برطانیہ میں غیریورپی بزرگوں کے داخلہ پر پابندی
انسانی حقوق کے علمبردار ملک میں تارکین وطن اور ان کے والدین کے درمیان بلندوبالا دیواریں کھڑی کردی گئیں۔
ان شرائط پر مبنی پالیسی لانے کا مطلب دوسرے الفاظ میں مکمل انکار ہی ہے۔ فوٹو : فائل
راجا فیاض گزشتہ دو دہائیوں سے برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی اور اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے ہیں جن کے بوڑھے والد اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد پاکستان میں اکیلے رہ گئے تھے۔ جب فیاض نے ان کے اپنے ہاں مستقل قیام کے ویزے کی درخواست جمع کروائی تو موجودہ برطانوی حکومت کے بنائے گئے قوانین کے سبب ان کے ویزے کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔
اگرچہ فیاض کی طرف سے مکمل یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے والد کی رہائش اور علاج وغیرہ کی ذمہ داری وہ خود برداشت کریں گے لیکن ان کے ویزے کی درخواست مسترد کردی گئی کیونکہ اس وقت فیاض کے والد کسی ایسی بیماری کا شکار نہیں تھے کہ مکمل طور پر اپنے کاموں کے سلسلے میں کسی کے محتاج ہوں۔ واضح رہے کہ کنزرویٹو گورنمنٹ نے برسرِ اقتدار آتے ہی ایسی بے شمار قانونی ترامیم کیں جس کے ذریعے غیر یورپی ممالک سے آنے والے لوگوں کو روکا جاسکے۔
اس سلسلے میں اسٹوڈنٹ ویزہ ہو، فیملی ویزہ یا ورک کیٹیگریز ہر ایک کو کنٹرول کرنے کے لئے قوانین بنائے گئے۔ اس سلسلے میں دوکیٹیگریز ایسی تھیں جن کے اوپر پابندی سے اقلیتوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اوّلاً : شادی کے بعد اپنے بیوی بچوں یا شوہر کو بلانے سلسلے میں ، دوسری کیٹیگری ہے اپنے بوڑھے والدین کو برطانیہ بلانے کی۔ اس سلسلے میں کی گئی قانون سازی نے انسانی حقوق کے بارے میں بھی کئی سوال کھڑے کردئیے ہیں۔ اگر آپ برطانیہ کے شہری ہیں تو آپ کے والدین کو آپ سے ملنے کے لئے وزٹ ویزہ آسانی سے مل جائے گا تاہم اس کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ اس سلسلے میں اگر ویزہ افسر کوئی اعتراض لگا کر ویزہ مسترد بھی کردے تو آپ اس فیصلے کے خلاف کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں تاہم اس ویزہ پر والدین چھ ماہ سے زیادہ اولاد کے پاس نہیں رہ سکتے۔
نئی قانون سازی سے قبل اگر اولاد والدین کو مستقل طور پر اپنے پاس بلانا چاہتے تھے تو محض یہ ثابت کرنا ہوتا تھاکہ والدین مالی طور پر اولادپر انحصار کرتے ہیں اور اولاد سرکاری مدد کے بغیر ان کے رہائش و علاج وغیرہ کا خرچ اٹھانے کے قابل ہے۔ جولائی 2012ء میں متعارف کئے گئے نئے قانون کے بعد سے والدین کو مستقل سکونت کے لئے برطانیہ بلانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ برطانوی حکومت نے اس سلسلے میں جو شرائط عائد کی ہیں وہ اس قدر غیر انسانی اور غیر منطقی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً
٭ والدین کی عمر پینسٹھ سال سے کم نہ ہو۔
٭ والدین مالی طور پر اولاد پر انحصار کرتے ہوں۔
٭ والد/والدہ طویل عرصہ سے بیمار ہوں اور اپنے کام خود کرنے کے قابل نہ ہوں۔
٭درخواست دہندہ کے کوئی بہن یا بھائی یا دور کے رشتے دار ان(والدین) کی دیکھ بھال کرنے کے لئے موجود نہ ہوں۔
٭والدین کی24گھنٹے کی دیکھ بھال کے لئے کوئی ملازم اور ادارہ پورے ملک میںکہیں موجود نہ ہو۔
ان شرائط پر مبنی پالیسی لانے کا مطلب دوسرے الفاظ میں مکمل انکار ہی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں کوئی بھی ویزہ افسر آسانی سے ویزہ مسترد کرسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے غیر یورپی ممالک میں موجود ہسپتال ، فلاحی ادارے اور اولڈ ہاؤس کی خدمات فراہم کرنے والوں کی فہرستیں بھی بنالی گئی ہیں۔ یہ وجہ بیان کرتے ہوئے ویزہ مسترد کرکے اداروں کے ناموں کی فہرست بھی ساتھ بھیج دی جاتی ہے کہ درخواست دہندہ کے والدین ان اداروں سے بات کرسکتاہے۔
جب راجا فیاض کے والد کے لئے ویزہ مذکورہ بالا پالیسی کی وجہ سے مسترد ہوا تو یہ واقعہ ان کے خاندان کے لئے سخت اذیت کا باعث بنا۔ والد کی دیکھ بھال کے لئے فیاض اور فیملی کے دوسرے افراد نے پاکستان باقاعدگی سے آنا جانا شروع کردیا تاکہ ان کے والد اکیلے پن کا شکار نہ ہوجائیں۔تاہم کچھ عرصہ بعد ان کے والد پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بستر تک محدود ہوگئے۔ راجا فیاض نے ان کے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور ان کی خدمت کیلئے ملازمین کا بندوبست بھی کیا۔ اس صورتحال میں انہوں نے ایک بار پھر برطانوی ہائی کمیشن میں والد کو ساتھ لے جانے کے لئے ویزہ کی درخواست دی لیکن اس مرتبہ بھی ان کی استدعا نامنظورکردی گئی ، اس مرتبہ جواز یہ بنایا گیا کہ پاکستان میں ان کی چوبیس گھنٹے دیکھ بھال کے لئے ملازمین کا انتظام باآسانی ممکن ہے۔
راجا فیاض نے اس سلسلے میں کورٹ میں اپیل کی تو آٹھ ماہ کے طویل عرصہ کے بعد ان کے کیس کی سماعت ہوئی، آخرکارٹریبونل جج کی جانب سے انسانی حقوق اور فیملی لائف کی بنیاد پر والد کو برطانیہ لانے کی اجازت دیدی گئی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت تک ان کے والد کی جسمانی حالت ایک اور فالج اٹیک کی وجہ سے اس قدر خراب ہوچکی تھی کہ انھیں سوائے ائیر ایمبولینس کے برطانیہ لانا ممکن نہیں تھا جس کے اخراجات برداشت کرنا ایک عام انسان کے لئے ممکن نہیں۔ اپیل منظور ہونے کے کچھ عرصہ بعد راجا فیاض کے والد انتقال کرگئے۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں المیہ ہے۔
راجا فیاض کا کہنا ہے کہ شاید ساری زندگی ان کے دل سے یہ ملال نہ جاسکے کہ وہ آخری عمر میں اپنے ہاتھوں سے والد کی اس طرح خدمت نہ کرسکے جو ایک بیٹے کے طور پر ان پر فرض تھی۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں برطانیہ میں رہنے بسنے والے غیر یورپی لوگوں کے سیکڑوں خاندان اسی طرح کے المیوں سے گزرے، قانونی ضابطوں نے انہیں اپنے پیاروں کی خدمت سے محروم کردیا۔ برطانیہ کی تمام اقلیتیں ہی اس قانون کی وجہ سے مشکلات سے دوچار نظر آتی ہیں۔
اگرچہ مغرب میں 'اولڈ ہاؤس' کا کلچر عام ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں خود کو زندہ رکھنے کی جدوجہد والدین کی خدمت کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے۔اس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ وہ والدین کو بالکل ہی چھوڑ دیتے ہوں یا ان کی پروا نہ کرتے ہوں۔ دوسری طرف ملک کے سخت قوانین اور حکام ان اداروں کو مانیٹر کرتے رہتے ہیں جو بزرگوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں ۔ اس پورے سسٹم کے برعکس ایشیائی ممالک خصوصاً انڈیا، پاکستان اور بنگلا دیش میں والدین کو اب بھی زیادہ ترگھروں میں نہ صرف رحمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں گھر کے سربراہ کی حیثیت سے عزت دی جاتی ہے۔ بڑھاپے میں والدین کی خدمت کو دینی اور دنیاوی اجر کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
کنزرویٹو حکومت کے بہت سے غیر انسانی اور غیر منطقی قوانین کی ایک مثال یہ قانون بھی ہے جس میں حقوقِِ انسانی کے کنونشن کی شق آٹھ کے تحت انسان کے ایک بنیادی حق 'پرائیوٹ اور فیملی لائف' کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کنزرویٹوپارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں زورو شور سے بہت سے مسائل کا ذمہ دار تارکینِ وطن کو قرار دیتے ہوئے امیگریشن پہ کنٹرول کا نعرہ لگایا اور بہت سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
تاہم برسرِاقتدار آنے کے بعد امیگریشن کنٹرول کے نام پر زیادہ تر ایسے قوانین بنائے جن میں غیر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس بات کو قطعی نظر انداز کردیا گیا کہ اقلیتوں کے کاروبار کو چلانے کے لیے افرادی قوت انہی ممالک سے آتی تھی۔
برطانیہ میں موجود انڈین، پاکستانی اور بنگلادیشی ریسٹورنٹ اور فوڈز سے منسلک دیگر کاروبار مثلاً حلال گوشت بیچنے کی دکانوں پر کام کرنے والے سارے لوگ ان ممالک سے ورک پرمٹ پر لائے جاتے ہیں لیکن ان سب حقائق کو نظر انداز کرکے غیر یورپی ممالک سے ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کا براہ راست نقصان ایشیائی لوگوں کے کاروبارپر پڑاہے۔ ان سب نقصانات کا تعلق معاشی سرگرمیوں سے ہے۔
انسان معاشی ناہمواری اور مشکلات سے نمٹ سکتا ہے اور ان کا متبادل حل بھی ڈھونڈ نکالتا ہے لیکن اپنے پیاروں کے حوالے سے ملنے والی اذیت اور جذباتی تکلیف کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا جب کہ وہ اپنے بوڑھے، کمزور اور بیمار والدین کی خدمت نہ کرسکے، انھیں اپنے پاس بلا نہ سکے۔
انسانی رشتوں کے درمیان دیواریں بن جانے والی ان غیر انسانی پالیسیوں نے برطانیہ میں رہنے والی پاکستانی خاندانوں پر بھی گہرے اور منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ جولائی 2012ء کی پالیسی آنے کے بعد شاید ہی کسی پاکستانی کے بزرگ والدین کو ویزہ دیا گیا ہوکیونکہ یہ ثابت کرنا ہی تقریباً ناممکن ہے کہ والدین کی دیکھ بھال کے لئے نرس، ملازم یا ادارے موجود نہیں ہیں۔ اس سلسلے اولاد کی اپنے والدین سے تعلق، محبت، انسانی حقوق اور فیملی کے حق کو کسی قسم کی اہمیت نہیں دی جاتی۔
اگر کوئی اپنے والدین کی مستقل سکونت کے لئے ویزہ کی درخواست جمع کراتا ہے، وہ مسترد کردی جائے اور اسکے بعد وہ والدین کے وزٹ ویزہ کی کوشش بھی کرے تو اس کی یہ درخواست بھی یہ کہہ کرمسترد کردی جاتی ہے کہ آپ اپنے والدین کو مستقل برطانیہ لانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لئے وزٹ ویزہ کی درخواست کے پیچھے بھی یہی نیت کارفرما ہے، اس لئے اگر انہیں ویزہ دیا گیا تو یقیناً وہ واپس وطن نہیں جائیں گے، یوں انہیں کم مدت کا ویزہ بھی نہیں دیا جاسکتا۔
خود برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس قانون کو غیر منطقی ، غیر انسانی اور غیر شفاف قرار دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر یورپ کے دیگر ممالک کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو قوانین میں شرائط ضرور شامل ہوتی ہیں لیکن وہ غیر منطقی نہیں ہوتیں اور شرائط پوری ہونے پر عموماً ویزے کا حصول مشکل نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ جن انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کا برطانیہ پابند ہے ان میں سے ایک یورپئین کنونشن آف ہیومن رائٹس1953ء اور1998 ء بھی ہے جس کے آرٹیکل آٹھ کے تحت انسان کی نجی اور خاندانی زندگی کے احترام کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اس پالیسی پر اعتراضات کے جواب میںبرطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں 65 سال سے زائد عمر کے لوگ کل آبادی کا18 فیصد ہیں۔ جن کی دیکھ بھال پر حکومت کو بھاری اخراجات کا سامنا ہے۔ ایسے میںتارکین وطن کے بزرگوں کے لئے پالیسی کو سخت کردیا گیا ہے تاکہ عام لوگوں کے ٹیکس سے چلنے والے اولڈ ہومز ، کئیر ہاؤسز اور ہسپتالوں پر مزید بوجھ نہ پڑے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ تارکین وطن والدین کو لاتے وقت یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے علاج کے اخراجات خود اْٹھائیں گے لیکن برطانیہ میں پرائیویٹ علاج و معالجہ کے اخراجات دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد ہی لوگ سرکاری اداروں کی مدد پر انحصار کرنا شروع کردیتے ہیں۔
حکومت کا موقف اپنی جگہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو لیکن انسانی حقوق کے مقابل کچھ بھی اہم نہیں ہوتا، انسانی حقوق کے علمبردار ملک میں انسانی حقوق ہی سے پہلوتہی، برطانوی جمہوریت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس صورتحال میں تارکین وطن کی ساری امیدوں کا مرکز اپوزیشن لیبر پارٹی ہے جو نہ صرف موجودہ حکومت کی ان پالیسیوں کے خلاف ہے بلکہ اقتدار میں آنے کی صورت میں انہیں ختم کرنے کا بھی مکمل ارادہ رکھتی ہے۔