سندھ حکومت کے منصوبوں میں کرپشن 50 فیصد سے زائد رقم کمیشن کی نذر
اصل کام پر 30 سے 35 فیصد رقم خرچ ہوتی ہے، بعض اوقات 95 فیصد رقم کمیشن و ٹھیکے دار کے منافع کی نذر ہو جاتی ہے
سندھ میں گزشتہ کافی عرصے سے جاری نیب اور اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ کی کارروائیوں کے باوجود سرکاری محکموں میں ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں پر کمیشن کی وصولی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کنٹریکٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ہر ٹھیکے کی مجموعی مالیت کا 50 فیصد سے زائد کمیشن کی نذر ہوجاتا ہے جب کہ بقیہ رقم سے تقریباً20 فیصد ٹھیکے دار کا منافع مائنس کرنے کے بعد باقی بچنے والی رقم اصل کام پر خرچ ہوتی ہے جو بمشکل کل رقم کا30 سے 35 فیصد ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبے میں اکثر ترقیاتی کام غیر معیاری ہوتے ہیں جن پر کچھ عرصے کے بعدمرمت درکار ہوتی ہے اور پھر انہی اسکیموں کی مرمت پر پھر اخراجات کیے جاتے ہیں، پھر کمیشن وصول کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔
یہ وہ اسکیمیں ہوتی ہیں جن پر ترقیاتی کام کیا جاتا ہے، بعض اسکیمیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر برائے نام کام ہوتا ہے اور ایسے منصوبوں کے لیے مختص95 فیصد رقم کمیشن اور ٹھیکے دارکے منافع کی نذرہوجاتی ہے اور بقیہ5فیصد رقم محض دکھاوے کی خاطر خرچ کی جاتی ہے تاہم ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں اور اربوں روپے ہڑپ کرنے کے اس عمل میں سرکاری ریکارڈکو ہرصورت میںپورا رکھا جاتاہے۔
اس کام کے لیے تجربہ کار افرادکی خدمات حاصل کی جاتی ہے جنھیں کاغذات کی تیاری کا برسوں کا تجربہ ہوتا ہے اور اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں مہارت حاصل ہوتی ہے، ایسے افراد کا تعلق زیادہ تر متعلقہ سرکاری محکموں سے ہوتاہے جبکہ بعض جگہ یہ کام کرنے کے لیے دیگر اداروں یا محکموں کے افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، سرکاری ریکارڈ میں تمام معاملات ٹھیک رکھنے کے ماہر مذکورہ افرادکی متعلقہ اداروں میں بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور ایسے افراد کا بھی باقاعدہ کمیشن اور حصہ مقرر ہوتاہے۔
سرکاری اسکیموں میں کمیشن کی وصولی کا علم برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں اور ہر دورکے وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو بخوبی ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اسے حکومتی نظام کا حصہ سمجھ کر اپنی آنکھیں بندکرلیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ خود اس نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
سرکاری اسکیموں کے ٹھیکوں پر کمیشن کی رقم میں روز بروز اضافے سے تنگ آکر محکمہ آب پاشی کے چھوٹے ٹھیکے داروںکے ایک گروپ نے حال ہی میں ایک نامعلوم تحریری شکایت چیف سیکریٹری سندھ کو ارسال کی ہے جس میں سرکاری اسکیموں پر دی جانے والی کمیشن کے تفصیل شامل ہے، مذکورہ ٹھیکے دار ضلعی سطح پر محکمہ آب پاشی کے چھوٹے ٹھیکے حاصل کرتے ہیں جن کا واسطہ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ آفیسرز سے پڑتا ہے، درخواست لکھنے والے ٹھیکے داروں نے اپنے نام ظاہر نہیں کیے تاہم اس کا باضابطہ طور پر چیف سیکریٹری کے دفترکے ان ورڈ رجسٹر میں اندراج کرایا گیا۔
مذکورہ درخواست میں پہلی مرتبہ تحریری طور پر یہ بات سرکاری ریکارڈ پر لائی گئی کہ ہر سرکاری اسکیم کے لیے مختص رقم کا ساڑھے54 فیصد کمیشن کی نذر ہوجاتاہے، مذکورہ درخواست میں کمیشن کی مد میں تقسیم ہونے والی رقم کی تفصیل بھی دی گئی ہے جس کے مطابق ٹھیکے داروںکوکوئی بھی کام حاصل کرنے کے لیے15سے20 فیصد رقم کمیشن ایڈوانس دینا پڑتی ہے جبکہ 12 فیصد ورک آرڈر جاری ہونے پر، 10 فیصد متعلقہ ڈسٹرکٹ افسر، 8 فیصد متعلقہ ایس ڈی او، 2 فیصد اسٹیٹمنٹ پاس کرتے وقت دینا ہوتی ہے، اسی طرح محکمہ خزانہ، متعلقہ ڈی سی اور اکاؤنٹنٹ کو ایک ایک فیصد دینا ہوتاہے جبکہ بقیہ کمیشن متعلقہ ٹریژری اور دیگر افسران کو دیا جاتاہے۔
مذکورہ ٹھیکے داروں کے مطابق کام مکمل ہونے کے بعد بھی انھیں رشوت دینا ہوتی ہے جن میں بل تیار کرنے والے کلرک کو5 ہزار روپے، بل پر دستخط کرنے والے ایس ڈی او کو10ہزار روپے دینا شامل ہیں، اس کے علاوہ بل دستخط کے لیے جب متعلقہ انجنیئرکے پاس پہنچتا ہے تو وہ بھی دستخط کرنے سے قبل10فیصد ایڈوانس طلب کرتاہے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی سطح پر کروڑوں روپے مالیت کے بڑے ٹھیکے حاصل کرنے والے ٹھیکے داروںکو ورک آرڈر جاری ہونے سے قبل محض ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے35 فیصد رقم ایڈوانس دینا ہوتی ہے جبکہ بقیہ رقم کا تقریباً 20 سے 25فیصد کمیشن مختلف لوگوں کو دیا جاتاہے۔
سرکاری کاموں کی دوسری قسم کے لیے ٹھیکے دارکوصرف5 سے 10 فیصد رقم دی جاتی ہے اور بقیہ رقم معلقہ محکمے کے افسران و ملازمین میں تقسیم ہوجاتی ہے، اس قسم کے کاموں میں زیادہ تر مرمت کے کام اور دفاترکے لیے فرنیچر، اسٹیشنری اور دیگر سامان کی خریداری کے کام شامل ہوتے ہیں جن میں صرف کاغذات کا پیٹ بھرا جاتا ہے، اس طرح کے کام حاصل کرنے والے ٹھیکے داروں کو بھی اپنا نام اور بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں کرنا ہوتا۔
کنٹریکٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ہر ٹھیکے کی مجموعی مالیت کا 50 فیصد سے زائد کمیشن کی نذر ہوجاتا ہے جب کہ بقیہ رقم سے تقریباً20 فیصد ٹھیکے دار کا منافع مائنس کرنے کے بعد باقی بچنے والی رقم اصل کام پر خرچ ہوتی ہے جو بمشکل کل رقم کا30 سے 35 فیصد ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبے میں اکثر ترقیاتی کام غیر معیاری ہوتے ہیں جن پر کچھ عرصے کے بعدمرمت درکار ہوتی ہے اور پھر انہی اسکیموں کی مرمت پر پھر اخراجات کیے جاتے ہیں، پھر کمیشن وصول کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔
یہ وہ اسکیمیں ہوتی ہیں جن پر ترقیاتی کام کیا جاتا ہے، بعض اسکیمیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر برائے نام کام ہوتا ہے اور ایسے منصوبوں کے لیے مختص95 فیصد رقم کمیشن اور ٹھیکے دارکے منافع کی نذرہوجاتی ہے اور بقیہ5فیصد رقم محض دکھاوے کی خاطر خرچ کی جاتی ہے تاہم ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں اور اربوں روپے ہڑپ کرنے کے اس عمل میں سرکاری ریکارڈکو ہرصورت میںپورا رکھا جاتاہے۔
اس کام کے لیے تجربہ کار افرادکی خدمات حاصل کی جاتی ہے جنھیں کاغذات کی تیاری کا برسوں کا تجربہ ہوتا ہے اور اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں مہارت حاصل ہوتی ہے، ایسے افراد کا تعلق زیادہ تر متعلقہ سرکاری محکموں سے ہوتاہے جبکہ بعض جگہ یہ کام کرنے کے لیے دیگر اداروں یا محکموں کے افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، سرکاری ریکارڈ میں تمام معاملات ٹھیک رکھنے کے ماہر مذکورہ افرادکی متعلقہ اداروں میں بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور ایسے افراد کا بھی باقاعدہ کمیشن اور حصہ مقرر ہوتاہے۔
سرکاری اسکیموں میں کمیشن کی وصولی کا علم برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں اور ہر دورکے وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو بخوبی ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اسے حکومتی نظام کا حصہ سمجھ کر اپنی آنکھیں بندکرلیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ خود اس نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
سرکاری اسکیموں کے ٹھیکوں پر کمیشن کی رقم میں روز بروز اضافے سے تنگ آکر محکمہ آب پاشی کے چھوٹے ٹھیکے داروںکے ایک گروپ نے حال ہی میں ایک نامعلوم تحریری شکایت چیف سیکریٹری سندھ کو ارسال کی ہے جس میں سرکاری اسکیموں پر دی جانے والی کمیشن کے تفصیل شامل ہے، مذکورہ ٹھیکے دار ضلعی سطح پر محکمہ آب پاشی کے چھوٹے ٹھیکے حاصل کرتے ہیں جن کا واسطہ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ آفیسرز سے پڑتا ہے، درخواست لکھنے والے ٹھیکے داروں نے اپنے نام ظاہر نہیں کیے تاہم اس کا باضابطہ طور پر چیف سیکریٹری کے دفترکے ان ورڈ رجسٹر میں اندراج کرایا گیا۔
مذکورہ درخواست میں پہلی مرتبہ تحریری طور پر یہ بات سرکاری ریکارڈ پر لائی گئی کہ ہر سرکاری اسکیم کے لیے مختص رقم کا ساڑھے54 فیصد کمیشن کی نذر ہوجاتاہے، مذکورہ درخواست میں کمیشن کی مد میں تقسیم ہونے والی رقم کی تفصیل بھی دی گئی ہے جس کے مطابق ٹھیکے داروںکوکوئی بھی کام حاصل کرنے کے لیے15سے20 فیصد رقم کمیشن ایڈوانس دینا پڑتی ہے جبکہ 12 فیصد ورک آرڈر جاری ہونے پر، 10 فیصد متعلقہ ڈسٹرکٹ افسر، 8 فیصد متعلقہ ایس ڈی او، 2 فیصد اسٹیٹمنٹ پاس کرتے وقت دینا ہوتی ہے، اسی طرح محکمہ خزانہ، متعلقہ ڈی سی اور اکاؤنٹنٹ کو ایک ایک فیصد دینا ہوتاہے جبکہ بقیہ کمیشن متعلقہ ٹریژری اور دیگر افسران کو دیا جاتاہے۔
مذکورہ ٹھیکے داروں کے مطابق کام مکمل ہونے کے بعد بھی انھیں رشوت دینا ہوتی ہے جن میں بل تیار کرنے والے کلرک کو5 ہزار روپے، بل پر دستخط کرنے والے ایس ڈی او کو10ہزار روپے دینا شامل ہیں، اس کے علاوہ بل دستخط کے لیے جب متعلقہ انجنیئرکے پاس پہنچتا ہے تو وہ بھی دستخط کرنے سے قبل10فیصد ایڈوانس طلب کرتاہے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی سطح پر کروڑوں روپے مالیت کے بڑے ٹھیکے حاصل کرنے والے ٹھیکے داروںکو ورک آرڈر جاری ہونے سے قبل محض ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے35 فیصد رقم ایڈوانس دینا ہوتی ہے جبکہ بقیہ رقم کا تقریباً 20 سے 25فیصد کمیشن مختلف لوگوں کو دیا جاتاہے۔
سرکاری کاموں کی دوسری قسم کے لیے ٹھیکے دارکوصرف5 سے 10 فیصد رقم دی جاتی ہے اور بقیہ رقم معلقہ محکمے کے افسران و ملازمین میں تقسیم ہوجاتی ہے، اس قسم کے کاموں میں زیادہ تر مرمت کے کام اور دفاترکے لیے فرنیچر، اسٹیشنری اور دیگر سامان کی خریداری کے کام شامل ہوتے ہیں جن میں صرف کاغذات کا پیٹ بھرا جاتا ہے، اس طرح کے کام حاصل کرنے والے ٹھیکے داروں کو بھی اپنا نام اور بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں کرنا ہوتا۔