مثالی قیادت اور اسوۂ حسنہ

اعلان نبوت کے بعد کون سی مصیبت ہے جو مکہ میں آپؐ کو پیش نہ آئی مگر نبی کریم ﷺ نے ہمت نہ ہاری

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

کسی بھی ملک کی داخلی و خارجی سلامتی کے لیے چند لازمی عناصر ہوتے ہیں جن کا گراف جس قدر اونچا ہوتا ہے ملک اسی قدر مضبوط و مستحکم ہوتا ہے اور جتنا گراف نیچے آتا ہے ملک اتنا ہی کمزور ہوتا ہے۔

ان میں سب سے پہلی چیز یا راس العناصر جرأت مند، نڈر اور مخلص قیادت ہے، جو نامساعد حالات میں بھی قوم میں مایوسی پیدا نہ ہونے دے۔ قوم کے سامنے ایسا بلند نصب العین پیش کرے جو اتنا واضح ہو کہ قوم کو اس کی حقانیت میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔ پھر قیادت اس نصب العین کے ساتھ اتنی مخلص ہو کہ قوم کا کوئی فرد اس کے اخلاص پر انگلی نہ رکھ سکے۔ قیادت میں اگر یہ چیزیں موجود ہوں تو قوم کی طرف سے وفا ہمیشہ غیر مشروط ہوئی ہے اور قوم قیادت کے درمیان اس طرح وفادارانہ تعلق ملکی استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے موجود ہے، اعلان نبوت کے بعد کون سی ایسی اذیت اور مصیبت ہے جو مکہ مکرمہ میں آپؐ کو پیش نہیں آئی۔ مگر نبی کریم ﷺ نے ان کٹھن حالات میں بھی نہ خود ہمت ہاری نہ پستی دکھائی، نہ اپنے مشن سے پیچھے ہٹے۔ نہ اپنے ماننے والوں (صحابہؓ) کا حوصلہ پست ہونے دیا، بلکہ کلمہ طیبہ کی برکت سے انھیں عرب و عجم کے حکمران ہونے کا مژدہ سنایا۔ لوگوں کے ساتھ مخلصانہ ہمدردی، خیر خواہی اور غمخواری کی چشم دید گواہی آپؐ کی قریب ترین شخصیت یعنی سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے دی ہے۔ اپنی قوم کے ساتھ اخلاص اور خیر خواہی کا بے مثال طرز عمل آپؐ نے اس وقت بھی نہ چھوڑا جب آپؐ دس لاکھ مربع میل کے واحد حکمران تھے اور جب رب کریم نے آپؐ کے واسطے زمین کے خزانے کھول دیے بلکہ زمین کے خزانوں کی چابیاں عنایت فرما دی تھیں۔

اسلامی سیاست کے ماہرین نے حکمرانوں کی شرائط انتخاب میں ایک اہم شرط ''حریت و آزادی'' ذکر کی ہے۔ اس لیے کہ حاکمیت، محکومیت اور غلامی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی، اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکمران اپنے دین اور ملک کے معاملات میں اصول شریعت کے مطابق رائے اور فیصلوں میں آزاد ہوں، لہٰذا ایسا شخص ہرگز حکمرانی کے قابل نہ ہوگا جو اپنی رائے اور نظریات یا فیصلوں میں غیروں کا غلام اور تابع ہو۔ جب جسم کی غلامی اور محکومی امارت و خلافت سے مانع ہے، تو ذہن و فکر کی غلامی کے ساتھ بھی خلافت و امارت جمع نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اگر کوئی حکمران ایسی روش اختیار کرتا ہے تو اس کا معزول کرنا واجب ہوتا ہے۔

پاکستان یا کسی بھی ملک میں داخلی خارجی حقیقی اور پائیدار استحکام اس کی بنیادی فطری اور اولین ضرورت ہے۔ پھر انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ یہ استحکام رب کریم کے اس پسندیدہ یا مقرر کردہ دین (نظام زندگی) کے کلی اور ہمہ جہتی نفاذ کے بغیر ممکن نہیں۔ جو اس نے اپنے برگزیدہ اور منتخب انبیا علیہم السلام کی معرفت سارے انسانوں کی دنیوی اور اخروی فلاح کے لیے عنایت فرمایا اور جس کی تکمیل اس نے اپنے آخری پیغمبر رحمت اور رسول کریمؐ کے ذریعے فرما دی۔ پھر یہ بھی عقلاً نقلاً اور تجربتاً ضروری ہے کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اس کے واسطے متعین راستوں کو اپنایا جائے۔

''تم کامیابی کے خواہش مند ہو لیکن وہ راہ نہیں اپناتے، بے شک کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی''۔

اگر ہم کو پاکستان کی کشتی رواں دواں رکھنی ہے اور اس کو ترقی کی جانب گامزن کرنا ہے تو پھر صرف اسوۂ حسنہ کی روشنی میں جرأت مند قیادت منتخب کرنا ہوگی۔ ملکی استحکام کے لیے حکومت کے چھوٹے بڑے تمام عہدوں پر انتہائی دیانتدار، اہل، باصلاحیت، جرأت مند اور خادم (نہ کہ حاکم) بن کر قوم کی خدمت کرنے والے افراد کا تقرر ازبس ضروری ہے۔


بددیانت کرپٹ اور نااہل لوگ نہ صرف ملک کا وقار بلند نہیں کرسکتے بلکہ ملکی سالمیت و بقا کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اسلام میں کوئی بھی حکومتی عہدہ ایک امانت اور انتہائی ذمے داری کی چیز ہے، دوسرے لفظوں میں کانٹوں کی سیج ہے نہ کہ پھولوں کی۔ کوئی حکومت اگر کسی نااہل آدمی کو کسی منصب پر فائز کرتی ہے تو قرآن مجید اسے خیانت قرار دیتا ہے۔ ابن تیمیہؒ نے زیادہ اہل اور مستحق شخص کے مقابلے میں کسی بھی وجہ سے دوسرے آدمی کے تقرر کو اللہ و رسول اور مومنوں کے ساتھ غداری اور بے وفائی قرار دیا ہے۔

عہد نبوی میں عمال اور حکومتی کارندوں کا تقرر ہمیشہ ان کی ذاتی اہلیت اور تقویٰ کی بنیاد پر کیا گیا۔ حضور اکرمؐ عمال کی تقرری سے قبل ان کا امتحان لیا کرتے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ کو جب یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمانے لگے تو پوچھا تم کس طرح لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کروگے؟ انھوں نے حسب منشا جواب دیا تو انھیں شاباش دی۔ آگے چل کر خلیفہ راشد سیدنا فاروق اعظمؓ نے تو عمال کو تقرری سے قبل کئی چیزوں کا پابند بنایا۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ذات نے انسانوں کے لیے جو فکر اور فلسفہ متعین کیا وہ ہمارے پاس قرآن کریم کی صورت میں موجود ہے۔ قرآن کریم صرف اپنے ماننے والے (مسلمانوں) کی فکر اور زندگی گزارنے کا آئین اور دستور نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا دستور ہے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ پوری دنیا کے انسانوں کا رب ہے، لہٰذا زندگی گزارنے کا دستور بھی پوری دنیا کے انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ پھر جو بھی انسان اس قرآنی نظریے کو نہیں اپنائے گا وہ ناکامی اور خسارے کی زندگی گزارے گا۔

جیسے آج دنیا کے اندر انسانیت کی حالت ہے کہ قرآن کریم کے نظریے کو چھوڑنے کے بعد انھوں نے دنیاوی ترقی تو حاصل کرلی، لیکن معاشرتی اور اخلاقی زندگی میں وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے مادی افکارات اور نظریات انسان کو دنیاوی ساز و سامان تو مہیا کرسکا، لیکن بہترین، بااخلاق اور باکردار انسان نہ دے سکا۔

جس کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا منصب عطا کیا تھا۔ مادہ پرست انسانوں نے یا تو اﷲ کی بھیجی ہوئی کتابوں توریت، انجیل، زبور اور دیگر صحیفوں میں جوکہ قرآن کے آنے کے بعد منسوخ ہوگئی ہیں میں تبدیلی کرکے ان کو اپنی فکر بنایا، اور کچھ لوگوں نے کچھ مذہبی تصورات اور انسانی تجزیات کی بنیاد پر اپنا نظریہ اور نظام بنایا کچھ لوگوں نے صرف انسانی تجزیات کی بنیاد پر معاشرتی اور اجتماعی اصول بنائے اور ان کے تعین میں مذہبی عقائد اور معیار کو نظرانداز کردیا، جب کہ اس کے برعکس مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہر ہدایت اپنے اسلام سے حاصل کرتا ہے۔

مسلمانوں کے پاس اسلام صرف مذہب نہیں ہے جو صرف ذاتی زندگی کے معاملات کی حد تک محدود ہو، بلکہ اسلام ایک کامل دین اور مکمل نظام حیات ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بیچ میں تعلقات اور حقوق کو بھی متعین کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام اجتماعی اور معاشرتی زندگی کو کنٹرول کرتا ہےلیکن اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ مسلمان انسان کے تاریخی تجربوں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرتا بلکہ وہ ماضی کے واقعات، تجزیات اور علوم سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور ان سے حاصل ہونے والی صحیح اور مفید چیزوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپناتا ہے۔

مسلمان صرف انسانی فکر اور تجربات کو اخذ اور اختیار کا ذریعہ نہیں بناتا بلکہ اس کے نزدیک اخذ اور اختیار کا ذریعہ اﷲ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دستور قرآن حکیم اور قرآن حکیم کے شارح اور معلم آخر رسول حضرت محمد مصطفیٰؐ کا عمل (سنت نبوی) ہے۔ یعنی جو حکم قرآن کریم اور سنت کے مطابق ہوگا، مسلمان اس کو اختیار کرے گا۔ جو اس کے مطابق نہیں ہوگا، اس کو وہ مسترد کردیتا ہے، گویا کہ قرآن اور سنت ان کے لیے کسوٹی ہے، جس پر وہ اپنے ہر عمل کو پرکھتے ہیں۔ مسلمان اپنا ہر قانون اور اصول قرآن و سنت کے مطابق بناتے ہیں۔
Load Next Story