موسمیاتی تبدیلی اور غلط فہمی
2018ء سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شر ح کی حد میں نظرثانی کا عمل شروع کیا جائے گا
کرۂ ارض کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق ہونے والے سنگین خطرات کو کم کرنے، ان سے مطابقت پیدا کرنے، اس حوالے سے فیصلے اور ان پر عملدرآمد کرنے کے لیے دنیا کی حکومتوں کا سب سے بڑا فورم کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) کہلاتا ہے۔ یہ فورم اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چیلنج کے تحت 23 برسوں سے ہر سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے، جس میں دنیا کی تمام حکومتیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑی جانے والی عالمگیر جنگ میں متفقہ لائحہ عمل اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ 2015ء میں فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والی عالمی سربراہی کانفرنس (کوپ 21) میں متفقہ طور پر ماحولیاتی تحفظ کا تاریخی معاہدہ منظور کیا گیا تھا، جس میں دنیا کے 184 ملکوں کے سربراہان شریک ہوئے۔ یہ دنیا کی تاریخ میں کسی ایک مسئلہ پر جمع ہونے والے سربراہان کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ اس کانفرنس میں تقریباً 50 ہزار مندوبین شریک ہوئے۔
6 نومبر سے شروع ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 23) جسے 17 نومبر کو ختم ہونا تھا، 18 نومبر کو جرمنی کے شہر بون میں اختتام پذیر ہوئی۔ پہلی مرتبہ کانفرنس کی میزبانی جزائر پر مشتمل ملک فجی نے کی۔ اس میں کوپ کے 195 ممبر ملکوں کے 11300 مندوبین کے علاوہ ایک آبزرور ملک کے 6 نمایندوں نے شرکت کی، اس کے علاوہ اقوام متحدہ سیکریٹریٹ سے تعلق رکھنے والے 33 مختلف یونٹس اور باڈیز کے 453، 1005 انٹر گورنمنٹل آرگنائزیشن اور غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے 6176 نمایندوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور 626 میڈیا آرگنائزیشن کے 1633 نمایندوں سمیت تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ پاکستان کی طرف سے 42 رکنی وفد، ہندوستان کی طرف سے 45 اور بنگلا دیش کی جانب سے 35 رکنی وفد اس کانفرنس میں شریک ہوا۔
یہ پہلا موقع تھا جب عالمی ماحولیاتی کانفرنس امریکی دباؤ کے بغیر منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے دوسرے دن سیریا نے بھی پیرس معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کردیا، اب امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو پیرس معاہدے کی پاسداری نہیں کررہا ہے۔ واضح رہے کہ پیرس معاہدے میں طے کیے جانے والے قواعد و ضوابط کے مطابق امریکا کو معاہدے سے مکمل دستبرداری میں 3 سال کا مزید عرصہ لگے گا۔ کانفرنس میں امریکا کے 48 رکنی وفد نے شرکت کی، جن میں بیشتر افراد وہی تھے جو پچھلے کئی برسوں سے عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں میں امریکا کی نمایندگی کرتے چلے آرہے ہیں۔
اس کانفرنس میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر جیری براؤن اور عالمی شہرت یافتہ ہالی وڈ فنکار آرنلڈ شیوازنیگر بھی شریک ہوئے۔ یاد رہے کہ شیوازنیگر ٹرمپ انتظامیہ کے پیرس معاہدے سے نکلنے کے بعد اس فیصلے کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ بون ماحولیاتی کانفرنس شروع ہونے سے ایک دن قبل حسب روایت ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، جس میں ایک ہزار سے زائد موٹر سائیکل سواروں نے بھی حصہ لیا۔ اس مظاہرے میں مختلف ماحول دوست تنظیموں، اداروں کے ساتھ پہلی مرتبہ بائیں بازو ں کی تنظیموں، عالمگیریت کے مخالفین سمیت متعدد مزدور تنظیمیں بھی شریک ہوئیں۔ کانفرنس کے شرکاء طویل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد 18 نومبر کی صبح مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے پر متفق ہوئے۔
کوپ 23 کی صدارت جزائر فجی کے وزیراعظم فرانک بینی ماراما نے کی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں جزیرہ نما ریاستوں کو سطح سمندر میں ہونے والے اضافے اور سمندری طوفانوں سے شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور وہ معدومیت کے خطرے کا سامنا کر رہی ہیں۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں فجی سے خصوصی طور پر مدعو کیے جانے والے 12 سالہ بچے ٹموچی نالو سلا نے عالمی مندوبین کے سامنے چھوٹی مگر پراثر تقریر کرتے ہوئے کہا ''سمندر ہمارے گاؤں نگل رہا ہے، وہ فصلوں کے ساتھ ساحلوں کو کھا رہا ہے، ہماری بھوک اور پیاس میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ تباہ کن صورتحال ہے، لیکن حقیقت یہی ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف چھوٹے ملک ہی متاثر ہوں گے تو آپ کی غلط فہمی ہے۔''
مندوبین کے درمیان بحث کا اہم موضوع فوسل فیول کے استعمال میں کمی، توانائی کے متبادل استعمال اور ماحول دوست ذرایع میں اضافے اور اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے علاوہ 2020ء کے بعد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے ضابطے تشکیل دینا بھی تھا۔ اس حوالے سے پیرس معاہدے میں تشکیل پانے والے قواعد و ضوابط پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ 2018ء سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شر ح کی حد میں نظرثانی کا عمل شروع کیا جائے گا۔ اس حوالے سے شروع کیے جانے والے عمل کو ''تالا نوا ڈائیلاگ'' کا نام دیا گیا ہے۔ ان ڈائیلاگ کے نتیجے میں طے پانے والے اصول و ضوابط کے بعد ہی یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بتدریج کمی لانے کی کوششوں پر کس حد تک عمل کیا جارہا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تجزیہ کاروں کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نہیں چاہتے کہ صرف انھیں ہی گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا پابند کیا جائے بلکہ ان کا تمام زور اس بات پر ہے کہ یہ عمل تمام دنیا کے ساتھ یکساں ہونا چاہیے۔
بون ماحولیاتی کانفرنس شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ ''2015ء میں عالمی سطح پر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی اوسط شرح 400 پی پی ایم سے بڑھ کر 2016ء میں 403.3 پی پی ایم تک پہنچ چکی ہے۔ اس صورتحال کو خراب کرنے میں ایل نینو کے اثرات نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن اس کی بڑی وجہ زمین پر موجود انسانوں کی وہ سرگرمیاں ہیں جو کرۂ ارض کے ماحول اور آب و ہوا کو نقصان پہنچا نے کا باعث بن رہی ہیں۔'' یہ رپورٹ ڈبلیو ایم او کے سالانہ ''گرین بلیٹن'' میں شایع ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ گرین ہاؤس بلیٹن کے ذریعے 1750ء کے صنعتی انقلاب سے لے کر آج تک فضا میں خارج کی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ریکارڈ موجود ہے۔ موسمیاتی و ماحولیاتی ماہرین کے مطابق امریکا کی پیرس معاہدے سے علیحدگی کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کو سخت دھچکا لگا ہے، جس کے نتائج کرۂ ارض کے لیے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ امریکی عمل عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ہونے والے خطرناک اضافے کو روکنے کی کوششوں کو بھی مزید مشکل بنادے گا۔
کرۂ ارض پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑی جانے والی عالمگیر جنگ میں دو باتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی اور ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی۔ ان معاملات کا تعلق براہ راست ترقی یافہ ممالک سے ہے۔ ان معاملات کو عملی طور پر ترقی یافتہ ملکوں نے ہی حل کرنا ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت اس ذمے داری کو قبول کرنے سے گریزاں نظر آئی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے غیر ذمے دارانہ رویے کی وجہ سے کرۂ ارض کے ماحول اور اس پر رہائش پذیر اربوں انسانوں کو ہونے والے نقصانات میں مزید تیزی سے اضافہ ہوگا۔ فجی کے 12 سالہ بچے ٹموچی ناکو سلا کے بقول ''اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف چھوٹے ملک ہی متاثر ہوں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔''
6 نومبر سے شروع ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 23) جسے 17 نومبر کو ختم ہونا تھا، 18 نومبر کو جرمنی کے شہر بون میں اختتام پذیر ہوئی۔ پہلی مرتبہ کانفرنس کی میزبانی جزائر پر مشتمل ملک فجی نے کی۔ اس میں کوپ کے 195 ممبر ملکوں کے 11300 مندوبین کے علاوہ ایک آبزرور ملک کے 6 نمایندوں نے شرکت کی، اس کے علاوہ اقوام متحدہ سیکریٹریٹ سے تعلق رکھنے والے 33 مختلف یونٹس اور باڈیز کے 453، 1005 انٹر گورنمنٹل آرگنائزیشن اور غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے 6176 نمایندوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور 626 میڈیا آرگنائزیشن کے 1633 نمایندوں سمیت تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ پاکستان کی طرف سے 42 رکنی وفد، ہندوستان کی طرف سے 45 اور بنگلا دیش کی جانب سے 35 رکنی وفد اس کانفرنس میں شریک ہوا۔
یہ پہلا موقع تھا جب عالمی ماحولیاتی کانفرنس امریکی دباؤ کے بغیر منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے دوسرے دن سیریا نے بھی پیرس معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کردیا، اب امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو پیرس معاہدے کی پاسداری نہیں کررہا ہے۔ واضح رہے کہ پیرس معاہدے میں طے کیے جانے والے قواعد و ضوابط کے مطابق امریکا کو معاہدے سے مکمل دستبرداری میں 3 سال کا مزید عرصہ لگے گا۔ کانفرنس میں امریکا کے 48 رکنی وفد نے شرکت کی، جن میں بیشتر افراد وہی تھے جو پچھلے کئی برسوں سے عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں میں امریکا کی نمایندگی کرتے چلے آرہے ہیں۔
اس کانفرنس میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر جیری براؤن اور عالمی شہرت یافتہ ہالی وڈ فنکار آرنلڈ شیوازنیگر بھی شریک ہوئے۔ یاد رہے کہ شیوازنیگر ٹرمپ انتظامیہ کے پیرس معاہدے سے نکلنے کے بعد اس فیصلے کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ بون ماحولیاتی کانفرنس شروع ہونے سے ایک دن قبل حسب روایت ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، جس میں ایک ہزار سے زائد موٹر سائیکل سواروں نے بھی حصہ لیا۔ اس مظاہرے میں مختلف ماحول دوست تنظیموں، اداروں کے ساتھ پہلی مرتبہ بائیں بازو ں کی تنظیموں، عالمگیریت کے مخالفین سمیت متعدد مزدور تنظیمیں بھی شریک ہوئیں۔ کانفرنس کے شرکاء طویل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد 18 نومبر کی صبح مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے پر متفق ہوئے۔
کوپ 23 کی صدارت جزائر فجی کے وزیراعظم فرانک بینی ماراما نے کی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں جزیرہ نما ریاستوں کو سطح سمندر میں ہونے والے اضافے اور سمندری طوفانوں سے شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور وہ معدومیت کے خطرے کا سامنا کر رہی ہیں۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں فجی سے خصوصی طور پر مدعو کیے جانے والے 12 سالہ بچے ٹموچی نالو سلا نے عالمی مندوبین کے سامنے چھوٹی مگر پراثر تقریر کرتے ہوئے کہا ''سمندر ہمارے گاؤں نگل رہا ہے، وہ فصلوں کے ساتھ ساحلوں کو کھا رہا ہے، ہماری بھوک اور پیاس میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ تباہ کن صورتحال ہے، لیکن حقیقت یہی ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف چھوٹے ملک ہی متاثر ہوں گے تو آپ کی غلط فہمی ہے۔''
مندوبین کے درمیان بحث کا اہم موضوع فوسل فیول کے استعمال میں کمی، توانائی کے متبادل استعمال اور ماحول دوست ذرایع میں اضافے اور اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے علاوہ 2020ء کے بعد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے ضابطے تشکیل دینا بھی تھا۔ اس حوالے سے پیرس معاہدے میں تشکیل پانے والے قواعد و ضوابط پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ 2018ء سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شر ح کی حد میں نظرثانی کا عمل شروع کیا جائے گا۔ اس حوالے سے شروع کیے جانے والے عمل کو ''تالا نوا ڈائیلاگ'' کا نام دیا گیا ہے۔ ان ڈائیلاگ کے نتیجے میں طے پانے والے اصول و ضوابط کے بعد ہی یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بتدریج کمی لانے کی کوششوں پر کس حد تک عمل کیا جارہا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تجزیہ کاروں کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نہیں چاہتے کہ صرف انھیں ہی گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا پابند کیا جائے بلکہ ان کا تمام زور اس بات پر ہے کہ یہ عمل تمام دنیا کے ساتھ یکساں ہونا چاہیے۔
بون ماحولیاتی کانفرنس شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ ''2015ء میں عالمی سطح پر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی اوسط شرح 400 پی پی ایم سے بڑھ کر 2016ء میں 403.3 پی پی ایم تک پہنچ چکی ہے۔ اس صورتحال کو خراب کرنے میں ایل نینو کے اثرات نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن اس کی بڑی وجہ زمین پر موجود انسانوں کی وہ سرگرمیاں ہیں جو کرۂ ارض کے ماحول اور آب و ہوا کو نقصان پہنچا نے کا باعث بن رہی ہیں۔'' یہ رپورٹ ڈبلیو ایم او کے سالانہ ''گرین بلیٹن'' میں شایع ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ گرین ہاؤس بلیٹن کے ذریعے 1750ء کے صنعتی انقلاب سے لے کر آج تک فضا میں خارج کی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ریکارڈ موجود ہے۔ موسمیاتی و ماحولیاتی ماہرین کے مطابق امریکا کی پیرس معاہدے سے علیحدگی کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کو سخت دھچکا لگا ہے، جس کے نتائج کرۂ ارض کے لیے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ امریکی عمل عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ہونے والے خطرناک اضافے کو روکنے کی کوششوں کو بھی مزید مشکل بنادے گا۔
کرۂ ارض پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑی جانے والی عالمگیر جنگ میں دو باتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی اور ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی۔ ان معاملات کا تعلق براہ راست ترقی یافہ ممالک سے ہے۔ ان معاملات کو عملی طور پر ترقی یافتہ ملکوں نے ہی حل کرنا ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت اس ذمے داری کو قبول کرنے سے گریزاں نظر آئی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے غیر ذمے دارانہ رویے کی وجہ سے کرۂ ارض کے ماحول اور اس پر رہائش پذیر اربوں انسانوں کو ہونے والے نقصانات میں مزید تیزی سے اضافہ ہوگا۔ فجی کے 12 سالہ بچے ٹموچی ناکو سلا کے بقول ''اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف چھوٹے ملک ہی متاثر ہوں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔''