مذہبی جذبات کا الاؤ
ابھی ہم مذہبی جذبات سے جنم لینے والے ایک بڑے بحران سے نکلے ہی ہیں کہ ایک اور بحران ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔
جنگ آزادی ہند، جسے انگریز1857ء کی بغاوت کا نام دیتے ہیں،مقامی باشندوں کی جانب سے انگریز آقاؤں کے خلاف جدوجہد آزادی کے طور پر شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا فوجی ڈھانچا بنیادی طور پر مقامی سپاہیوں ہی پر مشتمل تھا، جن کی قیادت برطانوی افسر کر رہے تھے۔ برطانوی فوجی رجمنٹس ہندوستانی سپاہیوں کی بھاری تعداد کے مقابلے میں محض مٹھی بھر تھیں۔
اس جنگ کے سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری اسباب موجود تھے، جنھیں فقط ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔ یہ چنگاری شعلہ اُس وقت بنی، جب ہند و فوجیوں نے اُن کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا گیا، جن کی بابت شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان پر گائے کی چربی چڑھائی گئی ہے۔ یاد رہے، انھیں استعمال سے قبل دانتوں سے توڑا جاتا تھا۔ ادھرمسلمان فوجیوں کو شک تھا کہ ان کارتوسوں پر سور کی چربی چڑھائی گئی ہے۔ الغرض ہندو اور مسلمان دونوں ہی کے لیے اُنھیں استعمال کرنا کسی طور قابل قبول نہیں تھا۔
23 جنوری 1857ء کو یہ معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا، جب ان کارتوسوں کو استعمال کرنے کے حکم پر ہندو سپاہی نے تحصیل براکپور کے علاقے میں دو برطانوی افسران کو قتل کر دیا۔یہ خبر تمام رجمنٹس میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مئی کے مہینے میں سورت میں تعینات 80ہندوستانی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا، جس کی پاداش میں برطانوی افسران نے پوری رجمنٹ کو نہتا کر دیا۔ بغاوت کی زمین تیار ہوگئی تھی۔ ہر وہ طبقہ،جو انگریز سے شاکی تھا، وہ بغاوت میں شامل ہوگیا۔
وہ گروہ بھی ، جو شاکی تو نہیں تھے، فقط لوٹ کھوسٹ کے خواہش مند تھے، بغاوت میں کود پڑے۔جگہ جگہ نئی قائدین ابھرنے لگے۔ چند ایسے تھے، جن کے پاس واضح مقصد تھا، مگر چند ایسے بھی تھے، جن کے پاس کوئی محرک نہیں تھا۔ یہ بغاوت سورت، دہلی، لکھنؤ، کان پور، جھانسی اور بہار جیسے علاقوں تک محدود تھی۔گوعظیم مغل سلطنت کے وارث، 82سالہ بہادر شاہ ظفر کا اثر و رسوخ اس وقت فقط دہلی تک سمٹ گیا تھا،اور گرتی صحت الگ غضب ڈھا رہی تھی،مگر وہ باغیوں کے لیے آزادی کی علامت بن گئے۔البتہ اِس بغاوت میں اُن کی حیثیت بے اختیار قائد سی تھی۔
تاریخ گواہ ہے، مذہبی نعروں کے ساتھ شروع ہونے والی تحاریک عام طور پر جن نتائج پر منتج ہوتی ہیں، وہ اُن کے ابتدائی اغراض و مقاصد سے خاصے پرے ہوتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اِس عہد میں، ذاتی مفادات کے لیے بڑی سہولت سے مذہبی تحریکوں کارخ موڑا جاسکتا ہے۔ مذہبی قیادت میں نیم حکیموں کی موجودگی ہمارا پرانامسئلہ ہے۔آپ کے بے لوث اور خالص اقدامات بھی اُن افراد کی وجہ سے سبوتاژ ہوسکتے ہیں، جو آپ کے مانند بے غرض نہیں۔2005ء کے اواخر میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا افسوس ناک واقعہ ہوا، تو اس کے خلاف ہونے والا احتجاج چند ماہ بعد بے سمتی اور ذاتی مفادات کے باعث خود ظلم کی شکل اختیار کر گیا، جس میں 250 افراد اپنی جان سے گئے اور 800 زخمی ہوئے۔
8 نومبر کو فیض آباد میں ایک غیرمعروف سیاسی جماعت لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے ایک دھرنے کی کال دی گئی، جس کی قیادت خادم حسین رضوی نامی مذہبی راہ نمانے کی، جن کی بابت لوگ بہت کم جانتے تھے۔ حیران کن طور پریہ دھرنا 21 دن پر محیط ہوگیا اور اس کی وجہ سے پنڈی اور اسلام آباد کے ہزاروں باسیوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے یہ معاملہ طو ل پکڑ گیا۔ دو ہزار کے لگ بھگ مظاہرین نے وفاقی وزیر قانون زید حامد سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔اس دھرنے کے دوران خادم رضوی نے سوائے آرمی کے، گورنمنٹ، عدلیہ اور سول انتظامیہ سمیت تمام اداروں کے خلاف انتہائی نامناسب زبان استعمال کی، جو مذہبی لیڈر کوقطعی زیب نہیں دیتی۔
25نومبر کی صبح شروع ہونے والے آپریشن سے اناڑی اور بھونڈا پن عیاں تھا اور اس کا ناکام ہونا طے تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ اس پورے عمل سے یہ کہہ کر الگ ہوگئے کہ آپریشن مقامی انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے حکم پر کیا تھا۔ جب ہلاکتوں کی خبر پھیلی، تو یہ آپریشن روک دیا گیا۔ اس لاحاصل اقدام میں چھ جانیں ضایع ہوئیں۔سماجی مبصرین اور رائے عامہ کے نمایندوں کا عمومی موقف یہی تھا کہ ن لیگ کی حکومت اس معاملے کو سنبھالنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔
ملک بھر میں املاک اورشہریوں کی طرز زندگی کواس انتہاپسند اقلیت نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جس کاچھ ماہ پہلے تک کسی نے ذکر بھی نہیں سنا تھا۔27 نومبر کو وفاقی وزیر قانون کے استعفے کے بعد احتجاج کا سلسلہ ختم ہوا، مگر اِس معاملے سے حکومتی ناکامی اور مغلوب ہونے کا منفی اثر ابھرا۔
گو یہ دھرنا حکومتی رٹ کے لیے چیلنج تھا، موزوں یہی تھا کہ پہلے حکومت حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتی۔ یہ مرحلہ طے ہوجاتا، تو پھر یہ جاننے اور سمجھنے کا اہتمام کیا جاتا کہ مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں، اُن کے قائدین کون ، اُن کا پس منظر کیا ہے اوراُن کے پس پردہ کون سی قوتیں ہیں۔طاقت کا استعمال ہر پہلو سے گھاتک تھا۔انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے استعمال سے ہلاکتیں ہوتیں، مظاہرین مشتعل ہو کر مزید قوت کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کرتے، یا پھر یہ مظاہرین اپنے مطالبات کے ساتھ پورے ملک میں پھیل جاتے اور اِس کا نتیجہ تشدد کی تیز لہر کی صورت سامنے آتا۔اس پر قابو پانے کے لیے ریاست مزید قوت استعمال کرتی، مزید ہلاکتیں ہوتیں اور پورا معاملہ ریاست کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ اس کا نتیجہ ''عرب بہار''جیسی ہول ناک خانہ جنگی کی صورت نکل سکتا تھا، جس کے اثرات آج دنیا کے سامنے ہیں۔
تین ہفتوں تک پانی ، خوراک، چائے، گرم کپڑوں اور کمبلوں کی فراہمی نے مظاہرین کو موسم سرما میں بھی متحرک رکھا۔ان کی منظم منصوبہ بندی اور انتظامات اپنی جگہ، مگر یہ سوال بھی اہم ہے کہ چند سو مظاہرین کس طرح پولیس چیک پوسٹوں سے سہولت سے گزر کر دارالحکومت کو مفلوج کرنے میں کامیاب رہے؟انتظامی مہارت اپنی جگہ، مگر اس پورے عمل پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے اور یقینی طور پر یہ ساری رقم جڑواں شہروں کی بزنس کمیونٹی نے فراہم نہیں کی تو پھر وہ کون سے ذرایع تھے، جنھوں نے ان فنڈز کا انتظام کیا؟اوریہ بھی ایک پراسرار ،پر تجسس سوال ہے کہ ن لیگ کے دور حکومت میں دارالحکومت کو مفلوج کرنے والے احتجاجی مظاہروں نے کیوں کرایک مستقل حیثیت اختیار کر لی ؟
ابھی ہم مذہبی جذبات سے جنم لینے والے ایک بڑے بحران سے نکلے ہی ہیں کہ ایک اور بحران ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ امریکا نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ۔مسلمان اس سے عقیدت رکھتے ہیں۔ایسے میں مذہبی طبقات کی جانب سے اس معاملے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جانا امکانی ہے۔اس حساس معاملے پرملکی اور بین لااقوامی سطح پر مذہبی جذبات سنبھالنا سہل نہیں ہوگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اِس ابھرتے ہوئے بحران پر خصوصی توجہ دینی ہوگی ،اس سے قبل یہ الاؤ مزید بھڑک جائے۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)
اس جنگ کے سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری اسباب موجود تھے، جنھیں فقط ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔ یہ چنگاری شعلہ اُس وقت بنی، جب ہند و فوجیوں نے اُن کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا گیا، جن کی بابت شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان پر گائے کی چربی چڑھائی گئی ہے۔ یاد رہے، انھیں استعمال سے قبل دانتوں سے توڑا جاتا تھا۔ ادھرمسلمان فوجیوں کو شک تھا کہ ان کارتوسوں پر سور کی چربی چڑھائی گئی ہے۔ الغرض ہندو اور مسلمان دونوں ہی کے لیے اُنھیں استعمال کرنا کسی طور قابل قبول نہیں تھا۔
23 جنوری 1857ء کو یہ معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا، جب ان کارتوسوں کو استعمال کرنے کے حکم پر ہندو سپاہی نے تحصیل براکپور کے علاقے میں دو برطانوی افسران کو قتل کر دیا۔یہ خبر تمام رجمنٹس میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مئی کے مہینے میں سورت میں تعینات 80ہندوستانی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا، جس کی پاداش میں برطانوی افسران نے پوری رجمنٹ کو نہتا کر دیا۔ بغاوت کی زمین تیار ہوگئی تھی۔ ہر وہ طبقہ،جو انگریز سے شاکی تھا، وہ بغاوت میں شامل ہوگیا۔
وہ گروہ بھی ، جو شاکی تو نہیں تھے، فقط لوٹ کھوسٹ کے خواہش مند تھے، بغاوت میں کود پڑے۔جگہ جگہ نئی قائدین ابھرنے لگے۔ چند ایسے تھے، جن کے پاس واضح مقصد تھا، مگر چند ایسے بھی تھے، جن کے پاس کوئی محرک نہیں تھا۔ یہ بغاوت سورت، دہلی، لکھنؤ، کان پور، جھانسی اور بہار جیسے علاقوں تک محدود تھی۔گوعظیم مغل سلطنت کے وارث، 82سالہ بہادر شاہ ظفر کا اثر و رسوخ اس وقت فقط دہلی تک سمٹ گیا تھا،اور گرتی صحت الگ غضب ڈھا رہی تھی،مگر وہ باغیوں کے لیے آزادی کی علامت بن گئے۔البتہ اِس بغاوت میں اُن کی حیثیت بے اختیار قائد سی تھی۔
تاریخ گواہ ہے، مذہبی نعروں کے ساتھ شروع ہونے والی تحاریک عام طور پر جن نتائج پر منتج ہوتی ہیں، وہ اُن کے ابتدائی اغراض و مقاصد سے خاصے پرے ہوتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اِس عہد میں، ذاتی مفادات کے لیے بڑی سہولت سے مذہبی تحریکوں کارخ موڑا جاسکتا ہے۔ مذہبی قیادت میں نیم حکیموں کی موجودگی ہمارا پرانامسئلہ ہے۔آپ کے بے لوث اور خالص اقدامات بھی اُن افراد کی وجہ سے سبوتاژ ہوسکتے ہیں، جو آپ کے مانند بے غرض نہیں۔2005ء کے اواخر میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا افسوس ناک واقعہ ہوا، تو اس کے خلاف ہونے والا احتجاج چند ماہ بعد بے سمتی اور ذاتی مفادات کے باعث خود ظلم کی شکل اختیار کر گیا، جس میں 250 افراد اپنی جان سے گئے اور 800 زخمی ہوئے۔
8 نومبر کو فیض آباد میں ایک غیرمعروف سیاسی جماعت لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے ایک دھرنے کی کال دی گئی، جس کی قیادت خادم حسین رضوی نامی مذہبی راہ نمانے کی، جن کی بابت لوگ بہت کم جانتے تھے۔ حیران کن طور پریہ دھرنا 21 دن پر محیط ہوگیا اور اس کی وجہ سے پنڈی اور اسلام آباد کے ہزاروں باسیوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے یہ معاملہ طو ل پکڑ گیا۔ دو ہزار کے لگ بھگ مظاہرین نے وفاقی وزیر قانون زید حامد سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔اس دھرنے کے دوران خادم رضوی نے سوائے آرمی کے، گورنمنٹ، عدلیہ اور سول انتظامیہ سمیت تمام اداروں کے خلاف انتہائی نامناسب زبان استعمال کی، جو مذہبی لیڈر کوقطعی زیب نہیں دیتی۔
25نومبر کی صبح شروع ہونے والے آپریشن سے اناڑی اور بھونڈا پن عیاں تھا اور اس کا ناکام ہونا طے تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ اس پورے عمل سے یہ کہہ کر الگ ہوگئے کہ آپریشن مقامی انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے حکم پر کیا تھا۔ جب ہلاکتوں کی خبر پھیلی، تو یہ آپریشن روک دیا گیا۔ اس لاحاصل اقدام میں چھ جانیں ضایع ہوئیں۔سماجی مبصرین اور رائے عامہ کے نمایندوں کا عمومی موقف یہی تھا کہ ن لیگ کی حکومت اس معاملے کو سنبھالنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔
ملک بھر میں املاک اورشہریوں کی طرز زندگی کواس انتہاپسند اقلیت نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جس کاچھ ماہ پہلے تک کسی نے ذکر بھی نہیں سنا تھا۔27 نومبر کو وفاقی وزیر قانون کے استعفے کے بعد احتجاج کا سلسلہ ختم ہوا، مگر اِس معاملے سے حکومتی ناکامی اور مغلوب ہونے کا منفی اثر ابھرا۔
گو یہ دھرنا حکومتی رٹ کے لیے چیلنج تھا، موزوں یہی تھا کہ پہلے حکومت حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتی۔ یہ مرحلہ طے ہوجاتا، تو پھر یہ جاننے اور سمجھنے کا اہتمام کیا جاتا کہ مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں، اُن کے قائدین کون ، اُن کا پس منظر کیا ہے اوراُن کے پس پردہ کون سی قوتیں ہیں۔طاقت کا استعمال ہر پہلو سے گھاتک تھا۔انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے استعمال سے ہلاکتیں ہوتیں، مظاہرین مشتعل ہو کر مزید قوت کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کرتے، یا پھر یہ مظاہرین اپنے مطالبات کے ساتھ پورے ملک میں پھیل جاتے اور اِس کا نتیجہ تشدد کی تیز لہر کی صورت سامنے آتا۔اس پر قابو پانے کے لیے ریاست مزید قوت استعمال کرتی، مزید ہلاکتیں ہوتیں اور پورا معاملہ ریاست کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ اس کا نتیجہ ''عرب بہار''جیسی ہول ناک خانہ جنگی کی صورت نکل سکتا تھا، جس کے اثرات آج دنیا کے سامنے ہیں۔
تین ہفتوں تک پانی ، خوراک، چائے، گرم کپڑوں اور کمبلوں کی فراہمی نے مظاہرین کو موسم سرما میں بھی متحرک رکھا۔ان کی منظم منصوبہ بندی اور انتظامات اپنی جگہ، مگر یہ سوال بھی اہم ہے کہ چند سو مظاہرین کس طرح پولیس چیک پوسٹوں سے سہولت سے گزر کر دارالحکومت کو مفلوج کرنے میں کامیاب رہے؟انتظامی مہارت اپنی جگہ، مگر اس پورے عمل پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے اور یقینی طور پر یہ ساری رقم جڑواں شہروں کی بزنس کمیونٹی نے فراہم نہیں کی تو پھر وہ کون سے ذرایع تھے، جنھوں نے ان فنڈز کا انتظام کیا؟اوریہ بھی ایک پراسرار ،پر تجسس سوال ہے کہ ن لیگ کے دور حکومت میں دارالحکومت کو مفلوج کرنے والے احتجاجی مظاہروں نے کیوں کرایک مستقل حیثیت اختیار کر لی ؟
ابھی ہم مذہبی جذبات سے جنم لینے والے ایک بڑے بحران سے نکلے ہی ہیں کہ ایک اور بحران ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ امریکا نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ۔مسلمان اس سے عقیدت رکھتے ہیں۔ایسے میں مذہبی طبقات کی جانب سے اس معاملے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جانا امکانی ہے۔اس حساس معاملے پرملکی اور بین لااقوامی سطح پر مذہبی جذبات سنبھالنا سہل نہیں ہوگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اِس ابھرتے ہوئے بحران پر خصوصی توجہ دینی ہوگی ،اس سے قبل یہ الاؤ مزید بھڑک جائے۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)