’’مدت پوری کرنا کارنامہ ہے‘‘’’حکومتوں نے گند ڈالا‘‘

منتخب جمہوری حکومتوں کی پانچ سالہ کارکردگی پر ایکسپریس فورم میں سیاسی رہنماؤں کا اظہار خیال۔

منتخب جمہوری حکومتوں کی پانچ سالہ کارکردگی پر ایکسپریس فورم میں سیاسی رہنماؤں کا اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

SWAT:
پاکستان میںپہلی مرتبہ وفاقی اور صوبائی سطح پر منتخب جمہوری حکومتیں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہیں۔

ان پانچ سالوں میں ملکی معاملات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ۔ مختلف حلقوں کی طرف سے ان منتخب حکومتو ں کے حوالے سے اس قسم کا پراپیگنڈا ہوتا رہاہے کہ ''حکومت اب گئی کہ تب گئی '' لیکن ان تمام تکلیف دہ اور پریشان کن حالات اور زہر ناک پراپیگنڈ ا کے باوجود یہ حکومتیں قائم رہیں اور اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہیں۔

ان پانچ برسوں کے دوران ان حکومتوں کی کارکردگی کیسی رہی؟ کیا انھوں نے انتخابات کے دوران عوام سے کیے جانے والے وعدے پورے کردکھائے یا عوام کو سبز باغ ہی دکھائے جاتے رہے ؟ اس بارے میں ایکسپریس فورم میں پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو اظہارخیال کی دعوت دی گئی جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

رانا ثناء اﷲ (صوبائی وزیرقانون و پارلیمانی امور پنجاب)

پاکستان جمہوری عمل کے ذریعے معرض وجود میں آیا اور ہمارے آباؤاجداد نے سیاسی جماعت کے ذریعے قائداعظم کی سربراہی میں ملک حاصل کیا مگر بد قسمتی سے قائداعظم کو زیادہ موقع نہ مل سکا اور ان کے بعد آنے والی قیادت وہ کام نہ کرسکی جو قائداعظم چاہتے تھے اور اس کے نتیجے میں ملک آمریت کے سائے میں چلا گیا۔ ملک کی تاریخ میں زیادہ عرصہ آمریت رہی اور آمریت کے نتیجے میں ملک بیروز گاری، دہشت گردی ، کرپشن اور انرجی کرائسس کا شکار ہوگیا۔ جب تک ان سب چیزوں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، آئین اور جمہوریت سے وابستگی سے ہی ملک آگے بڑھے گا۔ بھارت جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا وہاں کے موسم اور حالات بھی بالکل ہماری طرح ہیں مگر وہ ہم سے آگے ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں جمہوریت رہی اور کسی آمر نے شب خون نہیں مارا۔

پانچ سال ملک میں جمہوری عمل جاری رہنے کی وجہ مفاہمت کی پالیسی یا آصف زرداری کی چالاکی یا کمال نہیں بلکہ اگر میاں نواز شریف کا مسلمہ ارادہ نہ ہوتا کہ جمہوری عمل کے خلاف نہ کچھ کرنا ہے اور نہ کچھ ہونے دینا ہے، اگر تمام قوتوں کو باور نہ کرایا ہوتا کہ جمہوریت کے خلاف نہیں جائیں گے تو یہ ممکن نہیں تھا کہ حکومت 5ماہ بھی نکال لیتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام کے بنیادی مسائل حل کئے جاتے مگر بدقسمتی سے پیپلزپارٹی نے کرپشن کی وہ مثالیں قائم کیں کہ پہلے اس کی مثال نہیں ملتی،ا ب عوام کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے 5 سال مکمل ہورہے ہیں اور اس قدر لوٹ مار کے باوجود یہ ملک قائم ہے اور انشاء اﷲ قیامت تک قائم رہے گا، اب عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے موقع ملے گا کہ آئندہ اچھے لوگوں کو منتخب کریں۔



پیپلزپارٹی کی حکومت کوئی بھی قومی مسئلہ حل نہیں کرسکی، دہشت گردی کا حل نہ طاقت کے استعمال سے ہوسکتا ہے اور نہ امریکا کی غلامی سے۔ہمیں امریکا کی غلامی سے نکلنا ہوگا، دہشت گردی کے حل کے لیے طاقت کے ساتھ مذاکرات کا عمل بھی جاری رہنا چاہئے۔ دہشت گردی کے حل کے حوالے سے دو کل جماعتی کانفرنسیں ہوچکی ہیںان میں بھی تمام پارٹیوں کا یہی مؤقف رہا ۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ناکام رہی اور ان کی نااہلی کی وجہ سے دہشت گردی بڑھی۔ دوسرا بڑا مسئلہ انرجی کرائسس کا ہے ، پیپلزپارٹی نے منصوبہ بندی کے تحت رینٹل پاور پراجیکٹس لانے کی کوشش کی مگر کرپشن کی وجہ سے وہ چل نہ سکے۔

رینٹل پاور کمپنیوں کو 27 ارب کا قرضہ دیا گیا اس میں سے 10فیصد اپنا کمیشن لے لیا گیا اور 90 فیصد وہ لوگ لے گئے۔ 5 سال میں پیپلزپارٹی کی حکومت بیڈ گورننس کی بدترین مثال ہے وہ ایک ہی ایجنڈے پر کمربستہ رہے ہیں کہ جو کچھ لوٹ سکتے ہیںلوٹ لیں اور انھوں نے دل کھول کر ملک کو لوٹا، اس عمل سے ملک اور جمہوریت کو نقصان ہوا۔ اب 5سال پورے ہونے کے بعد عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیئے اور قوم کی رائے کا پورا احترام کرنا چاہئے اور قوم کی رائے کا پورا احترام کرتے ہوئے شفاف الیکشن کرائے جائیں، انقلاب کا راستہ بھی الیکشن سے ہی جاتا ہے ، مصر میں دیکھیں تو آخر میں الیکشن ہی ہوئے اور لیبیا پورے کا پورا خون میں نہا گیامگر آخر کار وہاں بھی الیکشن ہی کرائے گئے۔

عام انتخابات میں تمام اداروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور امید ہے کہ قوم صحیح فیصلہ کرے گی اورلوٹ مار کے خلاف فیصلہ د ے گی جس کو عوام منتخب کریں گے وہ عوام کو مسائل سے نکالے گا۔جہاں تک بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کا تعلق ہے صورت حال یہ ہے کہ مشرف جو بلدیاتی نظام چھوڑ کر گیا تھا۔

اسے صرف پنجاب نہیں بلکہ کسی صوبے نے بھی اس نظام کو قبول نہیں کیا اس نظام میں 31 دسمبر 2009ء تک تو تبدیلی نہیں ہوسکتی تھی اس کے بعد ووٹر لسٹوں میں جعلی ووٹوں کے اندراج کا معاملہ سامنے آگیا جس کے تحت ساڑے 3 کروڑ ووٹ جعلی تھے تو ایسی لسٹوں پر الیکشن نہیں کرایا جاسکتا تھا، سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ پینڈنگ تھا اس لئے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاسکے اور یہ صرف پنجاب میں نہیں بلکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اب ہم نے اپنے منشور میں اعلان کردیا ہے کہ اگر عوام نے ہمیں موقع دیا تو 6 ماہ میں بلدیاتی الیکشن کرائیں گے۔

محمد بشارت راجہ ( وزیراعظم کے مشیر برائے انڈسٹری)

وفاقی حکومت کو آئے پانچ سال ہوگئے ہیں جب کہ ہمیں حکومت میں آئے ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے اور ڈیڑھ سال میں جو وزارتیں ہماری پارٹی کے پاس رہیں ان کی کارکردگی سب سے بہتر ہے۔ پرویز الٰہی وزیر صنعت بنے تو ان کی وزارت کے دوران دو دفعہ ماہ رمضان آیا جس میں انھوں نے دونوں مرتبہ دو دو ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا، ملک بھر میں سیکڑوں نئے یوٹیلٹی اسٹورز کھولے، پہلی دفعہ یوٹیلیٹی اسٹورز نے 50 کروڑ روپے کا منافع کمایا، پہلے یوٹیلیٹی اسٹورز میں اشیاء کی قیمتیں بڑھتی تھیں مگر پرویزالٰہی نے قیمتوں میں کمی شروع کی۔دوسرا ادارہ نیشنل فرٹیلائزر ہے جو کہ پرویز الٰہی کی وزارت کے تحت آتا ہے۔

ڈیڑھ سال کے عرصے کے دوران پہلی وفعہ ربیع اور خریف کی فصلوں کے لئے کسانوں کو کھاد کی کمی نہیں آنے دی گئی، باہر سے کھاد امپورٹ بھی کی، نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ جو کھاد باہر سے درآمد کی جاتی تھی اس کی سپلائی میں مشکلات پیدا ہوتی تھیں، ہم نے مین فورس میں اضافہ کیا جس سے کھاد کی سپلائی بہتر ہوئی، تیسرا اور اہم کام جو پرویز الٰہی نے کیا وہ یہ ہے کہ ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے ذریعے ایکسپورٹ میں ایک بلین ڈالر کا اضافہ ہوا، اس کے علاوہ ان تمام اداروں کی کارکردگی بہتر ہوئی جو ہماری پارٹی کے وزراء کے ذمے تھے۔



پنجاب کے حوالے سے بات کریں تو گزشتہ پانچ سال میں ہماری پارٹی نے اپوزیشن کا کردار بڑے اچھے طریقے سے ادا کیا اور ہر معاملے پر اپنے اصولی مؤقف کو اپنایا، پرویزالٰہی وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے پچھلے پانچ سال میں عوام رابطہ مہم ختم نہیں کی، پنجاب میں ہم نے اپوزیشن کرنے کے لیے صرف اپنے وسائل اور ساتھیوں پر بھروسہ کیا، مسلم لیگ (ق) کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ حکومت گئی تو جماعت بھی ختم ہوجائے گی مگر جماعت نے نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ پہلے سے زیادہ منظم ہوئی ہے۔ میں حقائق کی بنیاد پر بات کروں گا کل مسلم لیگ(ن) کا منشور آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے چھ ماہ بعد بلدیاتی الیکشن کرائیں گے، آئندہ اقتدار کس نے دیکھا ہے مگر ان سے سوال یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال ان کی حکومت رہی انھوں نے کیا کیا؟۔

انھوں نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے بلکہ ہمارابلدیاتی قانون ختم کردیااور پچھلے پانچ سال میں وہ کوئی بلدیاتی قانون نہیں دے سکے، آئین میں ترمیم ضرور کی مگر قانون نہیں لاسکے۔ اب ان پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا کہ وہ 6 ماہ میں بلدیاتی الیکشن کرالیں گے۔دوسرا انھوں نے منشور میں کہا ہے کہ جی ڈی پی 6 فیصد تک بڑھائیں گے، ہماری حکومت میں پنجاب کا جی ڈی پی بڑھتا تھا تواس کی وجہ سے وفاق کا بڑھتا تھا اور اس وقت پنجاب کا جی ڈی پی 8 فیصد تھا جو کہ اس وقت 3 فیصد ہے پہلے یہ بتائیں کہ 8 فیصد 3 فیصد کیسے ہوا؟، پرویزالٰہی کے دور میں شروع کیا گیا ایجوکیشن ریفارمز پروگرام انھوں نے ختم کردیا۔ نئے اسکول کھولنے کی بجائے 5 ہزار اسکول بند کردیئے ، اپنے دور حکومت میں ہم نے میٹرک تک تعلیم مفت کی اور بہت سی نئی یونیورسٹیاں بنائی تھیں ہم نے کتابیں بھی مفت فراہم کی تھیں انھیں تو چاہئے تھا ایف اے تک تعلیم مفت کرتے انھوں نے الٹا پانچ ہزار اسکول بند کردیئے اور ان کی جگہ صرف 6 دانش اسکول بنائے ہیں۔

ہمارے دور میں اسپتالوں میں مفت ادویات ملتی تھیں اورایمر جنسی میں چاہے 20 ہزار کا ٹیکہ مریض کو لگے وہ مفت ملتا تھا مگر اب ہماری بنائی ہوئی ریسکیو 1122 کی سروس کسی مریض کو ایمرجنسی میں لے کر جاتی ہے اور مریض اسے دعائیں دیتا ہے تو اسپتال کی ایمرجنسی میں اسے جب دوا نہیں ملتی تو وہ پنجاب حکومت کو بددعائیں دیتا ہے۔ پانچ سال تک مسیحا ڈاکٹر ہڑتال پر رہے اب جاکر ان کا مسئلہ حل ہوا ہیۃ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے پاس لیڈر شپ نہیں ہے۔صوبے بھر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہیۃ چوریاں، ڈکیتیاں ، اغواء برائے تاوان کی انتہا ہوچکی ہے۔

عوام کو سستے انصاف کی فراہمی کے لئے پبلک پراسیکیورٹرز سروس شروع کی تھی جسے انھوں نے ختم کردیا اور اب منشور میں کہتے ہیں کہ مزید عدالتیں بنائیں گے، مزید عدالتیں بنانے سے مسئلہ تب حل ہوگا جب ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے عدالتوں پر بوجھ کم ہو۔ 2008ء کے الیکشن میں ن لیگ کا نعرہ تھا کہ ہم 1997ء کی قیمتیں واپس لائیں گے اب میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ 2008ء کی قیمتیں ہی واپس لے آئیں تو بہت ہے، ان کے پاس سوائے ناکامیوں کے اور کچھ نہیں ہے، میٹرو بس کو چھوڑ کر دیگر منصوبے، سستی روٹی اسکیم کا نام تک نہیں ہے، صحت تعلیم کے میدان میں انھوں نے کوئی کام نہیں کیا۔پچھلے الیکشن میں سب سے زیادہ پریشر مسلم لیگ(ق) پر تھا اس کے باوجود ہم نے سروائیو کیا آئندہ الیکشن میں ہم کارکردگی کی بنیاد پر جائیں گے۔

نوید چوہدری (صدر مملکت کے کوآرڈینیٹر برائے پنجاب)

جہاں تک پچھلے پانچ سال کا تعلق ہے یہ بڑی بات ہے کہ جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے ۔ تمام جمہوری قوتیں یہ سوچ لے کر آئی تھیں کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دینا اور اس کا سہرہ صدر مملکت کے سر ہے جنہوں نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض کرکے جمہوری رویوں کی بنیاد رکھی، اب تمام پارٹیاں اس نہج پرپہنچی ہیں کہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں جائیں گی ۔ پانچ سال میں ہماری حکومت نے مفاہمت کی سیاست کی پالیسی دی اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ہر پارٹی کا اپنانقطہ نظر ہے کچھ لوگوں نے ہم پر عدالتوں کے حوالے سے الزام لگائے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اپنا دور شاندار طریقے سے گزاراۃ ہم نے آئینی طور پر وہ چیزیں دیں جو پہلے صرف فرضی تھیں ۔

صوبائی خود مختاری جس سے پاکستان مضبوط ہوا اس سے پہلے سوچ تھی کہ پاکستان کو کمزور کیا جائے ہم نے صوبوں کو خود مختاری دے کر اس سوچ کو ختم کردیا۔ گورننس کی کمزوری نظر آئی مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ گورننس وفاق کی ذمے داری ہوتی ہے جو غلط ہے کیونکہ وفاق نے صرف فنڈز دینے ہوتے ہیںۃ گورننس اور لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری صوبوں کی ہوتی ہے۔ ہمارے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ہم خاص ایجنڈے پر آئے ہیں اور مشرف کی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے ہیںمگر گوادر پورٹ کے چین کے ساتھ معاہدے اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے اس کی واضح مثال ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں اور جمہوری حکومت نے غیر جانبدار خارجہ پالیسی دی ہے۔




ہمارے دور میں کچھ مسائل بھی رہے ہیں جس میں بجلی کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے مگر اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ 1997ء سے لے کر 2008ء تک ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی گئی اور اس کی ذمے دار اس دوران آنے والی تمام حکومتیں ہیں، ہم نے ایسے پراجیکٹ دیئے جن سے سستی بجلی پیدا ہو، پیپلزپارٹی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر یقین نہیں رکھتی اس لئے ہم نے مسئلے کا بنیادی حل سوچا۔

ہم حکومت میں آئے تو مسئلہ یہ تھا کہ غربت کو کیسے کم کیا جائے اس کیلئے ہم نے انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا جس کے ذریعے غربت میں نمایاں کمی آئی اور اس وقت سندھ کے دو لاکھ خاندان اس سے مستفید ہورہے ہیں، زراعت کے شعبے میں ہم نے بہت کام کیا، جب ہماری حکومت آئی تو ملک میں گندم کی شدید کمی تھی ہم نے اس کی قیمت میں اضافہ کیا جس کے باعث اس وقت ملک میں وافر گندم موجود ہے ، زراعت کے شعبے میں بہتری آنے سے روزگار کی تلاش میں دیہات سے شہروں کی طرف لوگوں کا آنا کم ہوا کیونکہ انھیں دیہات میں ہی روزگار مل رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کا مسئلہ بھی ہم نے حل کیا اس کے علاوہ بہت سے مسئلے ہیں جنہیں ہم نے بنیادی سطح پر چھیڑا اور انھیں حل کیا۔

قاری زوار بہادر (سیکریٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان)

وفاقی اور صوبائی دونوں اور خاص کر وفاقی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی جمہوری حکومتوں میں بدترین رہی، جاتے جاتے بھی جھاڑو پھیرنے کی کوشش کررہے ہیںکہ ملک میں کچھ رہ نہ جائے اور عوام ان کو یاد کریں کہ بہت عوام دوست حکومت تھی۔ پورے پانچ سال عوام سڑکوں پر رہے، ایسی جمہوریت پر لعنت ہے کہ پانچ سال پورے ہونے کو ہیں اور باپ بیٹے کے گلے پرچھری پھیرے، لوگ سوسو لاشیں لے کر سڑکوں پر بیٹھے رہیںکوئی ان کو پوچھنے والا نہ ہو، شہروں کے شہر برباد کردیئے بستیاں تباہ کردی گئیں، جمہوریت سے لوگوں کا یقین اٹھ گیا، یہ جمہوریت نہیں بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، اب نواز شریف صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت ملک کو 50سال پیچھے لے گئی مگر وہ خود بھی مفاہمت کے نام پر اس میں شامل رہے تھے۔

میاں صاحب نے بھی یہ تحفہ دیا ہے اور وہ مانتے ہیں، لوگ میتیں دفنانے کیلئے قبرستان کے حصول کے لئے دربدر ہیںاور وفاقی و صوبائی دونوں حکومتیں ان کی نہیں سن رہی ہیں۔ جس ملک میں فوجیوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں، رینجرز اہلکار اغواء ہورہے ہیں یہاں عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ ان کا کوئی والی وارث نہیں، سردیوںمیں شہروں میں لوڈ شیڈنگ کا یہ حال ہے کہ چودہ چودہ گھنٹے بجلی نہیں آتی۔ دیہات میں پتہ نہیں کیا حال ہوگاتو گرمیوں میں جانے کیا حال ہوگا۔ایسے واقعات بھی دیکھے ہیں کہ مائیں ساری ساری رات بچوں کو لے کر سڑکوں پر پھرتی ہیں۔18ویں ترمیم ہو یا 20 ویں ترمیم سب حکمرانوں کے اپنے فائدے کے لیے ہیں۔ اپنے فائدے کے لیے یہ اکٹھے بھی ہوجاتے ہیں مگر عوام کے فائدے کے لیے نہیں ہوسکتے۔



سب لٹیرے ہیں ایک بندہ 84 ارب لوٹ کر باہر بیٹھا ہے حکومت اس کو پکڑ کر واپس نہیں لاسکتی، جو جتنا بڑا لٹیرا ہے وہ اتنے ہی بڑے عہدے پر بیٹھا ہے، ان کی سوچ یہی ہے کہ جب کوئی پکڑنے والا آیا تو باہر بھاگ جائیں گے۔ لوٹوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے لوٹے ادھر سے ادھر چھلانگیں لگا کر جارہے ہیں۔ جمعیت علماء پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ جو ان لوٹوں کو لے رہے ہیں وہ بھی پوری طرح اس کے ذمے دارہیں ان کا ضمیر نہ جانے کہاں چلا گیا ہے، یہ سب ٹکٹ لینے کیلئے چھلانگیں لگا رہے ہیں مگر ان کے ٹکٹ سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

سب سیاستدانوں نے پانچ سال قوم سے انتقام لیا ہے مگر وقت آگیا ہے کہ قوم ان سے انتقام لے۔ اﷲ تعالیٰ نے قوم کو ایک موقع دیا ہے اور اس کا طریقہ ہے کہ وہ ہر قوم کو موقع دیتا ہے اگر یہ موقع ضایع کردیا تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ مولانا شاہ احمدنورانی نے 2002ء میں ایم ایم اے بنائی تھی مگر ان کے انتقال کے بعد جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ضد نے اس کا خاتمہ کیا۔ہماری کل بھی کوشش تھی اور آج بھی ہے کہ ایم ایم اے بحال ہو، دوسری صورت میں مذہبی ووٹ تقسیم ہوجائے گا۔

عبدالرشید بھٹی (جنرل سیکریٹری تحریک انصاف لاہور)

حکومت کی پچھلی پانچ سالہ کارکردگی پاکستان کی 65 سالہ حکومتی کارکردگی کی بدترین مثال ہے، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا جتنا بڑا ایکسپوژر ان 5سالوں میں ہواہے پہلے نہیں تھا۔ پہلے لوگوں کو سمجھ ہی نہیں تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ ہمارے بزرگوں اور قائداعظم نے اس ملک کے لئے جو خواب دیکھا تھا وہ پورا نہیں ہوا، ہمیں ہندوستان میںکوئی مسئلہ نہیں تھا صرف حقوق کا مسئلہ تھا مگر عوام کو انگریز کی غلامی سے بڑھ کر غلامی ملی، تمام پارٹیوں نے مل کر ایسا گند ڈال دیا کوئی پاگل بھی ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ خادم اعلیٰ نے صوبے کے ساتھ جو ڈرامے کئے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی، عام آدمی کی بھلائی کی بجائے جنگلہ بس میں اربوں روپے لگادیئے نہ جانے وہ کونسے ایسے لوگ ہیںجنہوں نے روزانہ شاہدرہ سے گجو متہ جانا ہوتا ہے اور انھیں دفتروں سے دیر ہوجاتی ہے۔



فیروز پور روڈ جو پچھلے5,4 سال سے بن رہی تھی انھوں نے انتظار کیا اور جب وہ بن گئی اور لوگوں کو سکون ہوا تو وہاں دوبارہ کام شروع کردیا، یہ ایک جھلا بندہ ہے جس صوبے کا سربراہ جھلا ہو وہ صوبہ کیسے کامیاب ہوگا۔ایسا ہی معاملہ زرداری صاحب کا ہے۔ دونوں پارٹیوں نے گند ڈال کر بہت اچھا کیا کیونکہ لوگ ان کو پہچان گئے۔ خادم اعلیٰ نے اربوں روپے کے اشتہارات چلادیئے مگر وہ بتائیں کہ ایک منصوبہ بھی کرپشن فری ہے۔ وہ بتائیں کہ کوئی ایک تھانہ یا کوئی ایک پٹوار خانہ ایسا ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ خادم اعلٰی کے جنگلہ بس منصوبے کی ضرورت نہیں تھی اس کو اب کئی سال تک بھگتنا پڑے گا۔ سیاستدانوں نے ہمیں غلام بنایا ہوا ہے ۔ یہ سب انگریز کے غلام تھے جنہوں نے اب عوام کو غلام بنالیا۔

جن لوگوں کو عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے اپنا ملازم بنایا تھا انھوں نے الٹا عوام کو غلام بنالیا، اگر گھر کے ملازم کو مالک بنادیا جائے تو نظا م نہیں چل سکتا۔ ایسا ان حکمرانوں کا حال ہے، عوام کو اپنا حق لینے کے لیے پیسے دینے پڑنے ہیں۔ یہ واپڈا کامیٹر ہو یا تھانے کچہری کا کوئی معاملہ ہر جگہ لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ عوام کو ان سب باتوں کی آگاہی ملنی چاہئے کہ اپنے اربوں کے کمیشن کی خاطر جھوٹے منصوبے بنائے گئے اب ان کی کارکردگی کی بات کرنے کی بجائے ان سے نجات کی بات کرنی چاہیئے۔ چھانگا مانگا کی سیاست کو انھوں نے رواج دیا اور اس میں عوام کے 120 کروڑ روپے کھاگئے۔ جب میں اسمبلی میں تھا تو اس وقت بھی میں نے آواز اٹھائی تھی کہ عوامی نمائندے کو بجٹ دیا جائے تاکہ اپنی مرضی سے جہاں ضرورت ہو وہاں لگا سکے مگر یہاں ترقیاتی بجٹ بھی کلرک بنارہے ہیںتو ترقی خاک ہوگی۔ اس وقت ضرورت اس چیز کی ہے کہ شخصیات کو بدلنے کی بجائے نظام کو بدلا جائے تاکہ عام آدمی آگے آسکے اور تحریک انصاف نے عوام کو یہ موقع فراہم کیا ہے۔

افتخار حسین بخاری (ممبر ایم کیو ایم سینٹرل پنجاب و انچارج متحدہ سوشل فورم سینٹرل پنجاب)

پچھلے 10 سال سے ملک میں جمہوری عمل جاری ہے جو کہ خوش آئند ہے اور یہ عمل جاری و ساری ہے مگر ابھی ہم دیگر قوموں سے بہت پیچھے ہیں، ہمارا ملک نہ تو صنعتی ہے نہ زرعی اور نہ ہم سائنس اور تعلیم میں بہت آگے ہیں اسلئے پچھلے پانچ سال کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عوام کیلئے جو کچھ کیا اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا۔ ہماری سوسائٹی کو انٹیلیکچوئیل سوسائٹی بننے میں ابھی بڑا وقت لگے گا۔ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کا اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے انھیں جو چاہیئے ہوتا ہے وہ لے لیتے ہیں اس کے بعد جو بچتا ہے اس سے عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے۔



مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ جہاں پیسے خرچ کرکے عوام کو ریلیف دیا جانا ہو وہاں ریلیف نہ ملے تو بات سمجھ آتی ہے مگر جہاں پیسے خرچ کئے بغیر ریلیف دیا جاسکتا ہو وہاں بھی نہیںدیا جاتا یعنی لوگوں کو انصاف دینے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا مگر یہاں وہ بھی ممکن نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کریڈبلیٹی گیپ آچکا ہے کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے، آپ روٹین سے باہر نکل کر بھی عوام کو کوئی چیز دینا چاہیں تو بھی شک کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے، یہ ہمارے نفسیاتی رویئے بن چکے ہیں۔ ہمارے قوانین مخلوط ہیں نہ مذہبی ہیں نہ سیکولراور نہ ہی سرمایہ دارانہ بلکہ چوں چوں کا مربہ ہیں۔ اول تو ہمارے حکمران مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں اور کوئی حکمران سنجیدہ بھی ہو تو اس نظام میں مسائل حل نہیں کرسکتا۔

ناصر گل (ایڈیشنل جنرل سیکریٹری مسلم لیگ(ق)

مسلم لیگ(ق) 2007ء تک شاید ایک جماعت نہ ہو مگر 2008ء میں ایک جماعت بن چکی ہے، ہر صوبہ میں ہر یونین کونسل کی سطح پر ہماری تنظیم موجود ہے۔ اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرررہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور (ق) کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضمنی الیکشن میں ہم نے (ن) لیگ کی سیٹیں جیتی ہیں۔



نارووال سے ڈاکٹر طاہر جاوید جو چیف لوٹا تھا اس کی سیٹ جیتی، سیالکوٹ میں ہم نے ایک ایسے امیدوار کو کھڑا کیا جسے عام لوگ جانتے تک نہیں تھے مگر اس نے 20ہزار ووٹ حاصل کئے۔ یہ صرف مسلم لیگ(ق) چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری شجاعت حسین اور مونس الٰہی کا ووٹ ہے اور آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ(ق) اس پوزیشن میں ہوگی کہ کوئی بھی پارٹی اس کے بغیر حکومت نہیں بنا سکے گی۔
Load Next Story