سی پیک کا حجم 60 ارب ڈالر ہونے پر آئی ایم ایف پریشان پاکستان کو پیشگی انتباہ
آئی ایم ایف نے ان خدشات کا اظہار وزارت منصوبہ بندی وترقی اوروزارت خزانہ کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں کیا
چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مجموعی حجم60 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈنے ادائیگیوں اور منصوبوں کا منافع چین جانے سے پیدا ہونے والے مسائل سے پیشگی متنبہ کردیا ہے۔
آئی ایم ایف کے واشنگٹن میں مقیم مشن چیف ہیرالڈفنگرکی قیادت میں وفد6 ارب 10کروڑ ڈالر قرضہ کی واپسی سے متعلق پاکستان کی استعداد جانچنے کیلیے اسلام آبادآیا ہوا ہے۔ پاکستان سی پیک کے قرضے ڈیڑھ سال میں واپس کرنا شروع کرے گااورپاکستانی حکام کے مطابق2020ء کے بعدقرضوںکی واپسی بہت بڑھ جائے گی اوراس مد میں جی ڈی پی کا 0.4 فیصدخرچ ہوگا۔ پاکستانی حکام کے تخمینوں کے مطابق ابتدائی سال میں سی پیک سے متعلق رقوم کی واپسی جی ڈی پی کا0.1فیصدہوگی تاہم آئی ایم ایف کے مطابق سات سال بعدیہ ادائیگیاں بلندسطح پرپہنچ جائیںگی اور ساڑھے تین سے ساڑھے چارارب ڈالر سالانہ واپس کرنا پڑیں گے۔آئی ایم ایف کااندازہ ہے کہ2024 ء تک سی پیک سے متعلق رقوم کا پاکستان سے انخلاء جی ڈی پی کا 1.6فیصد تک ہوجائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفدنے سی پیک 60 ارب ڈالرتک پہنچنے پرتشویش کااظہارکیا ہے۔
ان کے خیال میں پاکستان کی ادائیگی کی صلاحیت کمزور رہے گی کیونکہ قرضہ دینے والے عالمی اداروں کے مطابق ڈالرکے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں پاکستان کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافے کاامکان نہیں ہے۔ابتدائی طورپرسی پیک کاحجم 46 ارب ڈالر تھا تاہم بعدمیں نئے منصوبے شامل کرکے اسے60 ارب ڈالر تک پہنچادیاگیا۔آئی ایم ایف کو بتایاگیا ہے کہ پاکستان ریلوے کے8.2ارب ڈالرکے مین لائن منصوبے کوپورا ہونے میں ابھی وقت لگے گااوراس کی رقوم واپسی کو سی پیک سے منسلک ذمہ داریوں میں شامل نہیں کرناچاہیے ۔اسلام آباد میں حال ہی میں ہونے والے چین پاکستان مشترکہ تعاون کمیٹی کے ساتویں اجلاس میں8.2 ارب ڈالرکے اس ریلوے منصوبے اور2 ارب ڈالر کے کراچی سرکلرریلوے منصوبے پرپیشرفت نہیں ہو سکی، اس فہرست میں چنددیگرمنصوبے بھی شامل ہیں۔
پاکستانی حکام کاکہنا ہے کہ 2020 ء سے سی پیک کی رقوم واپسی دوارب ڈالرسالانہ ہوگی جوپاکستان اپنی برآمدات بڑھا کرباآسانی کرسکتاہے ۔آئی ایم ایف کوبتایاگیا کہ سی پیک منصوبوں کی حقیقی مالیت46ارب ڈالرسے زیادہ نہیں اوراب تک 23ارب ڈالرکے منصوبوں نے عملی شکل اختیارکی ہے۔ وفاقی سیکرٹری منصوبہ بندی وترقی شعیب صدیقی نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سی پیک کی رقوم واپسی سے متعلق تفصیلی کام کیا ہے اور رقوم کمی کامسئلہ پیدانہیں ہو گا۔ انہوں نے اس بات پراتفاق کیا کہ پاکستان کو زرمبادلہ ذخائرمیں اضافے کی ضرورت ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف ٹیم کاموقف تھا کہ سی پیک منصوبوں کی رقم واپس جانے کے بعدپاکستان پرادائیگیوں کادباؤ بڑھے گا، پاکستانی روپے کی قدرزیادہ ہونے کی وجہ سے برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا۔
آئی ایم ایف کایہ بھی کہنا ہے کہ سی پیک کے قرضوں،منافع کی رقم بیرون ملک منتقل ہونے اور سی پیک کے تحت لگائے بجلی منصوبوں کیلئے درآمدی ایندھن کی وجہ سے بھی پاکستانی معیشت پرکافی دباؤ ہو گا۔ پاکستانی ٹیم کا موقف تھاکہ موجودہ بجلی پیداواری پلانٹس کادوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے جس سے ایندھن کی برآمدکابل کم ہوگا۔
آئی ایم ایف وفدکاکہنا ہے کہ سی پیک اور حکومتی سطح پر دیگر ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کو وسط مدتی بنیادوں پرجی ڈی پی کے تقریباً 7.5 فیصد تک بیرون ملک سے رقوم کاانتظام کرنا ہوگا اور اس مقصدکیلیے مسابقتی ماحول بہتربنانے کیلیے میکرواکنامک اورڈھانچہ جاتی پالیسیوں کی ضرورت ہے ۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے جولائی میں پاکستان سے متعلق رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان سے رقوم کی ترسیل زیادہ ہوگی۔
آئی ایم ایف کے واشنگٹن میں مقیم مشن چیف ہیرالڈفنگرکی قیادت میں وفد6 ارب 10کروڑ ڈالر قرضہ کی واپسی سے متعلق پاکستان کی استعداد جانچنے کیلیے اسلام آبادآیا ہوا ہے۔ پاکستان سی پیک کے قرضے ڈیڑھ سال میں واپس کرنا شروع کرے گااورپاکستانی حکام کے مطابق2020ء کے بعدقرضوںکی واپسی بہت بڑھ جائے گی اوراس مد میں جی ڈی پی کا 0.4 فیصدخرچ ہوگا۔ پاکستانی حکام کے تخمینوں کے مطابق ابتدائی سال میں سی پیک سے متعلق رقوم کی واپسی جی ڈی پی کا0.1فیصدہوگی تاہم آئی ایم ایف کے مطابق سات سال بعدیہ ادائیگیاں بلندسطح پرپہنچ جائیںگی اور ساڑھے تین سے ساڑھے چارارب ڈالر سالانہ واپس کرنا پڑیں گے۔آئی ایم ایف کااندازہ ہے کہ2024 ء تک سی پیک سے متعلق رقوم کا پاکستان سے انخلاء جی ڈی پی کا 1.6فیصد تک ہوجائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفدنے سی پیک 60 ارب ڈالرتک پہنچنے پرتشویش کااظہارکیا ہے۔
ان کے خیال میں پاکستان کی ادائیگی کی صلاحیت کمزور رہے گی کیونکہ قرضہ دینے والے عالمی اداروں کے مطابق ڈالرکے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں پاکستان کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافے کاامکان نہیں ہے۔ابتدائی طورپرسی پیک کاحجم 46 ارب ڈالر تھا تاہم بعدمیں نئے منصوبے شامل کرکے اسے60 ارب ڈالر تک پہنچادیاگیا۔آئی ایم ایف کو بتایاگیا ہے کہ پاکستان ریلوے کے8.2ارب ڈالرکے مین لائن منصوبے کوپورا ہونے میں ابھی وقت لگے گااوراس کی رقوم واپسی کو سی پیک سے منسلک ذمہ داریوں میں شامل نہیں کرناچاہیے ۔اسلام آباد میں حال ہی میں ہونے والے چین پاکستان مشترکہ تعاون کمیٹی کے ساتویں اجلاس میں8.2 ارب ڈالرکے اس ریلوے منصوبے اور2 ارب ڈالر کے کراچی سرکلرریلوے منصوبے پرپیشرفت نہیں ہو سکی، اس فہرست میں چنددیگرمنصوبے بھی شامل ہیں۔
پاکستانی حکام کاکہنا ہے کہ 2020 ء سے سی پیک کی رقوم واپسی دوارب ڈالرسالانہ ہوگی جوپاکستان اپنی برآمدات بڑھا کرباآسانی کرسکتاہے ۔آئی ایم ایف کوبتایاگیا کہ سی پیک منصوبوں کی حقیقی مالیت46ارب ڈالرسے زیادہ نہیں اوراب تک 23ارب ڈالرکے منصوبوں نے عملی شکل اختیارکی ہے۔ وفاقی سیکرٹری منصوبہ بندی وترقی شعیب صدیقی نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سی پیک کی رقوم واپسی سے متعلق تفصیلی کام کیا ہے اور رقوم کمی کامسئلہ پیدانہیں ہو گا۔ انہوں نے اس بات پراتفاق کیا کہ پاکستان کو زرمبادلہ ذخائرمیں اضافے کی ضرورت ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف ٹیم کاموقف تھا کہ سی پیک منصوبوں کی رقم واپس جانے کے بعدپاکستان پرادائیگیوں کادباؤ بڑھے گا، پاکستانی روپے کی قدرزیادہ ہونے کی وجہ سے برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا۔
آئی ایم ایف کایہ بھی کہنا ہے کہ سی پیک کے قرضوں،منافع کی رقم بیرون ملک منتقل ہونے اور سی پیک کے تحت لگائے بجلی منصوبوں کیلئے درآمدی ایندھن کی وجہ سے بھی پاکستانی معیشت پرکافی دباؤ ہو گا۔ پاکستانی ٹیم کا موقف تھاکہ موجودہ بجلی پیداواری پلانٹس کادوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے جس سے ایندھن کی برآمدکابل کم ہوگا۔
آئی ایم ایف وفدکاکہنا ہے کہ سی پیک اور حکومتی سطح پر دیگر ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کو وسط مدتی بنیادوں پرجی ڈی پی کے تقریباً 7.5 فیصد تک بیرون ملک سے رقوم کاانتظام کرنا ہوگا اور اس مقصدکیلیے مسابقتی ماحول بہتربنانے کیلیے میکرواکنامک اورڈھانچہ جاتی پالیسیوں کی ضرورت ہے ۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے جولائی میں پاکستان سے متعلق رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان سے رقوم کی ترسیل زیادہ ہوگی۔