جمہوریہ یمن تاریخ و خانہ جنگی

غربت، کرپشن، بے روزگاری، پانی کی قلت اور مایوسی نے یمن کے عوام کو تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی


Shehla Aijaz December 08, 2017
[email protected]

یمن بیس صوبوں پر مشتمل اندازاً پانچ لاکھ ستائیس ہزار نو سو اڑسٹھ مربع کلو میٹر رقبے پر محیط مغربی ایشیا میں واقع ایک عرب ملک جس میں ننانوے فیصد مسلمان رہتے ہیں، اس کا دارالحکومت صنعاء ہے۔ یمن کی سرحد سعودی عرب اور عمان سے ملتی ہے، یہ خلیج عدن پر واقع ہے جو بحری تجارت کا مصروف ترین راستہ ہے، یہ سلسلہ بحر ہند اور نہر سوئز سے منسلک ہوتے ہیں یعنی مشرق اور مغرب تک تجارت کا اہم راستہ اس جانب سے نکلتا ہے۔

اسلام یمن میں ساتویں صدی عیسوی میں آیا جب ہمدان قبیلے کے بیس ہزار افراد نے ایک دن میں اسلام قبول کیا۔ یہ حضور اکرمؐ کا ہی دور تھا جب اسلام کی روشنی عرب کے کونے کونے کو منور کر رہی تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام کے قبیلے عاد کا تعلق بھی یمن سے ہی تھا۔ اس وقت قوم عاد یمن اور عمان کے درمیان ایک پہاڑی وادی میں رہا کرتی تھی، انھوں نے اپنی عقل مندی سے اونچے مکانات تعمیر کر رکھے تھے، انھیں اپنی حکمت پر بڑا غرور تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام کی تعلیمات کا ان پر اثر نہ ہوا اور ان پر عذاب الٰہی آگیا۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے۔

حضرت ہودؑ کا مزار بھی یمن کے علاقے حضرموت میں واقع ہے۔ مشہور عاشق رسولؐ بھی یمن کے ایک گاؤں قرن میں پیدا ہوئے۔ حضرت اویس قرنیؒ کو آپؐ سے اس قدر عشق تھا کہ جنگ احد میں جب آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو آپؒ نے اپنے تمام دندان مبارک کو شہید کردیا۔ حضور اکرمؐ نے اپنے وصال کے وقت اپنا کرتا مبارک حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے حوالے کیا اور فرمایا کہ یہ اویس قرنیؒ کو دے دینا۔ آپؒ نے یہ کرتا وصول کیا تو اسے بوسہ دے کر اپنی آنکھوں سے لگایا۔

سلطنت عثمانیہ کی حدود پھیلی تو سولہویں صدی عیسوی میں یمن بھی اپنی سلطنت کی حدود میں آگیا اور انیسویں صدی میں برطانوی نوآبادیات میں داخل ہوگیا۔ 1872 میں یمن دو حصوں یعنی شمالی یمن اور جنوبی یمن میں تقسیم ہوگیا۔ شمالی یمن ترکوں کے پاس چلا گیا اور جنوبی یمن برطانوی قبضے میں رہا۔ 1918 میں شمالی یمن سے ترکوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد حکومتیں آئیں یمن میں سول جنگ رہی۔ عوام نے اپنے حکمرانوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھا یہاں تک کہ 26 ستمبر 1962 کو یمن عرب ری پبلک کا قیام عمل میں آیا۔ یہ دور خانہ جنگی کا رہا اور اس قدر شدت اختیار کی کہ اقوام متحدہ کو وہاں امن مشن بھیجنا پڑا۔

جنوبی یمن میں بھی عوام برطانوی اقتدار سے نکلنا چاہتے تھے یہاں تک کہ 30 نومبر 1967 کو جنوبی یمن آزاد ہوا اور پیپلز ڈیموکریٹک ری پبلک آف یمن کے نام سے ایک آزاد ریاست دنیا کے سامنے آئی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یمن کے دونوں حصوں میں شورش چلتی رہی، جنوبی یمن کا جھکاؤ اس وقت کے طاقتور سوویت یونین کی جانب تھا جب کہ اکثر مغربی ممالک سوویت یونین کے خلاف تھے۔

سوویت یونین کے حصے ٹوٹنے پر جنوبی یمن میں بھی انتشار پیدا ہوا۔ دونوں حصوں میں ایک جنگ جاری تھی کچھ اقتدار پر گرفت رکھنا چاہتے تھے تو کچھ کا خیال تھا کہ دونوں حصے ایک ہوکر پھر سے ایک طاقتور اور مضبوط ریاست کے طور پر عمل کر سکیں گے۔ جنوبی یمن میں اس خانہ جنگی کی صورت میں خاصا خون خرابہ ہوا اور دس ہزار سے زائد افراد اپنی جان سے گئے جب کہ دارالحکومت ایڈن کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ دونوں حصوں میں حالات خراب ہوتے گئے لہٰذا ان دونوں کو کنٹرول کرنے کے لیے 1990 بائیس مئی کو شمالی اور جنوبی یمن کو متحد کرکے جمہوریہ یمن کی بنیاد رکھی گئی۔

جمہوریہ یمن کی دنیا کے خطے پر آمد بظاہر دونوں حصوں کے لیے ایک خوشگوار اقدام تھا لیکن اندرونی خلفشار نے یمن کے خطے پر خون کے چھینٹے بکھیر دیے۔ ایک ایسی سیاست نے حصہ لینا شروع کردیا جس نے باغیوں کو طاقت بخشنا شروع کردی۔ اسی دوران ڈرون حملوں نے بھی سویلین کی ہلاکتوں کو اذیت ناک بنادیا۔ القاعدہ کی یمن میں موجودگی نے بھی اس خطے کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا جس کی بو سونگھتے سونگھتے امریکی ڈرون طیارے وہاں تک پہنچ گئے۔ یمن ایک غریب عرب ملک ہے جہاں پانی کی کمی اور آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح نے مسائل پیدا کر رکھے ہیں وہیں مختلف سیاسی کشتیوں کی آمد و رفت نے عوام کے لیے ایک عجیب سماں پیدا کر رکھا ہے۔

2011 سے سیاسی خلفشار میں گھرا یمن 2015 میں سول وار میں گھر گیا ہے، غربت، کرپشن، بے روزگاری، پانی کی قلت اور مایوسی نے یمن کے عوام کو تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، لیکن حالیہ صورتحال نے یمن میں مزید مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ہیضہ، نمونیا، ڈیتھیریا، کھانسی اور دوسری بیماریوں نے یمن کی عوام خاص کر بچوں کے لیے اذیت ناک ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں بچوں کے حوالے سے یمن کی صورتحال سب سے ابتر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے کے باعث عوام میں وہ بیماریاں زیادہ عام ہو رہی ہیں جن کی وجہ گندے اور آلودہ پانی کی بتائی جا رہی ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق اس ماہ میں ڈیتھیریا جیسا مرض جو اس وقت مردہ بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دنیا بھر میں کنٹرول کرلیا گیا ہے، لیکن یمن میں اس مرض سے ایک سو بیس لوگ متاثر ہوئے ہیں یہ ایک خطرناک جان لیوا بیماری ہے جس کے لیے علاج ناگزیر ہے، لیکن یمن کی حالیہ صورتحال اس حوالے سے نہایت تشویش ناک ہے۔

یونیسیف نے 1.9 ملین کی ویکسین یمن کے دارالحکومت صنعاء میں گزشتہ ہفتے بھیجی ہیں، مسٹر گیرٹ کیپلر (یونیسیف کے مقامی ڈائریکٹر) کا کہنا ہے کہ اس سے مشکل یہ قدم تھا کہ اسے ان لوگوں تک پہنچایا جائے جسے اس کی ضرورت ہے۔ اس ویکسین کا مقصد بچوں کو کھانسی، ٹی بی، نمونیہ اور ڈیتھیریا جیسی بیماریوں سے بچانا ہے۔

مسٹر گیرٹ نے بچوں کے لیے ہونے والی اس کوشش کی حوصلہ افزائی کی ہے لیکن اپنے بھرپور اطمینان کا اظہار نہیں کیا، کیونکہ یہ کوششیں ابھی ناکافی ہے، اس سے پہلے ال ہدیدہ (Al Hudaydah) کی بندرگاہ پر ایک آٹے کی کھیپ بھی وصول کی گئی تھی اور اس سے ایک دن پہلے صنعاء کے ایئرپورٹ ہوائی جہازوں کو اترنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ یہ امر غور طلب ہے کہ جس ملک میں توازن اور مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک طویل عرصوں سے دو حصوں میں بٹنے کے باوجود متحد ہونے پر زور دیا گیا اور ایسا کرنے کے باوجود بھی مسائل، طاقتوں کا زور بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور کرپشن، غربت، غذائی قلت کے علاوہ دیگر دشواریوں کے انبار یمن کی راہ میں کانٹوں کی طرح آگئے ہیں۔ طاقت اور سیاست کا یہ کھیل کب ختم ہوتا ہے کون جانے لیکن اس چکی میں پسنے والے غریب، مجبور اور لاچار عوام کا حامی کون ہے کہ غریب عوام ہر ملک کی ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔