چکے ہوتے۔'' وکیل نے اس سے پوچھا۔
راحی 25 برس کا ایک تندرست و توانا شخص تھا، مگر تندرستی اس پر کچھ زیادہ ہی غالب تھی۔ وہ اتنا گول مٹول تھا کہ اسے ہاتھی سے تشبیہہ دی جا سکتی تھی۔ وہ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتا تھا۔ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی تعلیم واجبی سی تھی اور وہ والدین سے لڑ کر لاہور سے کراچی آگیا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر لیٹ کر سو جاتا تھا۔ اس نے اپنے گنبد نما پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ''جناب عالی! میں نے آلو کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔''
''آلو! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟'' کئی استعجابیہ آوازیں ابھریں۔
''وضاحت کرو کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟''
''جناب عالی! میں مجبور و لاچار شخص ہوں۔ میری کہانی بہت المناک ہے۔ بچپن سے جوانی تک میں آلو کی زد میں رہا ہوں۔ یہ گزشتہ بائیس برس سے میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نے اس سے ہر ممکن پیچھا چھڑانے کی کوشش کی، مگر ممکن نہ ہوا۔ ہوٹلوں، ریستورانوں، اسنیک بارز، سنیماہالوں اور جلسہ گاہوں میں اس کا سامنا کرتے کرتے میرا دل و دماغ پریشان ہوگیا ہے۔ اب میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔ اسے دیکھ کر مجھ پر دورہ سا پڑنے لگتا ہے۔ میرے جثے پر نگاہ ڈالیے، میرا کیا حال ہوگیا ہے۔ اب تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا ہوں۔ میری یہ حالت اسی آلو کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جب میں مدرسے میں پڑھنے جاتا تھا تو آلو چھولے اور آلو چاٹ کی لذت آمیز آوازیں میری سماعت سے ٹکراتی تھیں۔ میں کہاں تک انھیں نظر انداز کرتا۔ میں نے روز یہ چیزیں معدے میں اتارنا شروع کر دیں۔
اس کے بعد آلو پوری اور سموسوں سے نمٹتا رہا۔ شام کی چائے کے ساتھ تو یہ لازم وملزوم ہوگئے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ مجھے آلو کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا تھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ان کمپنیوں کو بھی سزا دیجیے جو پوٹیٹو چپس کو نت نئی رنگ برنگی تھیلیوں میں پیش کرتے ہیں۔ چپس بے حد ذائقے دار ہوتے ہیں، میں نے ان تھیلیوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا بدن مائل بہ فربہی ہوگیا۔ اسکول کے ساتھی مجھے ''گینڈا'' کہنے لگے۔ چھٹی ہونے پر جب میں کھانے کے لیے کسی ہوٹل میں داخل ہوتا تو وہاں بھی یہ نامعقول پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ بیرے سے پوچھتا تھا کہ کھانے میں کیا ہے تو وہ کہتا ''آلو بیگن، آلو پالک، آلو میتھی، آلو ٹماٹر اور آلو مٹر۔''
میرا تو قافیہ تنگ ہوگیا۔ اٹھتے بیٹھتے آلو۔ جدھر نظر دوڑاتا آلو۔ ملک کے سب سے بڑے مفکر، محترم لاچار لکھنوی نے اپنے ایک طویل مقالے ''آلو، پیاز اور کائنات۔ میرانظریہ'' میں فرمایا ہے کہ ایک بار آلو جس کے پیچھے لگ جائے تو اس کی جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔ اس لیے حتی الامکان اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کا فرمان ہے کہ انگریز ہند و پاک تو چھوڑ کر چلا گیا، مگر ہمارے اعصاب پر آلو سوار کرا دیے۔ غالباً اسی لیے علامہ نے جھنجلا کر کہا تھا ''آہ تمہارے اعصاب پر آلو ہے سوار''۔
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آخر کب تک انسانیت آلو کے بوجھ تلے پستی رہے گی۔ وہ کون سا دن ہوگا جب ہماری ہانڈی آلو کے بغیر چڑھے گی؟ اس کا قابض وجود کب تک ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہے گا۔ میں اﷲ سے دعا مانگتا ہوں کہ مجھے اس دنیا سے اٹھا لے، ورنہ آلو گوشت، آلو پراٹھے، آلو شوربہ، آلو سیم اور آلو کی بھجیا کی کثرت استعمال سے مجھے آلو کا کینسر ہوجائے گا۔''
اس نوجوان کا بیان سن کر جج جیوری اور حاضرین عدالت پر رقت طاری ہوگئی، بہت سے افراد کو آنسو اور کچھ کو ناک بھی پونچھتے دیکھا گیا۔ جیوری نے فیصلہ کیا کہ آلو کو عدالت میں بلایا جائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔
آلو نے عدالت میں آکر اپنی صفائی پیش کی۔
''جناب عالی! میں حقیر، کم قیمت بکنے والا، ہمیشہ سے نچلے طبقے کا من پسند کھاجا ہوں۔ میں غریب پرور، سخی سرور ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں قابض اور بادی ہوں، لیکن کیا یہ میرا کمال نہیں بیس روپے میں لوگوں کا پیٹ بھر دیتا ہوں۔ میں آکسیجن کی مانند بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ، مگر جب دوسری چیزوں کے ساتھ آمیزش کی جائے تو بہت لطف دیتا ہوں۔ سادگی، نفاست اور امن پسندی کا یہ حال ہے میں ہمہ وقت دوسری سبزیوں کے ساتھ کانفیڈریشن بنانے کو تیار رہتا ہوں۔ گوبھی، پالک، میتھی اور سیم کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میری وجہ سے ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے، ورنہ انھیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ مڈل کلاس کا آدمی مجھے کچل پیس کر میرا بھرتہ بنا دیتا ہے، پھر اس کے کٹلس بنا کر خوش ہوتا ہے۔
اسے معلوم نہیں ہے کہ میں غذائی قلت دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہوں۔ میں ماہرین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ گندم کا پیچھا چھوڑ کر میری طرف توجہ دیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کیا آلو کی روٹی تیار نہیں کی جاسکتی؟ جب مجھے کشید کرکے چینی تیار کی جاسکتی ہے تو پھر کیا رہ جاتا ہے؟ مشہور محقق بیکس بگلا بھکتی نے اپنے مقالے ''آلو ہی آلو'' میں لکھا ہے کہ وہ فلم ساز جو منفرد فلمیں بناتے ہیں، ان میں سے ایک نے ''انسان اور آدمی'' بنائی ہے، دوسرے نے ''انسان اور گدھا''، اب سننے میں آیا ہے کہ جلد ہی ایک اور فلم ''انسان اور آلو'' بھی بنائی جانے والی ہے۔ صحت و صفائی کے ہر میگزین میں آلو پر مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔
شاعری کا ایک مجموعہ ''آلو نامہ'' جو میں نے لکھا ہے اور آپ نے بھی پڑھا ہوگا۔ سستی سبزی ہونے کے سبب میری جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ اب بریانی میںآلو ڈالنے لگے ہیں۔ کیا میں مفلسی اور ناداری کا سمبل نہیں ہوں۔ کیا میں زندگی کے تمام شعبوں پر چھایا ہوا نہیں ہوں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا میں ہر جگہ آلو ہی آلو نظر آتا ہے۔ کیا آپ مجھ پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر دنیا میں بے رونقی چھا جائے گی۔''
آلو کا بیان سن کر عدالت میں کھلبلی مچ گئی۔ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کرنے لگا۔ جج نے اپنا ہتھوڑا میز پر بجا کر ''آرڈر، آرڈر'' کہا۔ عدالت میں موجود لوگ ہمہ تن (خر) گوش ہوگئے۔
''مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سننے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آلو اور ہم اس طرح سے لازم و ملزوم ہیںکہ ہم چاہیں بھی تو اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ میں فیصلہ کرتا ہوں کہ آلو کا استعمال جائز ہے، اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، لیکن اس کا استعمال انھی لوگوں کو کرنا چاہیے جو کمزور اور ناتواں ہوں یا جن کے جسم میں کاربوہائیڈرٹس کی کمی ہو۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ روزانہ آلو کی نہاری بنا کر کھائیں، اس کی بھجیا بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس سے ان کا بدن خوب پھول جائے گا۔''
جج کا فیصلہ سن کر عدالت میں بیٹھے کمزور لوگوں کو آلو سے اتنی رغبت پیدا ہوگئی کہ وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے منٹوں میں چٹ کرگئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آج ہی مارکیٹ جاکر آلوؤں کی ایک بوری خرید لیں گے اور روزانہ آلو کی کوئی نہ کوئی ڈش بناکر کھائیں گے۔ عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ اسے کھانا ثواب نہیں تو عذاب بھی نہیں۔ آلو کھانے کے لیے وقت کی بھی کوئی قید نہیں ہے، چاہے صبح کھائیں، دوپہر کو یا رات کو۔ آلو کی بوری خرید کر کافی دنوں تک گھر میں رکھی جاسکتی ہے۔ ہر اعتبار سے فائدہ ہی فائدہ۔
راحی 25 برس کا ایک تندرست و توانا شخص تھا، مگر تندرستی اس پر کچھ زیادہ ہی غالب تھی۔ وہ اتنا گول مٹول تھا کہ اسے ہاتھی سے تشبیہہ دی جا سکتی تھی۔ وہ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتا تھا۔ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی تعلیم واجبی سی تھی اور وہ والدین سے لڑ کر لاہور سے کراچی آگیا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر لیٹ کر سو جاتا تھا۔ اس نے اپنے گنبد نما پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ''جناب عالی! میں نے آلو کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔''
''آلو! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟'' کئی استعجابیہ آوازیں ابھریں۔
''وضاحت کرو کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟''
''جناب عالی! میں مجبور و لاچار شخص ہوں۔ میری کہانی بہت المناک ہے۔ بچپن سے جوانی تک میں آلو کی زد میں رہا ہوں۔ یہ گزشتہ بائیس برس سے میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نے اس سے ہر ممکن پیچھا چھڑانے کی کوشش کی، مگر ممکن نہ ہوا۔ ہوٹلوں، ریستورانوں، اسنیک بارز، سنیماہالوں اور جلسہ گاہوں میں اس کا سامنا کرتے کرتے میرا دل و دماغ پریشان ہوگیا ہے۔ اب میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔ اسے دیکھ کر مجھ پر دورہ سا پڑنے لگتا ہے۔ میرے جثے پر نگاہ ڈالیے، میرا کیا حال ہوگیا ہے۔ اب تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا ہوں۔ میری یہ حالت اسی آلو کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جب میں مدرسے میں پڑھنے جاتا تھا تو آلو چھولے اور آلو چاٹ کی لذت آمیز آوازیں میری سماعت سے ٹکراتی تھیں۔ میں کہاں تک انھیں نظر انداز کرتا۔ میں نے روز یہ چیزیں معدے میں اتارنا شروع کر دیں۔
اس کے بعد آلو پوری اور سموسوں سے نمٹتا رہا۔ شام کی چائے کے ساتھ تو یہ لازم وملزوم ہوگئے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ مجھے آلو کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا تھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ان کمپنیوں کو بھی سزا دیجیے جو پوٹیٹو چپس کو نت نئی رنگ برنگی تھیلیوں میں پیش کرتے ہیں۔ چپس بے حد ذائقے دار ہوتے ہیں، میں نے ان تھیلیوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا بدن مائل بہ فربہی ہوگیا۔ اسکول کے ساتھی مجھے ''گینڈا'' کہنے لگے۔ چھٹی ہونے پر جب میں کھانے کے لیے کسی ہوٹل میں داخل ہوتا تو وہاں بھی یہ نامعقول پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ بیرے سے پوچھتا تھا کہ کھانے میں کیا ہے تو وہ کہتا ''آلو بیگن، آلو پالک، آلو میتھی، آلو ٹماٹر اور آلو مٹر۔''
میرا تو قافیہ تنگ ہوگیا۔ اٹھتے بیٹھتے آلو۔ جدھر نظر دوڑاتا آلو۔ ملک کے سب سے بڑے مفکر، محترم لاچار لکھنوی نے اپنے ایک طویل مقالے ''آلو، پیاز اور کائنات۔ میرانظریہ'' میں فرمایا ہے کہ ایک بار آلو جس کے پیچھے لگ جائے تو اس کی جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔ اس لیے حتی الامکان اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کا فرمان ہے کہ انگریز ہند و پاک تو چھوڑ کر چلا گیا، مگر ہمارے اعصاب پر آلو سوار کرا دیے۔ غالباً اسی لیے علامہ نے جھنجلا کر کہا تھا ''آہ تمہارے اعصاب پر آلو ہے سوار''۔
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آخر کب تک انسانیت آلو کے بوجھ تلے پستی رہے گی۔ وہ کون سا دن ہوگا جب ہماری ہانڈی آلو کے بغیر چڑھے گی؟ اس کا قابض وجود کب تک ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہے گا۔ میں اﷲ سے دعا مانگتا ہوں کہ مجھے اس دنیا سے اٹھا لے، ورنہ آلو گوشت، آلو پراٹھے، آلو شوربہ، آلو سیم اور آلو کی بھجیا کی کثرت استعمال سے مجھے آلو کا کینسر ہوجائے گا۔''
اس نوجوان کا بیان سن کر جج جیوری اور حاضرین عدالت پر رقت طاری ہوگئی، بہت سے افراد کو آنسو اور کچھ کو ناک بھی پونچھتے دیکھا گیا۔ جیوری نے فیصلہ کیا کہ آلو کو عدالت میں بلایا جائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔
آلو نے عدالت میں آکر اپنی صفائی پیش کی۔
''جناب عالی! میں حقیر، کم قیمت بکنے والا، ہمیشہ سے نچلے طبقے کا من پسند کھاجا ہوں۔ میں غریب پرور، سخی سرور ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں قابض اور بادی ہوں، لیکن کیا یہ میرا کمال نہیں بیس روپے میں لوگوں کا پیٹ بھر دیتا ہوں۔ میں آکسیجن کی مانند بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ، مگر جب دوسری چیزوں کے ساتھ آمیزش کی جائے تو بہت لطف دیتا ہوں۔ سادگی، نفاست اور امن پسندی کا یہ حال ہے میں ہمہ وقت دوسری سبزیوں کے ساتھ کانفیڈریشن بنانے کو تیار رہتا ہوں۔ گوبھی، پالک، میتھی اور سیم کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میری وجہ سے ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے، ورنہ انھیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ مڈل کلاس کا آدمی مجھے کچل پیس کر میرا بھرتہ بنا دیتا ہے، پھر اس کے کٹلس بنا کر خوش ہوتا ہے۔
اسے معلوم نہیں ہے کہ میں غذائی قلت دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہوں۔ میں ماہرین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ گندم کا پیچھا چھوڑ کر میری طرف توجہ دیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کیا آلو کی روٹی تیار نہیں کی جاسکتی؟ جب مجھے کشید کرکے چینی تیار کی جاسکتی ہے تو پھر کیا رہ جاتا ہے؟ مشہور محقق بیکس بگلا بھکتی نے اپنے مقالے ''آلو ہی آلو'' میں لکھا ہے کہ وہ فلم ساز جو منفرد فلمیں بناتے ہیں، ان میں سے ایک نے ''انسان اور آدمی'' بنائی ہے، دوسرے نے ''انسان اور گدھا''، اب سننے میں آیا ہے کہ جلد ہی ایک اور فلم ''انسان اور آلو'' بھی بنائی جانے والی ہے۔ صحت و صفائی کے ہر میگزین میں آلو پر مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔
شاعری کا ایک مجموعہ ''آلو نامہ'' جو میں نے لکھا ہے اور آپ نے بھی پڑھا ہوگا۔ سستی سبزی ہونے کے سبب میری جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ اب بریانی میںآلو ڈالنے لگے ہیں۔ کیا میں مفلسی اور ناداری کا سمبل نہیں ہوں۔ کیا میں زندگی کے تمام شعبوں پر چھایا ہوا نہیں ہوں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا میں ہر جگہ آلو ہی آلو نظر آتا ہے۔ کیا آپ مجھ پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر دنیا میں بے رونقی چھا جائے گی۔''
آلو کا بیان سن کر عدالت میں کھلبلی مچ گئی۔ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کرنے لگا۔ جج نے اپنا ہتھوڑا میز پر بجا کر ''آرڈر، آرڈر'' کہا۔ عدالت میں موجود لوگ ہمہ تن (خر) گوش ہوگئے۔
''مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سننے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آلو اور ہم اس طرح سے لازم و ملزوم ہیںکہ ہم چاہیں بھی تو اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ میں فیصلہ کرتا ہوں کہ آلو کا استعمال جائز ہے، اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، لیکن اس کا استعمال انھی لوگوں کو کرنا چاہیے جو کمزور اور ناتواں ہوں یا جن کے جسم میں کاربوہائیڈرٹس کی کمی ہو۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ روزانہ آلو کی نہاری بنا کر کھائیں، اس کی بھجیا بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس سے ان کا بدن خوب پھول جائے گا۔''
جج کا فیصلہ سن کر عدالت میں بیٹھے کمزور لوگوں کو آلو سے اتنی رغبت پیدا ہوگئی کہ وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے منٹوں میں چٹ کرگئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آج ہی مارکیٹ جاکر آلوؤں کی ایک بوری خرید لیں گے اور روزانہ آلو کی کوئی نہ کوئی ڈش بناکر کھائیں گے۔ عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ اسے کھانا ثواب نہیں تو عذاب بھی نہیں۔ آلو کھانے کے لیے وقت کی بھی کوئی قید نہیں ہے، چاہے صبح کھائیں، دوپہر کو یا رات کو۔ آلو کی بوری خرید کر کافی دنوں تک گھر میں رکھی جاسکتی ہے۔ ہر اعتبار سے فائدہ ہی فائدہ۔