انجام کا آغاز
مصلحت، جھوٹ، منافقت اور مفادات کی زندگی، ضمیر کو ماردیتی ہے۔
ISLAMABAD/GWADAR:
لفظ جب روٹھ جائیں اور خیال جب بدحال ہوجائیں تو لِکھنا پڑھنا موقوف ہوجاتا ہے۔
محض دِن رات کو گزارتے رہنا جھولی میں بچتا ہے۔ ٹن ٹن گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ دِن، رات میں ڈھلتا ہے۔ رات، دِن میں بدلتی ہے۔ سانس کی رفتار بڑھتی گھٹتی رہتی ہے۔ زندگی گزرتی رہتی ہے۔ ایسے میں بہت پُرانی پڑھی ہوئی بات یاد آتی ہے اور سوال بن کر لرزتی رہتی ہے کہ '' باتیں ختم ہوجاتی ہیں یا آدمی خالی ہوجاتا ہے۔''
اور بات اگر کم زور آدمی کی ہو جو خالی بھی ہو اور جِسے باتیں کرنا اور باتیں بنانا بھی نہ آتا ہو اور جِس کے اندر کا موسم، باہر کی ہر لمحہ بڑھتی ہوئی تپش اور لہو کی بو اور آگ اور دھوئیں سے جُھلستا ہو اور ندامت اور شرمندگی کے بوجھ تلے دھنستا چلا جاتا ہو کہ خواہش کے با وجود کوشش کی ہمت نہ رکھتا ہو تو لفظوں کا روٹھنا ہی اچھا۔ خیالوں کا سست حال ہوجانا ہی بہتر۔ خوابوں کے آئینوں کا کِرچی کِرچی ہو کر بِکھرجانا ہی اچھا۔
جِس بستی میں اِنسان کی جان کی قیمت، دو بوند پانی سے بھی ارزاں ہو اور جہاں کے باسی سب کچھ دیکھنے، سب کچھ جاننے کے باوجود اپنی صفوں میں موجود دو چہرے والوں سے نہ قطع تعلق پر آمادہ ہوں اور نہ ہی اُن کی نقابوں کو اُتار پھینکنے کی سکت رکھتے ہوں تو ایسی بستی پر اللہ کا عذاب ہی شکلیں بدل بدل کر نازل ہوتا ہے۔ اور اُس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک پوری کی پوری بستی اوندھا نہیں جاتی۔ لگتا ہے وہ دِن دور نہیں جب ایسا ہورہا ہوگا۔ انجام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایسے میں لفظ، روٹھ ہی جاتے ہیں اور خیال و خواب، خاموش کے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔
حُجّت جب تمام ہوجائے اور حق و سچ کی باتیں کرنے والے اپنی باتوں اپنے نعروں سے جھوٹ، باطل اور منافقت کے راستے پر چلنے والوں کے عملی اقدامات کو شکست نہ دے سکیں تو پھر ساری باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور طوفانی ہواؤں کے جھکڑ میں سب سے پہلے باتوں کے کاغذی شیر لڑکھتے ہیں۔ ظالموں، جابروں، منافقوں اور گمراہوں کی عُمریں تو دراز کردی جاتی ہیں۔ اُنہی کے ہاتھوں عذاب مسلط کیا جاتا ہے۔ قدرت ایک تیر سے دو شکار کرتی ہے۔ اور پھر ایسے نافرمانوں کے کھاتے بھی لمبے ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اور ایسا ہونے سے پہلے ایسی فِضا پیدا ہوجاتی ہے جب احساس، سوچ اور زبان کے تمام راستوں پر طلسمی پہرے بِٹھادیے جاتے ہیں۔ بستی کے لوگ سب کچھ دیکھنے، سب کچھ جاننے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بیٹھے رہتے ہیں۔ کچھ کرنا چاہتے بھی ہیں تب بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
ایسی فِضا میں حواس، جواب دے جاتے ہیں۔ حسیات، ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ حرکات، ساکت ہوجاتی ہیں۔ دن رات کی خانہ پُری شروع ہوجاتی ہے۔ سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے ہیں۔ مَن مَن بھر کے ہوجاتے ہیں۔ کچھ کرنے کو اُٹھ نہیں پاتے۔ اور اُٹھ بھی کیسے سکتے ہیں۔ مصلحت، مفادات اور منافقت کی ٹنوں وزن آہنی زنجیروں نے جو جکڑا ہوا ہوتا ہے۔
ہر فرد، ہر گروہ اپنے مفادات کے لیے دوسرے فرد، دوسرے گروہ سے جُڑا ہوا ہے۔ ایک پر پڑنے والی ضرب، دوسرا اپنے سینے پر محسوس کرتا ہے کہ آج کے بعد کل اُس کی باری نہ آجائے۔ ایک کی پکڑ کل دوسرے کی پکڑائی میں نہ ڈال دے۔ بالا بالا، اوپری اوپر، باہر باہر، بُرا بھلا کہنا اور اندر ہی اندر، ایک دوسرے سے جپھّیاں ڈالنا۔ مصلحت، منافقت اور مفادات نے ہم سب کو ایک زنجیریں میں پرودیا ہے۔ ڈر، خوف، لالچ اور ہوس نے ہمیں کاندھے سے کاندھا مِلا کر کھڑے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ جھوٹ کی کثرت نے ہماری باتوں میں سے برکت اُٹھالی ہے۔ عمل کی قلّت اور باتوں کی بھرمار نے ہمارے دِلوں کو سنگی اینٹوں کی دیواروں میں بند کردیا ہے۔ اور احساس کر ماردیا ہے۔
اپنا فائدہ سب سے پہلے، باقی دنیا بعد میں۔ اِس فلسفے نے سوچ کو جما دیا ہے۔ کچھ لیے بِنا ہم کچھ دے نہیں پاتے۔ اِس سوچ نے ہمارے حلال کاموں میں بھی حرام رنگ گھول دیا ہے۔ ہمیں ایک کام کی باقاعدہ تنخواہ مِل رہی ہوتی ہے۔ مگر ہمیں اُس میں بھی کمیشن اور Kick Back چاہیے ہوتا ہے۔ رشو ت کو تو یہ کہہ کر جائز کروالیا گیا ہے کہ جب لوگ اپنی مرضی اپنی خوشی سے کچھ دے رہے ہیں تو ہمیں لینے میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
غلط کو غلط اور بُرے کو بُرا کہنا، سمجھنا اور محسوس کرنا بھی ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے پاس ہمارے ہر کام، ہر بات کا جواز موجود ہے۔ اور سب سے بڑی وجہ تو یہ سمجھی، جانی اور بتائی جاتی ہے کہ اور سب بھی تو یہی کررہے ہیں۔ ہم نے کرلیا تو کیا ہوا۔ شہرِ غلطاں میں جو اتنا کچھ غلط ہورہا ہے۔ اُس میں سب سے بڑا غلط یہ ہو ا ہے کہ ہماری باتوں اور ہمارے کاموں میں سے برکت اُٹھ جانے کے ساتھ ساتھ، ہمارے اندر سے برداشت اور قوّتِ برداشت بھی ختم ہوچکی ہے۔ ہم سے اب کہیں پر بھی، کچھ بھی برداشت نہیں ہوسکتا۔ ہم خود اپنی نظروں میں اتنا اہم ہوچکے ہیں کہ اب ہم سے کچھ بھی نظرانداز نہیں ہوتا۔ ہم اب کہیں بھی کِسی بھی بات پر درگزر سے کام نہیں لے سکتے۔ ہم اب کِسی کو معاف نہیں کرسکتے۔
ہمارے خیال میں ہم سے بڑوں نے ہم پر اتنے ظلم و ستم ڈھائے ہیں کہ اب اُن کی تلافی ممکن نہیں۔ اب ہمیں ہر اُس شخص سے ہر صورت بدلہ لینا ہے جو ہمارے سامنے آکھڑا ہو۔ معافی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کِسی کی کیا مجال کہ وہ ہماری بات کو رد کرے۔ ہمارے خلاف آواز اُٹھائے۔ ہماری ہاں میں ہاں نہ مِلائے۔
ایک زمانہ تھا جب کم از کم بُرائی کو بُرائی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ایک زمانہ یہ ہے جب مطمع نظر محض مفاد اور مصلحت ہے۔ کوئی اچھا یا کوئی اچھی بات اگر ہمارے مفاد سے ٹکراتی ہے تو وہ بُری ٹھہرتی ہے۔ اور ہر ایسی بُری بات یا بُری شے جِس سے ہمارا مفاد وابستہ ہے، وہ ہمیں دِل وجان سے عزیز رہتی ہے۔ ہر وہ جھوٹ ہماری زبان کی زینت بنا رہتا ہے جِس سے دو روپے کا فائدہ ہورہا ہے، یا جو ہمیں مسئلوں میں مبتلا ہونے سے بچا رہا ہو اور ہماری بے ایمانیوں پر پردہ ڈال رہا ہو۔ اور ہر اُس سچ سے ہمیں نفرت ہوتی ہے جو ہمارے چہرے پر سے غلاف اتاررہا ہے اور ہمارے اندر کا حال بتارہا ہو اور ہمیں بظاہر مادّی و دنیاوی نقصانات کی جانب لے جارہا ہو۔
کیا عام کیا خاص، کیا چھوٹا کیا بڑا۔ ہماری سوسائٹی کا ہر آدمی اپنی اپنی جگہ ڈنڈی مارنے میں مصروف ہے۔ دو چہروں کی کہانی تو پُرانی ہوئی۔ اب تو ایک نام، ایک چہرے کے پیچھے چھ آٹھ سے کم حوالے اور حاشیے نہیں ہوتے۔ دوستوں کے درمیان کچھ، قریبی ساتھیوں کے ساتھ دوسرا رنگ، کاروباری حوالوں میں تیسرا رنگ، گھر والوں کے ساتھ کچھ اور طرح، رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ میں کچھ اور، ملازموں اور ماتحتوں سے اور طرح کا برتاؤ، مالکوں اور آقاؤں کے حضور سر بسجود، نام مرتبے اور عہدے والوں کے ساتھ ا لگ ڈھنگ، غریبوں مسکینوں سے مختلف روّیہ۔ اتنے رنگوں اتنے چہروں والے لوگ شاید ہی دُنیا کی کِسی اور خطّے میں پائے جاتے ہوں۔ اتنے رنگوں اتنے چہروں والے لوگ شاید ہی کبھی اتنی بڑی تعداد میں کِسی ایک خاص عہد میں کِسی ایک خاص بستی، خاص قوم میں پائے گئے ہوں۔
مصلحت، جھوٹ، منافقت اور مفادات کے رنگ بڑے کاغذی، بڑے سطحی، بڑے اوپری، بڑے عارضی ہوتے ہیں۔ بظاہر تو بڑے شوخ، بڑی چمک والے ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی پکّے نہیں ہوتے۔ کبھی بھی مستقل نہیں رہتے۔ ذرا سی دھوپ، ذرا سی برسات میں بہہ جاتے ہیں اور اصل شکلیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ لیکن لمبی مدّت تک جھوٹے اور کچّے رنگوں کی لیپا پوتی سے ہمارا ضمیر دم گھٹنے سے مر چکا ہوتا ہے۔ ضمیر جب مرجاتا ہے تو پھر کِسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ سیاہی سے نہ سفیدی سے اور نہ ہی رنگوں کے اُترجانے اور اصل شکل سامنے آجانے سے۔
مصلحت، جھوٹ، منافقت اور مفادات کی زندگی، ضمیر کو ماردیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اِن چاروں عناصر میں اتنے رنگ، اتنی چمک، اتنی شوخی ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے ضمیر کے مرنے کا پتہ تک نہیں چل پاتا۔ ہم چلتے چلے جاتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اوپر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری روح کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے اندر کی آکسیجن ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ضمیر کا دَم گھٹتا رہتا ہے اور ہم آخر کار اپنے مرے ہوئے ضمیر کے ساتھ ایک دِن خود بھی مرجاتے ہیں اور ہماری ساری منافقت، سارے مفادات، سارے جھوٹ اور ساری مصلحتیں ہمارا خون چوسنے کے بعد ہم جیسے کِسی اور فرد سے جا لپٹتی ہیں۔ آکاس بیل کا یہ سفر بڑی شدومد سے جاری و ساری ہے۔ ایک کے بعد ایک اور شجر لپیٹ میں آرہا ہے۔ اور کِسی کے ہاتھ میں وہ قینچی نہیں، جو خون چوستی اِن بیلوں کی جڑیں کاٹ سکے۔
لفظ جب روٹھ جائیں اور خیال جب بدحال ہوجائیں تو لِکھنا پڑھنا موقوف ہوجاتا ہے۔
محض دِن رات کو گزارتے رہنا جھولی میں بچتا ہے۔ ٹن ٹن گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ دِن، رات میں ڈھلتا ہے۔ رات، دِن میں بدلتی ہے۔ سانس کی رفتار بڑھتی گھٹتی رہتی ہے۔ زندگی گزرتی رہتی ہے۔ ایسے میں بہت پُرانی پڑھی ہوئی بات یاد آتی ہے اور سوال بن کر لرزتی رہتی ہے کہ '' باتیں ختم ہوجاتی ہیں یا آدمی خالی ہوجاتا ہے۔''
اور بات اگر کم زور آدمی کی ہو جو خالی بھی ہو اور جِسے باتیں کرنا اور باتیں بنانا بھی نہ آتا ہو اور جِس کے اندر کا موسم، باہر کی ہر لمحہ بڑھتی ہوئی تپش اور لہو کی بو اور آگ اور دھوئیں سے جُھلستا ہو اور ندامت اور شرمندگی کے بوجھ تلے دھنستا چلا جاتا ہو کہ خواہش کے با وجود کوشش کی ہمت نہ رکھتا ہو تو لفظوں کا روٹھنا ہی اچھا۔ خیالوں کا سست حال ہوجانا ہی بہتر۔ خوابوں کے آئینوں کا کِرچی کِرچی ہو کر بِکھرجانا ہی اچھا۔
جِس بستی میں اِنسان کی جان کی قیمت، دو بوند پانی سے بھی ارزاں ہو اور جہاں کے باسی سب کچھ دیکھنے، سب کچھ جاننے کے باوجود اپنی صفوں میں موجود دو چہرے والوں سے نہ قطع تعلق پر آمادہ ہوں اور نہ ہی اُن کی نقابوں کو اُتار پھینکنے کی سکت رکھتے ہوں تو ایسی بستی پر اللہ کا عذاب ہی شکلیں بدل بدل کر نازل ہوتا ہے۔ اور اُس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک پوری کی پوری بستی اوندھا نہیں جاتی۔ لگتا ہے وہ دِن دور نہیں جب ایسا ہورہا ہوگا۔ انجام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایسے میں لفظ، روٹھ ہی جاتے ہیں اور خیال و خواب، خاموش کے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔
حُجّت جب تمام ہوجائے اور حق و سچ کی باتیں کرنے والے اپنی باتوں اپنے نعروں سے جھوٹ، باطل اور منافقت کے راستے پر چلنے والوں کے عملی اقدامات کو شکست نہ دے سکیں تو پھر ساری باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور طوفانی ہواؤں کے جھکڑ میں سب سے پہلے باتوں کے کاغذی شیر لڑکھتے ہیں۔ ظالموں، جابروں، منافقوں اور گمراہوں کی عُمریں تو دراز کردی جاتی ہیں۔ اُنہی کے ہاتھوں عذاب مسلط کیا جاتا ہے۔ قدرت ایک تیر سے دو شکار کرتی ہے۔ اور پھر ایسے نافرمانوں کے کھاتے بھی لمبے ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اور ایسا ہونے سے پہلے ایسی فِضا پیدا ہوجاتی ہے جب احساس، سوچ اور زبان کے تمام راستوں پر طلسمی پہرے بِٹھادیے جاتے ہیں۔ بستی کے لوگ سب کچھ دیکھنے، سب کچھ جاننے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بیٹھے رہتے ہیں۔ کچھ کرنا چاہتے بھی ہیں تب بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
ایسی فِضا میں حواس، جواب دے جاتے ہیں۔ حسیات، ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ حرکات، ساکت ہوجاتی ہیں۔ دن رات کی خانہ پُری شروع ہوجاتی ہے۔ سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے ہیں۔ مَن مَن بھر کے ہوجاتے ہیں۔ کچھ کرنے کو اُٹھ نہیں پاتے۔ اور اُٹھ بھی کیسے سکتے ہیں۔ مصلحت، مفادات اور منافقت کی ٹنوں وزن آہنی زنجیروں نے جو جکڑا ہوا ہوتا ہے۔
ہر فرد، ہر گروہ اپنے مفادات کے لیے دوسرے فرد، دوسرے گروہ سے جُڑا ہوا ہے۔ ایک پر پڑنے والی ضرب، دوسرا اپنے سینے پر محسوس کرتا ہے کہ آج کے بعد کل اُس کی باری نہ آجائے۔ ایک کی پکڑ کل دوسرے کی پکڑائی میں نہ ڈال دے۔ بالا بالا، اوپری اوپر، باہر باہر، بُرا بھلا کہنا اور اندر ہی اندر، ایک دوسرے سے جپھّیاں ڈالنا۔ مصلحت، منافقت اور مفادات نے ہم سب کو ایک زنجیریں میں پرودیا ہے۔ ڈر، خوف، لالچ اور ہوس نے ہمیں کاندھے سے کاندھا مِلا کر کھڑے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ جھوٹ کی کثرت نے ہماری باتوں میں سے برکت اُٹھالی ہے۔ عمل کی قلّت اور باتوں کی بھرمار نے ہمارے دِلوں کو سنگی اینٹوں کی دیواروں میں بند کردیا ہے۔ اور احساس کر ماردیا ہے۔
اپنا فائدہ سب سے پہلے، باقی دنیا بعد میں۔ اِس فلسفے نے سوچ کو جما دیا ہے۔ کچھ لیے بِنا ہم کچھ دے نہیں پاتے۔ اِس سوچ نے ہمارے حلال کاموں میں بھی حرام رنگ گھول دیا ہے۔ ہمیں ایک کام کی باقاعدہ تنخواہ مِل رہی ہوتی ہے۔ مگر ہمیں اُس میں بھی کمیشن اور Kick Back چاہیے ہوتا ہے۔ رشو ت کو تو یہ کہہ کر جائز کروالیا گیا ہے کہ جب لوگ اپنی مرضی اپنی خوشی سے کچھ دے رہے ہیں تو ہمیں لینے میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
غلط کو غلط اور بُرے کو بُرا کہنا، سمجھنا اور محسوس کرنا بھی ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے پاس ہمارے ہر کام، ہر بات کا جواز موجود ہے۔ اور سب سے بڑی وجہ تو یہ سمجھی، جانی اور بتائی جاتی ہے کہ اور سب بھی تو یہی کررہے ہیں۔ ہم نے کرلیا تو کیا ہوا۔ شہرِ غلطاں میں جو اتنا کچھ غلط ہورہا ہے۔ اُس میں سب سے بڑا غلط یہ ہو ا ہے کہ ہماری باتوں اور ہمارے کاموں میں سے برکت اُٹھ جانے کے ساتھ ساتھ، ہمارے اندر سے برداشت اور قوّتِ برداشت بھی ختم ہوچکی ہے۔ ہم سے اب کہیں پر بھی، کچھ بھی برداشت نہیں ہوسکتا۔ ہم خود اپنی نظروں میں اتنا اہم ہوچکے ہیں کہ اب ہم سے کچھ بھی نظرانداز نہیں ہوتا۔ ہم اب کہیں بھی کِسی بھی بات پر درگزر سے کام نہیں لے سکتے۔ ہم اب کِسی کو معاف نہیں کرسکتے۔
ہمارے خیال میں ہم سے بڑوں نے ہم پر اتنے ظلم و ستم ڈھائے ہیں کہ اب اُن کی تلافی ممکن نہیں۔ اب ہمیں ہر اُس شخص سے ہر صورت بدلہ لینا ہے جو ہمارے سامنے آکھڑا ہو۔ معافی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کِسی کی کیا مجال کہ وہ ہماری بات کو رد کرے۔ ہمارے خلاف آواز اُٹھائے۔ ہماری ہاں میں ہاں نہ مِلائے۔
ایک زمانہ تھا جب کم از کم بُرائی کو بُرائی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ایک زمانہ یہ ہے جب مطمع نظر محض مفاد اور مصلحت ہے۔ کوئی اچھا یا کوئی اچھی بات اگر ہمارے مفاد سے ٹکراتی ہے تو وہ بُری ٹھہرتی ہے۔ اور ہر ایسی بُری بات یا بُری شے جِس سے ہمارا مفاد وابستہ ہے، وہ ہمیں دِل وجان سے عزیز رہتی ہے۔ ہر وہ جھوٹ ہماری زبان کی زینت بنا رہتا ہے جِس سے دو روپے کا فائدہ ہورہا ہے، یا جو ہمیں مسئلوں میں مبتلا ہونے سے بچا رہا ہو اور ہماری بے ایمانیوں پر پردہ ڈال رہا ہو۔ اور ہر اُس سچ سے ہمیں نفرت ہوتی ہے جو ہمارے چہرے پر سے غلاف اتاررہا ہے اور ہمارے اندر کا حال بتارہا ہو اور ہمیں بظاہر مادّی و دنیاوی نقصانات کی جانب لے جارہا ہو۔
کیا عام کیا خاص، کیا چھوٹا کیا بڑا۔ ہماری سوسائٹی کا ہر آدمی اپنی اپنی جگہ ڈنڈی مارنے میں مصروف ہے۔ دو چہروں کی کہانی تو پُرانی ہوئی۔ اب تو ایک نام، ایک چہرے کے پیچھے چھ آٹھ سے کم حوالے اور حاشیے نہیں ہوتے۔ دوستوں کے درمیان کچھ، قریبی ساتھیوں کے ساتھ دوسرا رنگ، کاروباری حوالوں میں تیسرا رنگ، گھر والوں کے ساتھ کچھ اور طرح، رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ میں کچھ اور، ملازموں اور ماتحتوں سے اور طرح کا برتاؤ، مالکوں اور آقاؤں کے حضور سر بسجود، نام مرتبے اور عہدے والوں کے ساتھ ا لگ ڈھنگ، غریبوں مسکینوں سے مختلف روّیہ۔ اتنے رنگوں اتنے چہروں والے لوگ شاید ہی دُنیا کی کِسی اور خطّے میں پائے جاتے ہوں۔ اتنے رنگوں اتنے چہروں والے لوگ شاید ہی کبھی اتنی بڑی تعداد میں کِسی ایک خاص عہد میں کِسی ایک خاص بستی، خاص قوم میں پائے گئے ہوں۔
مصلحت، جھوٹ، منافقت اور مفادات کے رنگ بڑے کاغذی، بڑے سطحی، بڑے اوپری، بڑے عارضی ہوتے ہیں۔ بظاہر تو بڑے شوخ، بڑی چمک والے ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی پکّے نہیں ہوتے۔ کبھی بھی مستقل نہیں رہتے۔ ذرا سی دھوپ، ذرا سی برسات میں بہہ جاتے ہیں اور اصل شکلیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ لیکن لمبی مدّت تک جھوٹے اور کچّے رنگوں کی لیپا پوتی سے ہمارا ضمیر دم گھٹنے سے مر چکا ہوتا ہے۔ ضمیر جب مرجاتا ہے تو پھر کِسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ سیاہی سے نہ سفیدی سے اور نہ ہی رنگوں کے اُترجانے اور اصل شکل سامنے آجانے سے۔
مصلحت، جھوٹ، منافقت اور مفادات کی زندگی، ضمیر کو ماردیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اِن چاروں عناصر میں اتنے رنگ، اتنی چمک، اتنی شوخی ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے ضمیر کے مرنے کا پتہ تک نہیں چل پاتا۔ ہم چلتے چلے جاتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اوپر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری روح کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے اندر کی آکسیجن ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ضمیر کا دَم گھٹتا رہتا ہے اور ہم آخر کار اپنے مرے ہوئے ضمیر کے ساتھ ایک دِن خود بھی مرجاتے ہیں اور ہماری ساری منافقت، سارے مفادات، سارے جھوٹ اور ساری مصلحتیں ہمارا خون چوسنے کے بعد ہم جیسے کِسی اور فرد سے جا لپٹتی ہیں۔ آکاس بیل کا یہ سفر بڑی شدومد سے جاری و ساری ہے۔ ایک کے بعد ایک اور شجر لپیٹ میں آرہا ہے۔ اور کِسی کے ہاتھ میں وہ قینچی نہیں، جو خون چوستی اِن بیلوں کی جڑیں کاٹ سکے۔