ہاں میں لبرل ہوں
ماں تو سب کے لیے ماں ہوتی ہے، تو پھر کس طرح اپنے بچوں میں فرق کر سکتی ہے
ISLAMABAD:
گدھ جو منڈلاتے رہتے ہیں، تہذیبوں پر کبھی ایسے دن بھی آتے ہیں جب بازار سجائے جاتے ہیں، نیلامی اور بولیوں کی صدائیں ہوتی ہیں۔ میرے وطن عزیز پر جو دن آئے ہیں، کہیں کوئی تو ہو کہ میں سب غبار اپنے وجود کا نکال سکوں، میرا دل بھی ہلکا ہو اور موج سفینہ کہیں تو ٹھہرے۔ مجھے کیا، میں اپنی عمر سے بڑا تو نہیں، انتہائی سچ کے ساتھ یہ کہوں کہ میں اپنے عمر کا نقاد ہوں اور جتنی بھی میری بساط ہے میں اس سے قطعی زیادہ نہیں۔ اور اسی طرح ہم سب ہیں اور اسی طرح ہی ہمیں ہونا چاہیے اپنے عہد کا عکاس۔ بے رحم نقاد۔ میری دور اندیشی میں اس دفعہ ایک دھند ہے جو میرے آنکھوں کے آگے ہے، ایک شب گزیدہ ہے جو ٹھہر گئی ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ سب شمعیں بے نور ہوگئی ہیں۔ مگر چونکہ مایوسی میرے سخن کا حرف نہیں اور فیضؔ کے سخن پازیب پہن میرے کانوں میں ہمیشہ سرگوشیاں کرتے ہیں، جیسے ایک دستک دیتے ہیں۔
کب جان لہو ہو گی
کب اشک گوہر ہو گا
کس دن تیری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصل گل، کب بہکے گا مہ خانہ
کب صبح سخن ہو گی، کب شمع نظر ہو گی
کب ٹھہرے گا درد دل، کب رات بسر ہو گی
سنتے ہوئے آئے ہیں، سنتے ہیں سحر ہو گی
کتنا تاریک ہے سب کچھ میرے ارد گرد، کتنی سیاہی ہے چاروں اور، مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں، چین اک پل نہیں، اور کوئی حل نہیں، وہ شاید اس لیے کہ میں نہیں ہوں اور جیت میرے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ کئی زمانوں تک یہ زندگی سیاست کے نام کی ہے کہ میرے لیے سب سے عظیم کام سیاست تھی۔ سیاست جو براہ راست لوگوں سے جڑی ہوئی ہے اور لوگوں کو جلا سیاست سے ہی ملتی ہے اور لوگوں کی تباہی بھی سیاست سے ہوتی ہے۔ میں ایک ایسے خاندان سے پلا بڑھا جہاں سیاست گھر کے آنگن میں بیل کے شاخ کی طرح اپنی خوشبو کے ساتھ پروان چڑھی تھی۔ پابند سلاسل تو کبھی رسوا سرِ بازار، کبھی وطن بدر اور کبھی سفر نگر نگر۔ دہقانوں کے جھگڑے، عدالتوں کے جھمیلے، کبھی اس جلسے میں تو کبھی شاگردوں کے ساتھ تامرگ بھوک ہڑتال پر، سب میرے آنگن میں پلے بڑھے اور یہی رہا ہمارا اوڑھنا بچھونا۔ مگر اب سیاست کا کیا معیار رہ گیا ہے، میری بات جو نقارخانے میں طوطی کی مانند تھی، اب کفر بن چکی ہے۔ میرے اجداد نے پاکستان اس لیے تو نہیں بنایا تھا کہ صوفیوں کی دھرتی صوفیوں کے لیے تنگ ہو جائے۔ ہر وہ ہی سچل ہے جو کہتا ہے
خاصیار کھڑے مسئلہ ڈسیندا
عشق شرع کیا لگے رہے قاضی
ہاں وہ بھگت کبیر تھا، کوئی جلال الدین رومی تھا، سعدی تھا یا جامی تھا، یا وہ بھٹائی کا سخن ہے کہ وہ سورمیوں کو سہیلیوں کی طرح ساتھ لے کر زن کی آنکھ دنیا کی تصویر کھینچتا تھا۔
ایک بلا تھا کوئی باہو تھا۔ یہ سارے میرے سوچوں کا عکس ہیں۔ وہ کتنے سارے ناول تھے، کتنی ساری کہانیاں تھیں اور لوریاں تھیں جو اماں سے سنیں، دادی سے سنیں۔ یہاں پال سارتر تھے، کامیو، ترگنیف لورکا تھے، دوستوفسکی، چیخوف پشکن، ٹالسٹائے، مایاکووسکی، اور میری زندگی کا سب سے پہلا ناول میکسم گورکی کا ''ماں'' اور مزید طویل داستانیں جو یونان سے شروع ہوئیں اور سقراط اور پلوٹو سے گھومتی ہوئی جرمن رومینٹک فلاسفر ہیگل، کانٹ، مارکس، اینگلز، پھر روسو، کتنے سارے قصے، کتنی ساری کہانیاں اور ناول میرا عکس ہیں، ہاں میں لبرل ہوں۔ میں اعترافاً کہتا ہوں کہ قائداعظم بھی لبرل تھے، بینظیر، ذوالفقار علی بھٹو اور وہ میرے سجاد ظہیر، سب لبرل تھے۔ قرۃ العین حیدر، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، سب لبرل تھے۔ میر تقی میر اور غالب کے زمانے میں شاید یہ لفظ ''لبرل'' ایجاد نہیں ہوا تھا لیکں اپنے نظریے اور سوچ میں وہ بھی لبرل ہی تھے۔ وسیع المشرب تھے، ہمیں کوئی لبرل کے معنی تو سمجھائے، کوئی آکسفورڈ ڈکشنری کھول کر اس کی تشریح تو دیکھ لے۔ ہمارے آئین میں بنیادی حقوق کا جو باب ہے، اس کا مفہوم کیا ہے؟ یہ صدیوں سے اس تحریک کا ثمر ہے جس کی بنیاد لبرلز نے ڈالی تھی۔ فرد کی آزادی کی جدوجہد اور عورت اور مرد برابر برابر ہیں اس کی جہد۔ ہمارے آرٹیکل 20 کہ جیسے تمام افراد کو ان کے مذاہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی جہد، عبادت کرنے کی جہد، اقلیتیوں کے حقوق کی جہد، عورتوں کے حقوق کی جہد، یہ لبرل ہی تو ہے تمام دنیا میں مہذب آئینوں کا امین۔ کل ہم نے سیکولر لفظ پر داغ لگا کر اسے لادینیت بنا دیا۔ سیکولر لفظ کے معنی ہیں دنیاوی، اور آہستہ آہستہ ہر لفظ بدلتے بدلتے ریاست اور دین کے متبادل بن گیا۔ کیونکہ ماں تو سب کے لیے ماں ہوتی ہے، تو پھر کس طرح اپنے بچوں میں فرق کر سکتی ہے۔ اور اب ہم نے لبرل کے لفظ میں بگاڑ پیدا کرنا شروع کیا ہے۔ وہ جو روسو کی تحریک تھی انسانی آزادی کی، وہ جو کنگ لوتھر کی انصاف کی تحریک تھی، وہ جو کہتا تھا کہ دنیا کے ایک کونے میں ہوتی ہوئی ناانصافی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے میرے گھر میں خاکسار تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ میرا گھرانہ ایک مذہبی تبلیغی گھرانا تھا اور جو وقت کے ساتھ اپنی ماہیت بدلتا گیا، ہر ایک کو آزادی تھی جس طرح چاہے رہے، سوچے۔ اماں دیوبندی تھیں تو ابا سنی۔ اماں پانچ وقت نمازی تھیں اور ابا فجر کی نماز پڑھتے تھے، مگر ہر ایک کا اپنا فعل تھا اور اپنا طریقہ تھا، خدا کو رجوع کرنے کے لیے اور وہ جانے اور اس کا خدا جانے۔ میرے والد سیکولر سوچ کے مالک تھے اور ذاتی طور پر بڑے مذہبی تھے، انھوں نے رب کے حسن و جمال کو طویل کرکے لکھا ہے جو سندھی ادب کا حصہ ہے۔ لفظ کا غلط استعمال اور تشریح سے لفظوں کی توہین ہو جاتی ہے۔ میں ایک وکیل ہوں، الفاظ کی تشریح میری ٹریننگ کا حصہ ہے اور جب لفظوں کی تذلیل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں تو میری روح کو تکلیف دیتی ہے اور لفظوں کے معنی کو اس طرح بھی نہ بگاڑیے کہ میں اپنی سرزمین پر کھڑا ہوا اپنے آپ کو جلاوطن سمجھوں۔ آپ اختلاف ضرور رکھیے مگر فتویٰ نہ صادر کیجیے کہ آپ کے فتویٰ سے فتنہ پھیل جائے۔ خانہ جنگی کا سماں پیدا ہو جائے، یہ کافر وہ کافر، میرا دل رنجور کبھی بھی نہ رہا اور یہ ہی ہے جو کہتا ہے ''تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا''۔
گدھ جو منڈلاتے رہتے ہیں، تہذیبوں پر کبھی ایسے دن بھی آتے ہیں جب بازار سجائے جاتے ہیں، نیلامی اور بولیوں کی صدائیں ہوتی ہیں۔ میرے وطن عزیز پر جو دن آئے ہیں، کہیں کوئی تو ہو کہ میں سب غبار اپنے وجود کا نکال سکوں، میرا دل بھی ہلکا ہو اور موج سفینہ کہیں تو ٹھہرے۔ مجھے کیا، میں اپنی عمر سے بڑا تو نہیں، انتہائی سچ کے ساتھ یہ کہوں کہ میں اپنے عمر کا نقاد ہوں اور جتنی بھی میری بساط ہے میں اس سے قطعی زیادہ نہیں۔ اور اسی طرح ہم سب ہیں اور اسی طرح ہی ہمیں ہونا چاہیے اپنے عہد کا عکاس۔ بے رحم نقاد۔ میری دور اندیشی میں اس دفعہ ایک دھند ہے جو میرے آنکھوں کے آگے ہے، ایک شب گزیدہ ہے جو ٹھہر گئی ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ سب شمعیں بے نور ہوگئی ہیں۔ مگر چونکہ مایوسی میرے سخن کا حرف نہیں اور فیضؔ کے سخن پازیب پہن میرے کانوں میں ہمیشہ سرگوشیاں کرتے ہیں، جیسے ایک دستک دیتے ہیں۔
کب جان لہو ہو گی
کب اشک گوہر ہو گا
کس دن تیری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصل گل، کب بہکے گا مہ خانہ
کب صبح سخن ہو گی، کب شمع نظر ہو گی
کب ٹھہرے گا درد دل، کب رات بسر ہو گی
سنتے ہوئے آئے ہیں، سنتے ہیں سحر ہو گی
کتنا تاریک ہے سب کچھ میرے ارد گرد، کتنی سیاہی ہے چاروں اور، مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں، چین اک پل نہیں، اور کوئی حل نہیں، وہ شاید اس لیے کہ میں نہیں ہوں اور جیت میرے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ کئی زمانوں تک یہ زندگی سیاست کے نام کی ہے کہ میرے لیے سب سے عظیم کام سیاست تھی۔ سیاست جو براہ راست لوگوں سے جڑی ہوئی ہے اور لوگوں کو جلا سیاست سے ہی ملتی ہے اور لوگوں کی تباہی بھی سیاست سے ہوتی ہے۔ میں ایک ایسے خاندان سے پلا بڑھا جہاں سیاست گھر کے آنگن میں بیل کے شاخ کی طرح اپنی خوشبو کے ساتھ پروان چڑھی تھی۔ پابند سلاسل تو کبھی رسوا سرِ بازار، کبھی وطن بدر اور کبھی سفر نگر نگر۔ دہقانوں کے جھگڑے، عدالتوں کے جھمیلے، کبھی اس جلسے میں تو کبھی شاگردوں کے ساتھ تامرگ بھوک ہڑتال پر، سب میرے آنگن میں پلے بڑھے اور یہی رہا ہمارا اوڑھنا بچھونا۔ مگر اب سیاست کا کیا معیار رہ گیا ہے، میری بات جو نقارخانے میں طوطی کی مانند تھی، اب کفر بن چکی ہے۔ میرے اجداد نے پاکستان اس لیے تو نہیں بنایا تھا کہ صوفیوں کی دھرتی صوفیوں کے لیے تنگ ہو جائے۔ ہر وہ ہی سچل ہے جو کہتا ہے
خاصیار کھڑے مسئلہ ڈسیندا
عشق شرع کیا لگے رہے قاضی
ہاں وہ بھگت کبیر تھا، کوئی جلال الدین رومی تھا، سعدی تھا یا جامی تھا، یا وہ بھٹائی کا سخن ہے کہ وہ سورمیوں کو سہیلیوں کی طرح ساتھ لے کر زن کی آنکھ دنیا کی تصویر کھینچتا تھا۔
ایک بلا تھا کوئی باہو تھا۔ یہ سارے میرے سوچوں کا عکس ہیں۔ وہ کتنے سارے ناول تھے، کتنی ساری کہانیاں تھیں اور لوریاں تھیں جو اماں سے سنیں، دادی سے سنیں۔ یہاں پال سارتر تھے، کامیو، ترگنیف لورکا تھے، دوستوفسکی، چیخوف پشکن، ٹالسٹائے، مایاکووسکی، اور میری زندگی کا سب سے پہلا ناول میکسم گورکی کا ''ماں'' اور مزید طویل داستانیں جو یونان سے شروع ہوئیں اور سقراط اور پلوٹو سے گھومتی ہوئی جرمن رومینٹک فلاسفر ہیگل، کانٹ، مارکس، اینگلز، پھر روسو، کتنے سارے قصے، کتنی ساری کہانیاں اور ناول میرا عکس ہیں، ہاں میں لبرل ہوں۔ میں اعترافاً کہتا ہوں کہ قائداعظم بھی لبرل تھے، بینظیر، ذوالفقار علی بھٹو اور وہ میرے سجاد ظہیر، سب لبرل تھے۔ قرۃ العین حیدر، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، سب لبرل تھے۔ میر تقی میر اور غالب کے زمانے میں شاید یہ لفظ ''لبرل'' ایجاد نہیں ہوا تھا لیکں اپنے نظریے اور سوچ میں وہ بھی لبرل ہی تھے۔ وسیع المشرب تھے، ہمیں کوئی لبرل کے معنی تو سمجھائے، کوئی آکسفورڈ ڈکشنری کھول کر اس کی تشریح تو دیکھ لے۔ ہمارے آئین میں بنیادی حقوق کا جو باب ہے، اس کا مفہوم کیا ہے؟ یہ صدیوں سے اس تحریک کا ثمر ہے جس کی بنیاد لبرلز نے ڈالی تھی۔ فرد کی آزادی کی جدوجہد اور عورت اور مرد برابر برابر ہیں اس کی جہد۔ ہمارے آرٹیکل 20 کہ جیسے تمام افراد کو ان کے مذاہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی جہد، عبادت کرنے کی جہد، اقلیتیوں کے حقوق کی جہد، عورتوں کے حقوق کی جہد، یہ لبرل ہی تو ہے تمام دنیا میں مہذب آئینوں کا امین۔ کل ہم نے سیکولر لفظ پر داغ لگا کر اسے لادینیت بنا دیا۔ سیکولر لفظ کے معنی ہیں دنیاوی، اور آہستہ آہستہ ہر لفظ بدلتے بدلتے ریاست اور دین کے متبادل بن گیا۔ کیونکہ ماں تو سب کے لیے ماں ہوتی ہے، تو پھر کس طرح اپنے بچوں میں فرق کر سکتی ہے۔ اور اب ہم نے لبرل کے لفظ میں بگاڑ پیدا کرنا شروع کیا ہے۔ وہ جو روسو کی تحریک تھی انسانی آزادی کی، وہ جو کنگ لوتھر کی انصاف کی تحریک تھی، وہ جو کہتا تھا کہ دنیا کے ایک کونے میں ہوتی ہوئی ناانصافی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے میرے گھر میں خاکسار تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ میرا گھرانہ ایک مذہبی تبلیغی گھرانا تھا اور جو وقت کے ساتھ اپنی ماہیت بدلتا گیا، ہر ایک کو آزادی تھی جس طرح چاہے رہے، سوچے۔ اماں دیوبندی تھیں تو ابا سنی۔ اماں پانچ وقت نمازی تھیں اور ابا فجر کی نماز پڑھتے تھے، مگر ہر ایک کا اپنا فعل تھا اور اپنا طریقہ تھا، خدا کو رجوع کرنے کے لیے اور وہ جانے اور اس کا خدا جانے۔ میرے والد سیکولر سوچ کے مالک تھے اور ذاتی طور پر بڑے مذہبی تھے، انھوں نے رب کے حسن و جمال کو طویل کرکے لکھا ہے جو سندھی ادب کا حصہ ہے۔ لفظ کا غلط استعمال اور تشریح سے لفظوں کی توہین ہو جاتی ہے۔ میں ایک وکیل ہوں، الفاظ کی تشریح میری ٹریننگ کا حصہ ہے اور جب لفظوں کی تذلیل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں تو میری روح کو تکلیف دیتی ہے اور لفظوں کے معنی کو اس طرح بھی نہ بگاڑیے کہ میں اپنی سرزمین پر کھڑا ہوا اپنے آپ کو جلاوطن سمجھوں۔ آپ اختلاف ضرور رکھیے مگر فتویٰ نہ صادر کیجیے کہ آپ کے فتویٰ سے فتنہ پھیل جائے۔ خانہ جنگی کا سماں پیدا ہو جائے، یہ کافر وہ کافر، میرا دل رنجور کبھی بھی نہ رہا اور یہ ہی ہے جو کہتا ہے ''تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا''۔