آگ اور پانی کو ملنے دیجیے
اسلامی جمہوری اتحاد کے سابق سربراہ نواز شریف نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے ماضی سے بغاوت کی
ISLAMABAD:
الیکشن کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیں، ملک کی تین چار بڑی سیاسی جماعتیں ماضی کی طرح چھوٹی چھوٹی پارٹیوں اور لیڈروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ موقع پرست سیاست دانوںکا پرانی پارٹی کو چھوڑنے، معتوب لیڈروں کو برا بھلا کہنے، جیتنے والی پارٹی میں شامل ہونے اور اپنے سابق لیڈروں پر غدار، ایجنٹ اور ملک دشمن جیسے الزامات لگا کر خود کو سچا، کھرا اور نیک سیرت ثابت کرنے کا زمانہ بھی قریب آ چکا ہے۔ حسب معمول ایک نئی مذہبی پارٹی بھی انتہائی دھڑلے سے میدان میں نہ صرف قدم رکھ چکی ہے بلکہ شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچ گئی ہے جہاں تک جانے کے لیے ماضی میں کسی سیاسی پارٹی کو کئی دہائیاں درکار ہوتی تھیں۔
مستقبل کے الیکشن پر اثر انداز ہونے کا یہ تیر بہدف نسخہ اس دفعہ اتنی عقل مندی سے استعمال کیا گیا کہ ملک کی سب سے منظم مذہبی جماعت کے لیڈر بھی دم بخود رہ گئے اور جمہوری پارٹیوں کے لیڈر کہلانے والے سورمے بھی سوچنے لگے کہ منہ سے کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جسے سنبھالنا مشکل ہوجائے۔ دوسری طرف بہت ساری انہونیوں کے ساتھ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہورہا ہے کہ کوئی وزیراعظم ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ اپنے عہدے سے برخاست ہونے کے بعد بھی نہ صرف زندہ سلامت اپنے گھر میں موجود ہے، وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم جیسے بیانات دے رہا ہے، اور اندرون ملک سے بیرون ملک تک انتخابی مہم بھی چلا رہا ہے۔
الیکشن سے قبل یا الیکشن جیتنے کے بعد سابق ادوار میں جو اتحاد وجود میں آئے ان میں جوڑ توڑ کی سیاست اور اندرونی و بیرونی دباؤ کا ذکر کیاجائے تو سوائے شرمساری کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا، لیکن پچھلے الیکشن کے نتیجے میں جب ن لیگ اقتدار میں آئی تو ملک کی تاریخ میں پہلے دفعہ ایسا ہوا کہ بلوچستان میں دائیں بازو کی ایک کٹر پارٹی نے بائیں بازو کی ایک اہم جماعت نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی جیسی قوم پرست پارٹی سے نہ صرف اتحاد کیا بلکہ صوبے میں ان پارٹیوں نے مل کر حکومت بھی بنائی۔ ابتدائی دنوں میں اس اتحاد کے ٹوٹنے کے خطرات پیدا ہوئے لیکن جلد ہی حالات پر قابو پالیا گیا اور یہ سلسلہ انتہائی خوش اسلوبی سے رواں دواں ہے۔
جب یہ اتحاد وجود میں آیا تو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بہت سارے کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے نیشنل پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود بہت سارے سیاسی کارکنوں کے ساتھ خود نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کا یہ خیال ہے کہ نظریاتی سیاست اور معاشرے کو بدلنے کی جدوجہد اپنی جگہ لیکن جب تک ووٹ کے ذریعے اسمبلیوں تک نہیں پہنچا جاتا اور وہاں جاکر دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنا کر حکومت کا حصہ نہیں بنا جاتا تب تک اس جدوجہد کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ یونائیٹڈ فرنٹ، ڈیمو کریٹک موومنٹ، پی این اے، ایم آر ڈی، اسلامی جمہوری اتحاد، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، اے آر ڈی، ایم ایم اے اور کچھ دوسرے سیاسی اتحاد ہماری سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں، مگر ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا جانے والا اسلامی جمہوری اتحاد ان سب پر اس لیے بھاری تھا کہ اس اتحاد نے ملک کی آیندہ سیاست پر جو اثرات مرتب کیے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے شاید ہماری قوم کو طویل مدت تک انتظار کرنا پڑے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے سابق سربراہ نواز شریف نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے ماضی سے بغاوت کی اور اپنی حکومت میں ایسے وزرا اور مشیر شامل کیے جو مختلف الخیال سیاست کے حامل تھے۔ جب یہ افراد مسلم لیگ کی روایتی دیوار پھاند کر آس پاس دیکھنے اور بدلتی ہوئی صورت حال کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی سوچ پر کاربند ہوئے تو اس پارٹی میں کافی حد تک تبدیلی رونما ہوئی اور یہی وجہ تھی جس نے بلوچستان کی دو مختلف الخیال پارٹیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی اتحاد بنا کر بلوچستان میں اپنی حکومت بنائیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے پچھلے دنوں اپنے والد اور انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے قوم پرست رہنما معروف ادیب اور مترجم عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی پر جب نواز شریف کو تقریر کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے جہاں مرحوم کی بہادری کو خراج عقیدت پیش کیا وہاں اپنی حکومت کی طرف سے جاری ان ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرنا بھی نہ بھولے جو وہ کم و پیش اپنی ہر تقریر میں کرتے ہیں۔ اس جلسے کے دوران نواز شریف کی ہاں میں ہاں بھی ملائی گئی، نعروں کا جواب بھی دیا گیا اور جس انداز سے ان کی پارٹی کے جھنڈے وہاں نظر آئے اس نے اس اتحاد کو نہ صرف موضوع بحث بنایا، بلکہ مخالفین کو محمود خان اچکزئی کے خیالات پر تنقید کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
اس کے ساتھ اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ مرکز یا پنجاب کی کسی پارٹی کو بلوچستان میں سیاسی پذیرائی مشکل سے ہی ملتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ بلوچستان میں برسر اقتدار رہنے والی نیشنل پارٹی پر بظاہر بلوچستان کا ٹھپہ لگا ہوا ہے، مگر اس کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہیں، لیکن پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے بارے میں یہ بات کہنا شاید درست نہ ہوگا۔
ایک لمحے کے لیے اگر نیشنل پارٹی پر تنقید کرنے والوں کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے ساتھ بائیں بازو کی کسی پارٹی کا اتحاد ایک غلط فیصلہ تھا تو یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بائیں بازو کی دوسری سیاسی پارٹیاں کسی عام پارٹی کے ساتھ نہ سہی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کوئی اتحاد کیوں نہیں بناتیں؟ اگر بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کے بعد ان کا تشخص ختم ہوجائے گا یا ان کی نظریاتی سیاست پر آنچ آئے گی تو مزدور کسان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی اور عوامی ورکرز پارٹی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیوں نہیں ہوتیں؟
کیا ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اس بات کی متقاضی نہیں کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی طرح بائیں بازو کی دوسری اہم پارٹیوںکو بھی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے اتحاد قائم کرنے کے بعد نہ صرف الیکشن میں حصہ لینا چاہیے بلکہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچ کر اپنی نظریاتی سیاست کے ذریعے عام لوگوں تک اپنا پیغام بھی پہنچانا چاہیے؟ بائیں بازو کی پارٹیوں کو زیادہ سیٹوں پر کامیاب نہیں ملتی تو نہ سہی، صوبائی یا قومی سطح پر اگر وہ صرف ایک سیٹ بھی حاصل کر لیتی ہیں تو یہ بھی کسی انقلابی تبدیلی سے کم نہیں ہوگا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ موجودہ صورت حال میں اگر بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں ملک کی کسی عام سیاسی جماعت سے اتحاد کرتی ہیں تو یہ آگ اور پانی کے ملاپ سے کم نہیں ہوگا، مگر گھبرائیے نہیں، اپنی آگ کے نظریاتی الاؤ کو مزید تیز کیجیے اور اس میں وہ سارا ایندھن جھونک دیجیے جو آپ نے ستر سال سے جمع کیا ہے، اس کے ساتھ ان تبدیلیوں کی طرف بھی نظر دوڑائیے جو دنیا بھر کے ساتھ ہمارے آس پاس بھی انتہائی تیزی کے ساتھ رو نما ہورہی ہیں۔
نوٹ: میرے پچھلے کالم میں روزنامہ ڈیلی میل کی ایک خبر کے حوالہ سطر سہواًغلط چھپ گئی تھی، اصل فقرہ تھا عمران خان نے جنگ (عراق) کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔
الیکشن کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیں، ملک کی تین چار بڑی سیاسی جماعتیں ماضی کی طرح چھوٹی چھوٹی پارٹیوں اور لیڈروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ موقع پرست سیاست دانوںکا پرانی پارٹی کو چھوڑنے، معتوب لیڈروں کو برا بھلا کہنے، جیتنے والی پارٹی میں شامل ہونے اور اپنے سابق لیڈروں پر غدار، ایجنٹ اور ملک دشمن جیسے الزامات لگا کر خود کو سچا، کھرا اور نیک سیرت ثابت کرنے کا زمانہ بھی قریب آ چکا ہے۔ حسب معمول ایک نئی مذہبی پارٹی بھی انتہائی دھڑلے سے میدان میں نہ صرف قدم رکھ چکی ہے بلکہ شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچ گئی ہے جہاں تک جانے کے لیے ماضی میں کسی سیاسی پارٹی کو کئی دہائیاں درکار ہوتی تھیں۔
مستقبل کے الیکشن پر اثر انداز ہونے کا یہ تیر بہدف نسخہ اس دفعہ اتنی عقل مندی سے استعمال کیا گیا کہ ملک کی سب سے منظم مذہبی جماعت کے لیڈر بھی دم بخود رہ گئے اور جمہوری پارٹیوں کے لیڈر کہلانے والے سورمے بھی سوچنے لگے کہ منہ سے کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جسے سنبھالنا مشکل ہوجائے۔ دوسری طرف بہت ساری انہونیوں کے ساتھ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہورہا ہے کہ کوئی وزیراعظم ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ اپنے عہدے سے برخاست ہونے کے بعد بھی نہ صرف زندہ سلامت اپنے گھر میں موجود ہے، وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم جیسے بیانات دے رہا ہے، اور اندرون ملک سے بیرون ملک تک انتخابی مہم بھی چلا رہا ہے۔
الیکشن سے قبل یا الیکشن جیتنے کے بعد سابق ادوار میں جو اتحاد وجود میں آئے ان میں جوڑ توڑ کی سیاست اور اندرونی و بیرونی دباؤ کا ذکر کیاجائے تو سوائے شرمساری کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا، لیکن پچھلے الیکشن کے نتیجے میں جب ن لیگ اقتدار میں آئی تو ملک کی تاریخ میں پہلے دفعہ ایسا ہوا کہ بلوچستان میں دائیں بازو کی ایک کٹر پارٹی نے بائیں بازو کی ایک اہم جماعت نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی جیسی قوم پرست پارٹی سے نہ صرف اتحاد کیا بلکہ صوبے میں ان پارٹیوں نے مل کر حکومت بھی بنائی۔ ابتدائی دنوں میں اس اتحاد کے ٹوٹنے کے خطرات پیدا ہوئے لیکن جلد ہی حالات پر قابو پالیا گیا اور یہ سلسلہ انتہائی خوش اسلوبی سے رواں دواں ہے۔
جب یہ اتحاد وجود میں آیا تو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بہت سارے کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے نیشنل پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود بہت سارے سیاسی کارکنوں کے ساتھ خود نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کا یہ خیال ہے کہ نظریاتی سیاست اور معاشرے کو بدلنے کی جدوجہد اپنی جگہ لیکن جب تک ووٹ کے ذریعے اسمبلیوں تک نہیں پہنچا جاتا اور وہاں جاکر دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنا کر حکومت کا حصہ نہیں بنا جاتا تب تک اس جدوجہد کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ یونائیٹڈ فرنٹ، ڈیمو کریٹک موومنٹ، پی این اے، ایم آر ڈی، اسلامی جمہوری اتحاد، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، اے آر ڈی، ایم ایم اے اور کچھ دوسرے سیاسی اتحاد ہماری سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں، مگر ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا جانے والا اسلامی جمہوری اتحاد ان سب پر اس لیے بھاری تھا کہ اس اتحاد نے ملک کی آیندہ سیاست پر جو اثرات مرتب کیے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے شاید ہماری قوم کو طویل مدت تک انتظار کرنا پڑے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے سابق سربراہ نواز شریف نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے ماضی سے بغاوت کی اور اپنی حکومت میں ایسے وزرا اور مشیر شامل کیے جو مختلف الخیال سیاست کے حامل تھے۔ جب یہ افراد مسلم لیگ کی روایتی دیوار پھاند کر آس پاس دیکھنے اور بدلتی ہوئی صورت حال کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی سوچ پر کاربند ہوئے تو اس پارٹی میں کافی حد تک تبدیلی رونما ہوئی اور یہی وجہ تھی جس نے بلوچستان کی دو مختلف الخیال پارٹیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی اتحاد بنا کر بلوچستان میں اپنی حکومت بنائیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے پچھلے دنوں اپنے والد اور انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے قوم پرست رہنما معروف ادیب اور مترجم عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی پر جب نواز شریف کو تقریر کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے جہاں مرحوم کی بہادری کو خراج عقیدت پیش کیا وہاں اپنی حکومت کی طرف سے جاری ان ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرنا بھی نہ بھولے جو وہ کم و پیش اپنی ہر تقریر میں کرتے ہیں۔ اس جلسے کے دوران نواز شریف کی ہاں میں ہاں بھی ملائی گئی، نعروں کا جواب بھی دیا گیا اور جس انداز سے ان کی پارٹی کے جھنڈے وہاں نظر آئے اس نے اس اتحاد کو نہ صرف موضوع بحث بنایا، بلکہ مخالفین کو محمود خان اچکزئی کے خیالات پر تنقید کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
اس کے ساتھ اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ مرکز یا پنجاب کی کسی پارٹی کو بلوچستان میں سیاسی پذیرائی مشکل سے ہی ملتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ بلوچستان میں برسر اقتدار رہنے والی نیشنل پارٹی پر بظاہر بلوچستان کا ٹھپہ لگا ہوا ہے، مگر اس کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہیں، لیکن پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے بارے میں یہ بات کہنا شاید درست نہ ہوگا۔
ایک لمحے کے لیے اگر نیشنل پارٹی پر تنقید کرنے والوں کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے ساتھ بائیں بازو کی کسی پارٹی کا اتحاد ایک غلط فیصلہ تھا تو یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بائیں بازو کی دوسری سیاسی پارٹیاں کسی عام پارٹی کے ساتھ نہ سہی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کوئی اتحاد کیوں نہیں بناتیں؟ اگر بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کے بعد ان کا تشخص ختم ہوجائے گا یا ان کی نظریاتی سیاست پر آنچ آئے گی تو مزدور کسان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی اور عوامی ورکرز پارٹی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیوں نہیں ہوتیں؟
کیا ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اس بات کی متقاضی نہیں کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی طرح بائیں بازو کی دوسری اہم پارٹیوںکو بھی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے اتحاد قائم کرنے کے بعد نہ صرف الیکشن میں حصہ لینا چاہیے بلکہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچ کر اپنی نظریاتی سیاست کے ذریعے عام لوگوں تک اپنا پیغام بھی پہنچانا چاہیے؟ بائیں بازو کی پارٹیوں کو زیادہ سیٹوں پر کامیاب نہیں ملتی تو نہ سہی، صوبائی یا قومی سطح پر اگر وہ صرف ایک سیٹ بھی حاصل کر لیتی ہیں تو یہ بھی کسی انقلابی تبدیلی سے کم نہیں ہوگا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ موجودہ صورت حال میں اگر بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں ملک کی کسی عام سیاسی جماعت سے اتحاد کرتی ہیں تو یہ آگ اور پانی کے ملاپ سے کم نہیں ہوگا، مگر گھبرائیے نہیں، اپنی آگ کے نظریاتی الاؤ کو مزید تیز کیجیے اور اس میں وہ سارا ایندھن جھونک دیجیے جو آپ نے ستر سال سے جمع کیا ہے، اس کے ساتھ ان تبدیلیوں کی طرف بھی نظر دوڑائیے جو دنیا بھر کے ساتھ ہمارے آس پاس بھی انتہائی تیزی کے ساتھ رو نما ہورہی ہیں۔
نوٹ: میرے پچھلے کالم میں روزنامہ ڈیلی میل کی ایک خبر کے حوالہ سطر سہواًغلط چھپ گئی تھی، اصل فقرہ تھا عمران خان نے جنگ (عراق) کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔