صدر ٹرمپ کا متنازعہ اور اشتعال انگیز اعلان
امریکی صدر ٹرمپ نے ایسی چنگاری کو ہوا دی ہے جو شعلوں میں تبدیل ہو کر آگ بن سکتی ہے
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم ) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ کئی امریکی صدور نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر انھوں نے یہ نہیں کیا، ہمت کی بات تھی یا انھوں نے اپنا ذہن بدل لیا تھا، کچھ کہہ نہیں سکتے مگر میں نے انتخابی وعدہ کیا تھا، آج اسے پورا کر رہا ہوں۔صدر ٹرمپ نے باقاعدہ اعلان کرنے سے قبل متعدد عالمی رہنماؤں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق تمام رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تاہم یہ تشویش امریکی صدر کو فیصلے سے نہ روک سکی۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی شدید مذمت کی گئی ہے، فلسطینی صدر محمود عباس نے فیصلے کو عالمی امن کے لیے سنگین نتائج کا حامل قرار دیا ہے۔
پاکستان نے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادوں کے منافی قرار دیا ہے۔ پاکستان نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرے جس سے القدس شریف کے قانونی اور تاریخی حیثیت کے علاوہ یو این چارٹر کو خطر ہ ہو۔ پاکستانی حکومت اور عوام امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے سے متعلق مجوزہ منصوبے کی غیر متزلزل مخالفت کرتے ہیں۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا فیصلہ بلاجواز اور غیر ذمے دارانہ ہے جو فلسطین عوام کے حقوق کے منافی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے او آئی سی کا اجلاس 13دسمبر کو طلب کر لیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس فیصلہ سے اسرائیل کے خلاف ایک اور انتفاضہ شروع ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے15میں سے آٹھ ممالک نے مطالبہ کیا کہ امریکی فیصلے کے خلاف رواں ہفتے اجلاس بلایا جائے۔ لبنانی وزیراعظم سعد حریری نے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل استعفی دے دیا تھا، استعفی واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ملک بھرپور طریقے سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہے اور ان کا علیحدہ ملک جس کا دارالحکومت یروشلم ہو قائم کرنے کے مطالبے پر ان کا ساتھ دیتا ہے۔ میکسیکو نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا سفارتخانہ تل ابیب میں ہی رہے گا۔
مقبوضہ القدس مسلمانوں' یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کے نزدیک انتہائی اہمیت کا حامل اور متبرک شہر ہے۔ عبرانی زبان میں اسے یروشلائیم اور عربی میں القدوس کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔یہ شہر چار حصوں اسلامی' مسیحی' یہودی اور آرمینائی میں تقسیم ہے۔ عیسائیوں کے دو علاقے ہیں کیونکہ آرمینائی بھی عیسائی ہیں۔ مسلمانوں کا علاقہ چاروں علاقوں میں سب سے بڑا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کے لیے قبلۃ الاول کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف مذہبی طور پر بلکہ سفارتی اور سیاسی طور پر بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیل کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا جب کہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے حملہ کر کے القدس پر قبضہ کر لیا۔
عرب اسرائیل تنازعے کی بنیاد آج سے ایک سو سال قبل یعنی 1817ء میں رکھی گئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کے بارے میں متنازعہ اعلان اسرائیل کے قیام کی سوویں سالگرہ پر کیا ہے۔ادھر یہ ایسا موقع ہے جب مسلمان اپنے باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں اور اس امریکی اعلان کی مخالفت میں زبانی احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے اور صدر ٹرمپ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں 'اسی لیے انھوں نے اس موقع کا انتخاب کیا ہے۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اب ہم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان دیرپا امن سمجھوتے کے قریب ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اعلان پر مسلم ممالک اور دیگر ملکوں کا علامتی ردعمل تو سامنے آ گیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک مستقبل میں کیا فیصلے کرتے ہیں، اسلامی ممالک میں سے مصر'اردن اور ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور تل ابیب ان کے سفارتخانے قائم ہیں، یہ تینوں مسلم ملک آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اس کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔
بہرحال صدر ٹرمپ نے ایک ایسی چنگاری کو ہوا دی ہے جو شعلوں میں تبدیل ہو کر آگ بن سکتی ہے، صدر ٹرمپ پے در پے ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سے اسلامی ممالک میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے' صدر ٹرمپ کے فیصلے کی امریکا میں بھی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کوئی سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ کئی امریکی صدور نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر انھوں نے یہ نہیں کیا، ہمت کی بات تھی یا انھوں نے اپنا ذہن بدل لیا تھا، کچھ کہہ نہیں سکتے مگر میں نے انتخابی وعدہ کیا تھا، آج اسے پورا کر رہا ہوں۔صدر ٹرمپ نے باقاعدہ اعلان کرنے سے قبل متعدد عالمی رہنماؤں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق تمام رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تاہم یہ تشویش امریکی صدر کو فیصلے سے نہ روک سکی۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی شدید مذمت کی گئی ہے، فلسطینی صدر محمود عباس نے فیصلے کو عالمی امن کے لیے سنگین نتائج کا حامل قرار دیا ہے۔
پاکستان نے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادوں کے منافی قرار دیا ہے۔ پاکستان نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرے جس سے القدس شریف کے قانونی اور تاریخی حیثیت کے علاوہ یو این چارٹر کو خطر ہ ہو۔ پاکستانی حکومت اور عوام امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے سے متعلق مجوزہ منصوبے کی غیر متزلزل مخالفت کرتے ہیں۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا فیصلہ بلاجواز اور غیر ذمے دارانہ ہے جو فلسطین عوام کے حقوق کے منافی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے او آئی سی کا اجلاس 13دسمبر کو طلب کر لیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس فیصلہ سے اسرائیل کے خلاف ایک اور انتفاضہ شروع ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے15میں سے آٹھ ممالک نے مطالبہ کیا کہ امریکی فیصلے کے خلاف رواں ہفتے اجلاس بلایا جائے۔ لبنانی وزیراعظم سعد حریری نے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل استعفی دے دیا تھا، استعفی واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ملک بھرپور طریقے سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہے اور ان کا علیحدہ ملک جس کا دارالحکومت یروشلم ہو قائم کرنے کے مطالبے پر ان کا ساتھ دیتا ہے۔ میکسیکو نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا سفارتخانہ تل ابیب میں ہی رہے گا۔
مقبوضہ القدس مسلمانوں' یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کے نزدیک انتہائی اہمیت کا حامل اور متبرک شہر ہے۔ عبرانی زبان میں اسے یروشلائیم اور عربی میں القدوس کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔یہ شہر چار حصوں اسلامی' مسیحی' یہودی اور آرمینائی میں تقسیم ہے۔ عیسائیوں کے دو علاقے ہیں کیونکہ آرمینائی بھی عیسائی ہیں۔ مسلمانوں کا علاقہ چاروں علاقوں میں سب سے بڑا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کے لیے قبلۃ الاول کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف مذہبی طور پر بلکہ سفارتی اور سیاسی طور پر بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیل کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا جب کہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے حملہ کر کے القدس پر قبضہ کر لیا۔
عرب اسرائیل تنازعے کی بنیاد آج سے ایک سو سال قبل یعنی 1817ء میں رکھی گئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کے بارے میں متنازعہ اعلان اسرائیل کے قیام کی سوویں سالگرہ پر کیا ہے۔ادھر یہ ایسا موقع ہے جب مسلمان اپنے باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں اور اس امریکی اعلان کی مخالفت میں زبانی احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے اور صدر ٹرمپ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں 'اسی لیے انھوں نے اس موقع کا انتخاب کیا ہے۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اب ہم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان دیرپا امن سمجھوتے کے قریب ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اعلان پر مسلم ممالک اور دیگر ملکوں کا علامتی ردعمل تو سامنے آ گیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک مستقبل میں کیا فیصلے کرتے ہیں، اسلامی ممالک میں سے مصر'اردن اور ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور تل ابیب ان کے سفارتخانے قائم ہیں، یہ تینوں مسلم ملک آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اس کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔
بہرحال صدر ٹرمپ نے ایک ایسی چنگاری کو ہوا دی ہے جو شعلوں میں تبدیل ہو کر آگ بن سکتی ہے، صدر ٹرمپ پے در پے ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سے اسلامی ممالک میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے' صدر ٹرمپ کے فیصلے کی امریکا میں بھی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کوئی سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔