احتساب انصاف اور عوام
آئین کی وضاحت اور آئین بنانا عدلیہ کا جبکہ ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار مگر آئینی ترامیم بھی چیلنج ہورہی ہیں
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ احتساب عوام کا نہیں عدالتوں کا کام ہے، جب کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات سپریم کورٹ میں لائے جا رہے ہیں۔
عمران خان یہ بھی مان رہے ہیں کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد عوامی جلسوں کو عوامی عدالت قرار دے کر اپنی نااہلی پر عوام سے فیصلے لینے شروع کردیے ہیں اور سپریم کورٹ سے اپنی نااہلی کا مقدمہ ہارنے کے بعد انھیں ملکی عدالتوں پر شاید اعتماد نہیں رہا اور انھوں نے ایبٹ آباد کے بعد کوئٹہ کے جلسوں میں اپنی نااہلی کے فیصلے کو ان عوام سے مسترد کرایا جو صرف ووٹ دینا جانتے ہیں اور پانچ سال بعد اپنی مرضی یا اپنے بڑوں کے کہنے پر ووٹ دے کر نئے حکمرانوں کے عتاب سہنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے کچھ پوچھنے جیسے بھی نہیں رہتے۔
ملک میں احتساب اور انصاف کے ادارے الگ ہیں جو عوام کا نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والوں کی کرپشن، لاقانونیت اور من مانیوں کو دیکھتے ہیں اور اپنی اپنی حدود میں رہ کر قانون کے مطابق انھیں نمٹاتے ہیں۔ احتساب ملک میں ہمیشہ متنازعہ رہا ہے جسے حکومتوں نے اپنے مخالفین کے لیے زیادہ استعمال کیا۔ احتساب میں اپنے ساتھ آکر مل جانے والوں کو بے گناہی اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بھی دیے اور مخالفین کو سزائیں بھی دلائی گئیں۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کا احتساب کراتے رہے پھر جنرل پرویز مشرف نے دونوں کا احتساب اپنی پسند سے شروع کرایا تو دونوں کے پاس جلاوطنی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔ پہلے نواز شریف کا احتساب ہوا تو محترمہ خوش مگر بعد میں ان کی سرکاری جلا وطنی پر معترض ہوئیں اور سرکاری شکنجے میں آنے سے قبل خود بھی جلاوطن ہوگئیں اور جنرل پرویز مشرف نے دونوں کی پارٹیوں کے منتخب ارکان کو احتساب سے بچا کر اپنی مسلم لیگ (ق) میں شامل کرادیا اور آٹھ سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔
جنرل مشرف نے (ق) لیگ سے مایوس ہوکر دبئی جاکر محترمہ کے ساتھ این آر او اس شرط پر کہا کہ وہ وطن نہیں آئیں گے نہیں آئیں گی۔ اقتدار ایسی چیز ہے کہ ہے کہ وہ جس کے پاس ہو وہ چھوڑنا نہیں چاہتا اور جو اقتدار کا عادی ہوکر سابق ہوچکا ہو وہ آکر اقتدار کو مر کر ہی چھوڑنا پسند کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی مرضی کے خلاف محترمہ اور نواز شریف 2007 میں واپس آئے اور اگلے سال جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے محروم کر گئے۔ دونوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کرکے پانچ سال اقتدار کی باری کا فیصلہ کیا مگر محترمہ شہید ہوئیں اور اقتدار ان کے شوہر کا مقدر ٹھہرا جنھوں نے آرام سے اپنی باری مکمل کی اور 2013 میں نواز شریف باری لینے آئے تو عمران خان نے ان کے آتے ہی شریف برادران کا جینا حرام کردیا۔
محترمہ اور میاں کی دونوں حکومتوں میں نہ کوئی عمران خان تھا نہ آزاد عدلیہ تھی۔ مشرف دور میں عدلیہ سے صدر زرداری نے کام لینے کی کوشش کی، نواز شریف آزاد عدلیہ کے لیے سیاسی میدان میں آگئے تھے مگر انھیں یہ پتا نہیں تھا کہ آزاد عدلیہ میں وہ پہلے کی طرح خود مختار نہیں ہوں گے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری زرداری حکومت کے پیچھے پڑے اور ان کے جاتے ہی عمران خان نواز شریف کے لیے مسئلہ بن گئے اور پھر سیاسی مقدمات کا بوجھ بڑھتا گیا۔
جس کا اعتراف عمران خان بھی کر رہے ہیں مگر وہ خود بھی عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھانے میں پیش پیش رہے اور اب کوئی ماہ خالی نہیں جاتا جب موجودہ حکومتوں کے خلاف عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور دیگر ہر سیاسی معاملہ عدالت نہ لے کر جاتے ہوں جس سے اب اعلیٰ عدالتیں سیاسی مقدمات میں مصروف ہیں ۔ آئیدن نئے نئے سیاسی معاملات عدالتوں میں آکر ان پر بوجھ بڑھا رہے ہیں اور عدالتیں فیصلے دے کر مخالفین کی تنقید بھی برداشت کر رہی ہیں مگر عدالتیں سیاسی معاملات کو ترجیح ضرور دے رہی ہیں اور ہر سیاسی معاملہ لے کر عدالتوں کا رخ کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ سیاسی معاملات طے کرنے کا اصل فورم پارلیمنٹ ہے عدالت نہیں۔
سپریم کورٹ کا اصل کام آئین کی وضاحت ہے اور آئین بنانا اور اس میں ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے مگر اب آئینی ترامیم بھی چیلنج ہو رہی ہیں اور پارلیمنٹ بھی اتنی ناکام ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عائشہ گلالئی کے الزام پر مجوزہ کمیٹی کو عمران خان نے مسترد کردیا اور اپنے خلاف تحقیقات نہیں ہونے دی جس کے خلاف کوئی رکن قومی اسمبلی عدالت نہیں گیا۔ پارلیمنٹ اپنے ہی ارکان کے باعث اپنی اہمیت مسلسل کھو رہی ہے اور تمام سیاسی معاملات قومی اسمبلی طے کر رہی ہے۔
سینیٹ ایک قرارداد منظور کرتی ہے تو قومی اسمبلی دوسری، نتیجے میں دونوں اہم ادارے عوام میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ انصاف کا اپنا طریقہ کار ہے اور ارکان اسمبلی منتخب کرنے والے اپنا مزاج رکھتے ہیں جو عدلیہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتے مگر عوام ٰ عدالتوں میں زیر سماعت اپنے ان ہزاروں مقدمات کی سماعت کے ضرور منتظر ہیں جن کی سماعت کی سیاسی معاملات کے باعث نوبت نہیں آرہی ۔ سیاسی معاملات عدالتوں میں آنا بند ہوں تاکہ عوام کو جلد انصاف مل سکے یا سیاستدان عدلیہ کے بجائے اپنی پارلیمنٹ کو اہمیت دینے لگیں۔
عمران خان یہ بھی مان رہے ہیں کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد عوامی جلسوں کو عوامی عدالت قرار دے کر اپنی نااہلی پر عوام سے فیصلے لینے شروع کردیے ہیں اور سپریم کورٹ سے اپنی نااہلی کا مقدمہ ہارنے کے بعد انھیں ملکی عدالتوں پر شاید اعتماد نہیں رہا اور انھوں نے ایبٹ آباد کے بعد کوئٹہ کے جلسوں میں اپنی نااہلی کے فیصلے کو ان عوام سے مسترد کرایا جو صرف ووٹ دینا جانتے ہیں اور پانچ سال بعد اپنی مرضی یا اپنے بڑوں کے کہنے پر ووٹ دے کر نئے حکمرانوں کے عتاب سہنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے کچھ پوچھنے جیسے بھی نہیں رہتے۔
ملک میں احتساب اور انصاف کے ادارے الگ ہیں جو عوام کا نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والوں کی کرپشن، لاقانونیت اور من مانیوں کو دیکھتے ہیں اور اپنی اپنی حدود میں رہ کر قانون کے مطابق انھیں نمٹاتے ہیں۔ احتساب ملک میں ہمیشہ متنازعہ رہا ہے جسے حکومتوں نے اپنے مخالفین کے لیے زیادہ استعمال کیا۔ احتساب میں اپنے ساتھ آکر مل جانے والوں کو بے گناہی اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بھی دیے اور مخالفین کو سزائیں بھی دلائی گئیں۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کا احتساب کراتے رہے پھر جنرل پرویز مشرف نے دونوں کا احتساب اپنی پسند سے شروع کرایا تو دونوں کے پاس جلاوطنی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔ پہلے نواز شریف کا احتساب ہوا تو محترمہ خوش مگر بعد میں ان کی سرکاری جلا وطنی پر معترض ہوئیں اور سرکاری شکنجے میں آنے سے قبل خود بھی جلاوطن ہوگئیں اور جنرل پرویز مشرف نے دونوں کی پارٹیوں کے منتخب ارکان کو احتساب سے بچا کر اپنی مسلم لیگ (ق) میں شامل کرادیا اور آٹھ سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔
جنرل مشرف نے (ق) لیگ سے مایوس ہوکر دبئی جاکر محترمہ کے ساتھ این آر او اس شرط پر کہا کہ وہ وطن نہیں آئیں گے نہیں آئیں گی۔ اقتدار ایسی چیز ہے کہ ہے کہ وہ جس کے پاس ہو وہ چھوڑنا نہیں چاہتا اور جو اقتدار کا عادی ہوکر سابق ہوچکا ہو وہ آکر اقتدار کو مر کر ہی چھوڑنا پسند کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی مرضی کے خلاف محترمہ اور نواز شریف 2007 میں واپس آئے اور اگلے سال جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے محروم کر گئے۔ دونوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کرکے پانچ سال اقتدار کی باری کا فیصلہ کیا مگر محترمہ شہید ہوئیں اور اقتدار ان کے شوہر کا مقدر ٹھہرا جنھوں نے آرام سے اپنی باری مکمل کی اور 2013 میں نواز شریف باری لینے آئے تو عمران خان نے ان کے آتے ہی شریف برادران کا جینا حرام کردیا۔
محترمہ اور میاں کی دونوں حکومتوں میں نہ کوئی عمران خان تھا نہ آزاد عدلیہ تھی۔ مشرف دور میں عدلیہ سے صدر زرداری نے کام لینے کی کوشش کی، نواز شریف آزاد عدلیہ کے لیے سیاسی میدان میں آگئے تھے مگر انھیں یہ پتا نہیں تھا کہ آزاد عدلیہ میں وہ پہلے کی طرح خود مختار نہیں ہوں گے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری زرداری حکومت کے پیچھے پڑے اور ان کے جاتے ہی عمران خان نواز شریف کے لیے مسئلہ بن گئے اور پھر سیاسی مقدمات کا بوجھ بڑھتا گیا۔
جس کا اعتراف عمران خان بھی کر رہے ہیں مگر وہ خود بھی عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھانے میں پیش پیش رہے اور اب کوئی ماہ خالی نہیں جاتا جب موجودہ حکومتوں کے خلاف عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور دیگر ہر سیاسی معاملہ عدالت نہ لے کر جاتے ہوں جس سے اب اعلیٰ عدالتیں سیاسی مقدمات میں مصروف ہیں ۔ آئیدن نئے نئے سیاسی معاملات عدالتوں میں آکر ان پر بوجھ بڑھا رہے ہیں اور عدالتیں فیصلے دے کر مخالفین کی تنقید بھی برداشت کر رہی ہیں مگر عدالتیں سیاسی معاملات کو ترجیح ضرور دے رہی ہیں اور ہر سیاسی معاملہ لے کر عدالتوں کا رخ کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ سیاسی معاملات طے کرنے کا اصل فورم پارلیمنٹ ہے عدالت نہیں۔
سپریم کورٹ کا اصل کام آئین کی وضاحت ہے اور آئین بنانا اور اس میں ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے مگر اب آئینی ترامیم بھی چیلنج ہو رہی ہیں اور پارلیمنٹ بھی اتنی ناکام ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عائشہ گلالئی کے الزام پر مجوزہ کمیٹی کو عمران خان نے مسترد کردیا اور اپنے خلاف تحقیقات نہیں ہونے دی جس کے خلاف کوئی رکن قومی اسمبلی عدالت نہیں گیا۔ پارلیمنٹ اپنے ہی ارکان کے باعث اپنی اہمیت مسلسل کھو رہی ہے اور تمام سیاسی معاملات قومی اسمبلی طے کر رہی ہے۔
سینیٹ ایک قرارداد منظور کرتی ہے تو قومی اسمبلی دوسری، نتیجے میں دونوں اہم ادارے عوام میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ انصاف کا اپنا طریقہ کار ہے اور ارکان اسمبلی منتخب کرنے والے اپنا مزاج رکھتے ہیں جو عدلیہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتے مگر عوام ٰ عدالتوں میں زیر سماعت اپنے ان ہزاروں مقدمات کی سماعت کے ضرور منتظر ہیں جن کی سماعت کی سیاسی معاملات کے باعث نوبت نہیں آرہی ۔ سیاسی معاملات عدالتوں میں آنا بند ہوں تاکہ عوام کو جلد انصاف مل سکے یا سیاستدان عدلیہ کے بجائے اپنی پارلیمنٹ کو اہمیت دینے لگیں۔