سیرت ِ مطہرہ اور ہم
آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔
BRUSSELS:
قرآنِ کریم، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے خاتم النبیین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں دو بہت بنیادی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
ویسے تو حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کسی بھی عنوان سے کیا جائے وہ خیر و برکت کا باعث اور ہماری فلاح و تربیت ہی کا ذریعہ ہوگا۔ تاہم قرآن و حدیث اور کتبِ سیرۃ کے توسط سے جو دو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں، اگر ہم انھیں سمجھ لیں اور اپنی زندگی کا نصاب قرار دے کر اختیار کرلیں تو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کی کام یابی اور فلاح کی مکمل ضمانت مل جائے گی۔ روزِ حشر ہم اللہ رب العزت کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔
یہ بظاہر دو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی جملہ تعلیمات سے لے کر انسانی زندگی کے تمام تر اقدامات کے لیے پورا ضابطہ ان دو باتوں میں مکمل طور سے بیان کردیا گیا ہے۔
اب دیکھیے، پہلے بیان میں آپ کو جو رحمت بنا کر بھیجنے کا کہا گیا، وہ دراصل اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات، کامل دین اور آخری پیغامِ الٰہی ہونے کی تفصیل اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح رحمت بن کر آئے کہ اللہ کریم نے آپ کو اپنی جامع ہدایات، آیات اور احکامات عطا فرما دیے۔ ان آیات کو سمجھنے اور ہدایات و احکامات پر عمل پیرا ہونے میں فرد، گروہ، ملت بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی اور خیر کا سامان ہے۔ یہ اللہ کا آخری پیغام، یعنی آخری دین ہے۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا گیا کہ تمھارے لیے دین کو مکمل کردیا گیا اور اسے تمھارے لیے پسند کیا گیا۔ علما، فقہا، معلّمین، مفسرین اور مشائخ نے ان نکات کی تفسیر و تعلیم بڑی شرح و بست کے ساتھ کی ہے۔
یہ سمجھایا گیا ہے کہ جو بات اجمالاً کہی گئی ہے، وہ دراصل سب جہانوں اور زمانوں کے لیے حتمی اور مکمل ترین ضابطے، قاعدے، قانون، اصول، تعلیم، شعور، تربیت اور تہذیب کے نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوںکہ اتنی بڑی خیر، راحت، رحمت اور نعمت دے کر بھیجا گیا اور یہ رحمت و نعمت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسے آئندہ کے سب زمانوں کو تفویض کردیا گیا، اس لیے ثابت ہوا کہ آپ ہمیشہ کے لیے رحمت ہیں اور یہی نکتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا ایک بین ثبوت ہے۔
اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ظاہر ہے، یہ بہت عقلی اور منطقی بات ہے۔ اس لیے کہ نبی یا پیغمبر انسانوں کی طرف اللہ کا پیغام یا ہدایت لے کر آتا ہے۔ اب جب کہ ہدایت اور پیغام کو مکمل ترین صورت میں آپ کے ذریعے بھیج دیا گیا تو نبی یا پیغمبر کی ضرورت ہی آئندہ کے لیے ختم ہوگئی۔ اس لیے یہ پیغام، یہ ہدایت، یہ دین ساری انسانیت اور تمام جہانوں کے لیے ہے۔
اب آئیے دوسرے نکتے کی طرف۔ اللہ کا بھیجا ہوا پیغام، اُس کا عطا کردہ نصاب تو انسانیت کے لیے آگیا، لیکن اس نصاب کو سمجھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی بہترین صورت کی تعلیم بھی تو ضروری تھی۔ علم ہو یا شعور، اُس کی اہمیت و افادیت کا انحصار دراصل اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس نہج پر اور کس حد تک آدمی کے عمل میں ڈھلتا ہے۔
اب اگر اتنا بڑا نصاب، اتنی بڑی تعلیم انسانیت کے لیے بھیجی گئی تھی تو یہ لازم تھا کہ اس کی تدریس اور ابلاغ کے لیے نہایت جامع صورت میں عملی نمونہ بھی پیش کیا جاتا تاکہ انسانیت اُسے سیکھنے، سمجھنے اور اختیار کرنے میں کسی الجھن یا اشتباہ سے دوچار نہ ہو۔ چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کردار کی اعلیٰ ترین صفات کے ساتھ انسانی معاشرے کی تربیت کے لیے تشریف لائے۔ علم و عمل اور شخصیت و کردار کا ایک ایسا حتمی نمونہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کی صورت انسانیت کو عطا کیا گیا کہ پھر اس کے بعد اس باب پر بھی تکمیل کی مہر ہمیشہ کے لیے ثبت کردی گئی۔
اہلِ علم نے لکھا ہے کہ سیرت و کردار کے زمرے میں جتنا اور جیسا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا گیا ہے، دنیا کی تاریخ میں کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں کیا گیا۔ اس حقیقت کی تصدیق زمانوں، جہانوں اور زبانوں کی ہر تفریق سے بالاتر ہوکر ادیانِ عالم، علوم و افکار اور تہذیبِ انسانی کے ہر باب میں کی جاسکتی ہے۔ یہ سلسلہ عہدِ نبوی سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ ایک لمحے کے لیے غور تو کرنا چاہیے کہ کیا ایسا کسی الوہی اور کونیاتی اہتمام کے بغیر ممکن ہے؟
عقلِ سلیم کہتی ہے کہ ہرگز نہیں۔ تو بس پھر سمجھ لینا چاہیے کہ ذکرِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سارے اہتمام کا دوسرا کوئی مطلب نہیں ماسوا یہ کہ اسلام جس پیغام کو لے کر آیا ہے، اُس کی تاابد تدریس، ترویج اور فروغ کے لیے کردار کا اعلیٰ ترین عملی نمونہ بھی تمام تر تفصیلات کے زندہ رکھا جائے، تاکہ ہدایت کا سفر جاری رہے۔ روشنی نئی منزلوں اور نئے جہانوں تک پہنچتی رہی۔
بعد کے زمانوں کے وہ لوگ جو سمجھنا اور سیکھنا چاہیں اور جن کے اندر اس سانچے میں ڈھلنے کی آرزو ہو اور جو عملاً اس منزل کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہوں، انھیں عمل اور کردار اپنی مثالی حالت میں میسر آئے۔ چناںچہ اللہ رب العزت نے دین کی تکمیل کو کردار کی تکمیل سے جوڑ دیا۔ اس لیے کہ دین خیال، فکر، نظریہ یا فلسفہ نہیں ہے، ضابطۂ حیات ہے۔ اب چوںکہ دین آخری ہے اس لیے کردار و عمل کی مثال کو بھی بلندی کی آخری سطح پر پیش کیا گیا۔ انسانی عقل و فہم کے لیے یہ بجائے خود ایک بڑی اور بہت محکم دلیل ہے کہ اسلام دینِ الٰہی کی حیثیت سے خاتم الادیان ہے اور محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں۔ تکمیل کی یہ قوسین ملتی ہیں تو حیاتِ انسانی کو اصول اور عمل کا مکمل دائرہ میسر آتا ہے۔
کردار کی مثال اور عمل کی تکمیلیت کا یہی نکتہ ہے جس کی طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس بیان میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کا خلق دراصل قرآن ہے۔ یہی وہ خلق ہے کہ جسے قرآن مجید میں خلقِ عظیم کہا گیا ہے۔ انسانی فطرت کا خاصّہ ہے کہ اس کے لیے بیان سے زیادہ عمل قابلِ فہم ہوتا ہے۔ سو، دیکھا جاسکتا ہے کہ منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی آپ کا کردار یہ ہے کہ اپنے پرائے، دوست دشمن اور نیک و بد سب کے سب آپ کو صادق و امین کی حیثیت سے جانتے ہیں، امن و انصاف کے قائل اور صلح و آشتی کے داعی کے طور پر پہچانتے ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے، لین دین، تعلقات اور معاملات ہر مرحلے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی گواہی ملتی ہے۔
اس کردار کا سامان پہلے ہی سے کردیا گیا تھا کہ بعد ازاں اس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی مہلت نہ ملے۔ اس کردار کی تفصیل کو بیان کرنے کا یہ محل نہیں کہ اس کے لیے دفتر کے دفتر کم پڑجائیں۔ بس مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ کردار انسانیت کی معراج ہے۔ سچ، حق، انصاف، اخلاق، رواداری، محبت، بھلائی، دریا دلی، کشادہ جبینی، عزم و عمل، لطف و انبساط، حکمت و بصیرت، خاطرداری، خندہ پیشانی، عجز و انکسار، وضع داری، وفاداری، تحمل، بردباری، قیادت و سیادت، نگہ کی بلندی، سخن کی دل نوازی اور جاں کی پرسوزی غرضے کہ کسی بھی پہلو سے دیکھ لیجیے، یہ کردار کامل و اکمل نظر آتا ہے اس لیے کہ اس کردار کے توسط سے انسانیت کو اس کی معراج سے روشناس کرنا ہی دراصل مشیتِ ایزدی ہے۔
چناںچہ رزم و بزم ہو یا جلوت و خلوت، دیکھنے والوں نے ہر جا کردار کی بلندی کی گواہی دی۔ عمل کو مثالی کہا اور سیادت کا اعتراف کیا۔ اس اعتراف کے رنگ بھی الگ الگ ہیں اور لہجے بھی جدا جدا۔
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ و آلہٖ
-----
حسنِ یوسف ، دمِ عیسیٰ ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
----
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ
اب دیکھیے ذکر ایسی بلند ہستی کا ہو تو عالم علم کی جہت سے دیکھے۔ فقیہہ نکاتِ فقہ کو زیرِ بحث لائے۔ قاضی میزانِ عدل و انصاف کو حوالہ بنائے۔ حاکم حکمرانی کا جوہر اٹھائے۔ مفسر کردار کی تفسیر کرے اور شارح ہو تو حیاتِ مدثر کی شرح و تعبیر کرے۔ سب اپنی اپنی سطح کا کام کرسکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ مجھ جیسا عام انسان کیا دیکھے، کیا سوچے، کیا کہے اور کیا کرے۔
ذہن میں اس سوال کے اٹھتے ہی ایک لمحے کو تو جیسے مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ عقل و دل پر سکوت کی لہر سی گزرتی ہے۔ بس پھر فوراً ہی خیال آتا ہے، ایک کام تو مجھ جیسا عامی اور بے مایہ بھی کرسکتا ہے۔ میں اپنی زندگی کو اِس اعلیٰ و ارفع مثال سے کسی طرح جوڑ کر تو دیکھ ہی سکتا ہوں۔ ذرّے کا نصیب جاگتا ہے تو اُسے رفعتیں مل جاتی ہیں۔
زمین کی قسمت کھلتی ہے تو وہ آسمان سے بھی بلند ہوجاتی ہے۔ بے شک یہ خیال دقیق ہے، لطیف ہے، لیکن آرزو پر تو کوئی پابندی نہیں۔ امنگیں اور خواہشیں سرحدوں کی پابند بھلا کب ہوتی ہیں۔ خواب اور تمنا کو پر پھیلانے سے آخر کون روک سکتا ہے۔ ٹھیک ہے، چہ نسبت خاک رابہ عالمِ پاک، لیکن دل کے آنے کے ڈھنگ تو ہمیشہ نرالے ہی ہوتے ہیں، ٹھیک ہے، میں چودہ سو سال کی دوری پر ہوں، لیکن وہ مہرِ تاباں تو آج بھی اُسی طرح ضوفشاں ہے۔ نسبت کا فیض تو جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ نور سے نسبت ذرّے کو بھی خورشید بنا دیتی ہے۔ سو، میں تأمل کیوں کروں، جستجو کیوں نہ کروں۔ اس بات سے دل حوصلہ پکڑتا ہے۔ ایک بار حوصلہ مل جائے تو آدمی کم سے کم آسمان کو تو چھو ہی سکتا ہے۔ میری نظر بھی اپنی بے مایگی اور فروتنی سے ہٹ جاتی ہے۔ دل پکار اٹھتا ہے:
ہم اُن کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
ہم اُن کے ہیں۔۔۔۔۔ ہم اُن کے ہیں۔۔۔۔۔ ہم اُن کے ہیں۔۔۔۔۔ یہ دل وجد میں ہے، یہ جاں رقص میں ہے۔ زمیں کیف میں، آسماں رقص میں ہے۔ لطف و انبساط کا، راحت و اطمینان کا اور سرود و کیف کا یہ لمحہ ساری عمر کو محیط ہوسکتا تھا، لیکن یہ کون ہے جس نے میرا کاندھا تھپتھپایا ہے اور مجھ سے پوچھا ہے، تم کس منہ سے نسبت کا دعویٰ کرتے ہو؟ کون سے اعمال ہیں تمھارے جو اس نسبت کی بنیاد ہیں؟ ذرا دیکھو تو سہی کیا کردار ہے تمھارا؟ ذرا سوچو تو سہی، کیا وہ ذاتِ پاک کہ جو اپنوں ہی کا نہیں پرائے کا بھی غم کھاتی تھی، جو دشمنوں تک سے رحم کا معاملہ کرتی تھی، جو ظلم اور زیادتی پر بھی ہنس کر درگزر سے کام لیتی تھی، جسے حق و انصاف سے دنیا کی کوئی طاقت باز نہ رکھ سکی، جس نے کسی حرص، ہوس اور لالچ کو اپنی راہ میں نہ آنے دیا، جس نے دنیا جہاں کی بادشاہت میسر آنے پر فقر و استغنا کو اختیار کیا، جس نے طاقت و اختیار کو پاؤں کی جوتی کے نیچے رکھا اور جو کم تر اور بے آسرا ملے انھیں اٹھا کر گلے سے لگایا۔
جس نے فتح کا انداز بدلا اور فتح کے بعد طرزِ عمل کے اصول بدلے، جس نے دریدہ دہنوں کو نرمی اور محبت سے پکارا، جس نے راہ میں کانٹے بچھائے اور کوڑا پھینکنے والوں سے اخلاص اور ہم دردی کا سلوک کیا، جس نے اذیت دینے اور رسوائی کے ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کو مسکرا کر معاف کردیا، جس نے حکومت و اختیار کا وتیرہ بدل ڈالا، جس نے مال کو وبال جانا اور اعمال کو ڈھال بنایا، جس کی زندگی توکل کی تجسیم ہوئی، جس نے مشیت پر راضی بہ رضا ہونے کو معمولِ حیات بنایا، جس نے نفرت کے کھیتوں میں محبت کاشت کی، جس نے پیٹ پر پتھر باندھے اور شکر کیا، جس نے صداقت، شجاعت اور عدالت کا سبق پڑھا اور پڑھایا، جس نے دنیا اور اس کی آسائشوں کو جوتی پر پڑنے والی دھول سے کبھی زیادہ نہ سمجھا۔ تم کو اس سے کیا نسبت؟
میں بولنا چاہتا ہوں، لیکن زبان ساتھ نہیں دیتی۔ کچھ کہنا چاہتا ہوں، لیکن الفاظ میسر نہیں آتے۔ خاموشی کی مہیب سل توڑنا چاہتا ہوں، لیکن آواز کا تیشہ اٹھائے نہیں اٹھتا۔ پھر کوئی کاندھا تھپتھپاتا ہے اور کہتا ہے:
تم کس منہ سے نسبت کا دعویٰ کرتے ہو؟ ہم نے آدھا ادھورا حلیہ اپنایا، اونا پونا رنگ خود پر چڑھایا اور دھوکا دینے پر تل گئے کہ تمھیں اُن سے نسبت ہے۔ تم تو دین کو آڑ بناتے ہو، دنیا کو حاصل کرنے کے لیے، تم تو دین کو صرف جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کے لیے استعمال کرتے ہو، تم تو سیاسی قوت کے حصول کے لیے دین کو استعمال کرتے ہو، تم تو دین کے نام پر عزت اور جاہ و جلال حاصل کرنا چاہتے ہو، تم تو دین کو نعرہ بناکر سادہ دل عوام کے جذبات سے کھیلتے ہو، اُن کی طاقت کو اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہتے ہو، تم تو دین کے پردے میں دنیا کی آسائشوں کے طلب گار ہو، تم تو دین کو جبر و اکراہ اور کبر و ریا کے لیے ڈھال بناتے ہو، تم تو اقتدار، اختیار، طاقت، آسائش اور خوانِ دنیا کے تاجر ہو۔ تم تو دین بیچتے ہو۔ دینے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ تم تو ملت کو بیچتے ہو۔ ملت فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ تم تو دین کی آڑ میں ایجنسیز کے لیے کام کرتے ہو، تم تو دین دشمن قوتوں سے مال لے کر نفرت اور فرقہ واریت کے بیج بوتے ہو، اور سروں کی فصل اتارتے ہو۔ حق، انصاف، سچائی، بھلائی، اخلاص، نیکی، محبت، تحمل اور بردباری سے تمھیں کوئی سروکار ہی نہیں۔ تم کس منہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کا سوال کرتے ہو؟
دین تو بے حیائی سے روکتا ہے اور تم بے حیا قوتوں کے آلۂ کار ہو، دین نیکی کی تعلیم دیتا ہے اور تم بدی کے ساہوکار ہو، دین نرمی اور محبت سکھاتا ہے اور تم خود غرضی، جبر اور عدم برداشت کو پھیلاتے ہو۔ دین سادگی اور عفوو درگزر پر اصرار کرتا ہے، تم بناوٹ اور جبر و اختیار کے بھوکے ہو، ایسے بھوکے کہ اب اس بھوک کو جہنم کی آگ ہی بجھا سکتی ہے۔
دین تو تعلیم لے کر آیا تھا۔ عمل پر اصرار کرتا تھا۔ تم نے تعلیم سے منہ موڑا اور عمل کو یکسر چھوڑا اور اپنے دنیاوی مقاصد کی تکمیل میں لگ گئے۔ دین کو تماشا بنا دیا۔ وہ کام جو محض بائیس پچّیس برس پہلے سوچے بھی نہیں جاسکتے تھے، آج ان کا فروغ دین کے نام پر اس حد تک ہوچکا ہے کہ اصل دین کی طرف لوگوں کا دھیان تک نہیں جاتا۔ جلسے کرکے، میلاد کی محفلیں سجا کر، ہیپی برتھ ڈے یارسول اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے کیک کاٹ کر، تم یہ سمجھتے ہو کہ دین کی خدمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار ہورہا ہے۔
حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو جس طرح فن فیئر کا ذریعہ بنالیا گیا، تم نے بھی انھی کا وتیرہ اختیار کرنا شروع کردیا۔ اس سال تو تم نے بھی اُسی طرح ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر چڑھ کر عوام کے لیے وہیں سے تحفے، مٹھائیاں اور ٹافیاں اچھالیں۔ کیا تمھارے رسولؐ کی یہ تعلیمات تھیں؟
یہ حبِ رسول کا طریقہ ہی نہیں ہے۔ حبِ رسول تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کا نام ہے، اُن کو عام لوگوں تک پہنچانے کا نام ہے، اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کرنے اور اسے اختیار کرنے کا نام دین ہے۔
قرآنِ کریم، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے خاتم النبیین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں دو بہت بنیادی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
ویسے تو حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کسی بھی عنوان سے کیا جائے وہ خیر و برکت کا باعث اور ہماری فلاح و تربیت ہی کا ذریعہ ہوگا۔ تاہم قرآن و حدیث اور کتبِ سیرۃ کے توسط سے جو دو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں، اگر ہم انھیں سمجھ لیں اور اپنی زندگی کا نصاب قرار دے کر اختیار کرلیں تو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کی کام یابی اور فلاح کی مکمل ضمانت مل جائے گی۔ روزِ حشر ہم اللہ رب العزت کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔
یہ بظاہر دو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی جملہ تعلیمات سے لے کر انسانی زندگی کے تمام تر اقدامات کے لیے پورا ضابطہ ان دو باتوں میں مکمل طور سے بیان کردیا گیا ہے۔
اب دیکھیے، پہلے بیان میں آپ کو جو رحمت بنا کر بھیجنے کا کہا گیا، وہ دراصل اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات، کامل دین اور آخری پیغامِ الٰہی ہونے کی تفصیل اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح رحمت بن کر آئے کہ اللہ کریم نے آپ کو اپنی جامع ہدایات، آیات اور احکامات عطا فرما دیے۔ ان آیات کو سمجھنے اور ہدایات و احکامات پر عمل پیرا ہونے میں فرد، گروہ، ملت بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی اور خیر کا سامان ہے۔ یہ اللہ کا آخری پیغام، یعنی آخری دین ہے۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا گیا کہ تمھارے لیے دین کو مکمل کردیا گیا اور اسے تمھارے لیے پسند کیا گیا۔ علما، فقہا، معلّمین، مفسرین اور مشائخ نے ان نکات کی تفسیر و تعلیم بڑی شرح و بست کے ساتھ کی ہے۔
یہ سمجھایا گیا ہے کہ جو بات اجمالاً کہی گئی ہے، وہ دراصل سب جہانوں اور زمانوں کے لیے حتمی اور مکمل ترین ضابطے، قاعدے، قانون، اصول، تعلیم، شعور، تربیت اور تہذیب کے نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوںکہ اتنی بڑی خیر، راحت، رحمت اور نعمت دے کر بھیجا گیا اور یہ رحمت و نعمت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسے آئندہ کے سب زمانوں کو تفویض کردیا گیا، اس لیے ثابت ہوا کہ آپ ہمیشہ کے لیے رحمت ہیں اور یہی نکتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا ایک بین ثبوت ہے۔
اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ظاہر ہے، یہ بہت عقلی اور منطقی بات ہے۔ اس لیے کہ نبی یا پیغمبر انسانوں کی طرف اللہ کا پیغام یا ہدایت لے کر آتا ہے۔ اب جب کہ ہدایت اور پیغام کو مکمل ترین صورت میں آپ کے ذریعے بھیج دیا گیا تو نبی یا پیغمبر کی ضرورت ہی آئندہ کے لیے ختم ہوگئی۔ اس لیے یہ پیغام، یہ ہدایت، یہ دین ساری انسانیت اور تمام جہانوں کے لیے ہے۔
اب آئیے دوسرے نکتے کی طرف۔ اللہ کا بھیجا ہوا پیغام، اُس کا عطا کردہ نصاب تو انسانیت کے لیے آگیا، لیکن اس نصاب کو سمجھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی بہترین صورت کی تعلیم بھی تو ضروری تھی۔ علم ہو یا شعور، اُس کی اہمیت و افادیت کا انحصار دراصل اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس نہج پر اور کس حد تک آدمی کے عمل میں ڈھلتا ہے۔
اب اگر اتنا بڑا نصاب، اتنی بڑی تعلیم انسانیت کے لیے بھیجی گئی تھی تو یہ لازم تھا کہ اس کی تدریس اور ابلاغ کے لیے نہایت جامع صورت میں عملی نمونہ بھی پیش کیا جاتا تاکہ انسانیت اُسے سیکھنے، سمجھنے اور اختیار کرنے میں کسی الجھن یا اشتباہ سے دوچار نہ ہو۔ چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کردار کی اعلیٰ ترین صفات کے ساتھ انسانی معاشرے کی تربیت کے لیے تشریف لائے۔ علم و عمل اور شخصیت و کردار کا ایک ایسا حتمی نمونہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کی صورت انسانیت کو عطا کیا گیا کہ پھر اس کے بعد اس باب پر بھی تکمیل کی مہر ہمیشہ کے لیے ثبت کردی گئی۔
اہلِ علم نے لکھا ہے کہ سیرت و کردار کے زمرے میں جتنا اور جیسا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا گیا ہے، دنیا کی تاریخ میں کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں کیا گیا۔ اس حقیقت کی تصدیق زمانوں، جہانوں اور زبانوں کی ہر تفریق سے بالاتر ہوکر ادیانِ عالم، علوم و افکار اور تہذیبِ انسانی کے ہر باب میں کی جاسکتی ہے۔ یہ سلسلہ عہدِ نبوی سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ ایک لمحے کے لیے غور تو کرنا چاہیے کہ کیا ایسا کسی الوہی اور کونیاتی اہتمام کے بغیر ممکن ہے؟
عقلِ سلیم کہتی ہے کہ ہرگز نہیں۔ تو بس پھر سمجھ لینا چاہیے کہ ذکرِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سارے اہتمام کا دوسرا کوئی مطلب نہیں ماسوا یہ کہ اسلام جس پیغام کو لے کر آیا ہے، اُس کی تاابد تدریس، ترویج اور فروغ کے لیے کردار کا اعلیٰ ترین عملی نمونہ بھی تمام تر تفصیلات کے زندہ رکھا جائے، تاکہ ہدایت کا سفر جاری رہے۔ روشنی نئی منزلوں اور نئے جہانوں تک پہنچتی رہی۔
بعد کے زمانوں کے وہ لوگ جو سمجھنا اور سیکھنا چاہیں اور جن کے اندر اس سانچے میں ڈھلنے کی آرزو ہو اور جو عملاً اس منزل کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہوں، انھیں عمل اور کردار اپنی مثالی حالت میں میسر آئے۔ چناںچہ اللہ رب العزت نے دین کی تکمیل کو کردار کی تکمیل سے جوڑ دیا۔ اس لیے کہ دین خیال، فکر، نظریہ یا فلسفہ نہیں ہے، ضابطۂ حیات ہے۔ اب چوںکہ دین آخری ہے اس لیے کردار و عمل کی مثال کو بھی بلندی کی آخری سطح پر پیش کیا گیا۔ انسانی عقل و فہم کے لیے یہ بجائے خود ایک بڑی اور بہت محکم دلیل ہے کہ اسلام دینِ الٰہی کی حیثیت سے خاتم الادیان ہے اور محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں۔ تکمیل کی یہ قوسین ملتی ہیں تو حیاتِ انسانی کو اصول اور عمل کا مکمل دائرہ میسر آتا ہے۔
کردار کی مثال اور عمل کی تکمیلیت کا یہی نکتہ ہے جس کی طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس بیان میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کا خلق دراصل قرآن ہے۔ یہی وہ خلق ہے کہ جسے قرآن مجید میں خلقِ عظیم کہا گیا ہے۔ انسانی فطرت کا خاصّہ ہے کہ اس کے لیے بیان سے زیادہ عمل قابلِ فہم ہوتا ہے۔ سو، دیکھا جاسکتا ہے کہ منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی آپ کا کردار یہ ہے کہ اپنے پرائے، دوست دشمن اور نیک و بد سب کے سب آپ کو صادق و امین کی حیثیت سے جانتے ہیں، امن و انصاف کے قائل اور صلح و آشتی کے داعی کے طور پر پہچانتے ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے، لین دین، تعلقات اور معاملات ہر مرحلے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی گواہی ملتی ہے۔
اس کردار کا سامان پہلے ہی سے کردیا گیا تھا کہ بعد ازاں اس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی مہلت نہ ملے۔ اس کردار کی تفصیل کو بیان کرنے کا یہ محل نہیں کہ اس کے لیے دفتر کے دفتر کم پڑجائیں۔ بس مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ کردار انسانیت کی معراج ہے۔ سچ، حق، انصاف، اخلاق، رواداری، محبت، بھلائی، دریا دلی، کشادہ جبینی، عزم و عمل، لطف و انبساط، حکمت و بصیرت، خاطرداری، خندہ پیشانی، عجز و انکسار، وضع داری، وفاداری، تحمل، بردباری، قیادت و سیادت، نگہ کی بلندی، سخن کی دل نوازی اور جاں کی پرسوزی غرضے کہ کسی بھی پہلو سے دیکھ لیجیے، یہ کردار کامل و اکمل نظر آتا ہے اس لیے کہ اس کردار کے توسط سے انسانیت کو اس کی معراج سے روشناس کرنا ہی دراصل مشیتِ ایزدی ہے۔
چناںچہ رزم و بزم ہو یا جلوت و خلوت، دیکھنے والوں نے ہر جا کردار کی بلندی کی گواہی دی۔ عمل کو مثالی کہا اور سیادت کا اعتراف کیا۔ اس اعتراف کے رنگ بھی الگ الگ ہیں اور لہجے بھی جدا جدا۔
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ و آلہٖ
-----
حسنِ یوسف ، دمِ عیسیٰ ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
----
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ
اب دیکھیے ذکر ایسی بلند ہستی کا ہو تو عالم علم کی جہت سے دیکھے۔ فقیہہ نکاتِ فقہ کو زیرِ بحث لائے۔ قاضی میزانِ عدل و انصاف کو حوالہ بنائے۔ حاکم حکمرانی کا جوہر اٹھائے۔ مفسر کردار کی تفسیر کرے اور شارح ہو تو حیاتِ مدثر کی شرح و تعبیر کرے۔ سب اپنی اپنی سطح کا کام کرسکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ مجھ جیسا عام انسان کیا دیکھے، کیا سوچے، کیا کہے اور کیا کرے۔
ذہن میں اس سوال کے اٹھتے ہی ایک لمحے کو تو جیسے مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ عقل و دل پر سکوت کی لہر سی گزرتی ہے۔ بس پھر فوراً ہی خیال آتا ہے، ایک کام تو مجھ جیسا عامی اور بے مایہ بھی کرسکتا ہے۔ میں اپنی زندگی کو اِس اعلیٰ و ارفع مثال سے کسی طرح جوڑ کر تو دیکھ ہی سکتا ہوں۔ ذرّے کا نصیب جاگتا ہے تو اُسے رفعتیں مل جاتی ہیں۔
زمین کی قسمت کھلتی ہے تو وہ آسمان سے بھی بلند ہوجاتی ہے۔ بے شک یہ خیال دقیق ہے، لطیف ہے، لیکن آرزو پر تو کوئی پابندی نہیں۔ امنگیں اور خواہشیں سرحدوں کی پابند بھلا کب ہوتی ہیں۔ خواب اور تمنا کو پر پھیلانے سے آخر کون روک سکتا ہے۔ ٹھیک ہے، چہ نسبت خاک رابہ عالمِ پاک، لیکن دل کے آنے کے ڈھنگ تو ہمیشہ نرالے ہی ہوتے ہیں، ٹھیک ہے، میں چودہ سو سال کی دوری پر ہوں، لیکن وہ مہرِ تاباں تو آج بھی اُسی طرح ضوفشاں ہے۔ نسبت کا فیض تو جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ نور سے نسبت ذرّے کو بھی خورشید بنا دیتی ہے۔ سو، میں تأمل کیوں کروں، جستجو کیوں نہ کروں۔ اس بات سے دل حوصلہ پکڑتا ہے۔ ایک بار حوصلہ مل جائے تو آدمی کم سے کم آسمان کو تو چھو ہی سکتا ہے۔ میری نظر بھی اپنی بے مایگی اور فروتنی سے ہٹ جاتی ہے۔ دل پکار اٹھتا ہے:
ہم اُن کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
ہم اُن کے ہیں۔۔۔۔۔ ہم اُن کے ہیں۔۔۔۔۔ ہم اُن کے ہیں۔۔۔۔۔ یہ دل وجد میں ہے، یہ جاں رقص میں ہے۔ زمیں کیف میں، آسماں رقص میں ہے۔ لطف و انبساط کا، راحت و اطمینان کا اور سرود و کیف کا یہ لمحہ ساری عمر کو محیط ہوسکتا تھا، لیکن یہ کون ہے جس نے میرا کاندھا تھپتھپایا ہے اور مجھ سے پوچھا ہے، تم کس منہ سے نسبت کا دعویٰ کرتے ہو؟ کون سے اعمال ہیں تمھارے جو اس نسبت کی بنیاد ہیں؟ ذرا دیکھو تو سہی کیا کردار ہے تمھارا؟ ذرا سوچو تو سہی، کیا وہ ذاتِ پاک کہ جو اپنوں ہی کا نہیں پرائے کا بھی غم کھاتی تھی، جو دشمنوں تک سے رحم کا معاملہ کرتی تھی، جو ظلم اور زیادتی پر بھی ہنس کر درگزر سے کام لیتی تھی، جسے حق و انصاف سے دنیا کی کوئی طاقت باز نہ رکھ سکی، جس نے کسی حرص، ہوس اور لالچ کو اپنی راہ میں نہ آنے دیا، جس نے دنیا جہاں کی بادشاہت میسر آنے پر فقر و استغنا کو اختیار کیا، جس نے طاقت و اختیار کو پاؤں کی جوتی کے نیچے رکھا اور جو کم تر اور بے آسرا ملے انھیں اٹھا کر گلے سے لگایا۔
جس نے فتح کا انداز بدلا اور فتح کے بعد طرزِ عمل کے اصول بدلے، جس نے دریدہ دہنوں کو نرمی اور محبت سے پکارا، جس نے راہ میں کانٹے بچھائے اور کوڑا پھینکنے والوں سے اخلاص اور ہم دردی کا سلوک کیا، جس نے اذیت دینے اور رسوائی کے ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کو مسکرا کر معاف کردیا، جس نے حکومت و اختیار کا وتیرہ بدل ڈالا، جس نے مال کو وبال جانا اور اعمال کو ڈھال بنایا، جس کی زندگی توکل کی تجسیم ہوئی، جس نے مشیت پر راضی بہ رضا ہونے کو معمولِ حیات بنایا، جس نے نفرت کے کھیتوں میں محبت کاشت کی، جس نے پیٹ پر پتھر باندھے اور شکر کیا، جس نے صداقت، شجاعت اور عدالت کا سبق پڑھا اور پڑھایا، جس نے دنیا اور اس کی آسائشوں کو جوتی پر پڑنے والی دھول سے کبھی زیادہ نہ سمجھا۔ تم کو اس سے کیا نسبت؟
میں بولنا چاہتا ہوں، لیکن زبان ساتھ نہیں دیتی۔ کچھ کہنا چاہتا ہوں، لیکن الفاظ میسر نہیں آتے۔ خاموشی کی مہیب سل توڑنا چاہتا ہوں، لیکن آواز کا تیشہ اٹھائے نہیں اٹھتا۔ پھر کوئی کاندھا تھپتھپاتا ہے اور کہتا ہے:
تم کس منہ سے نسبت کا دعویٰ کرتے ہو؟ ہم نے آدھا ادھورا حلیہ اپنایا، اونا پونا رنگ خود پر چڑھایا اور دھوکا دینے پر تل گئے کہ تمھیں اُن سے نسبت ہے۔ تم تو دین کو آڑ بناتے ہو، دنیا کو حاصل کرنے کے لیے، تم تو دین کو صرف جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کے لیے استعمال کرتے ہو، تم تو سیاسی قوت کے حصول کے لیے دین کو استعمال کرتے ہو، تم تو دین کے نام پر عزت اور جاہ و جلال حاصل کرنا چاہتے ہو، تم تو دین کو نعرہ بناکر سادہ دل عوام کے جذبات سے کھیلتے ہو، اُن کی طاقت کو اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہتے ہو، تم تو دین کے پردے میں دنیا کی آسائشوں کے طلب گار ہو، تم تو دین کو جبر و اکراہ اور کبر و ریا کے لیے ڈھال بناتے ہو، تم تو اقتدار، اختیار، طاقت، آسائش اور خوانِ دنیا کے تاجر ہو۔ تم تو دین بیچتے ہو۔ دینے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ تم تو ملت کو بیچتے ہو۔ ملت فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ تم تو دین کی آڑ میں ایجنسیز کے لیے کام کرتے ہو، تم تو دین دشمن قوتوں سے مال لے کر نفرت اور فرقہ واریت کے بیج بوتے ہو، اور سروں کی فصل اتارتے ہو۔ حق، انصاف، سچائی، بھلائی، اخلاص، نیکی، محبت، تحمل اور بردباری سے تمھیں کوئی سروکار ہی نہیں۔ تم کس منہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کا سوال کرتے ہو؟
دین تو بے حیائی سے روکتا ہے اور تم بے حیا قوتوں کے آلۂ کار ہو، دین نیکی کی تعلیم دیتا ہے اور تم بدی کے ساہوکار ہو، دین نرمی اور محبت سکھاتا ہے اور تم خود غرضی، جبر اور عدم برداشت کو پھیلاتے ہو۔ دین سادگی اور عفوو درگزر پر اصرار کرتا ہے، تم بناوٹ اور جبر و اختیار کے بھوکے ہو، ایسے بھوکے کہ اب اس بھوک کو جہنم کی آگ ہی بجھا سکتی ہے۔
دین تو تعلیم لے کر آیا تھا۔ عمل پر اصرار کرتا تھا۔ تم نے تعلیم سے منہ موڑا اور عمل کو یکسر چھوڑا اور اپنے دنیاوی مقاصد کی تکمیل میں لگ گئے۔ دین کو تماشا بنا دیا۔ وہ کام جو محض بائیس پچّیس برس پہلے سوچے بھی نہیں جاسکتے تھے، آج ان کا فروغ دین کے نام پر اس حد تک ہوچکا ہے کہ اصل دین کی طرف لوگوں کا دھیان تک نہیں جاتا۔ جلسے کرکے، میلاد کی محفلیں سجا کر، ہیپی برتھ ڈے یارسول اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے کیک کاٹ کر، تم یہ سمجھتے ہو کہ دین کی خدمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار ہورہا ہے۔
حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو جس طرح فن فیئر کا ذریعہ بنالیا گیا، تم نے بھی انھی کا وتیرہ اختیار کرنا شروع کردیا۔ اس سال تو تم نے بھی اُسی طرح ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر چڑھ کر عوام کے لیے وہیں سے تحفے، مٹھائیاں اور ٹافیاں اچھالیں۔ کیا تمھارے رسولؐ کی یہ تعلیمات تھیں؟
یہ حبِ رسول کا طریقہ ہی نہیں ہے۔ حبِ رسول تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کا نام ہے، اُن کو عام لوگوں تک پہنچانے کا نام ہے، اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کرنے اور اسے اختیار کرنے کا نام دین ہے۔