مکو مست

یہ الفاظ سن کر مکومست نے ایک بڑا اور بھیانک قہقہہ لگایا، پتا نہیں اس کے جسم سے یا منہ سے ایک بدبو کا جھونکا آیا۔


December 10, 2017
یہ الفاظ سن کر مکومست نے ایک بڑا اور بھیانک قہقہہ لگایا، پتا نہیں اس کے جسم سے یا منہ سے ایک بدبو کا جھونکا آیا۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: کہانی: ع، ق، شیخ
سندھی سے ترجمہ: نوشابہ نوش

دسمبر کی آخری تاریخیں اور سردی بھی کہے کہ آج نہ پڑوں تو کب پڑوں! موسم صبح سے ابر آلود تھا، سرد ہوا کی سنسناہٹ، دوپہر کے بعد سردی اور بڑھ گئی۔

شام کے وقت علی اکبر نے آواز دی، میں گھر سے باہر نکلا، تو کہا:

''تیار ہوجاؤ تو ہوٹل پر چل کر چائے پیتے ہیں اور باتیں بھی کریں گے۔''

میں تیار ہوکر آیا اور ہم دونوں نے ہوٹل کا رخ کیا۔

باہر راستے میں اتنے لوگ نہیں تھے، البتہ ٹانگے چل رہے تھے۔ ہم آدھے راستے پر تھے کہ سامنے سے ایک شخص نمودار ہوا اور دیوانوں کی طرح چیختا ہوا، دوڑتا ہوا چلا گیا۔

اس کی شلوار اتنی پھٹ چکی تھی کہ چیتھڑے چیتھڑے ہوگئی تھی۔

اسے دیکھتے ہی اکبر علی نے کہا، ''یہ ہے مکومست، جو ہر روز شام کے وقت اسی راستے میں دوڑتا رہتا ہے۔''

''مست لوگوں کا کیا ہے، ان کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے، نہ ان کو آج کی فکر اور نہ ہی کل کی فکر۔ یہ لوگ اپنے اندر ہی مست ہوتے ہیں'' میں نے کہا۔

ہمارے سامنے سے دو تین ٹانگے کھڑکھڑ کرتے گزرے اور وہ مکومست بھی شور مچاتا، شکایتیں کرتا واپس آرہا تھا۔ وہ ہمارے بالکل سامنے سے دوڑتا ہوا نکل گیا۔ اس کی ٹانگیں گھٹنوں تک ننگی تھیں، داڑھی الجھی ہوئی اور سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کے اندر گردوغبار بھرا ہوا تھا، اس کی آنکھیں شعلے کی طرح چمک رہی تھیں۔ اس کی بے معنی چیخوں کے درمیان میں نے یہ الفاظ سنے، ''لے آئی، لے آئی۔''

وہ اس طرح دوڑتا ہوا گیا جیسے پیچھے سے کوئی بھوکا شیر اس کی طرف لپک رہا تھا۔ اس کے پیر ننگے تھے، میں نے گردن پیچھے کرکے اسے دیکھا تو وہ واپس آرہا تھا، ہم آگے بڑھ گئے۔

''کیا تم اس کو جانتے ہو، پہچانتے ہو؟''

میں نے اپنے دوست سے سوال کیا۔

''نہیں، نہیں، مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا، شام کو وہ ہمیشہ یہاں دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ لوگ اسے مکو مست کہہ کر بلاتے ہیں۔''

اتنی دیر میں ہم ہوٹل کے پاس پہنچ گئے اور کونے والی پان بیڑی کی دکان پر سگریٹ لینے کے لیے رکے۔ سرد ہوا کے ٹھنڈے جھونکے چل رہے تھے۔ مکومست بھی وہیں آکر تھوڑی دور کھڑا ہوگیا، اس کی سانس پھول رہی تھی، اس نے بہت پرانا، بازو سے پھٹا ہوا کوٹ پہنا ہوا تھا، اس کی قمیض میلی کچیلی اور بٹن کے بغیر تھی، جس میں سے اس کے گھنے چھاتی کے بال نظر آرہے تھے۔ شاید وہ تھک گیا تھا۔ پان بیڑی والے نے ہمیں سگریٹ دیے اور اسے بلاکر کہا ''مکو...ہاں... یہ سگریٹ لو۔''

اس نے گردن کو زور سے ہلاکر انکار کردیا۔ اس کا چہرہ سر کے بالوں سے ڈھک گیا تھا۔ بیڑی والے نے ایک پان اٹھاکر مکو کی طرف اشارہ کرکے کہا:

''اچھا، پان تو کھالو؟''

اس بار مکو مست نے جوش میں آکر قریب آکر دونوں بازو بلند کیے اور پھر ان کو جھٹک کر چیخ نکالی،

''نہیں چاہیے ...نہیں چاہیے!''

اس نے پھر اپنے چہرے سے بال ہٹائے اس کا سارا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ وہ پان والے کو گھورنے لگا، اس کی آنکھوں میں جیسے شعلے بھڑک رہے تھے۔ وہ تھوڑا آگے آکر پان والے کی طرف بڑھا ... میں نے سمجھا کہ بس، اب خیر نہیں پان والے کی۔ پان والے نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا،

''مکو بابا معاف کر دو! مکو بابا معاف کردو، مکو بابا معاف کر دو!''

یہ الفاظ سن کر مکومست نے ایک بڑا اور بھیانک قہقہہ لگایا، پتا نہیں اس کے جسم سے یا منہ سے ایک بدبو کا جھونکا آیا۔ اس نے زمین پر لاتیں مارتے ہوئے خوف ناک طریقے سے کہا ''جلدی جلدی، بلی بچے لے کر آئی، بلی بچے لے کر آئی۔''

پھر وہ اسی طرح چیختا ہوا راستے پر دوڑنے لگا۔

علی اکبر نے پان والے سے پوچھا،

''بھائی تم اس مست کو جانتے ہو؟''

''ہاں ... سائیں... یہاں کا ہر شخص اسے جانتا ہے۔ مجھے اس دکان پر بیٹھے پورے پانچ سال ہورہے ہیں۔ وہ ہر روز اسی راستے پر اور اسی وقت گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے تک دوڑتا رہتا ہے اور چیختا رہتا ہے۔ بس سائیں، مست آدمی ہے اور پاگل، لیکن پریشان کسی کو نہیں کرتا۔ ویسے تو اسے جو بھی ملتا ہے یہ لے لیتا ہے لیکن آج اس نے مجھ سے کچھ نہیں لیا۔ خدا ہی جانے وہ کن باتوں پر راضی ہوتا ہے، درویش ہے، درویش۔''

''یہ کہاں رہتا ہے اور کیسے پاگل ہوا؟'' پان والے سے میں نے سوال کیا، پان والے نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا:

''سائیں ... یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ یہ پاگل کیسے ہوا، کبھی کسی کا دماغ الٹا نہ ہو۔ سامنے یہ بلڈنگ دیکھ رہے ہیں، یہ بھی اسی میں رہتا ہے۔''

اتنی دیر میں مست پھر واپس آرہا تھا۔ ہم ہوٹل میں جاکر ایک جگہ کونے میں بیٹھ گئے۔ ہوٹل کے اندر خاموشی تھی۔ میں سوچنے لگا، ''مکو مست پتا نہیں کون ہے؟ اس کے بھی رشتے دار ہوں گے، وہ کیوں پاگل ہوا؟ کیا اس کا علاج نہیں ہوسکتا؟ یہ بھی ایک انسان ہے یہ بھی کوئی زندگی ہے!''

بیرے نے چائے ٹیبل پر رکھی، میرے دوست نے کیتلی میں چینی کا چمچ ڈال کر اسے پھر ڈھانپ دیا ۔ ہم نے تھوڑی دور بیٹھے ایک ضعیف شخص کو دیکھا۔ اس کے آگے چائے کا کپ رکھا ہوا تھا اور وہ بار بار علی اکبر کی طرف دیکھتا رہا۔

''وہ شخص بار بار تمہاری طرف دیکھ رہا ہے۔'' میں نے آہستہ سے اپنے دوست کو بتایا۔ علی اکبر نے اسے دیکھ کر خوشی سے کہا!

''چاچا حامد علی، ادھر آئیں ناں۔''

وہ اپنا چائے کا کپ لے کر ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔ علی اکبر نے تعارف کرواتے ہوئے کہا:

''یہ ہیں چاچا حامد علی، اس محلے کے رہنے والے ہیں۔ یہ کسی وقت ہمارے آفس میں کلرک تھے لیکن اب پینشن پر ہیں۔''

میں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا، چاچا حامد علی اکبر سے آفس کی نئی خبریں لینے لگا۔ میں نے سامنے والی کھڑکی سے باہر دیکھا، مکو مست ابھی تک دوڑ رہا تھا۔ اتنے میں چاچا حامد علی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا:

''سردی کی لہر کوئٹہ سے آئی ہے، لیکن آپ کس الجھن میں پڑگئے ہیں، بالکل خاموشی ہی اختیار کرلی ہے۔'' میں نے جواب دیا:

''چاچا آپ بات کررہے تھے اسی لیے بیچ میں گستاخی نہیں کی۔''

میرا جواب سن کر چاچا حامد علی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ اس دوران باہر چیخوں کی آواز آئی۔ مکو مست راستے پر دوڑتا ہوا گزر گیا علی اکبر نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا: ''بے چارہ مکومست۔''

میں نے کہا: ''کبھی انسان لاچار نہ ہو، اس مست کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، جو اس پر گزر رہی ہے، اگر کسی عقل مند کے پر گزرتی، تو اس کی حالت اس سے بھی بدتر ہوتی۔''

وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔

''لیکن اس مست کا تو آپ کو پتا ہوگا؟ آپ تو اسی محلے میں رہتے ہیں۔ یہ کیسے پاگل ہوا'' میں نے بڑی بے تابی سے پوچھا:

چاچا حامد علی نے سگریٹ جلا کر ایک گہرا کش لیا اور کہنے لگا:

''میں اس مست کو جانتا ہوں، اس کا نام مکو نہیں، مقبول مستری ہے ویسے انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ تو ضرور آتے ہیں۔ لیکن مقبول نے صرف دکھ دیکھے ہیں۔ وہ چار سال کا تھا تو اس کا باپ مر گیا تھا۔ اس کے باپ کی یہاں لوہے کی دکان تھی اور وہ ایک اچھا خاصا سیٹھ تھا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد مقبول کے چچا اور ماموں پرائے مال پر آنکھیں ڈال کر گھس گئے۔ بے چارہ مقبول رشتے داروں کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا اور کسی کام کا نہ رہا۔ اسے کسی نے بھی نہیں سنبھالا۔ آخر کار محلے کے دین محمد مستری کو خیال آیا۔ اس نے اسے اپنے گھر میں رہنے کے لیے جگہ دی اور اپنے کارخانے پر ملازمت پر رکھ لیا۔

''پھر کیا ہوا؟'' علی اکبر نے پوچھا ۔ چاچا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ''لوگ کہتے ہیں کہ مقبول مستری نے راستے میں اپنی جائیداد دفن کی تھی اور وہ کوئی چرا کے لے گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس پر کسی کا کچھ اثر لگا ہے۔ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے کسی پہنچے ہوئے شخص نے امانت دی تھی۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر پتا ہے کہ نہ اس نے راستے میں دولت دفن کی ہے نہ اس میں پر کسی جادو ٹونے کا اثر ہوا ہے، اور نہ ہی اسے کہیں سے کوئی امانت ملی تھی۔ کچھ لوگ تو یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ اس کے پاس کیمیا کا نسخہ ہے اور یہ ڈھونگ رچا کرکے لوگوں کو بیوقوف بنارہا ہے۔ لیکن یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں۔''

''تو پھر اصل بات کیا ہے۔'' میں نے پوچھا۔ چاچا حامد نے ایک بیڑی سلگاتے ہوئے کہا:

''دین محمد مستری ماہر کاری گر تھا۔ اس نے مقبول کو ہر قسم کی مشین کی مرمت کا کام سکھا دیا تھا۔ مقبول بڑا سعادت مند ثابت ہوا۔ اس پر دین محمد مستری نے اپنی بیٹی کو مقبول سے بیاہ دیا۔ پھر تو اس نوجوان نے اپنے ہنر سے بہت ہی نام کمایا۔ ہمارے گھر کے سامنے بلڈنگ میں ایک فلیٹ کرائے پر لے کر الگ رہنے لگا۔''

ہم تینوں نے سگریٹ جلائے اور پھر چائے کا آرڈر دیا۔ چاچا حامد علی پھر شروع ہوگیا۔

''مقبول کی شادی کو دو تین سال گزر چکے تھے لیکن اولاد نہیں تھی۔ اس کی بیوی نے ایک چھوٹی سی سفید بلی پال لی۔ بلی بڑی ہوگئی تو اس نے بچے پیدا کیے۔ اسی دوران مقبول کے گھر بھی ایک خوب صورت بیٹا پیدا ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک شام کو اس بلڈنگ کے اندر اچانک آگ لگ گئی۔ بجلی کی تاریں تھیں پرانی اور بدخُو مالک خرچ بچانے کے لیے ادھورا کام کرتا تھا، ایک دن ان تاروں میں آگ لگ گئی۔ پتا تب چلا جب آگ بلڈنگ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ فائر بریگیڈ کی ساری گاڑیاں آگ بجھانے کے لیے پہنچ گئیں، لیکن وہ بھی مالک مکان کے گھر کی طرف والی آگ بجھانے لگی۔ ''

اتنی دیر میں پیرو چائے لے آیا۔ اور ہم چائے تیار کرکے گرم گرم پینے لگے۔

چائے پیتے ہوئے علی اکبر نے پوچھا:

ہاں چاچا، آگ لگی پھر؟''

چاچا کہنے لگا:

''وہ آگ، آگ نہیں تھی۔ اس کے شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ لاکھوں کا سامان جل کر راکھ ہوگیا۔ اس رات جیسے دوزخ زمین پر اتر آئی تھی، صرف مالک مکان کے رہنے کی جگہ بچ گئی۔ ہر طرف شور و غل ہو رہا تھا ۔ ہر ایک کو اپنی جان کی فکر لگی تھی۔ ہر شخص حیران اور پریشان تھا۔ مستری نے اپنی بیوی اور بیٹے کو بچانے کیے لیے بہت جتن کیے، لیکن جب اس کی بیوی اور بیٹے کو باہر نکالا گا تو وہ دونوں اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر زخموں کی تاب نہ لاکر فوت ہوگئے۔ عین اس وقت ان میتوں کے سامنے وہی اس کی بیوی کی پالی ہوئی بلی نہ جانے کیسے اور کہاں سے نمودار ہوئی اور اپنے چھوٹے بچوں اور خود کو بچانے کے لیے میاؤں میاؤں کرتی مقبول کے پیروں سے لپٹ گئی۔ مقبول مستری نے بلی کو دیکھتے ہی دل دہلانے والی چیخیں ماریں اور ادھر ادھر دوڑتا ہوا کہنے لگا:

''بلی بچے لے آئی!''

اور پھر پاگلوں کی طرح زمین پر گر گیا۔

اس حادثے کو آج پندرہ سال ہوچکے ہیں۔ اس دن کے بعد مقبول مستری ہر روز شام کو آگ لگنے والے وقت یہاں اسی راستے پر سردی ہو یا گرمی، تڑپاتی چیخیں مارتا ہوا دوڑتا رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں