پاکستان کے بدقسمت ترین کرکٹرز
ملک میں جس طرح باصلاحیت کرکٹرز کی حق تلفی ہو رہی ہے اسے دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے۔
''اچانک مارکیٹ میں بڑی عمر کے ایک صاحب میرے سامنے آ کر کہنے لگے، میرے بیٹے نے60 میچز میں350 وکٹیں لی ہیں، چونکہ اس کی سفارش نہیں لہذا کوئی منتخب نہیں کرتا، اگر تم اس کا کیریئر آگے بڑھانے میں مدد کرو تو میں تمہارے لیے دعا کروں گا،اس کا نام صدف حسین ہے، بھولنا نہیں بیٹا، یہ کہہ کر وہ آگے چلے گئے اور میرے کانوں میں اب تک ان کی آواز گونج رہی ہے''
یہ واقعہ مجھے خاتون صحافی عالیہ رشید نے سنایا اور اس وقت ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی، ہم صرف محسوس ہی کر سکتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پرکیا سوچتا ہو گا، یا وہ کھلاڑی جس نے اپنی زندگی کے قیمتی دن کرکٹ فیلڈ میں گذار دیے اسے اپنے سے کمتر ٹیلنٹ کے حامل پلیئرز کو سبز کیپ پہنے کھیلتے دیکھ کر کیسا لگتا ہوگا، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے یہاں اب یا تو کھلاڑی پی ایس ایل میں دنیا بھر کے سامنے پرفارم کرے تو اسے مجبوراً موقع دینا پڑتا ہے تا اس کی کوئی تگڑی سفارش ہو۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر کئی کرکٹرز اب تھک گئے ،ان کا بیٹ رنز کے انبار لگاتا رہا مگر سلیکٹرز کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، شکیل شیخ اوسط درجے سے بھی کمتر اپنے بیٹوں کو مختلف ٹیموں میں شامل کرانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر اپنے شہر کے قریب رہنے والے صدف حسین انھیں نظر نہیں آتے، ان کیلیے کبھی آواز نہ اٹھائی، بطور باپ اپنے بیٹوں کیلیے انھوں نے سب کی مخالفت مول لی مگر افسوس کسی اور کھلاڑی کے باپ کا دکھ انھیں نظر نہیں آتا۔
28 سالہ لیفٹ آرم میڈیم پیسر صدف حسین کی کارکردگی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کیلیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے فرسٹ کلاس کیریئر میں18.19 کی اوسط سے353 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر چکے ہیں، ہر برس ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد منتخب قومی اسکواڈز میں اپنا نام تلاش کرتے مگر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا، رواں قائد اعظم ٹرافی میں بھی وہ13.09 کی اوسط سے 42 وکٹیں لے چکے، گذشتہ سیزن میں28 اور اس سے پہلے36 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؎
اسی طرح تابش خان بھی ایسے ہی ایک بدقسمت فاسٹ بولر ہیں جو سلیکٹرز کو کبھی متاثر نہیں کر پائے،32 سالہ میڈیم پیسر نے 113 فرسٹ کلاس میچز میں 515 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر پھر بھی ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل رہے، رواں سیزن میں انھوں نے18.10 کی اوسط سے37 وکٹیں لیں، گذشتہ سیزن کے9 میچز میں62 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے، مگر یہ کارکردگی ان کے کسی کام نہیں آئی۔ فاسٹ بولر سہیل خان رواں سیزن میں بھی13.82کی اوسط سے51 وکٹیں لے کر ٹاپ بولر ہیں مگر کوچ مکی آرتھر صاف کہہ چکے کہ عمر زیادہ ہوگئی اب موقع ملنا مشکل ہے۔
اگر آپ پاکستان کرکٹ کے حالیہ بدقسمت ترین بیٹسمین کا پوچھیں تو میرا جواب آصف ذاکر ہو گا، اس بیچارے نے ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل اتنی شاندار کارکردگی دکھائی کہ ہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوا، میڈیا کے دباؤ پر ویسٹ انڈیز لے جایا گیا اور پھر بغیر کھلائے ٹیم سے باہر کر دیا گیا، شاید بیٹنگ ٹیلنٹ کی جگہ پانی پلانے کی صلاحیت دیکھی گئی،انضمام صاحب یہ جواب دیں کہ ایک کھلاڑی کو بغیر آزمائے کیسے باہر کیا گیا، اگر اس کا سر نیم بھی الحق ہوتا تو کیا ایسی ناانصافی ہوتی، اپنے بھتیجے کو تو فاسٹ ٹریک پر ٹیم میں لے آئے، کمزور سری لنکا کیخلاف ڈیبیو کرا دیا مگر آصف ذاکر نظر نہیں آیا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ امام الحق بھی باصلاحیت بیٹسمین ہے مگر دیگر کو بھی تو دیکھیں، کیا آپ کو یاد ہے گذشتہ برس قائد اعظم ٹرافی میں آصف ذاکر نام کا کوئی کھلاڑی85.30 کی اوسط سے 853 رنز بنا کر دوسرے نمبر پر رہا تھا یا اس سے پہلے والے سیزن میں اس نام کے ایک بیٹسمین نے56.50 کی ایوریج سے791 رنز بنا کر ٹاپ کیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ آصف بھی اب ہمت ہار چکے ، اس سال انھوں نے زیادہ خاص پرفارم نہیں کیا ہے، ان کے ٹیلنٹ کا گلہ سلیکشن کمیٹی نے ہی گھونٹا، کبھی نہ کبھی انھیں اس کا جواب دینا ہوگا۔
ہمارے ملک میں تو اس وقت یہ حال ہے کہ کوچ معین خان نے اپنے زائد الوزن بیٹے کو پی ایس ایل فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں شامل کر لیا، باصلاحیت بسم اﷲ خان سفارش نہ ہونے کے سبب منہ دیکھتے رہ گئے، کسی نے معین خان سے پوچھا آپ نے اپنے بیٹے کو کیوں منتخب کیا تو جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔
میں فواد عالم کے بارے میں بھی لکھ لکھ کر تھک گیا اس بیچارے کو بھی ضائع کیا جا رہا ہے، ڈومیسٹک میچز میں رنز کے انبار لگانے والے مثالی فٹنس کے حامل بیٹسمین کو میڈیا کے دباؤ پر اکیڈمی بلا کر کوچ مکی آرتھر نے نیٹ پر آزمایا مگر میں جانتا ہوں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، سلیکشن کمیٹی انھیں پسند نہیں کرتی لہذا وہ سیزن میں دو ہزار رنز بھی کر دیں تب بھی موقع ملنا مشکل ہے، فیصل اقبال کے ساتھ بھی بہت ناانصافی ہوئی، مصباح نے گھر سے بلا کر ایک کھلاڑی کا ڈیبیو کرا دیا مگر فیصل کو نہیں کھلایا ، مگر مجھے ان کی مستقل مزاجی اور مثبت سوچ بہت پسند ہے، وہ اب بھی ہمت نہیں ہارے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کر رہے ہیں۔
ملک میں جس طرح باصلاحیت کرکٹرز کی حق تلفی ہو رہی ہے اسے دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے، انضمام الحق ہر ماہ لاکھوں روپے لے کر کوئی کام نہیں کر رہے، وہ ڈومیسٹک میچز دیکھنے نہیں جاتے مگر انٹرنیشنل ٹورز میں سب سے آگے ہوتے ہیں، دیگر سلیکٹرز تو بیچارے ڈمی ہیں انھیں اپنی تنخواہ کے چیک سے ہی مطلب ہوتا ہے، اسی طرح باصلاحیت کرکٹرز کو نظرانداز کرنا ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ کا کیا فائدہ اسے ختم کر کے ایسے ہی پلیئرز منتخب کر لیا کریں، سفارش سے محروم نوجوان ارباب اختیار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر کسی مظلوم کی آہ نہیں لینا چاہیے، وہ بڑے بڑوں کو سیدھا کر دیتی ہے، سلیکٹرز کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
آپ ٹویٹر پر مجھے saleemkhaliq@ پر فالو کر سکتے ہیں۔
یہ واقعہ مجھے خاتون صحافی عالیہ رشید نے سنایا اور اس وقت ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی، ہم صرف محسوس ہی کر سکتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پرکیا سوچتا ہو گا، یا وہ کھلاڑی جس نے اپنی زندگی کے قیمتی دن کرکٹ فیلڈ میں گذار دیے اسے اپنے سے کمتر ٹیلنٹ کے حامل پلیئرز کو سبز کیپ پہنے کھیلتے دیکھ کر کیسا لگتا ہوگا، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے یہاں اب یا تو کھلاڑی پی ایس ایل میں دنیا بھر کے سامنے پرفارم کرے تو اسے مجبوراً موقع دینا پڑتا ہے تا اس کی کوئی تگڑی سفارش ہو۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر کئی کرکٹرز اب تھک گئے ،ان کا بیٹ رنز کے انبار لگاتا رہا مگر سلیکٹرز کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، شکیل شیخ اوسط درجے سے بھی کمتر اپنے بیٹوں کو مختلف ٹیموں میں شامل کرانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر اپنے شہر کے قریب رہنے والے صدف حسین انھیں نظر نہیں آتے، ان کیلیے کبھی آواز نہ اٹھائی، بطور باپ اپنے بیٹوں کیلیے انھوں نے سب کی مخالفت مول لی مگر افسوس کسی اور کھلاڑی کے باپ کا دکھ انھیں نظر نہیں آتا۔
28 سالہ لیفٹ آرم میڈیم پیسر صدف حسین کی کارکردگی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کیلیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے فرسٹ کلاس کیریئر میں18.19 کی اوسط سے353 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر چکے ہیں، ہر برس ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد منتخب قومی اسکواڈز میں اپنا نام تلاش کرتے مگر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا، رواں قائد اعظم ٹرافی میں بھی وہ13.09 کی اوسط سے 42 وکٹیں لے چکے، گذشتہ سیزن میں28 اور اس سے پہلے36 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؎
اسی طرح تابش خان بھی ایسے ہی ایک بدقسمت فاسٹ بولر ہیں جو سلیکٹرز کو کبھی متاثر نہیں کر پائے،32 سالہ میڈیم پیسر نے 113 فرسٹ کلاس میچز میں 515 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر پھر بھی ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل رہے، رواں سیزن میں انھوں نے18.10 کی اوسط سے37 وکٹیں لیں، گذشتہ سیزن کے9 میچز میں62 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے، مگر یہ کارکردگی ان کے کسی کام نہیں آئی۔ فاسٹ بولر سہیل خان رواں سیزن میں بھی13.82کی اوسط سے51 وکٹیں لے کر ٹاپ بولر ہیں مگر کوچ مکی آرتھر صاف کہہ چکے کہ عمر زیادہ ہوگئی اب موقع ملنا مشکل ہے۔
اگر آپ پاکستان کرکٹ کے حالیہ بدقسمت ترین بیٹسمین کا پوچھیں تو میرا جواب آصف ذاکر ہو گا، اس بیچارے نے ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل اتنی شاندار کارکردگی دکھائی کہ ہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوا، میڈیا کے دباؤ پر ویسٹ انڈیز لے جایا گیا اور پھر بغیر کھلائے ٹیم سے باہر کر دیا گیا، شاید بیٹنگ ٹیلنٹ کی جگہ پانی پلانے کی صلاحیت دیکھی گئی،انضمام صاحب یہ جواب دیں کہ ایک کھلاڑی کو بغیر آزمائے کیسے باہر کیا گیا، اگر اس کا سر نیم بھی الحق ہوتا تو کیا ایسی ناانصافی ہوتی، اپنے بھتیجے کو تو فاسٹ ٹریک پر ٹیم میں لے آئے، کمزور سری لنکا کیخلاف ڈیبیو کرا دیا مگر آصف ذاکر نظر نہیں آیا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ امام الحق بھی باصلاحیت بیٹسمین ہے مگر دیگر کو بھی تو دیکھیں، کیا آپ کو یاد ہے گذشتہ برس قائد اعظم ٹرافی میں آصف ذاکر نام کا کوئی کھلاڑی85.30 کی اوسط سے 853 رنز بنا کر دوسرے نمبر پر رہا تھا یا اس سے پہلے والے سیزن میں اس نام کے ایک بیٹسمین نے56.50 کی ایوریج سے791 رنز بنا کر ٹاپ کیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ آصف بھی اب ہمت ہار چکے ، اس سال انھوں نے زیادہ خاص پرفارم نہیں کیا ہے، ان کے ٹیلنٹ کا گلہ سلیکشن کمیٹی نے ہی گھونٹا، کبھی نہ کبھی انھیں اس کا جواب دینا ہوگا۔
ہمارے ملک میں تو اس وقت یہ حال ہے کہ کوچ معین خان نے اپنے زائد الوزن بیٹے کو پی ایس ایل فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں شامل کر لیا، باصلاحیت بسم اﷲ خان سفارش نہ ہونے کے سبب منہ دیکھتے رہ گئے، کسی نے معین خان سے پوچھا آپ نے اپنے بیٹے کو کیوں منتخب کیا تو جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔
میں فواد عالم کے بارے میں بھی لکھ لکھ کر تھک گیا اس بیچارے کو بھی ضائع کیا جا رہا ہے، ڈومیسٹک میچز میں رنز کے انبار لگانے والے مثالی فٹنس کے حامل بیٹسمین کو میڈیا کے دباؤ پر اکیڈمی بلا کر کوچ مکی آرتھر نے نیٹ پر آزمایا مگر میں جانتا ہوں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، سلیکشن کمیٹی انھیں پسند نہیں کرتی لہذا وہ سیزن میں دو ہزار رنز بھی کر دیں تب بھی موقع ملنا مشکل ہے، فیصل اقبال کے ساتھ بھی بہت ناانصافی ہوئی، مصباح نے گھر سے بلا کر ایک کھلاڑی کا ڈیبیو کرا دیا مگر فیصل کو نہیں کھلایا ، مگر مجھے ان کی مستقل مزاجی اور مثبت سوچ بہت پسند ہے، وہ اب بھی ہمت نہیں ہارے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کر رہے ہیں۔
ملک میں جس طرح باصلاحیت کرکٹرز کی حق تلفی ہو رہی ہے اسے دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے، انضمام الحق ہر ماہ لاکھوں روپے لے کر کوئی کام نہیں کر رہے، وہ ڈومیسٹک میچز دیکھنے نہیں جاتے مگر انٹرنیشنل ٹورز میں سب سے آگے ہوتے ہیں، دیگر سلیکٹرز تو بیچارے ڈمی ہیں انھیں اپنی تنخواہ کے چیک سے ہی مطلب ہوتا ہے، اسی طرح باصلاحیت کرکٹرز کو نظرانداز کرنا ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ کا کیا فائدہ اسے ختم کر کے ایسے ہی پلیئرز منتخب کر لیا کریں، سفارش سے محروم نوجوان ارباب اختیار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر کسی مظلوم کی آہ نہیں لینا چاہیے، وہ بڑے بڑوں کو سیدھا کر دیتی ہے، سلیکٹرز کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
آپ ٹویٹر پر مجھے saleemkhaliq@ پر فالو کر سکتے ہیں۔