ہیرے جیسی تاریخ
کبھی تصور کیا ہے کہ کتنے بڑے بڑے حاکم آج اس دھول نے چھپا دیے ہیں۔
تم جس مٹی کو پیروں تلے روند دیتے ہو، کبھی سوچا ہے کہ اس مٹی نے کتنے بڑے بڑے ''رستم'' کو برداشت کیا ہے۔ تم جس مٹی پر اکڑ کر چلتے ہو، کبھی خیال کیا ہے کہ اسی مٹی کے نیچے اپنے وقت کے بڑے بڑے خدا دفن ہوگئے۔ تم جس مٹی کو دھول سمجھتے ہو، کبھی تصور کیا ہے کہ کتنے بڑے بڑے حاکم آج اس دھول نے چھپا دیے ہیں۔ یہ مٹی تو صدیوں سے خاموش ہے لیکن اس کا درد محسوس کرنے والا کوئی ہے۔
میں نے ایسے ہی بڑے بڑے ناموں کی فہرست تھر کی مٹی میں دیکھی ہے۔ جو اسے مٹی کا ڈھیر سمجھتے تھے۔ لیکن وہ سب آج اس مٹی میں ڈھیر ہوگئے، لیکن تھر کی خوشبو آج بھی باقی ہے۔
بھوک سے نڈھال، پیاس سے تڑپتے، دوا کے محتاج، تعلیم سے محروم اور کچے گھروں کے مکین، سونے جیسی مٹی پر فخر کرتے ہیں۔ اس بھوک اور پیاس کے ماروں سے کبھی پوچھا ہے کہ ان کی مٹی کتنی محبت والی ہے۔ میں نے دیکھا ہے اس مٹی میں بڑے بڑے ناموں کی تختیوں کو پیروں تلے آتے ہوئے۔ جو لوگ روم میں لاکھوں روپے خرچ کرکے عظمت کے نشان ڈھونڈھنے جاتے ہیں انھیں میرے دیس کی خوشبو کیوں نہیں اچھی لگتی۔ تھر کی مٹی تو اس سے بھی پرانے بادشاہوں کی نشانیاں رکھتی ہے۔ جو لوگ سکندر کو 'اعظم' بنا کر اپنا مقدر سمجھتے ہیں، انھیں اپنی تاریخ پر کیوں فخر نہیں ہے۔ یہ دھرتی، دنیا کی کسی بھی پرانی تہذیب سے کم زرخیز نہیں ہے۔ تھر کی مٹی کو چوم کرکے تو دیکھیں، یہاں آپ کو جین مذہب، ہندو مذہب سے پہلے کی باقیات بھی نظر آئیں گی۔
دیکھیں اس مٹی کو، جس کا نام ننگر پارکر ہے۔ تھر کا وہ حصہ جو ایک طرف پہاڑوں سے گھرا ہے جس کے پیچھے 'رن آف کچھ'' ہے۔ اور پھر بھارتی گجرات۔ ٹی وی کی اسکرین اور اخبار کی سرخیوں میں جھلکتی غربت نے یہاں کی تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میرے قدموں نے جو پہلی تاریخ دیکھی وہ ایک مسجد کی تھی۔ جس پر لکھا تھا کہ یہ مسجد 1505 عیسوی میں گجرات کے سلطان مظفر شاہ نے بنائی تھی۔ میں چونک گیا کہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک مظفر شاہ کا باپ حکمران تھا۔ اور اسے سلطنت 1511 میں ملی تھی۔
اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ ننگر پارکر میں یہ سب سے جدید عمارت ہے۔ کیونکہ تاریخی طور پر وہاں اس سے بھی پرانی عمارتیں موجود ہیں۔ یہاں لوگوں کو یونان کی تاریخ تو زبانی یاد ہوتی ہے لیکن آسمان پر دیکھنے والوں کو تھر کی زمین پر کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ میرے ذہن میں یہ سوال مچل رہا تھا، کیونکہ میں یہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ مظفر شاہ سلطان نہیں تھا۔
تلاش کرنے والی پیاسی آنکھوں کے لیے بتا دیتا ہوں کہ اس وقت انڈین گجرات اور پاکستان کے ننگرپارکر کے درمیان دو چیزیں ہیں، ایک کارونجھر کے پہاڑ اور دوسرا ''رن آف کچھ''۔ ہزاروں سال سے جو گجرات سے آتا تھا، اسے پہلے کچھ اور پھر کارونجھر کے پہاڑ عبور کرکے آنا ہوتا تھا۔ ٹھٹھہ سلطنت میں داخل ہونے کے لیے یہ پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔
ہزاروں سال پہلے جب گجرات میں جین مذہب کے ماننے والوں کی حکومت تھی تو انھوں نے اس پہلے پڑاؤ پر اپنے مندر تعمیر کیے۔ اور اس سے پہلے ہندوؤں کے مندر بنے اور پھر مظفر شاہ کے وقت میں یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔ ایک ہی قطار میں آپ کو یہاں کرشنا مندر، جین مذہب کا مندر اور 500 سال پرانی مسجد نظر آئے گی۔ دور دور تک کوئی آبادی نہیں، لیکن یہ تینوں عمارتیں قائم ہیں۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ آخر مظفر شاہ کی تاریخ غلط کیوں لکھی ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ماضی سے فرار لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ یہاں صدیوں پہلے اسلام آنے سے پہلے کئی اور مذاہب موجود تھے۔ ان کی حکومتیں بھی تھیں۔ ماضی سے فرار لینے والے اپنا سر مٹی میں چھپا کر ہمارے ماضی کو اندھیرے میں ڈال چکے ہیں۔
گجرات کا ایک بادشاہ محمد شاہ تھا، جس کی کارونجھر کے پہاڑ کی دوسری طرف موجود ''ٹھٹھہ سلطنت'' سے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ ''سمن جو راج'' یا سلسلہ سماں۔ ٹھٹھہ کی سلطنت اپنے آب و تاب سے جاری تھی۔ گجرات کے بادشاہ محمد شاہ نے سلسلہ سماں کی بیٹی ''بی بی مغلی'' سے شادی کی تھی۔ جس سے ان کے فتح خان ہوا۔ یہ ہی فتح خان گجرات کا سلطان بنا اور محمد بیگدا کے نام سے مشہور ہوا۔ ننگرپارکر کی مسجد پر 1505 تحریر ہے اور وہ وقت مظفر شاہ کا نہیں محمد بیگدا کا تھا۔
محمد بیگدا نے ایک ہندو راجپوت لڑکی ''ہیرا بائی '' سے شادی کی۔ جس سے چار بچے ہوئے۔ بڑے بیٹے کا نام خلیل تھا، جو محمد بیگدا کے بعد گجرات کا سلطان بنا اور اس نے اپنا لقب مظفر شاہ رکھا۔ اب اس حوالے سے دو روایت ہیں۔ پہلی یہ کہ محمد بیگدا کے اپنے ننھیال یعنی ٹھٹھہ سلطنت سے بہت اچھے تعلقات تھے، اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو 1505 میں وہاں بھیجا ہو اور کیونکہ پہلا پڑاؤ ننگرپارکر تھا، وہاں پہلے سے جین اور کرشنا مندر موجود تھا، اس لیے مسلمانوں کے لیے مسجد بنانے کا اعلان کیا ہو۔ دوسری روایت یہ ہے کہ تاریخ غلط درج ہو اور 1511 میں سلطان بننے کے بعد وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس آیا ہو اور مسجد کی تعمیر کا حکم دیا ہو۔
جانے بھی دیجیے۔ ویسے بھی ہمارے پاس تھر میں بھوک سے نڈھال بچے کیا کم ہیں جو تاریخ کے جھنجھٹ میں پھنس جائیں۔ لیکن جو لوگ میرے تھر کو تعلیم سے محروم کہتے ہیں۔ میں انھیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ ایک بار ضرور تھر جا کر ہماری تہذیب اور ہزاروں سال پرانے طرز تعمیر کو دیکھیں ۔ وہاں ایک کرشنا کا مندر ہے۔ ہزاروں سال پرانا ہے۔ جس میں جوگیوں کے بیٹھنے کے لیے جو کمرے بنائے گئے ہیں وہ آج کے دور جدید میں بھی آپ کو کمال لگیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے اس میں ایک سرنگ ہے۔ جو لوگ مصر کے اہرام سے متاثر ہیں وہ جا کر تھر کی زمین کو دیکھیں۔ بڑے بڑے پہاڑوں اور مٹی کی موجودگی میں 50 کلو گرام وزنی پتھر کس طرح سے رکھے گئے ہیں۔ وہاں کس طرح سے آئے۔ ان کو کس طرح سے تراشا گیا۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس طرح سے سرنگیں بنائی گئیں۔
جو لوگ اندھے بہرے ہو کر یہ شور مچاتے رہتے ہیں وہ جا کر ضرور دیکھیں کہ کس طرح مذہبی ہم آہنگی تھر میں موجود ہے کہ ایک ہی قطار میں آپ کو سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی عبادت گاہ نظر آئے گی۔ ہاں اب میں پوچھتا ہوں، وہ کون سی وجہ تھی پاکستان بننے کے 60 سال بعد یہاں پر سڑک بنائی گئی۔ وہ کون سی وجہ تھی کہ اب کوئلہ نکلنے کے بعد یہاں کی ترقی کا خیال آرہا ہے۔
پاکستان کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ سندھ کی روایت اور تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ مجھے کوئی تو بتائے کہ جو لوگ ہزاروں سال پہلے اتنی عالیشان عمارتیں بنا سکتے تھے، جہاں پر اعلیٰ درس گاہیں ہوا کرتی تھی۔ جو لوگ ہزاروں سال پہلے سرنگیں بنانا جانتے تھے۔ جو لوگ پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ نکالنے کا فن سمجھتے تھے۔ ان پر آج لوگ ترس کھا کر احسان کیوں جتاتے ہیں۔
ہندو عقیدے کے مطابق وہاں موجود ایک مندر میں شیر ہوتے تھے۔ ہزاروں سال پہلے یہاں کچھ لوگ زندہ دفن ہوچکے تھے۔ اور انھوں نے وہاں عبادت کر کے شیروں اور جنگلی جانوروں کو بھگایا۔ ایک پہاڑ کے پیچھے گجرات ہے۔ وہ گجرات جہاں سے نکل کر ''مودی'' بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ تھر، بنجر نہیں ہے۔ وہاں مٹی کے علاوہ ایک تہذیب بھی ہے۔ کالے سونے اور کالے دل کے درمیان تھر کی جگمگاتی سفید اور روشن ہیرے جیسی تاریخ بھی ہے۔
میں نے ایسے ہی بڑے بڑے ناموں کی فہرست تھر کی مٹی میں دیکھی ہے۔ جو اسے مٹی کا ڈھیر سمجھتے تھے۔ لیکن وہ سب آج اس مٹی میں ڈھیر ہوگئے، لیکن تھر کی خوشبو آج بھی باقی ہے۔
بھوک سے نڈھال، پیاس سے تڑپتے، دوا کے محتاج، تعلیم سے محروم اور کچے گھروں کے مکین، سونے جیسی مٹی پر فخر کرتے ہیں۔ اس بھوک اور پیاس کے ماروں سے کبھی پوچھا ہے کہ ان کی مٹی کتنی محبت والی ہے۔ میں نے دیکھا ہے اس مٹی میں بڑے بڑے ناموں کی تختیوں کو پیروں تلے آتے ہوئے۔ جو لوگ روم میں لاکھوں روپے خرچ کرکے عظمت کے نشان ڈھونڈھنے جاتے ہیں انھیں میرے دیس کی خوشبو کیوں نہیں اچھی لگتی۔ تھر کی مٹی تو اس سے بھی پرانے بادشاہوں کی نشانیاں رکھتی ہے۔ جو لوگ سکندر کو 'اعظم' بنا کر اپنا مقدر سمجھتے ہیں، انھیں اپنی تاریخ پر کیوں فخر نہیں ہے۔ یہ دھرتی، دنیا کی کسی بھی پرانی تہذیب سے کم زرخیز نہیں ہے۔ تھر کی مٹی کو چوم کرکے تو دیکھیں، یہاں آپ کو جین مذہب، ہندو مذہب سے پہلے کی باقیات بھی نظر آئیں گی۔
دیکھیں اس مٹی کو، جس کا نام ننگر پارکر ہے۔ تھر کا وہ حصہ جو ایک طرف پہاڑوں سے گھرا ہے جس کے پیچھے 'رن آف کچھ'' ہے۔ اور پھر بھارتی گجرات۔ ٹی وی کی اسکرین اور اخبار کی سرخیوں میں جھلکتی غربت نے یہاں کی تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میرے قدموں نے جو پہلی تاریخ دیکھی وہ ایک مسجد کی تھی۔ جس پر لکھا تھا کہ یہ مسجد 1505 عیسوی میں گجرات کے سلطان مظفر شاہ نے بنائی تھی۔ میں چونک گیا کہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک مظفر شاہ کا باپ حکمران تھا۔ اور اسے سلطنت 1511 میں ملی تھی۔
اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ ننگر پارکر میں یہ سب سے جدید عمارت ہے۔ کیونکہ تاریخی طور پر وہاں اس سے بھی پرانی عمارتیں موجود ہیں۔ یہاں لوگوں کو یونان کی تاریخ تو زبانی یاد ہوتی ہے لیکن آسمان پر دیکھنے والوں کو تھر کی زمین پر کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ میرے ذہن میں یہ سوال مچل رہا تھا، کیونکہ میں یہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ مظفر شاہ سلطان نہیں تھا۔
تلاش کرنے والی پیاسی آنکھوں کے لیے بتا دیتا ہوں کہ اس وقت انڈین گجرات اور پاکستان کے ننگرپارکر کے درمیان دو چیزیں ہیں، ایک کارونجھر کے پہاڑ اور دوسرا ''رن آف کچھ''۔ ہزاروں سال سے جو گجرات سے آتا تھا، اسے پہلے کچھ اور پھر کارونجھر کے پہاڑ عبور کرکے آنا ہوتا تھا۔ ٹھٹھہ سلطنت میں داخل ہونے کے لیے یہ پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔
ہزاروں سال پہلے جب گجرات میں جین مذہب کے ماننے والوں کی حکومت تھی تو انھوں نے اس پہلے پڑاؤ پر اپنے مندر تعمیر کیے۔ اور اس سے پہلے ہندوؤں کے مندر بنے اور پھر مظفر شاہ کے وقت میں یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔ ایک ہی قطار میں آپ کو یہاں کرشنا مندر، جین مذہب کا مندر اور 500 سال پرانی مسجد نظر آئے گی۔ دور دور تک کوئی آبادی نہیں، لیکن یہ تینوں عمارتیں قائم ہیں۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ آخر مظفر شاہ کی تاریخ غلط کیوں لکھی ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ماضی سے فرار لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ یہاں صدیوں پہلے اسلام آنے سے پہلے کئی اور مذاہب موجود تھے۔ ان کی حکومتیں بھی تھیں۔ ماضی سے فرار لینے والے اپنا سر مٹی میں چھپا کر ہمارے ماضی کو اندھیرے میں ڈال چکے ہیں۔
گجرات کا ایک بادشاہ محمد شاہ تھا، جس کی کارونجھر کے پہاڑ کی دوسری طرف موجود ''ٹھٹھہ سلطنت'' سے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ ''سمن جو راج'' یا سلسلہ سماں۔ ٹھٹھہ کی سلطنت اپنے آب و تاب سے جاری تھی۔ گجرات کے بادشاہ محمد شاہ نے سلسلہ سماں کی بیٹی ''بی بی مغلی'' سے شادی کی تھی۔ جس سے ان کے فتح خان ہوا۔ یہ ہی فتح خان گجرات کا سلطان بنا اور محمد بیگدا کے نام سے مشہور ہوا۔ ننگرپارکر کی مسجد پر 1505 تحریر ہے اور وہ وقت مظفر شاہ کا نہیں محمد بیگدا کا تھا۔
محمد بیگدا نے ایک ہندو راجپوت لڑکی ''ہیرا بائی '' سے شادی کی۔ جس سے چار بچے ہوئے۔ بڑے بیٹے کا نام خلیل تھا، جو محمد بیگدا کے بعد گجرات کا سلطان بنا اور اس نے اپنا لقب مظفر شاہ رکھا۔ اب اس حوالے سے دو روایت ہیں۔ پہلی یہ کہ محمد بیگدا کے اپنے ننھیال یعنی ٹھٹھہ سلطنت سے بہت اچھے تعلقات تھے، اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو 1505 میں وہاں بھیجا ہو اور کیونکہ پہلا پڑاؤ ننگرپارکر تھا، وہاں پہلے سے جین اور کرشنا مندر موجود تھا، اس لیے مسلمانوں کے لیے مسجد بنانے کا اعلان کیا ہو۔ دوسری روایت یہ ہے کہ تاریخ غلط درج ہو اور 1511 میں سلطان بننے کے بعد وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس آیا ہو اور مسجد کی تعمیر کا حکم دیا ہو۔
جانے بھی دیجیے۔ ویسے بھی ہمارے پاس تھر میں بھوک سے نڈھال بچے کیا کم ہیں جو تاریخ کے جھنجھٹ میں پھنس جائیں۔ لیکن جو لوگ میرے تھر کو تعلیم سے محروم کہتے ہیں۔ میں انھیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ ایک بار ضرور تھر جا کر ہماری تہذیب اور ہزاروں سال پرانے طرز تعمیر کو دیکھیں ۔ وہاں ایک کرشنا کا مندر ہے۔ ہزاروں سال پرانا ہے۔ جس میں جوگیوں کے بیٹھنے کے لیے جو کمرے بنائے گئے ہیں وہ آج کے دور جدید میں بھی آپ کو کمال لگیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے اس میں ایک سرنگ ہے۔ جو لوگ مصر کے اہرام سے متاثر ہیں وہ جا کر تھر کی زمین کو دیکھیں۔ بڑے بڑے پہاڑوں اور مٹی کی موجودگی میں 50 کلو گرام وزنی پتھر کس طرح سے رکھے گئے ہیں۔ وہاں کس طرح سے آئے۔ ان کو کس طرح سے تراشا گیا۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس طرح سے سرنگیں بنائی گئیں۔
جو لوگ اندھے بہرے ہو کر یہ شور مچاتے رہتے ہیں وہ جا کر ضرور دیکھیں کہ کس طرح مذہبی ہم آہنگی تھر میں موجود ہے کہ ایک ہی قطار میں آپ کو سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی عبادت گاہ نظر آئے گی۔ ہاں اب میں پوچھتا ہوں، وہ کون سی وجہ تھی پاکستان بننے کے 60 سال بعد یہاں پر سڑک بنائی گئی۔ وہ کون سی وجہ تھی کہ اب کوئلہ نکلنے کے بعد یہاں کی ترقی کا خیال آرہا ہے۔
پاکستان کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ سندھ کی روایت اور تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ مجھے کوئی تو بتائے کہ جو لوگ ہزاروں سال پہلے اتنی عالیشان عمارتیں بنا سکتے تھے، جہاں پر اعلیٰ درس گاہیں ہوا کرتی تھی۔ جو لوگ ہزاروں سال پہلے سرنگیں بنانا جانتے تھے۔ جو لوگ پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ نکالنے کا فن سمجھتے تھے۔ ان پر آج لوگ ترس کھا کر احسان کیوں جتاتے ہیں۔
ہندو عقیدے کے مطابق وہاں موجود ایک مندر میں شیر ہوتے تھے۔ ہزاروں سال پہلے یہاں کچھ لوگ زندہ دفن ہوچکے تھے۔ اور انھوں نے وہاں عبادت کر کے شیروں اور جنگلی جانوروں کو بھگایا۔ ایک پہاڑ کے پیچھے گجرات ہے۔ وہ گجرات جہاں سے نکل کر ''مودی'' بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ تھر، بنجر نہیں ہے۔ وہاں مٹی کے علاوہ ایک تہذیب بھی ہے۔ کالے سونے اور کالے دل کے درمیان تھر کی جگمگاتی سفید اور روشن ہیرے جیسی تاریخ بھی ہے۔