پتن مینارہ

چولستان کا خوب صورت تاریخی ورثہ جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

اس عمارت کی دل کشی کا اندازہ اس میں نصب ایک پتھر پر بنے نقش ونگار سے ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
بنتی مٹتی تہذیبوں کے آثار عہدرفتہ کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ یہ آثار گذشتہ ادوار کی انسانی غلطیوں، قدرتی آفات اور انسانی دراندازیوں سے لے کر انسان کی پیداکردہ تباہیوں تک پھیلے المیوں کی دل دکھاتی داستانوں کا منہ بولتا الم ناک شاہکار ہوتی ہیں۔

آثارِقدیمہ ہماری جغرافیائی، سماجی اور مذہبی حیثیت کی جھلک بھی دکھاتے ہیں اور ہمارے ثقافتی علمی و ادبی عروج و زوال کی داستان بھی زبان حال سے سناتے ہیں۔

چولستان کی سرزمین شان دار قدیم تہذیبوں کی آماج گاہ رہی ہے۔ چولستان کی بانہیں ہمیشہ اِنسانوں کے لیے محبت سے کھلی رہی ہیں۔ یہاں بیرونی حملہ آوروں نے قدم دھرے تو یہاں کے غیور لوگوں نے مردانہ وار ان کا سامنا کیا، یہاں صوفیوں نے الوہی عشق کے نغمات سماجی کرب کے ساز پر گائے تب یہاں کے لوگوں نے ان کو اپنے دلوں کے سنگھاسن پر بٹھایا۔ یہاں عشق و محبت کی لازوال داستانیں اپنے حقیقی کرداروں کے ساتھ سینہ بہ سینہ جنم لیتی رہیں۔ دیومالائی اساطیری واقعات کی اپنی جگہ ایک قدیم مذہبی اہمیت رہی ہے۔

چوںکہ دریا کے ساتھ ساتھ آبادیاں رہی ہیں، سندھ سے جڑا قدیم دریا سرسوتی جسے، گھاگر اور ہاکڑہ بھی کہا جاتا ہے، جو صدیاں ہوئیں معدوم ہو چکا، اپنے دامن میں بے شمار تاریخی دفینے لیے ریت کی چادر اوڑھ چکا ہے۔ ہاکڑہ تہذیب کی قدامت کے بارے میں مورخین کا خیال ہے کہ یہ موئنجودڑواور ہڑپہ کی تہذیبوں سے کسی طرح کم نہیں۔ ایسا ہی ایک ہاکڑہ تہذیب کا گہوارہ شہر جس کو ماضی میں کبھی واہن (سنسکرت) کبھی پتن دڑہ اور کبھی پتن پورہ کے نام سے پکارا گیا، آج اس کی واحد پہچان صدیووں پرانا پتن مینارہ ہے۔ یہ عمارت دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی۔

پتن مینارہ ضلع رحیم یار خان کی چولستانی سرزمین میں پھیلے دو سو سے زائد قدیم آثار میں سب سے منفرد اور نمایاں شناخت کی حامل عمارت ہے، جو رحیم یار خان کے جنوب میں نو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ایک کھنڈرنما عمارت ہے۔ یہ عمارت ایک عظیم مگر مٹے ہوئے شہر کے وسط میں واقع ہے۔ اس شہر کا پھیلاؤ تقریباً بارہ میل پر محیط تھا، جس کا پتا اس کی باقیات سے چلتا ہے۔ یہیں پر تین قدیم تہذیبوں اور مذہبی ادوار، ہندومت، بدھ مت کی باقیات کے بعد اسلامی تمدن کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔ دریائے سرسوتی بعدازاں دریائے گھاگھرا ہاکڑہ اپنی قدرتی بندرگاہ اور آباد شہر کے ساتھ صدیوں قبل معدوم ہو چکا مگر اس کی عظمتِ رفتہ کی ایک عظیم الشان نشانی صدیوں پرانا پتن مینارہ آج بھی اپنی جگی ایستادہ ہے۔

اس عمارت کی دل کشی کا اندازہ اس میں نصب ایک پتھر پر بنے نقش ونگار سے ہوتا ہے، جو قریب سے دیکھنے پر آرٹ کا ایک شاہ کار نظر آتے ہیں۔ تاریخی طور پر کیوںکہ یہ برہمن راج کا ایک اہم گڑھ رہا ہے اس لیے یہاں مذہبی رجحانات کے آثار جابجا نظر آتے ہیں، جیسلمیر اور بیکانیر تک پھیلے ہوئے ان آثار سے اس خطے کی اہمیت اور بھی واضح ہوتی ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں شہر کی باقیات سے قریباً ایک کلومیٹر دور مشرق میں ایک شان دار قلعہ بھی تھا، جس کا مختلف کتب میں پتن مینارہ کے ساتھ ذکر ہے۔

ایک تاریخی دستاویز کے مطابق سکندراعظم نے اوچ کی تسخیر کے بعد اس علاقے کی فوجی اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہاں چڑھائی کردی تھی، کیوںکہ اس تک یہ بات بھی پہنچائی گئی تھی کہ یہ خوش حال باسیوں کا شہر ہے اور یہاں اناج کی فراوانی بھی اپنی جگہ حملہ آوروں کے لیے کشش کا باعث رہی۔ یہاں کے حاکم کا نام ایک دستاویز کے مطابق میونسی کنس تھا، جو کہ مقامی ناموں سے مطابقت نہیں رکھتا، جب کہ دوسری روایت کے مطابق اس کا نام موریہ کنس راج تھا جو قریب تر خیال کیا جاتا ہے۔

موریہ کنس راج نے ایک معاہدے کے ذریعے سکندر اعظم سے خراج ادا کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے لشکریوں اور ان کی سواریوں کے لیے خوراک کا بھی بندوبست کیا، مگر سکندراعظم کے ایک سالار کی طرف سے بداعتمادی پیدا ہوگئی، جس پر سکندرِ اعظم نے موریہ کنس راج کو شہر کے چوراہے پر پھانسی پر لٹکا کر بغاوت کے ممکنہ خطرے کو ختم کردیا۔

برطانوی عہد کے کرنل جیمزٹاڈ جو چولستان پر تحقیقی کام کے حوالے سے معروف ہیں۔ انہوں نے بھی اسے دسویں صدی عیسوی تک ایک بڑے شہر کا درجہ دیا جو کہ ممکنہ طور پر اپنے وقتوں میں دارالحکومت بھی رہا ہے۔ یہاں کے تیارکردہ برتن اور روزمرہ ضرورت کی مختلف اشیاء زیبائش کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کے ساتھ ساتھ ہتھیار خطے کے دیگر علاقوں میں بھیجے جاتے تھے۔ گویا یہاں کی بنائی گئی مختلف اقسام کی اشیاء کی مانگ تھی، چوںکہ دریائی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے ان اشیاء کی ترسیل آسان تھی، لہٰذا مقامی صنعت کو بھرپور فروغ حاصل ہوا۔ یہاں کا مرکزی معبد ایک مذہبی عبادت گاہ کے ساتھ تعلیمی درس گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا۔ موجودہ پتن مینارہ کی عمارت سے عیاں ہے کہ یہاں عظیم درس گاہ کے ساتھ طالب علموں کی رہائش کا بندوبست بھی تھا۔

اس کا مشرقی علاقہ قلعے کی وجہ سے فوجی اہمیت کا حامل تھا۔ 711 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد تک اور بعد میں بھی یہاں کا معبد قائم رہا، جس کی معدومیت سے قبل کی تاریخ کرنل جیمزٹاڈ کے مطابق دسویں عیسوی بنتی ہے۔ بندرگاہ اور مرکزی مندر ہونے کی وجہ سے اس مندر کو خطے بھر میں نمایاں حیثیت حاصل تھی اور یہاں ہندوستان بھر سے عقیدت مند یاتری اور راجوں کا یہاں کے شیوارتری تہوار میں شرکت ایک بہت بڑے مذہبی فریضے کے طور پر کی جاتی تھی۔


کرنل منچن جو کہ انگریزسرکار کے بہاولپور کے کمانڈنگ ریذیڈنٹ رہے، اپنی یادداشتوں میں رقم طراز ہیں کہ یہاں کی عمارت تین منزلہ تھی، جس میں سے بالائی منزل حوادث زمانہ کا شکار ہوکر آدھی سے زیادہ نابود ہوچکی ہے جب کہ موجود عمارت کے اندرونی پلستر کو اکھاڑنے سے وہاں سنسکرتی زبان میں ایک عہدنامہ دیوار پر تحریر ملا جس کی رو سے مقامی حکم راں نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنی آمدن کا لگابندھا حصہ مندر کی نذرکرے گا۔

کرنل منچن کی تحقیق کے مطابق 1559 سے 1569 تک کے درمیانی عرصے میں شہر میں کچھ نئی تعمیرات کے لیے دوردراز سے ضرورت کی اشیاء، جن میں لکڑی اور سنگلاخ پتھر شامل ہیں، لائے گئے۔ اور یہاں موہنجودڑو اور ہڑپہ کی ہم پلہ تہذیب قائم تھی۔ چوںکہ اس وقت دریائے ہاکڑہ اپنا رخ بتدریج بدل رہا تھا اور شہر کی بندرگاہ بھی ویسی نہیں رہی تھی۔ اس لیے لوگوں کے تیزی کے ساتھ دوسرے دریائی علاقوں کو منتقلی سے یہاں کی مقامی آبادی کم ہوتی گئی۔ دریائے ہاکڑہ کی بے وفائی نے ان لوگوں کی زراعت اور مقامی صنعتوں کو شدید معاشی نقصان سے دوچار کردیا اور یہ علاقہ خشک و بنجر ہوتا گیا۔ اس کی عمارت معبد اور مندر ویران ہوتے گئے۔ قلعے کی اہمیت کی وجہ سے اس شہر کی آبادی اپنے تحفظ کے لیے بہرحال ایک خاص تعداد میں موجود رہی۔

1733 میں عباسی داؤدپوتہ حکم رانوں نے ریاست بہاول پور کی عمل داری کا اعلان کیا تو اس وقت تک یہ علاقہ برباد ہوچکا تھا۔ شہر ویران جب کہ اس کی تعمیرات کھنڈر بن چکی تھیں۔ مشرق میں موجود قلعہ بالکل ختم ہوچکا تھا۔ اس پر ریت کی موٹی تہہ جم چکی تھی۔ افضل خان عباسی ہالانی داؤدپوترہ نے اس قدیم معبد پتن مینارہ کی اینٹیں اور پتھر اکھڑوا کر اس کو دین گڑھ اور بھاگلہ کے قلعوں میں لگوا دیا تھا۔ چوںکہ یہاں کی آبادی کم تھی، لہٰذا اس کی جانب سے بھی کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی۔

ایک اور روایت کے مطابق اس کی اینٹیں قلعہ خیرگڑھ میں بھی استعمال ہوئی ہیں۔ مذہبی پروہتوں کی غیرموجودگی کی وجہ سے اس کو شدید نقصان پہنچا اور لوگوں نے خزانے کی لالچ میں اس شان دار عمارت کو نقصان پہنچایا۔ دریائے سندھ کی جانب سے اس کو پانی کی فراہمی نہ ملنے کی وجہ سے اس کی حیثیت انتہائی کم ہوگئی۔ دریائے ہاکڑہ کی معدومیت کے ساتھ ہی اس سے منسلک شہر بھی معدوم و مدفون ہو گیا۔

یہاں کے مرکزی مندر کی عمارت میں سات سے دس کمرے تھے جن میں مذہبی پروہت اور ان کے چیلے رہا کرتے تھے۔ یہ کمرے پتھروں اور ریت چونے کے آمیزے سے بنے ہوئے تھے۔ پتھر، چونے اور گارے سے بنی اس شان دار عمارت کے صحن میں دو چھوٹے چھوٹے تالاب بھی تھے، جن میں سے ایک میں خوش بودار پانی جب کہ دوسرے میں دودھ بھردیا جاتا تھا۔ 1847 میں محمد بہاول خان سوئم کے دورِحکومت میں یہاں ایک خانہ بدوش جوگی بابادتہ نے اس معبد کو اپنا ٹھکانا بنا لیا اور وہ اس معبد یعنی پتن مینارہ کا مجاور بن بیٹھا۔

پتن مینارہ کے ساتھ منسلک ایک ہندو عبادت گاہ تھی جس میں ہندو دیوتا شیو جی سے منسوب ایک بت تھا اور یہاں شیولنگ کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہاں اولاد سے محروم خواتین کا کثیر تعداد میں آناجانا شروع ہوگیا اور مسلمان بانجھ خواتین نے بھی یہاں منتیں مانگنا شروع کردیں، جس پر ڈہرکی کی قدیم اسلامی خانقاہ بھرچونڈی شریف کے فقراء نے اس مندر کو گرا دیا۔ بابا دتہ اس صورت حال سے سخت دلبرداشتہ ہوا اور اس نے خود کو نمک سے بھری ہوئی ایک قبر میں مدفون کرلیا، جہاں اس کی موت واقع ہوگئی۔

1876 میں یہاں کرنل منچن نے قدیم تاریخی اسرار سے پردہ اٹھانے کی خاطر اور خزانے کی لالچ میں پتن مینارہ کی کھدائی کروانے کا کام شروع کیا۔ کھدائی کے دوران تہہ خانے سے ایک سیال مادہ نکلا جس پر بڑی بڑی مکھیوں کے جتھے موجود تھے۔ یہ انتہائی زہریلی مکھیاں تھیں، جن کے کاٹنے سے موقع پر موجود کئی مزدوروں کی موت ہوگئی۔ اس پر کرنل منچن نے مزید کھدائی کا ارادہ منسوخ کردیا۔ 1902 کی ایک نایاب تصویر کے مطابق یہاں ایک دومنزلہ عمارت نظر آتی ہے، جو اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ ہے۔

علاقے کے لوگوں نے بھی اس کو بہت نقصان پہنچایا اور اس کی بیشتر اینٹیں اور فرش کی پتھریلی سلیں اٹھا کر لے گئے۔ 1970 میں اس کی دوسری منزل بھی اپنی جگہ قائم نہ رہ سکی اور لوگوں نے اس پر بھی ہاتھ صاف کر لیے، مگر موجودہ حصے کی پختگی نے مزید نقصان ہونے سے خود کو محفوظ رکھا۔ زمین سے 25 فٹ بلند کرسی اور کم از کم 22 فٹ کی بلند عمارت 12 فٹ کے عرض کے ساتھ موجود ہے۔

کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سکندرِاعظم اوچ کی تسخیر کی نیت سے جب یہاں سے گزرا تو اس کی قدرتی بندرگاہ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ایک لائٹ ٹاور بنانے کا حکم دیا، تاکہ مقامی لوگوں پر نظر رکھی جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی فوائد بھی ممکن ہوسکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک یونانی گورنر کو متعین کیا گیا۔ بہاولپور گزٹ کے مطابق اس کا طرزتعمیر یونانی اور قدیم ہندومت کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں کی کھدائی سے ایک پتھریلی سل پر کندہ سنسکرتی کلام سے علم ہوتا ہے کہ یہاں کا دریا سرسوتی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بدھ مت سے منسوب یہ موجودہ عمارت پتن مینارہ صدیوں قدرتی آفات بارشوں زلزلوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرتی رہی ہے، مگر جتنا نقصان اس کو انسانی ہاتھوں سے پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔

اس سے خدشہ ہے کہ بچی کھچی ماضی کی یہ عظیم عبادت گاہ اور درس گاہ مزید سختیاں برداشت نہ کرسکے۔ عمارت کے اندر اور باہر آنے جانے والوں نے اپنے اپنے نام لکھ کر اور کھود کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں اپنے تاریخی اثاثوں کی کوئی پروا نہیں۔ رہی سہی کسر حکومتی اداروں کی جانب سے محض فوٹو سیشنز نے پوری کردی ہے۔ مقامی آبادی کے لیے بھی اس عظیم الشان پتن مینارہ کی صرف اتنی اہمیت ہے کہ یہ کب گرے اور وہ اس کی اینٹوں سے اپنے گھروں کوپختہ کرسکیں۔ صدیوں پرانے اس تاریخی ورثے کے ساتھ اس طرح کا سلوک انتہائی افسوس ناک ہے۔ اسے قومی ورثہ قرار دے کر چولستان کے اس خوب صورت قدیم پتن مینارہ کو محفوظ کیا جاسکتا ہے، جسے قریبی سیم نالے کی موجودگی سے معدومیت کا خطرہ ہے۔n
Load Next Story