پاکستان کرکٹ میں سیاست تھی ہے اور رہے گی
گوروں کا نفسیاتی دبائو اس قدر ہوتاکہ ہم انگلینڈ سے جیتا ہوا میچ ہارجاتے
کرکٹ میں آٹھ سالہ بین الاقوامی کیریئر میں وہ اپنے اچھوتے بولنگ ایکشن کے باعث توجہ کا مرکز رہے، اور اب بھی ان کا نام کسی محفل میں لیا جائے تو ان کے اس ایکشن کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔
ممتاز امپائر ڈکی برڈ ان کے ایکشن کو کرکٹ میں منفرد ترین قرار دیتے ہیں اور ان کے اسٹائل کے بارے میںمعروف مبصر جان آرلٹ کا وہ بیان دہراتے ہیں، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آصف مسعود بولنگ کے لیے یوں قدم بڑھاتاہے جیسے معروف امریکی اداکار گروچو مارکس کسی خوبصورت ویٹرس کا پیچھا کر رہا ہو۔ جان آرلٹ نے انھیں مثبت طور سے ایک اداکار سے ملایا تو عمران خان نے ایک بار ناراض ہو کر انھیں ہالی وڈ کے اداکار عمرشریف سے مشابہ قرار دے دیا تھا۔
آصف مسعود اپنے بولنگ ایکشن کی طرح کھلاڑی بھی وکھری ٹائپ کے تھے، جو ہر وقت لیے دیے رہتے۔ کچھ تو طبعاً اتھرے، دوسرے بن گئے وہ فاسٹ بولر، اس لیے ساتھی کھلاڑیوں اور انتظامیہ سے ان کی کم ہی بنتی تھی اور ایک بار تو معاملہ اس حد تک بڑھا کہ کرکٹ منتظم کے طور پر طاقتور اور بارسوخ عبدالحفیظ کاردار نے ناراض ہو کر انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ میں دیکھتا ہوں تم کیسے کرکٹ کھیلتے ہو۔ آزاد منش آصف مسعود نے بورڈ کی دریوزہ گری سے عہدہ حاصل کرنے کے بجائے کرکٹ سے اپنا ناتا توڑ کرخود کو بیرون ملک کاروبار سے متعلق کر لیا۔
آصف مسعود سے پہلے اور بعد میں بھی لاہور سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بولرآتے رہے لیکن جس بولرکی شخصیت میں خالص لاہوریا ہونے کی جھلک نمایاں طور سے نظر آئی وہ آصف مسعود ہیں، جس کی بڑی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ ان کی بودوباش اندرون لاہور کے گلی کوچوں میں ہوئی، جو اصل لاہور کا نمائندہ علاقہ ہے۔ وہ جس زمانے میں کرکٹ سے وابستہ تھے، زیادہ تر فاسٹ بولر کلین شیو ہوتے مگر انھوں نے چہرے پر گھنی مونچھیں آراستہ کر رکھی تھیں۔ ان کا پورا نام سید آصف مسعود شاہ ہے، وہ ساتھی کرکٹروں میں شاہ کے نام سے معروف تھے۔ٹی ٹوئنٹی کی شوقین نئی پود تو غالباً ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی لیکن جنھوں نے ان کا کھیل دیکھا ہے، انھیں آصف مسعود کا اسٹائل بھلائے نہیں بھولتا۔
پاکستان کی پہلی ون ڈے ٹیم کے رکن آصف مسعود کا گاہے گاہے پاکستان پھیرا لگتا رہتا ہے۔تین عشروں سے وہ مانچسٹر میں مقیم ہیں لیکن فرنگ کا رنگ ان پر چڑھا نہیں اور کھلے ڈلے پن اور طبیعت کی شگفتگی میں فرق نہیں آیا، ہمارے ساتھ ٹھیٹھ لاہوری لب و لہجے میںگفتگو کرتے رہے، جس کو شروع کرنے سے قبل انھوں نے نماز مغرب ادا کی۔ گفتگو کا سلسلہ تھوڑا آگے بڑھا تو ہم نے پوچھا کہ فاسٹ بولر بننے کی کیوں ٹھانی؟ اس پر بتایا کہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فاسٹ بولر ٹیم کو جتوانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے جبکہ بیٹسمین میچ ڈرا کرنے کے کام آتا ہے، اس لیے فاسٹ بولر بننا پسند کیا۔ کرکٹ کا لپکا انھیں اسکول کے زمانے میں ہو گیا۔
1960ء میں مسلم ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لیا اور کالج ٹیم کا حصہ بنے۔ اس عرصے میں یونیورسل کرکٹ کلب میں شمولیت اختیار کی۔ عظیم فضل محمود بھی اس کلب سے کھیلتے تھے، ان کا سنہری دور تو بیت چکا تھا لیکن قومی ٹیم کا وہ اب بھی حصہ تھے، وہ اکثر نیٹ پر آتے تو انھیں بولنگ کراتے دیکھ کر آصف مسعود کا ولولہ اور بھی بڑھتا۔ فضل محمود سے باقاعدہ طور سے بولنگ کے اسرارو رموز انھوں نے نہیں سیکھے مگر وہ فاسٹ بولربننے کے لیے ان کی پہلی انسپریشن بنے۔ فاسٹ بولر بننے کی راہ پر چلے تو آغاز سفر میں ان کی بولنگ کا خوب ٹھٹھا اڑایا گیا۔
اس پر انھوں نے دل چھوٹا نہیں کیا اور کلب کے گراؤنڈ مین سے کہہ کر نیٹ مقررہ وقت سے پہلے لگوانے کا انتظام کیا اور خوب پریکٹس کے ذریعے بولنگ میں نکھار پیدا کیا۔ دو برس وزیر علی جونیئر لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب ٹھہرے۔ کالج کی طرف سے شاندار کارکردگی کا بھی سلسلہ جاری رہا اور گورنمنٹ کالج والے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے ڈورے ڈالنے لگے تو انھوں نے اپنا ناتا اس درس گاہ سے جوڑ لیا، جہاں سے 64ء میں گریجویشن کیا۔ ایم اے کے لیے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا لیکن فائنل ایئر میں پی آئی اے میں نوکری مل گئی اور یہ مرحلۂ تعلیم ادھورا رہ گیا۔ اس دور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے درمیان کانٹے دار مقابلوں میں بھی شریک رہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ پہلا بڑا میچ لاہور کی جانب سے کراچی کی ٹیم کے خلاف کھیلے۔
پنجاب یونیورسٹی اور لاہور کی طرف سے متاثر کن کارکردگی دکھاتے رہے۔ 64ء میں ایم سی سی کی ٹیم سے پشاور میں ہونے والے میچ میں پاکستان انڈر25 ٹیم کا حصہ بنے۔ کامن ویلتھ ٹیم کے خلاف بھی کھیلے۔ 1967-68ء میں پنجاب یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے، پنجاب گورنرز الیون میں شامل مایہ ناز حنیف محمد اور سعید احمد سمیت کئی بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا۔ اس سیزن میں ایوب ٹرافی کے فائنل میں کراچی کے خلاف بھی عمدہ بولنگ کی۔ 1969ء میں انگلینڈ کے خلاف لاہور میں انھیں ٹیسٹ کیپ مل گئی۔ پہلے ٹیسٹ میں چار وکٹیں حاصل کیں۔ ڈھاکہ میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں انھیں حیران کن طور پر ڈراپ کر دیا گیا۔ ان کے بقول: ''مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کفیل الدین بورڈ کے چیئرمین تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کا ایک کھلاڑی ٹیم میں ضرور ہونا چاہیے وگرنہ ادھر میچ ہونا مشکل ہو جائے گا۔ اب ایک تو اوپننگ بیٹسمین لطیف تھا اور دوسرے فاسٹ بولر نیازاحمد، ان دونوں میں سے ایک ٹیم میں شامل ہوسکتا تھا۔ لطیف اس لیے شامل ہونے سے رہ گیا کہ حنیف محمد بھی اوپننگ بیٹسمین تھے، اس لیے مجھے ڈراپ کر کے نیاز احمدکو شامل کر لیا گیا۔ مجھے اس سے بہت دکھ ہوا۔''
پہلی سیریز میں پیش آنے والے ایک واقعہ سے ان میں خاص سوچ نے جنم لیا، جس کے بارے میں بتاتے ہیں: ''سعید احمد کی کپتانی میں لاہور میں انگلینڈ کے ساتھ ٹیسٹ میں لنچ کے دوران ایک کتا گراؤنڈ میں گھس آیا تو سارے کراؤڈ نے ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگانا شروع کر دیے، اور اسی میچ کے دوران جب یہ اطلاع آئی کہ ایوب خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو لوگوں نے ایوب زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے، اس وقت میں نے سوچا کہ یہاں زندہ باد کو مردہ باد ہوتے دیر نہیں لگتی، اس لیے عزت کے ساتھ اس کھیل سے الگ ہو جاؤں گا اور پھر ایسا ہی کیا۔''
1971ء کے دورئہ انگلینڈ میں پاکستان دو ٹیسٹ میچوں میں جیت سکتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ 1974ء میں پاکستان نے سیریز ڈرا کی لیکن ٹیسٹ جیتنے سے محروم رہا۔ عمران خان کے خیال میں ایسا گورے کے سامنے ذہنی طور پر مغلوب ہونے کے باعث ہوتا اور اس احساس کمتری کو انھوں نے اپنے دور کپتانی میں ختم کیا۔ عمران خان کے اس تجزیے سے آصف مسعود کو اتفاق ہے، اور وہ کہتے ہیں، بالکل ایسا معاملہ رہا کہ ہم انگلینڈ سے نفسیاتی دباؤ میں آکر جیتا ہوا میچ ہار جاتے تھے اور کرکٹ ہی نہیں، دوسرے معاملات میں بھی بھی ہم پر ولایت کارعب رہا، اور کرکٹ میں بھی یہی سوچ رہی، جس کا ہم نے نقصان اٹھایا۔
71ء میں ایجبسٹن ٹیسٹ میںآصف مسعودنے عمدہ بولنگ کی، پانچ بیٹسمینوں کو پویلین کی راہ دکھا کر انگلینڈ کو فالوآن پر مجبور کردیا۔ دوسری اننگز میں بھی چار وکٹ حاصل کئے لیکن بارش کی وجہ سے ایک دن کا کھیل نہ ہو سکا اور انگلینڈ شکست سے بچ گیا۔ اس کے باوجود میچ پر گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ بارش سے متاثر ہونے کے باوجود پاکستان جیت سکتا تھا، اگر مشتاق محمد کے بقول، پاکستان پہلی اننگز جلد ڈیکلیئر کر دیتا، اور عمران کے بقول، اگر دوسرے اینڈ پر آصف مسعود کا ساتھ دینے کو کوئی دوسرا بولر ہوتا۔ قدرت نے لیڈز میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میں بھی فتح یاب ہونے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان کو جیت کے لیے آسان ہدف ملا مگر پاکستان 25 رنز سے میچ ہار گیا۔ آصف مسعود کے بقول ''چوتھے روز کھیل کے خاتمے پر پاکستان نے ہدف کے تعاقب میں بغیر کسی نقصان کے 25رنز بنا لیے تھے۔ دن کے آغاز میں ہوتا تو یہی ہے کہ فاسٹ بولر گیند کراتے ہیں لیکن النگ ورتھ نے حکمت عملی تبدیل کی اور پہلا اوور خود کرایا۔ کھلاڑی اب اس وہم میں پڑ گئے کہ گوروں نے نہ جانے وکٹ کو کیا کر دیا ہوگا جو النگ ورتھ خود بولنگ کرانے لگا ہے۔ دباؤ میں آکر آفتاب گل پانچویں دن پہلے اوور میں آؤٹ ہو گیا۔ ظہیر پہلی گیند پر آؤٹ ہوگیا تو ڈریسنگ روم میں دعائیں شروع ہوگئیں، کوئی سجدے کر رہا ہے، کوئی گناہوں کی معافی مانگ رہا ہے، اللہ میاں جی! ہمیں بچالو، ٹھیک ہے آپ یہ سب ضرور کریں لیکن خود کو قائم بھی تو رکھیں۔
ٹیم پریشر میں آگئی اور دوسرے کھلاڑی بھی جلدآؤٹ ہوتے گئے۔ گورے جانتے تھے کہ اس ٹیم پر تھوڑا پریشر ڈال دو یہ مقابلہ نہیں کرپائے گی۔ سینئر کھلاڑیوں کی بے اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ میں جو ہمیشہ سے نمبر الیون بیٹسمین تھا، اسے جب ابھی دو کھلاڑی ہی آؤٹ ہوئے تھے، سمجھایا جارہا تھا ''شاہ دھیان سے کھیلنا، گھبرانا نہیں۔ '' یہ ہے، وہ ہے، اس پر میں نے کہا کہ یار! تم عجیب لوگ ہو، اگر تم آخری نمبر کے بیٹسمین پر بھروسا کر بیٹھے ہو تو پھر جیت چکے! پاکستانی تماشائی بڑی امیدیں لے کر آئے تھے لیکن ہم نے انھیں مایوس کیا۔74 ء کے ٹور میں پاکستان نے بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس کا کریڈٹ منیجرعمر قریشی کو بھی جاتا ہے۔ ان سے اچھا منیجر میں نے نہیں دیکھا۔ پہلے ون ڈے میں ماجد خان کی شاندار سنچری کی وجہ سے انگلینڈ کو ہرا دیا۔ اگلے روز اخباروں میں پاکستانی بیٹسمینوں کی خوب تعریف ہوئی لیکن بولنگ کو معمولی قرار دیا گیا۔
اس پر عمر قریشی نے بولروں کو بہتر بولنگ پر اکسانے کے لیے مجھے، عمران خان اور سرفراز کو اخبارات دکھائے کہ دیکھو! تمھارے بارے میں کس قسم کی زبان لکھی جا رہی ہے۔ بارش کی وجہ سے دوسرا ون ڈے 25اوورز کا کر دیا گیا۔ہم نے انگلینڈ کے 28 پر آٹھ کھلاڑی آؤٹ کر دیئے تو عمر قریشی انگلینڈ کے ڈریسنگ روم میں گئے اور طنزیہ انداز میں کہنے لگے: ''اسکیپر ذرا اسکور کارڈ پر نظر ڈالو۔ کیا یہ انگلینڈ کے لیے شرم کا مقام نہیں ہے؟ میں نے اپنے لڑکوں سے کہا تو تھا، وہ تمھارا ایسا حشر نہ کریں مگر میں کیاکروں وہ میری بات سنتے ہی نہیں۔'' اس میچ میںآصف مسعود نے سات اوور میں نو رنز دے کر دووکٹیں حاصل کیں اورمین آف دی میچ قرار پائے۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ عمرقریشی کی تعریف بجا لیکن 71ء کے ٹور میں وہ منیجر صاحب کون تھے، جنھوں نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہم گوروں کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں تہذیب یافتہ بنایا اور ہم نے ان سے چھری کانٹے سے کھانا سیکھا؟ ''وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے ان کا نام کیا لینا، لیکن ان کا ایسی بات کہنا بالکل ہی غیر مناسب بات تھی۔ اس محفل میں ڈیوک بھی موجود تھا۔''
1971-72ء میں وہ ورلڈ الیون کے لیے منتخب ہو کر آسٹریلیا گئے۔ ان کے بقول: ''ادھر جب افتتاحی تقریب ہو رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا کہ 1958ء میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی تو اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے میں کوشش کے باوجود ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کے آٹوگراف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا اور اب مجھے گیری سوبرز اور روہن کہنائی کے ساتھ ایک ٹیم میں کھیلنے کا موقع مل گیا، جو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ''
''1975ء کے پہلے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز سے میچ پاکستان ایک وکٹ سے ہارا۔ آپ اس میچ میں شریک تھے، ایک مرحلے پر لگ رہا تھا کہ پاکستان یقینی طور پر میچ جیت جائے گا، لیکن ہم ہار گئے۔ کیوں؟ ماجد خان کے خیال میں عبدالحفیظ کاردار کی بے جا مداخلت اس میچ میں ٹیم کی شکست کا سبب بنی؟ ''
اس سوال پر ان کا موقف تھا''ماجد خان کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ اس میچ میں کاردار نے بہت مداخلت کی۔ وہ بار بار بارھویں کھلاڑی کو پیغام دے کر اندر بھیج دیتے۔ ماجد اس وجہ سے خاصا ناراض تھا۔ کاردار کا رویہ غلط تھا کیونکہ ایک بندے کو کپتان بنا دیا تو اس پر بھروسا کرو۔ (آصف اقبال کے ان فٹ ہونے کے باعث ماجد خان اس اہم میچ میں کپتانی کررہے تھے) ایک بار شفیق احمد پیغام لے کر گراؤنڈ میں داخل ہو رہا تھا تو ماجد نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ وہ باہرچلا جائے اور کاردار کا پیغام وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
تماشائی دیکھ رہے تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ماجد سے میں نے کہا کہ آخری وکٹ ہے، دس اوور میں 60رنز بنانے ہیں، مرے سیٹ ہوچکا ہے اور رابرٹس اس کا ساتھ دے رہا ہے، اس لیے فیلڈنگ پیچھے لے جاؤ، سنگل کرنے دو، بھاگ بھاگ کر تھک جائیں گے لیکن اس کا خیال تھا کہ ہم آؤٹ کر لیں گے، لیکن وہ صحیح طور پر manage نہیں کر سکا۔ ماجد فیلڈر اوپر لیتا تو کاردار اسے پیچھے کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ میچ ہمارے ہاتھ میں آ کر نکل گیا، ہم جیت جاتے تو ممکن ہے ،پاکستان ورلڈکپ جیت جاتا۔''
ورلڈ کپ کے بعد وہ دورئہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز میں ٹیم کے ساتھ تھے لیکن اب انھیں محسوس ہونے لگاکہ کپتان کو ان پر اعتماد نہیں رہا۔ سات آٹھ برس متواتر نیا گیند کرنے والے آصف مسعود سے پرانا گیند کرایا جانے لگا تو انھیں یہ اچھا نہیں لگا اور انھوں نے کرکٹ سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ 1977ء میں آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں وہ اپنا آخری ٹیسٹ کھیلے۔
''8برس ٹیم میں شامل رہنے کے باوجود صرف 16ٹیسٹ میچوں میں نمائندگی کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ:''اس زمانے میں ٹیسٹ کم ہوتے تھے۔ جنوبی افریقہ پر پابندی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ نہیں ہو رہے تھے۔ میں مزید کھیل سکتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ کپتان کو اعتماد نہیں تو کرکٹ سے الگ ہو گیا۔ ہمارے ہاں پسند نہ پسند کا بھی چکر ہوتا ہے لیکن مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔''
عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے: ''ایک دفعہ آصف مسعود نے مجھے مارپیٹ کی دھمکی بھی دی۔ اس نے مجھے بکنگھم پیلس میں ایک خاتون سے متعارف کراتے وقت ٹیم کا بے بی کہا۔ میں نے آصف کا تعارف ٹیم کا عمرشریف کہہ کر کروایا۔'' ایک جونیئر کھلاڑی جو اپنا پہلا ٹور کررہا ہو اس کے ساتھ ایسا غیر مناسب نہیں؟اس استفسار پر وہ کہنے لگے:''میری عمرزیادہ ہوگئی ہے لیکن میری یادداشت بری نہیں۔ میرے ذہن میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ میں نے عمران کو بے بی آف دی ٹیم کہا ہو۔ میں نے زندگی بھر کسی کی تضحیک نہیں کی۔''
ہم نے ان سے فاسٹ بولنگ کے فن اور ان کے منفرد ایکشن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا : ''دنیا میں کوئی ایسا بیٹسمین نہیں جو فاسٹ بولر سے نہ ڈرتا ہو۔ سومیل کی رفتارسے گیند سر سے گزرتی ہے تو زوں کی آواز سے بڑے سے بڑا بیٹسمین گھبرا جاتا ہے۔ کرکٹ گیند اور بلے کے درمیان جنگ کا نام ہے۔ بولرگیند لے کر دوڑتاہے تونظریں اس کا تعاقب کرتی ہیں، گیند گرتا ہے تو توجہ بیٹسمین کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اوور کے بعد بولر بدل جاتاہے، اس لیے وہ تھوڑی دیر کے لیے لائم لائٹ میں آتا ہے جبکہ بیٹسمین وکٹ پر موجود رہتا ہے اور 50 رن بھی اگر وہ کرے تو تین ساڑھے تین گھنٹے وکٹ پر اسے رکنا پڑتا ہے اور یہ جنگ وکٹ پر لڑی جارہی ہوتی ہے۔ بولراگر خراب گیند کرے تواگلی گیند پر وہ آؤٹ کر سکتا ہے، خراب اوور کرے تو اگلا اوور بہتر کرسکتا ہے، ایک اسپیل میں ناکام رہے تو اگلا اسپیل اپنے نام کرسکتا ہے۔
بیٹسمین اگر غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوجائے تو وہ اس کی تلافی نہیں کر سکتا۔ فاسٹ بولنگ میں اسپیڈ کی بڑی اہمیت ہے مگر لائن لینتھ بھی بڑی اہم چیزہے۔ اچھا باؤنسر کرنے کے لیے پورے اوور جتنی قوت درکار ہوتی ہے۔ میرا گیند باہرنکلنے کے بجائے اندر زیادہ آتا تھا۔ گیند ہوا کے بجائے وکٹ پر پڑ کر سوئنگ ہوتا۔ ہوا میں گھومتی گیند کو بیٹسمین دیکھ لیتا ہے اور اس کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر لیتا ہے لیکن وکٹ پر پڑنے کے بعد جو گیند تھوڑی سوئنگ سے بھی اندر آئے تو بیٹسمین کے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ گیند تیزی سے آتی ہے۔ کلب کے زمانے سے میں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہتا تھا۔
باقی بولر آتے اور گیند کرا کر چلے جاتے۔ میں آتا، پھر تھوڑا پیچھے ہٹتا اور پھر دوبارہ آگے آکر گیند کراتا۔ بیٹسمین دیکھتا کہ اسے کیا ہوگیا ہے تو اس سے اس کی توجہ منتشرہوجاتی ۔'' آصف مسعودکے خیال میں فاروق حمید بہترین بولر تھا لیکن افسوس! وہ صرف ایک ٹیسٹ کھیل سکا۔ ہم نے پوچھا اس کی کیا وجہ تھی؟ ''اس کی وجوہات ڈسکس نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔ پاکستان کرکٹ میں سیاست چلتی تھی، چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔ کرکٹ ہی نہیں ہر چیز میں سیاست ہے۔ میرے خیال میں فاروق حمید کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔'' گیری سوبرز، روہن کہنائی اور حنیف محمد ان کے پسندیدہ بیٹسمین ہیں۔ بولنگ میں ڈینس للی، مائیکل ہولڈنگ اور رچرڈ ہیڈلی کا نام لیتے ہیں۔
پاکستان میں کہتے ہیں، عمران نے جس طرح کی پرفارمنس دی، اس کی مثال نہیں ملتی۔وسیم اکرم اور وقار یونس کی بولنگ بھی انھیں بہت پسند رہی۔نوجوانوں میں محمد عامر نے متاثر کیا۔ سرفرار نواز کو ریورس سوئنگ کاموجد مانتے ہیں اور یاد کرتے ہیں، اس وقت کو جب ایک بارگیند چمکانے پر انھیں سرفراز سے ڈانٹ سننی پڑی تھی۔ کرکٹروں میں انتخاب عالم سے زیادہ دوستی ہے۔ مبصرین میں جان آرلٹ اور عمر قریشی کی آراء کے قدردان رہے۔ امپائروں میں ٹام سپنسر اچھے لگے۔ آصف مسعود نے 23 جنوری 1946ء کو موچی دروازہ لاہور میں سید لال شاہ بخاری کے ہاں آنکھ کھولی جو محکمہ آبپاشی میں سینئر ریسرچ آفیسر تھے۔
بچوں کو قرآن پاک کا درس دینے والی اپنی والدہ کو آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہیں، جو ان کے خیال میں سچی عاشق رسولؐ تھیں۔ ایک بہن اور چار بھائیوں میں دوسرے نمبر پر آصف مسعود کی شادی 1976ء میں ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ زندگی سے وہ مطمئن ہیں۔ کسی بات پر افسوس نہیں کہ گزرا کل ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتا۔ 85ء میں پی آئی اے سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مختلف کاروبار کرتے رہے لیکن کچھ عرصے سے ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت نمازیں پڑھنے اور اسپورٹس چینل دیکھنے میں گزرتا ہے۔ آصف مسعود کے بقول، موجودہ پاکستان ٹیم اچھی ہے لیکن لگتا ہے کہ کھلاڑیوں میں ملک کے لیے کھیلنے کا جذبہ سرد پڑ گیا ہے۔
ممتاز امپائر ڈکی برڈ ان کے ایکشن کو کرکٹ میں منفرد ترین قرار دیتے ہیں اور ان کے اسٹائل کے بارے میںمعروف مبصر جان آرلٹ کا وہ بیان دہراتے ہیں، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آصف مسعود بولنگ کے لیے یوں قدم بڑھاتاہے جیسے معروف امریکی اداکار گروچو مارکس کسی خوبصورت ویٹرس کا پیچھا کر رہا ہو۔ جان آرلٹ نے انھیں مثبت طور سے ایک اداکار سے ملایا تو عمران خان نے ایک بار ناراض ہو کر انھیں ہالی وڈ کے اداکار عمرشریف سے مشابہ قرار دے دیا تھا۔
آصف مسعود اپنے بولنگ ایکشن کی طرح کھلاڑی بھی وکھری ٹائپ کے تھے، جو ہر وقت لیے دیے رہتے۔ کچھ تو طبعاً اتھرے، دوسرے بن گئے وہ فاسٹ بولر، اس لیے ساتھی کھلاڑیوں اور انتظامیہ سے ان کی کم ہی بنتی تھی اور ایک بار تو معاملہ اس حد تک بڑھا کہ کرکٹ منتظم کے طور پر طاقتور اور بارسوخ عبدالحفیظ کاردار نے ناراض ہو کر انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ میں دیکھتا ہوں تم کیسے کرکٹ کھیلتے ہو۔ آزاد منش آصف مسعود نے بورڈ کی دریوزہ گری سے عہدہ حاصل کرنے کے بجائے کرکٹ سے اپنا ناتا توڑ کرخود کو بیرون ملک کاروبار سے متعلق کر لیا۔
آصف مسعود سے پہلے اور بعد میں بھی لاہور سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بولرآتے رہے لیکن جس بولرکی شخصیت میں خالص لاہوریا ہونے کی جھلک نمایاں طور سے نظر آئی وہ آصف مسعود ہیں، جس کی بڑی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ ان کی بودوباش اندرون لاہور کے گلی کوچوں میں ہوئی، جو اصل لاہور کا نمائندہ علاقہ ہے۔ وہ جس زمانے میں کرکٹ سے وابستہ تھے، زیادہ تر فاسٹ بولر کلین شیو ہوتے مگر انھوں نے چہرے پر گھنی مونچھیں آراستہ کر رکھی تھیں۔ ان کا پورا نام سید آصف مسعود شاہ ہے، وہ ساتھی کرکٹروں میں شاہ کے نام سے معروف تھے۔ٹی ٹوئنٹی کی شوقین نئی پود تو غالباً ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی لیکن جنھوں نے ان کا کھیل دیکھا ہے، انھیں آصف مسعود کا اسٹائل بھلائے نہیں بھولتا۔
پاکستان کی پہلی ون ڈے ٹیم کے رکن آصف مسعود کا گاہے گاہے پاکستان پھیرا لگتا رہتا ہے۔تین عشروں سے وہ مانچسٹر میں مقیم ہیں لیکن فرنگ کا رنگ ان پر چڑھا نہیں اور کھلے ڈلے پن اور طبیعت کی شگفتگی میں فرق نہیں آیا، ہمارے ساتھ ٹھیٹھ لاہوری لب و لہجے میںگفتگو کرتے رہے، جس کو شروع کرنے سے قبل انھوں نے نماز مغرب ادا کی۔ گفتگو کا سلسلہ تھوڑا آگے بڑھا تو ہم نے پوچھا کہ فاسٹ بولر بننے کی کیوں ٹھانی؟ اس پر بتایا کہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فاسٹ بولر ٹیم کو جتوانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے جبکہ بیٹسمین میچ ڈرا کرنے کے کام آتا ہے، اس لیے فاسٹ بولر بننا پسند کیا۔ کرکٹ کا لپکا انھیں اسکول کے زمانے میں ہو گیا۔
1960ء میں مسلم ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لیا اور کالج ٹیم کا حصہ بنے۔ اس عرصے میں یونیورسل کرکٹ کلب میں شمولیت اختیار کی۔ عظیم فضل محمود بھی اس کلب سے کھیلتے تھے، ان کا سنہری دور تو بیت چکا تھا لیکن قومی ٹیم کا وہ اب بھی حصہ تھے، وہ اکثر نیٹ پر آتے تو انھیں بولنگ کراتے دیکھ کر آصف مسعود کا ولولہ اور بھی بڑھتا۔ فضل محمود سے باقاعدہ طور سے بولنگ کے اسرارو رموز انھوں نے نہیں سیکھے مگر وہ فاسٹ بولربننے کے لیے ان کی پہلی انسپریشن بنے۔ فاسٹ بولر بننے کی راہ پر چلے تو آغاز سفر میں ان کی بولنگ کا خوب ٹھٹھا اڑایا گیا۔
اس پر انھوں نے دل چھوٹا نہیں کیا اور کلب کے گراؤنڈ مین سے کہہ کر نیٹ مقررہ وقت سے پہلے لگوانے کا انتظام کیا اور خوب پریکٹس کے ذریعے بولنگ میں نکھار پیدا کیا۔ دو برس وزیر علی جونیئر لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب ٹھہرے۔ کالج کی طرف سے شاندار کارکردگی کا بھی سلسلہ جاری رہا اور گورنمنٹ کالج والے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے ڈورے ڈالنے لگے تو انھوں نے اپنا ناتا اس درس گاہ سے جوڑ لیا، جہاں سے 64ء میں گریجویشن کیا۔ ایم اے کے لیے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا لیکن فائنل ایئر میں پی آئی اے میں نوکری مل گئی اور یہ مرحلۂ تعلیم ادھورا رہ گیا۔ اس دور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے درمیان کانٹے دار مقابلوں میں بھی شریک رہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ پہلا بڑا میچ لاہور کی جانب سے کراچی کی ٹیم کے خلاف کھیلے۔
پنجاب یونیورسٹی اور لاہور کی طرف سے متاثر کن کارکردگی دکھاتے رہے۔ 64ء میں ایم سی سی کی ٹیم سے پشاور میں ہونے والے میچ میں پاکستان انڈر25 ٹیم کا حصہ بنے۔ کامن ویلتھ ٹیم کے خلاف بھی کھیلے۔ 1967-68ء میں پنجاب یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے، پنجاب گورنرز الیون میں شامل مایہ ناز حنیف محمد اور سعید احمد سمیت کئی بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا۔ اس سیزن میں ایوب ٹرافی کے فائنل میں کراچی کے خلاف بھی عمدہ بولنگ کی۔ 1969ء میں انگلینڈ کے خلاف لاہور میں انھیں ٹیسٹ کیپ مل گئی۔ پہلے ٹیسٹ میں چار وکٹیں حاصل کیں۔ ڈھاکہ میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں انھیں حیران کن طور پر ڈراپ کر دیا گیا۔ ان کے بقول: ''مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کفیل الدین بورڈ کے چیئرمین تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کا ایک کھلاڑی ٹیم میں ضرور ہونا چاہیے وگرنہ ادھر میچ ہونا مشکل ہو جائے گا۔ اب ایک تو اوپننگ بیٹسمین لطیف تھا اور دوسرے فاسٹ بولر نیازاحمد، ان دونوں میں سے ایک ٹیم میں شامل ہوسکتا تھا۔ لطیف اس لیے شامل ہونے سے رہ گیا کہ حنیف محمد بھی اوپننگ بیٹسمین تھے، اس لیے مجھے ڈراپ کر کے نیاز احمدکو شامل کر لیا گیا۔ مجھے اس سے بہت دکھ ہوا۔''
پہلی سیریز میں پیش آنے والے ایک واقعہ سے ان میں خاص سوچ نے جنم لیا، جس کے بارے میں بتاتے ہیں: ''سعید احمد کی کپتانی میں لاہور میں انگلینڈ کے ساتھ ٹیسٹ میں لنچ کے دوران ایک کتا گراؤنڈ میں گھس آیا تو سارے کراؤڈ نے ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگانا شروع کر دیے، اور اسی میچ کے دوران جب یہ اطلاع آئی کہ ایوب خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو لوگوں نے ایوب زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے، اس وقت میں نے سوچا کہ یہاں زندہ باد کو مردہ باد ہوتے دیر نہیں لگتی، اس لیے عزت کے ساتھ اس کھیل سے الگ ہو جاؤں گا اور پھر ایسا ہی کیا۔''
1971ء کے دورئہ انگلینڈ میں پاکستان دو ٹیسٹ میچوں میں جیت سکتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ 1974ء میں پاکستان نے سیریز ڈرا کی لیکن ٹیسٹ جیتنے سے محروم رہا۔ عمران خان کے خیال میں ایسا گورے کے سامنے ذہنی طور پر مغلوب ہونے کے باعث ہوتا اور اس احساس کمتری کو انھوں نے اپنے دور کپتانی میں ختم کیا۔ عمران خان کے اس تجزیے سے آصف مسعود کو اتفاق ہے، اور وہ کہتے ہیں، بالکل ایسا معاملہ رہا کہ ہم انگلینڈ سے نفسیاتی دباؤ میں آکر جیتا ہوا میچ ہار جاتے تھے اور کرکٹ ہی نہیں، دوسرے معاملات میں بھی بھی ہم پر ولایت کارعب رہا، اور کرکٹ میں بھی یہی سوچ رہی، جس کا ہم نے نقصان اٹھایا۔
71ء میں ایجبسٹن ٹیسٹ میںآصف مسعودنے عمدہ بولنگ کی، پانچ بیٹسمینوں کو پویلین کی راہ دکھا کر انگلینڈ کو فالوآن پر مجبور کردیا۔ دوسری اننگز میں بھی چار وکٹ حاصل کئے لیکن بارش کی وجہ سے ایک دن کا کھیل نہ ہو سکا اور انگلینڈ شکست سے بچ گیا۔ اس کے باوجود میچ پر گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ بارش سے متاثر ہونے کے باوجود پاکستان جیت سکتا تھا، اگر مشتاق محمد کے بقول، پاکستان پہلی اننگز جلد ڈیکلیئر کر دیتا، اور عمران کے بقول، اگر دوسرے اینڈ پر آصف مسعود کا ساتھ دینے کو کوئی دوسرا بولر ہوتا۔ قدرت نے لیڈز میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میں بھی فتح یاب ہونے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان کو جیت کے لیے آسان ہدف ملا مگر پاکستان 25 رنز سے میچ ہار گیا۔ آصف مسعود کے بقول ''چوتھے روز کھیل کے خاتمے پر پاکستان نے ہدف کے تعاقب میں بغیر کسی نقصان کے 25رنز بنا لیے تھے۔ دن کے آغاز میں ہوتا تو یہی ہے کہ فاسٹ بولر گیند کراتے ہیں لیکن النگ ورتھ نے حکمت عملی تبدیل کی اور پہلا اوور خود کرایا۔ کھلاڑی اب اس وہم میں پڑ گئے کہ گوروں نے نہ جانے وکٹ کو کیا کر دیا ہوگا جو النگ ورتھ خود بولنگ کرانے لگا ہے۔ دباؤ میں آکر آفتاب گل پانچویں دن پہلے اوور میں آؤٹ ہو گیا۔ ظہیر پہلی گیند پر آؤٹ ہوگیا تو ڈریسنگ روم میں دعائیں شروع ہوگئیں، کوئی سجدے کر رہا ہے، کوئی گناہوں کی معافی مانگ رہا ہے، اللہ میاں جی! ہمیں بچالو، ٹھیک ہے آپ یہ سب ضرور کریں لیکن خود کو قائم بھی تو رکھیں۔
ٹیم پریشر میں آگئی اور دوسرے کھلاڑی بھی جلدآؤٹ ہوتے گئے۔ گورے جانتے تھے کہ اس ٹیم پر تھوڑا پریشر ڈال دو یہ مقابلہ نہیں کرپائے گی۔ سینئر کھلاڑیوں کی بے اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ میں جو ہمیشہ سے نمبر الیون بیٹسمین تھا، اسے جب ابھی دو کھلاڑی ہی آؤٹ ہوئے تھے، سمجھایا جارہا تھا ''شاہ دھیان سے کھیلنا، گھبرانا نہیں۔ '' یہ ہے، وہ ہے، اس پر میں نے کہا کہ یار! تم عجیب لوگ ہو، اگر تم آخری نمبر کے بیٹسمین پر بھروسا کر بیٹھے ہو تو پھر جیت چکے! پاکستانی تماشائی بڑی امیدیں لے کر آئے تھے لیکن ہم نے انھیں مایوس کیا۔74 ء کے ٹور میں پاکستان نے بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس کا کریڈٹ منیجرعمر قریشی کو بھی جاتا ہے۔ ان سے اچھا منیجر میں نے نہیں دیکھا۔ پہلے ون ڈے میں ماجد خان کی شاندار سنچری کی وجہ سے انگلینڈ کو ہرا دیا۔ اگلے روز اخباروں میں پاکستانی بیٹسمینوں کی خوب تعریف ہوئی لیکن بولنگ کو معمولی قرار دیا گیا۔
اس پر عمر قریشی نے بولروں کو بہتر بولنگ پر اکسانے کے لیے مجھے، عمران خان اور سرفراز کو اخبارات دکھائے کہ دیکھو! تمھارے بارے میں کس قسم کی زبان لکھی جا رہی ہے۔ بارش کی وجہ سے دوسرا ون ڈے 25اوورز کا کر دیا گیا۔ہم نے انگلینڈ کے 28 پر آٹھ کھلاڑی آؤٹ کر دیئے تو عمر قریشی انگلینڈ کے ڈریسنگ روم میں گئے اور طنزیہ انداز میں کہنے لگے: ''اسکیپر ذرا اسکور کارڈ پر نظر ڈالو۔ کیا یہ انگلینڈ کے لیے شرم کا مقام نہیں ہے؟ میں نے اپنے لڑکوں سے کہا تو تھا، وہ تمھارا ایسا حشر نہ کریں مگر میں کیاکروں وہ میری بات سنتے ہی نہیں۔'' اس میچ میںآصف مسعود نے سات اوور میں نو رنز دے کر دووکٹیں حاصل کیں اورمین آف دی میچ قرار پائے۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ عمرقریشی کی تعریف بجا لیکن 71ء کے ٹور میں وہ منیجر صاحب کون تھے، جنھوں نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہم گوروں کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں تہذیب یافتہ بنایا اور ہم نے ان سے چھری کانٹے سے کھانا سیکھا؟ ''وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے ان کا نام کیا لینا، لیکن ان کا ایسی بات کہنا بالکل ہی غیر مناسب بات تھی۔ اس محفل میں ڈیوک بھی موجود تھا۔''
1971-72ء میں وہ ورلڈ الیون کے لیے منتخب ہو کر آسٹریلیا گئے۔ ان کے بقول: ''ادھر جب افتتاحی تقریب ہو رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا کہ 1958ء میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی تو اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے میں کوشش کے باوجود ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کے آٹوگراف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا اور اب مجھے گیری سوبرز اور روہن کہنائی کے ساتھ ایک ٹیم میں کھیلنے کا موقع مل گیا، جو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ''
''1975ء کے پہلے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز سے میچ پاکستان ایک وکٹ سے ہارا۔ آپ اس میچ میں شریک تھے، ایک مرحلے پر لگ رہا تھا کہ پاکستان یقینی طور پر میچ جیت جائے گا، لیکن ہم ہار گئے۔ کیوں؟ ماجد خان کے خیال میں عبدالحفیظ کاردار کی بے جا مداخلت اس میچ میں ٹیم کی شکست کا سبب بنی؟ ''
اس سوال پر ان کا موقف تھا''ماجد خان کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ اس میچ میں کاردار نے بہت مداخلت کی۔ وہ بار بار بارھویں کھلاڑی کو پیغام دے کر اندر بھیج دیتے۔ ماجد اس وجہ سے خاصا ناراض تھا۔ کاردار کا رویہ غلط تھا کیونکہ ایک بندے کو کپتان بنا دیا تو اس پر بھروسا کرو۔ (آصف اقبال کے ان فٹ ہونے کے باعث ماجد خان اس اہم میچ میں کپتانی کررہے تھے) ایک بار شفیق احمد پیغام لے کر گراؤنڈ میں داخل ہو رہا تھا تو ماجد نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ وہ باہرچلا جائے اور کاردار کا پیغام وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
تماشائی دیکھ رہے تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ماجد سے میں نے کہا کہ آخری وکٹ ہے، دس اوور میں 60رنز بنانے ہیں، مرے سیٹ ہوچکا ہے اور رابرٹس اس کا ساتھ دے رہا ہے، اس لیے فیلڈنگ پیچھے لے جاؤ، سنگل کرنے دو، بھاگ بھاگ کر تھک جائیں گے لیکن اس کا خیال تھا کہ ہم آؤٹ کر لیں گے، لیکن وہ صحیح طور پر manage نہیں کر سکا۔ ماجد فیلڈر اوپر لیتا تو کاردار اسے پیچھے کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ میچ ہمارے ہاتھ میں آ کر نکل گیا، ہم جیت جاتے تو ممکن ہے ،پاکستان ورلڈکپ جیت جاتا۔''
ورلڈ کپ کے بعد وہ دورئہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز میں ٹیم کے ساتھ تھے لیکن اب انھیں محسوس ہونے لگاکہ کپتان کو ان پر اعتماد نہیں رہا۔ سات آٹھ برس متواتر نیا گیند کرنے والے آصف مسعود سے پرانا گیند کرایا جانے لگا تو انھیں یہ اچھا نہیں لگا اور انھوں نے کرکٹ سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ 1977ء میں آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں وہ اپنا آخری ٹیسٹ کھیلے۔
''8برس ٹیم میں شامل رہنے کے باوجود صرف 16ٹیسٹ میچوں میں نمائندگی کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ:''اس زمانے میں ٹیسٹ کم ہوتے تھے۔ جنوبی افریقہ پر پابندی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ نہیں ہو رہے تھے۔ میں مزید کھیل سکتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ کپتان کو اعتماد نہیں تو کرکٹ سے الگ ہو گیا۔ ہمارے ہاں پسند نہ پسند کا بھی چکر ہوتا ہے لیکن مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔''
عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے: ''ایک دفعہ آصف مسعود نے مجھے مارپیٹ کی دھمکی بھی دی۔ اس نے مجھے بکنگھم پیلس میں ایک خاتون سے متعارف کراتے وقت ٹیم کا بے بی کہا۔ میں نے آصف کا تعارف ٹیم کا عمرشریف کہہ کر کروایا۔'' ایک جونیئر کھلاڑی جو اپنا پہلا ٹور کررہا ہو اس کے ساتھ ایسا غیر مناسب نہیں؟اس استفسار پر وہ کہنے لگے:''میری عمرزیادہ ہوگئی ہے لیکن میری یادداشت بری نہیں۔ میرے ذہن میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ میں نے عمران کو بے بی آف دی ٹیم کہا ہو۔ میں نے زندگی بھر کسی کی تضحیک نہیں کی۔''
ہم نے ان سے فاسٹ بولنگ کے فن اور ان کے منفرد ایکشن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا : ''دنیا میں کوئی ایسا بیٹسمین نہیں جو فاسٹ بولر سے نہ ڈرتا ہو۔ سومیل کی رفتارسے گیند سر سے گزرتی ہے تو زوں کی آواز سے بڑے سے بڑا بیٹسمین گھبرا جاتا ہے۔ کرکٹ گیند اور بلے کے درمیان جنگ کا نام ہے۔ بولرگیند لے کر دوڑتاہے تونظریں اس کا تعاقب کرتی ہیں، گیند گرتا ہے تو توجہ بیٹسمین کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اوور کے بعد بولر بدل جاتاہے، اس لیے وہ تھوڑی دیر کے لیے لائم لائٹ میں آتا ہے جبکہ بیٹسمین وکٹ پر موجود رہتا ہے اور 50 رن بھی اگر وہ کرے تو تین ساڑھے تین گھنٹے وکٹ پر اسے رکنا پڑتا ہے اور یہ جنگ وکٹ پر لڑی جارہی ہوتی ہے۔ بولراگر خراب گیند کرے تواگلی گیند پر وہ آؤٹ کر سکتا ہے، خراب اوور کرے تو اگلا اوور بہتر کرسکتا ہے، ایک اسپیل میں ناکام رہے تو اگلا اسپیل اپنے نام کرسکتا ہے۔
بیٹسمین اگر غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوجائے تو وہ اس کی تلافی نہیں کر سکتا۔ فاسٹ بولنگ میں اسپیڈ کی بڑی اہمیت ہے مگر لائن لینتھ بھی بڑی اہم چیزہے۔ اچھا باؤنسر کرنے کے لیے پورے اوور جتنی قوت درکار ہوتی ہے۔ میرا گیند باہرنکلنے کے بجائے اندر زیادہ آتا تھا۔ گیند ہوا کے بجائے وکٹ پر پڑ کر سوئنگ ہوتا۔ ہوا میں گھومتی گیند کو بیٹسمین دیکھ لیتا ہے اور اس کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر لیتا ہے لیکن وکٹ پر پڑنے کے بعد جو گیند تھوڑی سوئنگ سے بھی اندر آئے تو بیٹسمین کے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ گیند تیزی سے آتی ہے۔ کلب کے زمانے سے میں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہتا تھا۔
باقی بولر آتے اور گیند کرا کر چلے جاتے۔ میں آتا، پھر تھوڑا پیچھے ہٹتا اور پھر دوبارہ آگے آکر گیند کراتا۔ بیٹسمین دیکھتا کہ اسے کیا ہوگیا ہے تو اس سے اس کی توجہ منتشرہوجاتی ۔'' آصف مسعودکے خیال میں فاروق حمید بہترین بولر تھا لیکن افسوس! وہ صرف ایک ٹیسٹ کھیل سکا۔ ہم نے پوچھا اس کی کیا وجہ تھی؟ ''اس کی وجوہات ڈسکس نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔ پاکستان کرکٹ میں سیاست چلتی تھی، چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔ کرکٹ ہی نہیں ہر چیز میں سیاست ہے۔ میرے خیال میں فاروق حمید کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔'' گیری سوبرز، روہن کہنائی اور حنیف محمد ان کے پسندیدہ بیٹسمین ہیں۔ بولنگ میں ڈینس للی، مائیکل ہولڈنگ اور رچرڈ ہیڈلی کا نام لیتے ہیں۔
پاکستان میں کہتے ہیں، عمران نے جس طرح کی پرفارمنس دی، اس کی مثال نہیں ملتی۔وسیم اکرم اور وقار یونس کی بولنگ بھی انھیں بہت پسند رہی۔نوجوانوں میں محمد عامر نے متاثر کیا۔ سرفرار نواز کو ریورس سوئنگ کاموجد مانتے ہیں اور یاد کرتے ہیں، اس وقت کو جب ایک بارگیند چمکانے پر انھیں سرفراز سے ڈانٹ سننی پڑی تھی۔ کرکٹروں میں انتخاب عالم سے زیادہ دوستی ہے۔ مبصرین میں جان آرلٹ اور عمر قریشی کی آراء کے قدردان رہے۔ امپائروں میں ٹام سپنسر اچھے لگے۔ آصف مسعود نے 23 جنوری 1946ء کو موچی دروازہ لاہور میں سید لال شاہ بخاری کے ہاں آنکھ کھولی جو محکمہ آبپاشی میں سینئر ریسرچ آفیسر تھے۔
بچوں کو قرآن پاک کا درس دینے والی اپنی والدہ کو آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہیں، جو ان کے خیال میں سچی عاشق رسولؐ تھیں۔ ایک بہن اور چار بھائیوں میں دوسرے نمبر پر آصف مسعود کی شادی 1976ء میں ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ زندگی سے وہ مطمئن ہیں۔ کسی بات پر افسوس نہیں کہ گزرا کل ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتا۔ 85ء میں پی آئی اے سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مختلف کاروبار کرتے رہے لیکن کچھ عرصے سے ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت نمازیں پڑھنے اور اسپورٹس چینل دیکھنے میں گزرتا ہے۔ آصف مسعود کے بقول، موجودہ پاکستان ٹیم اچھی ہے لیکن لگتا ہے کہ کھلاڑیوں میں ملک کے لیے کھیلنے کا جذبہ سرد پڑ گیا ہے۔