کراچی جرگہ قتل
سندھ میں منعقد ہونے والے جرگے انصاف کا خون کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں سرداروں اور وڈیروں کی بالادستی ہوتی ہے۔
کراچی میں اپنی مرضی سے شادی کرنے والے جوڑے کو لڑکی کے والد اور قریبی رشتہ داروں نے گزشتہ دنوں قتل کردیا۔ یہ سب کچھ جرگے کے فیصلے کے نتیجے میں ہوا۔ چند ماہ قبل ایک اور جوڑے کو اپنا قانونی حق استعمال کرنے پر کرنٹ لگا کر قتل کیا گیا تھا۔ اس جوڑے کے قتل کے احکامات جرگہ نے دیے تھے۔
رپورٹوں کے مطابق لڑکی اور لڑکے کے قتل میں دونوں کے والد اور قریبی رشتہ دارملوث تھے۔ گزشتہ ہفتے قتل ہونے والے لڑکے کا والد پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اس شخص نے تھانے کے لاک اپ میں ٹی وی رپورٹروںکو بتایا کہ لڑکی کے والد اور بھائیوں نے انھیں ٹیلی فون کرکے بتایا کہ انھوں نے اپنی بیٹی اور ہمارے بیٹے کو قتل کردیا ہے۔ قتل ہونے والے جوڑے نے چند ماہ قبل اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرلی تھی۔ یہ جوڑا خفیہ طور پر کراچی کی مضافاتی بستی میں رہ رہا تھا کہ لڑکی کے لواحقین نے ان کا پتہ چلا لیا اور رات گئے گھر میں گھس کر میاں بیوی کو ہلاک کردیا۔
اسلام نے لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کا حق دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق لڑکی اپنی پسند سے شادی کرسکتی ہے۔ اس ملک کے بانی محمد علی جناح نے بھی اپنی دوسری اہلیہ رتی سے پسند کی شادی کی تھی۔ رتی کا تعلق ہندوستان کے امیر ترین پارسی خاندان سے تھا۔ رتی نے محمد علی جناح کو پسند کیا تو ان کی عمر 16 سال تھی۔ رتی کے والد ڈنشا نے مقدمہ دائر کیا کہ رتی نابالغ ہے۔
بیرسٹر جناح نے بمبئی ہائی کورٹ میں Free-will کے حق کے تحت رتی سے شادی کے لیے رجوع کیا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے رتی اور جناح کو شادی کی اجازت دے دی مگر رتی اور جناح کو رتی کے 17 سال کی عمر تک پہنچنے کا انتظار کرنا پڑا۔ رتی اور محمد علی جناح کی شادی کا بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر بن گیا۔ اس فیصلے کی روشنی میں بالغ لڑکے اور لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کا حق مل گیا۔
جنرل ایوب خان نے 1963ء میں عائلی قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین کے تحت نکاح اور طلاق کو تحریری شکل دی گئی۔ اس قانون کے تحت نکاح نامے میں لڑکی کی مرضی کے ثبوت کے طور پر اس کے گواہوں کے سامنے دستخط کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت لڑکی کے نکاح کے لیے اس کے ولی کی منظوری ضروری نہیں ہے۔ پھر انسانی حقوق کے کارکن اور معروف قانون دان شبیر شر ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ بنچ میں ایک عرضداشت دائر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں منعقد ہونے والے جرگے انصاف کا خون کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں سرداروں اور وڈیروں کی بالادستی ہوتی ہے۔
عورتوں کو جرگے میں شرکت کرنے اور انھیں اپنی رائے دینے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ یہ جرگے آئین اور قوانین کے برعکس فیصلے کرتے ہیں۔ اس تناظر میں جرگوں کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس رحمت جعفری نے اپنے تاریخی فیصلے میں پورے سندھ میں جرگوں کے انعقاد پر پابندی عائد کردی۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سرداروں، وڈیروں اور پولیس افسران نے قبول نہیں کیا۔ بڑے بڑے قبیلوںکے جرگے منعقد ہوئے۔ وزراء، منتخب اراکین اسمبلی اور اعلیٰ پولیس افسران ان جرگوں میں شرکت کرتے رہے اور جرگوں کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ الیکٹرونک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے دور کے آغاز کے بعد جرگوں کے انعقاد کی خبریں شایع ہوئیں تو پھر جرگے کے بااثر شرکاء نے جرگوں کے انعقاد کی تردید کی اور جرگوںکو روایتی میل ملاپ کی کچہری قرار دیا گیا۔
برسر اقتدار طبقات، پولیس اور ضلع افسروں کی جرگے کو غیر قانونی قرار دینے کی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ان کے انعقاد کو روکنے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں ہوئے، جبھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ کے مختلف قبائل نے جرگے منعقد کیے اور ان جرگوں نے پسند کی شادی، قتل، اغوا اور چوری کے مقدمات پر بھاری جرمانے اور لڑکیوں کو ونی کرنے کی سزائیں دیں اور جرگوں کے فیصلوں کا اخبارات، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ذکر ہوا مگر تردید کے ماحول کے ساتھ معاملے کو نمٹا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دیہات بلکہ شہروں میں بھی جرگوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا۔
کراچی شہر میں اردو بولنے والی برادریوں کے علاوہ بلوچ، سندھی، پشتون، سرائیکی اور پنجابی برادریاں بھی آباد ہیں۔ صرف اردو اور پنجابی زبان بولنے والی برادریاں امراء اور غریبوں کے علاوہ متوسط طبقے موجود ہیں۔ ان برادریوں میں متوسط طبقے کی بنیاد پر خواندگی کا تناسب 70 سے 90 فیصد تک ہے۔ ان برادریوں میں اب خواتین کے تعلیم یافتہ ہونے کی شرح زیادہ ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد روزگار سے منسلک ہے۔ سندھی، بلوچوں، سرائیکی اور پشتون برادریوں میں اکثریت کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ ان برادریوں میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ پھر ان برادریوں میں خواتین کی تعلیم، ان کی شادی کی پسند کا حق اور جائیداد میں حصہ لینے کے حق کا تصور نہیں ہے۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں افغان جہاد کی بناء پر افغانستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں افراد آ کر کراچی اور اطراف کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ یہ لوگ رجعت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کی روایات کے ساتھ کراچی میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رجعت پسندانہ ذہنیت کو تقویت ملی، غیر قانونی طور پر جرگوں کا انعقاد ہونے لگا۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے بھی ان معاملات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس طرح کراچی شہر میں متواتر جرگے منعقد ہونے لگے۔ ان مضافاتی علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان ان علاقوں میں بہت زیادہ متحرک ہیں۔ طالبان نے سیاسی اور عسکری محاذ کے علاوہ شادی بیاہ، طلاق، خواتین کی تعلیم اور ان کا مردوں سے علاج اور پیشہ اختیار کرنے کے حق کے خلاف فضا ہموار کی۔ اسکولوں پر حملے ہوئے، کئی اساتذہ ان حملوں میں شہید ہوئے۔ معروف محقق اختر بلوچ نے جرگہ نظام پر تحقیق کی۔
ان کا کہنا ہے کہ جرگوں کے فیصلوں میں خواتین کو شریک نہیں کیا جاتا مگر ان کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی نے فروری میں Alternate Dispute Resolution Bill 2016 منظور کیا۔ اس قانون کے تحت غیر رسمی عدالتوں کو اختیار دیا گیا کہ 23 مختلف نوعیت کے موضوعات سے متعلق تنازعات کے غیر رسمی حل پیش کرسکتے ہیں۔ اس میں سول اور فوجداری تنازعات بھی شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور خیرپور کی سابقہ ناظمہ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ یہ قانون خواتین کے خلاف استعمال ہوگا۔ سول اور فوجداری مقدمات کی آڑ میں پسند کی شادی اور کاروکاری جیسے گھناؤنے جرائم کی معافی ان عدالتوں سے ہوجائے گی۔
پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا لایا ہوا Anti Honour Killling and Rapeبل منظور کیا۔ یہ دونوں قوانین ایک دوسرے سے متضاد سمجھے جاتے ہیں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ سندھ میں ابھی تک ان متضاد قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوا مگر غیر قانونی طور پر جرگوں کے ذریعے پسند کی شادی کا حق استعمال کرنے والے جوڑوں کو سزائے موت دینے اور غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اگرچہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ شہر ہے گاؤں نہیں، اس بناء پر جرگوں کے انعقاد کی اجازت نہیں ہوگی، مگر ان فرسودہ رسومات کے خاتمے کے لیے اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک اقدامات پر غور نہیں ہوا۔ پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے قتل کا معاملہ معاشرے سے منسلک ہے۔ جب تک روشن خیال اور سیکولر ازم پر مبنی نظام قائم نہیں ہوگا معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کا خون بہتا رہے گا۔
رپورٹوں کے مطابق لڑکی اور لڑکے کے قتل میں دونوں کے والد اور قریبی رشتہ دارملوث تھے۔ گزشتہ ہفتے قتل ہونے والے لڑکے کا والد پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اس شخص نے تھانے کے لاک اپ میں ٹی وی رپورٹروںکو بتایا کہ لڑکی کے والد اور بھائیوں نے انھیں ٹیلی فون کرکے بتایا کہ انھوں نے اپنی بیٹی اور ہمارے بیٹے کو قتل کردیا ہے۔ قتل ہونے والے جوڑے نے چند ماہ قبل اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرلی تھی۔ یہ جوڑا خفیہ طور پر کراچی کی مضافاتی بستی میں رہ رہا تھا کہ لڑکی کے لواحقین نے ان کا پتہ چلا لیا اور رات گئے گھر میں گھس کر میاں بیوی کو ہلاک کردیا۔
اسلام نے لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کا حق دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق لڑکی اپنی پسند سے شادی کرسکتی ہے۔ اس ملک کے بانی محمد علی جناح نے بھی اپنی دوسری اہلیہ رتی سے پسند کی شادی کی تھی۔ رتی کا تعلق ہندوستان کے امیر ترین پارسی خاندان سے تھا۔ رتی نے محمد علی جناح کو پسند کیا تو ان کی عمر 16 سال تھی۔ رتی کے والد ڈنشا نے مقدمہ دائر کیا کہ رتی نابالغ ہے۔
بیرسٹر جناح نے بمبئی ہائی کورٹ میں Free-will کے حق کے تحت رتی سے شادی کے لیے رجوع کیا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے رتی اور جناح کو شادی کی اجازت دے دی مگر رتی اور جناح کو رتی کے 17 سال کی عمر تک پہنچنے کا انتظار کرنا پڑا۔ رتی اور محمد علی جناح کی شادی کا بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر بن گیا۔ اس فیصلے کی روشنی میں بالغ لڑکے اور لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کا حق مل گیا۔
جنرل ایوب خان نے 1963ء میں عائلی قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین کے تحت نکاح اور طلاق کو تحریری شکل دی گئی۔ اس قانون کے تحت نکاح نامے میں لڑکی کی مرضی کے ثبوت کے طور پر اس کے گواہوں کے سامنے دستخط کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت لڑکی کے نکاح کے لیے اس کے ولی کی منظوری ضروری نہیں ہے۔ پھر انسانی حقوق کے کارکن اور معروف قانون دان شبیر شر ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ بنچ میں ایک عرضداشت دائر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں منعقد ہونے والے جرگے انصاف کا خون کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں سرداروں اور وڈیروں کی بالادستی ہوتی ہے۔
عورتوں کو جرگے میں شرکت کرنے اور انھیں اپنی رائے دینے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ یہ جرگے آئین اور قوانین کے برعکس فیصلے کرتے ہیں۔ اس تناظر میں جرگوں کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس رحمت جعفری نے اپنے تاریخی فیصلے میں پورے سندھ میں جرگوں کے انعقاد پر پابندی عائد کردی۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سرداروں، وڈیروں اور پولیس افسران نے قبول نہیں کیا۔ بڑے بڑے قبیلوںکے جرگے منعقد ہوئے۔ وزراء، منتخب اراکین اسمبلی اور اعلیٰ پولیس افسران ان جرگوں میں شرکت کرتے رہے اور جرگوں کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ الیکٹرونک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے دور کے آغاز کے بعد جرگوں کے انعقاد کی خبریں شایع ہوئیں تو پھر جرگے کے بااثر شرکاء نے جرگوں کے انعقاد کی تردید کی اور جرگوںکو روایتی میل ملاپ کی کچہری قرار دیا گیا۔
برسر اقتدار طبقات، پولیس اور ضلع افسروں کی جرگے کو غیر قانونی قرار دینے کی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ان کے انعقاد کو روکنے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں ہوئے، جبھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ کے مختلف قبائل نے جرگے منعقد کیے اور ان جرگوں نے پسند کی شادی، قتل، اغوا اور چوری کے مقدمات پر بھاری جرمانے اور لڑکیوں کو ونی کرنے کی سزائیں دیں اور جرگوں کے فیصلوں کا اخبارات، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ذکر ہوا مگر تردید کے ماحول کے ساتھ معاملے کو نمٹا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دیہات بلکہ شہروں میں بھی جرگوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا۔
کراچی شہر میں اردو بولنے والی برادریوں کے علاوہ بلوچ، سندھی، پشتون، سرائیکی اور پنجابی برادریاں بھی آباد ہیں۔ صرف اردو اور پنجابی زبان بولنے والی برادریاں امراء اور غریبوں کے علاوہ متوسط طبقے موجود ہیں۔ ان برادریوں میں متوسط طبقے کی بنیاد پر خواندگی کا تناسب 70 سے 90 فیصد تک ہے۔ ان برادریوں میں اب خواتین کے تعلیم یافتہ ہونے کی شرح زیادہ ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد روزگار سے منسلک ہے۔ سندھی، بلوچوں، سرائیکی اور پشتون برادریوں میں اکثریت کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ ان برادریوں میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ پھر ان برادریوں میں خواتین کی تعلیم، ان کی شادی کی پسند کا حق اور جائیداد میں حصہ لینے کے حق کا تصور نہیں ہے۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں افغان جہاد کی بناء پر افغانستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں افراد آ کر کراچی اور اطراف کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ یہ لوگ رجعت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کی روایات کے ساتھ کراچی میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رجعت پسندانہ ذہنیت کو تقویت ملی، غیر قانونی طور پر جرگوں کا انعقاد ہونے لگا۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے بھی ان معاملات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس طرح کراچی شہر میں متواتر جرگے منعقد ہونے لگے۔ ان مضافاتی علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان ان علاقوں میں بہت زیادہ متحرک ہیں۔ طالبان نے سیاسی اور عسکری محاذ کے علاوہ شادی بیاہ، طلاق، خواتین کی تعلیم اور ان کا مردوں سے علاج اور پیشہ اختیار کرنے کے حق کے خلاف فضا ہموار کی۔ اسکولوں پر حملے ہوئے، کئی اساتذہ ان حملوں میں شہید ہوئے۔ معروف محقق اختر بلوچ نے جرگہ نظام پر تحقیق کی۔
ان کا کہنا ہے کہ جرگوں کے فیصلوں میں خواتین کو شریک نہیں کیا جاتا مگر ان کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی نے فروری میں Alternate Dispute Resolution Bill 2016 منظور کیا۔ اس قانون کے تحت غیر رسمی عدالتوں کو اختیار دیا گیا کہ 23 مختلف نوعیت کے موضوعات سے متعلق تنازعات کے غیر رسمی حل پیش کرسکتے ہیں۔ اس میں سول اور فوجداری تنازعات بھی شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور خیرپور کی سابقہ ناظمہ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ یہ قانون خواتین کے خلاف استعمال ہوگا۔ سول اور فوجداری مقدمات کی آڑ میں پسند کی شادی اور کاروکاری جیسے گھناؤنے جرائم کی معافی ان عدالتوں سے ہوجائے گی۔
پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا لایا ہوا Anti Honour Killling and Rapeبل منظور کیا۔ یہ دونوں قوانین ایک دوسرے سے متضاد سمجھے جاتے ہیں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ سندھ میں ابھی تک ان متضاد قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوا مگر غیر قانونی طور پر جرگوں کے ذریعے پسند کی شادی کا حق استعمال کرنے والے جوڑوں کو سزائے موت دینے اور غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اگرچہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ شہر ہے گاؤں نہیں، اس بناء پر جرگوں کے انعقاد کی اجازت نہیں ہوگی، مگر ان فرسودہ رسومات کے خاتمے کے لیے اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک اقدامات پر غور نہیں ہوا۔ پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے قتل کا معاملہ معاشرے سے منسلک ہے۔ جب تک روشن خیال اور سیکولر ازم پر مبنی نظام قائم نہیں ہوگا معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کا خون بہتا رہے گا۔