رحمتِ عالم شافع محشر ﷺ
حشر بھی ایک ہی مرتبہ برپا ہوگا پھر کبھی قیامت نہیں آئے گی۔
شافع کے معنی شفاعت کرنے والا، سفارش کرنے والا، شفیع بھی اسی سے بنا ہے یعنی جس کی سفارش قبول کی جائے۔
محشر کے معنی جمع ہونے کی جگہ ہے۔ اس لیے قیامت والے دن کو یوم الحشر کہا جاتا ہے۔ اس دن تمام انسان ایک ہی جگہ ہونگے۔ اور پھر ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ حاشر جمع کرنے والے کو کہتے ہیں اور یہ جمع کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ ہی کی ہے۔ ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد ایک بار پھر زندہ کیا جائے گا اور تعالیٰ کے رو بہ رو ہوگا جہاں اسے اس کے کیے کی جزا یا سزا ملے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم : '' اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہوکر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں۔ پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔'' (سورہ الزلزال)
ہر شخص نیکی پر خوش اور برائی پر ناخوش اور پشیمان ہوگا۔ ان آیات میں '' ذرّہ '' دو مرتبہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعض کے نزدیک چیونٹی سے بھی چھوٹی کوئی چیز ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ پر مٹی لگ جاتی ہے وہ مٹی کے ذرّات ہیں۔ کچھ کے نزدیک سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گرد و غبار کے جو ذرّات سے نظر آتے ہیں وہ ذرّہ ہے۔ امام شوکانی نے پہلے معنی کو اولیٰ کہا ہے، یعنی قریب تر معنی وہی ہیں۔ امام مقاتل لکھتے ہیں کہ یہ سورت ان دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک شخص سائل کو تھوڑا سا دینے میں تامل کرتا اور دوسرا شخص چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتا تھا۔ (بہ حوالہ: فتح القدیر)
مسلم امّہ تو اپنے اس عقیدے پر سختی سے کاربند ہے دیگر اقوام و ملل جو اس عقیدے کو نہیں مانتے وہ مرنے کے بعد اپنے رب کی اس حقانیت کو تسلیم کرلیں گے مگر اب وقت نکل چکا ہوگا۔ کیوں کہ حشر بھی ایک ہی مرتبہ برپا ہوگا پھر کبھی قیامت نہیں آئے گی۔ یہ حشر کہاں برپا ہوگا ؟ اس جگہ یا مقام کا مختصر سا تعارف ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اس دنیا میں جو بھی پیدا ہوتا ہے اس پر موت ضرور واقع ہوگی اور یہ قول کسی انسان کا نہیں بل کہ خلق کرنے والے خالق کا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا، مفہوم : ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے (دوزخ سے ) اور جنت میں داخل کردیا جائے، بے شک وہ کام یاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔'' (سورہ آل عمران )
کس کی موت کب اور کہاں واقع ہوگی اس کا علم صرف ذات باری تعالیٰ ہی کو ہے بس ہمیں تو یہ پتا چلتا ہے کہ متوفی کہاں دفن ہوا ؟ مگر مسلم امہ اس بات پر ضرور متفق ہے کہ مرنے والا کہیں بھی دفن ہوا مگر روز محشر وہ اپنے اللہ کے حضور ضرور پیش ہوگا خواہ وہ جل کر مرا ہو یا کسی درندے نے چیر پھاڑ کھایا ہو یا سمندر میں غرق ہوگیا ہو یا پھر کسی اور طریقے سے اس کا وجود ہی مٹ گیا ہو یا فنا ہوگیا ہو۔ اللہ اپنی قدرت سے ایک مرتبہ پھر اسے وجود میں لائے گا جس طرح پہلی مرتبہ ماں کے پیٹ میں وجود میں لایا تھا۔
یہ پیشی عرفات کے میدان میں ہوگی۔ عرفات ایک پہاڑ کا نام ہے جو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلے پر واقع ہے اسی پہاڑ کی نسبت سے اس میدان کا نام بھی میدان عرفات پڑ گیا ہے۔ اسی کے قریب ایک اور پہاڑ جبل رحمت ہے۔ اسی مقام پر اللہ تعالیٰ کی میزان عدل نصب ہوگی۔ حجاج کرام نو ذی الحج کو اسی مقام پر وقوف کرتے ہیں جسے شرعی اصطلاح میں وقوف عرفہ یا وقوف عرفات کہتے ہیں۔
حضور اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ وقوف عرفات ہی حج ہے۔ اسی میدان میں ایک عالی شان مسجد بھی قائم ہے جسے مسجد نمرہ کہتے ہیں، جہاں حجاج کرام ظہر اور عصر کی نماز ملا کر پڑھتے ہیں۔ حج کا خطبہ بھی یہیں سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ بڑا مقدس مقام ہے۔ کیوں کہ حضور اکرم ؐ نے امت مسلمہ کے لیے رو رو کر بخشش کے لیے دعا اسی مقام پر مانگی تھی۔ حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زاید صحابہ کرامؓ کی ہم راہی میں آپؐ نے وہ مشہور خطبہ دیا تھا جو آج بھی منشور انسانیت کہلاتا ہے۔ اور یہیں پر آخری وحی قرآنی آیات کی شکل میں نازل ہوئی، مفہوم: ''آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔'' (سورہ المائدہ)
اس میدان کی خصوصیات میں سے چند یہ بھی ہیں۔
حضرت آدم و حوا کو جنت سے اتارا گیا تو زمین پران کی دوبارہ ملاقات اسی مقام پر ہوئی تھی، جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا۔ اس لیے بھی اس میدان کا نام عرفہ پڑگیا۔ حضرت جبرائیل ؑنے حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج یہیں پر سکھائے تھے جو ان کی شریعت کی زینت بنے جو بعدازاں آنحضور ؐ کو بھی شریعت میں یہی مناسک حج ودیعت فرمائے گئے۔
امت مسلمہ کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ یہی میدان عرفات میدان حشر بھی ہے، جہاں دنیا کے کونے کونے سے ہر انسان اپنی قبر سے نکل کر نفسی نفسی پکارتے ہوئے اس میدان میں خود پہنچ جائے گا۔ اس دن دنیا کے تمام وسائل ناکام ہوجائیں گے، تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہو جائیں گے، ہر شخص اپنی ٹانگوں سے چل کر اپنے رب کے حضور کھڑا ہوگا۔ اس طویل ترین گرم دن میں کوئی بیٹھنے یا لیٹنے کا تصور تک نہیں کرے گا بس ہر ایک کی ایک ہی خواہش ہوگی کہ بس آج میری نجات یا بخشش ہوجائے۔
حضور اکرمؐ کو دنیا و آخرت کے تمام فضائل و خصائص عطا فرمائے گئے جو دنیا کے کسی بھی انسان کو عطا نہ ہوئے۔ آپؐ کو یہ خصائص عطا کیے گئے تھے اور آخرت کی دنیا میں بھی مزید فضائل عطا ہوئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: قیامت میں میں پیغمبروں کا نمائندہ ، امام اور ان کی شفاعت کا پیروکار ہوں گا۔ پھر فرمایا میں قیامت کے دن تمام انبیاء کا سردار ہوں گا۔ پھر فرمایا قیامت کے دن حضرت آدم ؑ سے لے کر تمام پیغمبر میرے علَم کے نیچے ہوں گے۔ اور سب سے پہلے میں ہی اپنی قبر سے سے باہر آؤں گا۔ (ترمذی مناقب نبوی ) پھر فرمایا جب وہ (لوگ) خدا کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کی طرف سے بولنے والا میں ہوں گا، جب وہ ناامید ہوں گے تو ان کو خوش خبری سنانے والا میں ہوں گا، اس دن خدا کی حمد کا علَم میرے ہاتھ میں ہوگا۔ آخرت کی خصوصیات میں سے آپؐ کی ایک خصوصیت شافع محشر کی بھی ہوگی۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: میں پہلا شفیع ہوں گا اور سب سے پہلا وہ شخص جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں پہلا ہوں گا جو جنت کی شفاعت کرے گا۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل النبی۔ کتاب الایمان باب الشفاعت)
شفاعت کے موضوع پر ایک متفق حدیث جو متعدد راویوں سے مروی ہے ان میں حضرت ابوہریرہ، ؓ حضرت انس بن مالکؓ، حضرت جابرؓ اور حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضور ؐ نے صحابہ ؓ کی مجلس میں فرمایا کہ قیامت کے ہول ناک میدان میں لوگوں کو ایک شفیع کی تلاش ہوگی، لوگ پہلے حضرت آدمؑ کے پاس جائیں گے اور ان کی صفات بیان کرنے کے بعد کہیں گے کہ ہماری سفارش کر دیجیے آپ فرمائیں گے میرا یہ رتبہ نہیں ہے۔ پھر لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس پہنچیں گے اور ان سے کہیں گے اللہ نے آپؑ کو اپنا شکر گزار بندہ کہا ہے اس لیے آج ہماری سفارش فرمائیے۔
آپؑ نے فرمایا مجھے ایک دعا مستجاب ہونے کا موقع دیا گیا تھا جو میں طوفان کے وقت کرچکا لہٰذا اب تم لوگ ابراہیمؑ کے پاس جاؤ۔ چناں چہ مخلوق ان کے پاس پہنچے گی اور وہی شفاعت کا سوال کرے گی اور یہ بھی کہا کہ آپ خدا کے دوست یعنی خلیل ہیں، آپ کی سنی جائے گی۔ تو آپؑ نے فرمایا وہ بھی فرمائیں گے آج جیسا غضب پہلے کبھی نہ تھا اس لیے میرا بھی یہ مرتبہ نہیں۔ تم لوگ موسٰی کے پاس جاؤ۔ یہ لوگ اب موسٰی کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ نے خدا سے کلام کیا ہے اس لیے آپ ؑ کو اور لوگوں سے برتری حاصل ہے، اس لیے ہماری سفارش فرمائیے۔
وہ کہیں گے مجھ سے بھی ایک شخص کا قتل ہو چکا ہے جس کا مجھے حکم نہ تھا۔ آج خدا کا غضب عروج پر ہے اس لیے میری بھی نہیں سنی جائے گی، تم لوگ عیسٰی کے پاس جاؤ۔ اب لوگ عیسٰی ؑ کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپؑ نے گہوارے میں اللہ سے کلام کیا ہے، اس کے علاوہ آپ کلمتہ اللہ اور روح اللہ ہیں ہماری سفارش کردیجیے۔ آپؑ بھی مخلوق کو جواب دے دیں گے کہ میرا رتبہ بھی سفارش کرنے والا نہیں ہے۔ آج اللہ کا غضب وہ ہے جو پہلے کبھی نہ تھا، اس لیے آپ محمدؐ کے پاس جائیں۔
اب مخلوق حضرت محمد ﷺ کے پاس آئے گی وہ سب کہیں گے آپ خدا کے رسول اور خاتم الانبیاء ﷺ ہیں، جن کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں، آپؐ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کردیجیے۔ آپؐ عر ش کے پاس آئیں گے اور اذن طلب کریں گے۔ اذن ہوگا تو سجدے میں گر پڑیں گے۔ آپؐ دیر تک سجدہ میں رہیں گے پھر آواز آئے گی: اے محمد (ﷺ) سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، مانگو دیا جائے گا، شفاعت کرو قبول کی جائے گی۔ آپؐ عرض کریں گے: الٰہی امتی! امتی۔ حکم ہوگا، جاؤ جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایما ن ہوگا اس کو نجات ہے۔
آپؐ خوش ہوجائیں گے اور اس کی تعمیل کرکے پھر حمد و ثناء کریں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے۔ پھر صدائے غیب آئے گی۔ اے محمد (ﷺ) سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، مانگو عطا کیا جائے گا، شفاعت کرو قبول ہوگی۔
آپؐ عرض کریں گے: الٰہی امتی! امتی۔ حکم ہوگا کہ جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ بخشا جائے گا۔ غرض تیسری مرتبہ بھی آپؐ سجدے میں جا کر پھر امت کی بخشش کے لیے کہیں گے اور اس بار رائی کے سب سے چھوٹے دانے کے برابر ایمان والے شخص کی بھی بخشش کروالیں گے۔ آخر میں آپؐ ایک مرتبہ پھر سجدہ میں جائیں گے پھر ویسی ہی ندا آئے گی۔ آپؐ فرمائیں گے جس نے تیری یکتائی کی گواہی دی یعنی لا الہ الا اللہ کہا اسے بھی بخش دے۔ صدا آئے گی اس کا اختیار تمہیں نہیں لیکن مجھے اپنی کبریائی اور اپنی عظمت و جبروت کی قسم میں دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال دوں گا۔ جس نے مجھے ایک کہا اور اپنے لیے دوسرا معبود نہیں بنایا۔
(صحیح بخاری، باب التفسیر بنی اسرائیل، صحیح مسلم باب الشفاعت)
محشر کے معنی جمع ہونے کی جگہ ہے۔ اس لیے قیامت والے دن کو یوم الحشر کہا جاتا ہے۔ اس دن تمام انسان ایک ہی جگہ ہونگے۔ اور پھر ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ حاشر جمع کرنے والے کو کہتے ہیں اور یہ جمع کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ ہی کی ہے۔ ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد ایک بار پھر زندہ کیا جائے گا اور تعالیٰ کے رو بہ رو ہوگا جہاں اسے اس کے کیے کی جزا یا سزا ملے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم : '' اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہوکر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں۔ پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔'' (سورہ الزلزال)
ہر شخص نیکی پر خوش اور برائی پر ناخوش اور پشیمان ہوگا۔ ان آیات میں '' ذرّہ '' دو مرتبہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعض کے نزدیک چیونٹی سے بھی چھوٹی کوئی چیز ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ پر مٹی لگ جاتی ہے وہ مٹی کے ذرّات ہیں۔ کچھ کے نزدیک سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گرد و غبار کے جو ذرّات سے نظر آتے ہیں وہ ذرّہ ہے۔ امام شوکانی نے پہلے معنی کو اولیٰ کہا ہے، یعنی قریب تر معنی وہی ہیں۔ امام مقاتل لکھتے ہیں کہ یہ سورت ان دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک شخص سائل کو تھوڑا سا دینے میں تامل کرتا اور دوسرا شخص چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتا تھا۔ (بہ حوالہ: فتح القدیر)
مسلم امّہ تو اپنے اس عقیدے پر سختی سے کاربند ہے دیگر اقوام و ملل جو اس عقیدے کو نہیں مانتے وہ مرنے کے بعد اپنے رب کی اس حقانیت کو تسلیم کرلیں گے مگر اب وقت نکل چکا ہوگا۔ کیوں کہ حشر بھی ایک ہی مرتبہ برپا ہوگا پھر کبھی قیامت نہیں آئے گی۔ یہ حشر کہاں برپا ہوگا ؟ اس جگہ یا مقام کا مختصر سا تعارف ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اس دنیا میں جو بھی پیدا ہوتا ہے اس پر موت ضرور واقع ہوگی اور یہ قول کسی انسان کا نہیں بل کہ خلق کرنے والے خالق کا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا، مفہوم : ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے (دوزخ سے ) اور جنت میں داخل کردیا جائے، بے شک وہ کام یاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔'' (سورہ آل عمران )
کس کی موت کب اور کہاں واقع ہوگی اس کا علم صرف ذات باری تعالیٰ ہی کو ہے بس ہمیں تو یہ پتا چلتا ہے کہ متوفی کہاں دفن ہوا ؟ مگر مسلم امہ اس بات پر ضرور متفق ہے کہ مرنے والا کہیں بھی دفن ہوا مگر روز محشر وہ اپنے اللہ کے حضور ضرور پیش ہوگا خواہ وہ جل کر مرا ہو یا کسی درندے نے چیر پھاڑ کھایا ہو یا سمندر میں غرق ہوگیا ہو یا پھر کسی اور طریقے سے اس کا وجود ہی مٹ گیا ہو یا فنا ہوگیا ہو۔ اللہ اپنی قدرت سے ایک مرتبہ پھر اسے وجود میں لائے گا جس طرح پہلی مرتبہ ماں کے پیٹ میں وجود میں لایا تھا۔
یہ پیشی عرفات کے میدان میں ہوگی۔ عرفات ایک پہاڑ کا نام ہے جو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلے پر واقع ہے اسی پہاڑ کی نسبت سے اس میدان کا نام بھی میدان عرفات پڑ گیا ہے۔ اسی کے قریب ایک اور پہاڑ جبل رحمت ہے۔ اسی مقام پر اللہ تعالیٰ کی میزان عدل نصب ہوگی۔ حجاج کرام نو ذی الحج کو اسی مقام پر وقوف کرتے ہیں جسے شرعی اصطلاح میں وقوف عرفہ یا وقوف عرفات کہتے ہیں۔
حضور اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ وقوف عرفات ہی حج ہے۔ اسی میدان میں ایک عالی شان مسجد بھی قائم ہے جسے مسجد نمرہ کہتے ہیں، جہاں حجاج کرام ظہر اور عصر کی نماز ملا کر پڑھتے ہیں۔ حج کا خطبہ بھی یہیں سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ بڑا مقدس مقام ہے۔ کیوں کہ حضور اکرم ؐ نے امت مسلمہ کے لیے رو رو کر بخشش کے لیے دعا اسی مقام پر مانگی تھی۔ حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زاید صحابہ کرامؓ کی ہم راہی میں آپؐ نے وہ مشہور خطبہ دیا تھا جو آج بھی منشور انسانیت کہلاتا ہے۔ اور یہیں پر آخری وحی قرآنی آیات کی شکل میں نازل ہوئی، مفہوم: ''آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔'' (سورہ المائدہ)
اس میدان کی خصوصیات میں سے چند یہ بھی ہیں۔
حضرت آدم و حوا کو جنت سے اتارا گیا تو زمین پران کی دوبارہ ملاقات اسی مقام پر ہوئی تھی، جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا۔ اس لیے بھی اس میدان کا نام عرفہ پڑگیا۔ حضرت جبرائیل ؑنے حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج یہیں پر سکھائے تھے جو ان کی شریعت کی زینت بنے جو بعدازاں آنحضور ؐ کو بھی شریعت میں یہی مناسک حج ودیعت فرمائے گئے۔
امت مسلمہ کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ یہی میدان عرفات میدان حشر بھی ہے، جہاں دنیا کے کونے کونے سے ہر انسان اپنی قبر سے نکل کر نفسی نفسی پکارتے ہوئے اس میدان میں خود پہنچ جائے گا۔ اس دن دنیا کے تمام وسائل ناکام ہوجائیں گے، تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہو جائیں گے، ہر شخص اپنی ٹانگوں سے چل کر اپنے رب کے حضور کھڑا ہوگا۔ اس طویل ترین گرم دن میں کوئی بیٹھنے یا لیٹنے کا تصور تک نہیں کرے گا بس ہر ایک کی ایک ہی خواہش ہوگی کہ بس آج میری نجات یا بخشش ہوجائے۔
حضور اکرمؐ کو دنیا و آخرت کے تمام فضائل و خصائص عطا فرمائے گئے جو دنیا کے کسی بھی انسان کو عطا نہ ہوئے۔ آپؐ کو یہ خصائص عطا کیے گئے تھے اور آخرت کی دنیا میں بھی مزید فضائل عطا ہوئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: قیامت میں میں پیغمبروں کا نمائندہ ، امام اور ان کی شفاعت کا پیروکار ہوں گا۔ پھر فرمایا میں قیامت کے دن تمام انبیاء کا سردار ہوں گا۔ پھر فرمایا قیامت کے دن حضرت آدم ؑ سے لے کر تمام پیغمبر میرے علَم کے نیچے ہوں گے۔ اور سب سے پہلے میں ہی اپنی قبر سے سے باہر آؤں گا۔ (ترمذی مناقب نبوی ) پھر فرمایا جب وہ (لوگ) خدا کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کی طرف سے بولنے والا میں ہوں گا، جب وہ ناامید ہوں گے تو ان کو خوش خبری سنانے والا میں ہوں گا، اس دن خدا کی حمد کا علَم میرے ہاتھ میں ہوگا۔ آخرت کی خصوصیات میں سے آپؐ کی ایک خصوصیت شافع محشر کی بھی ہوگی۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: میں پہلا شفیع ہوں گا اور سب سے پہلا وہ شخص جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں پہلا ہوں گا جو جنت کی شفاعت کرے گا۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل النبی۔ کتاب الایمان باب الشفاعت)
شفاعت کے موضوع پر ایک متفق حدیث جو متعدد راویوں سے مروی ہے ان میں حضرت ابوہریرہ، ؓ حضرت انس بن مالکؓ، حضرت جابرؓ اور حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضور ؐ نے صحابہ ؓ کی مجلس میں فرمایا کہ قیامت کے ہول ناک میدان میں لوگوں کو ایک شفیع کی تلاش ہوگی، لوگ پہلے حضرت آدمؑ کے پاس جائیں گے اور ان کی صفات بیان کرنے کے بعد کہیں گے کہ ہماری سفارش کر دیجیے آپ فرمائیں گے میرا یہ رتبہ نہیں ہے۔ پھر لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس پہنچیں گے اور ان سے کہیں گے اللہ نے آپؑ کو اپنا شکر گزار بندہ کہا ہے اس لیے آج ہماری سفارش فرمائیے۔
آپؑ نے فرمایا مجھے ایک دعا مستجاب ہونے کا موقع دیا گیا تھا جو میں طوفان کے وقت کرچکا لہٰذا اب تم لوگ ابراہیمؑ کے پاس جاؤ۔ چناں چہ مخلوق ان کے پاس پہنچے گی اور وہی شفاعت کا سوال کرے گی اور یہ بھی کہا کہ آپ خدا کے دوست یعنی خلیل ہیں، آپ کی سنی جائے گی۔ تو آپؑ نے فرمایا وہ بھی فرمائیں گے آج جیسا غضب پہلے کبھی نہ تھا اس لیے میرا بھی یہ مرتبہ نہیں۔ تم لوگ موسٰی کے پاس جاؤ۔ یہ لوگ اب موسٰی کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ نے خدا سے کلام کیا ہے اس لیے آپ ؑ کو اور لوگوں سے برتری حاصل ہے، اس لیے ہماری سفارش فرمائیے۔
وہ کہیں گے مجھ سے بھی ایک شخص کا قتل ہو چکا ہے جس کا مجھے حکم نہ تھا۔ آج خدا کا غضب عروج پر ہے اس لیے میری بھی نہیں سنی جائے گی، تم لوگ عیسٰی کے پاس جاؤ۔ اب لوگ عیسٰی ؑ کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپؑ نے گہوارے میں اللہ سے کلام کیا ہے، اس کے علاوہ آپ کلمتہ اللہ اور روح اللہ ہیں ہماری سفارش کردیجیے۔ آپؑ بھی مخلوق کو جواب دے دیں گے کہ میرا رتبہ بھی سفارش کرنے والا نہیں ہے۔ آج اللہ کا غضب وہ ہے جو پہلے کبھی نہ تھا، اس لیے آپ محمدؐ کے پاس جائیں۔
اب مخلوق حضرت محمد ﷺ کے پاس آئے گی وہ سب کہیں گے آپ خدا کے رسول اور خاتم الانبیاء ﷺ ہیں، جن کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں، آپؐ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کردیجیے۔ آپؐ عر ش کے پاس آئیں گے اور اذن طلب کریں گے۔ اذن ہوگا تو سجدے میں گر پڑیں گے۔ آپؐ دیر تک سجدہ میں رہیں گے پھر آواز آئے گی: اے محمد (ﷺ) سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، مانگو دیا جائے گا، شفاعت کرو قبول کی جائے گی۔ آپؐ عرض کریں گے: الٰہی امتی! امتی۔ حکم ہوگا، جاؤ جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایما ن ہوگا اس کو نجات ہے۔
آپؐ خوش ہوجائیں گے اور اس کی تعمیل کرکے پھر حمد و ثناء کریں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے۔ پھر صدائے غیب آئے گی۔ اے محمد (ﷺ) سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، مانگو عطا کیا جائے گا، شفاعت کرو قبول ہوگی۔
آپؐ عرض کریں گے: الٰہی امتی! امتی۔ حکم ہوگا کہ جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ بخشا جائے گا۔ غرض تیسری مرتبہ بھی آپؐ سجدے میں جا کر پھر امت کی بخشش کے لیے کہیں گے اور اس بار رائی کے سب سے چھوٹے دانے کے برابر ایمان والے شخص کی بھی بخشش کروالیں گے۔ آخر میں آپؐ ایک مرتبہ پھر سجدہ میں جائیں گے پھر ویسی ہی ندا آئے گی۔ آپؐ فرمائیں گے جس نے تیری یکتائی کی گواہی دی یعنی لا الہ الا اللہ کہا اسے بھی بخش دے۔ صدا آئے گی اس کا اختیار تمہیں نہیں لیکن مجھے اپنی کبریائی اور اپنی عظمت و جبروت کی قسم میں دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال دوں گا۔ جس نے مجھے ایک کہا اور اپنے لیے دوسرا معبود نہیں بنایا۔
(صحیح بخاری، باب التفسیر بنی اسرائیل، صحیح مسلم باب الشفاعت)