لاپتہ افراد کیس میں رپورٹ پر عدم اطمینان عدالتیں بےبس ہو گئیں تو ملک نہیں چلے گا چیف جسٹس
حراست کا نوٹیفکیشن واپس لیکر ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلائینگے، راجاارشاد.
سپریم کورٹ نے قبائلی علاقوں میں قائم حراستی مراکزمیں رکھے گئے افرادکے بارے میں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیاہے اورآبزرویشن دی ہے کہ رپورٹ میں ایک اورکہانی گھڑی گئی ہے۔
اڈیالہ جیل سے11افراد کی رہائی کے بعد دوبارہ حراست میں لینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخارچوہدری نے ریمارکس دیے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ عدالتیں بے بس ہیں، اگر عدالتیں بے بس ہوگئیں تو ملک نہیں چلے گا۔خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجاارشاد نے عدالت میں حمزہ کیمپ حملے کی رپورٹ پیش کی اوراسے خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس کا کہناتھاکہ2007 سے یہ لوگ حراستی مراکزمیں ہیں،جس کو مرضی سزا دیں مگر سزا قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔
خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجا ارشاد نے کہا کہ ایجنسیاں کسی کیخلاف نہیں ملک کے وسیع تر مفاد میںکام کرتی ہیں،حراستی مراکز میں رکھنے کانوٹیفکیشن واپس لیکران قیدیوں کیخلاف مقدمہ ایف سی آرکے تحت چلائینگے۔
عدالت نے سوال اٹھایاایجنسیاں ایف سی آرکے تحت کیسے کارروائی کرسکتی ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم کسی کے ہاتھ باندھ نہیں سکتے مگراس طرح ساری عمرکسی کوقیدمیں بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں مگران کو اس کہانی کا علم بھی نہیں ہوگا جن لوگوں نے ایف سی آرکے تحت کارروائی کرنا ہے ان کو تو شایدکچھ علم ہی نہ ہو۔ آن لائن کے مطابق اس مقدمے میں طارق اسد نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا غیرذمے داری کی حد ہوگئی، قیدیوںکا اب تک ٹرائل مکمل ہو جاناچاہیے تھا۔
این این آئی کے مطابق راجا ارشاد نے کہا کہ حراستی مرکز میں رکھنے کا نوٹیفکیشن واپس لے کر ان قیدیوںکیخلاف مقدمہ ایف سی آرکے تحت چلائینگے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تو حساس ادارے کے وکیل ہیں، ایف سی آرکے تحت کارروائی کیسے کر سکتے ہیں؟ ۔
اڈیالہ جیل سے11افراد کی رہائی کے بعد دوبارہ حراست میں لینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخارچوہدری نے ریمارکس دیے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ عدالتیں بے بس ہیں، اگر عدالتیں بے بس ہوگئیں تو ملک نہیں چلے گا۔خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجاارشاد نے عدالت میں حمزہ کیمپ حملے کی رپورٹ پیش کی اوراسے خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس کا کہناتھاکہ2007 سے یہ لوگ حراستی مراکزمیں ہیں،جس کو مرضی سزا دیں مگر سزا قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔
خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجا ارشاد نے کہا کہ ایجنسیاں کسی کیخلاف نہیں ملک کے وسیع تر مفاد میںکام کرتی ہیں،حراستی مراکز میں رکھنے کانوٹیفکیشن واپس لیکران قیدیوں کیخلاف مقدمہ ایف سی آرکے تحت چلائینگے۔
عدالت نے سوال اٹھایاایجنسیاں ایف سی آرکے تحت کیسے کارروائی کرسکتی ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم کسی کے ہاتھ باندھ نہیں سکتے مگراس طرح ساری عمرکسی کوقیدمیں بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں مگران کو اس کہانی کا علم بھی نہیں ہوگا جن لوگوں نے ایف سی آرکے تحت کارروائی کرنا ہے ان کو تو شایدکچھ علم ہی نہ ہو۔ آن لائن کے مطابق اس مقدمے میں طارق اسد نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا غیرذمے داری کی حد ہوگئی، قیدیوںکا اب تک ٹرائل مکمل ہو جاناچاہیے تھا۔
این این آئی کے مطابق راجا ارشاد نے کہا کہ حراستی مرکز میں رکھنے کا نوٹیفکیشن واپس لے کر ان قیدیوںکیخلاف مقدمہ ایف سی آرکے تحت چلائینگے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تو حساس ادارے کے وکیل ہیں، ایف سی آرکے تحت کارروائی کیسے کر سکتے ہیں؟ ۔