سوشل میڈیا ’لائیکس‘ میں ڈوبتی خوداعتمادی

لائیک بٹن اتنا مؤثر بن گیا ہے کہ یہ کسی کی حرکت یا عمل کو فروغ دینے یا بگاڑ میں بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے

اپنی خوداعتمادی کو صرف لائیکس کی تعداد کا محتاج کر دینا اپنی ذات کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے جس کا لاشعوری طور پر ہم سب نشانہ بن رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک انتہائی اہم موضوع پر ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ تحریر میں لکھاری نے مرد اور عورت کی فطرت پر کمال کا فلسفہ بیان کیا تھا۔ تحریر پڑھتے پڑھتے میں کئی بار گہری سوچوں میں ڈوبی، کئی بار رُک کر بات کو پوری طرح سے سمجھنے کی کوشش کی۔ لیکن میرے افسوس میں تب بے حد اضافہ ہوا جب اس پوسٹ پر ایک بھی لائیک نہ تھا۔ کیونکہ آج کل کسی کی بات میں کتنا وزن ہے؟ اس کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی بات کو سننے یا سمجھنے کے بجائے بس اس کے لائیکس کی تعداد کو دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے۔

کسی بھی سوشل میڈیا پوسٹ پر جتنی زیادہ تعداد میں لائیکس ہوگئے، پوسٹ کا اثر و رسوخ اتنا ہی زیادہ بڑھے گا۔ تبھی میں نے لائیکس کے پیچھے چھپے فلسفے کو جاننے کی کوشش کی اور سوچا کچھ ان لوگوں کے بارے میں بھی لکھوں جن کی پوسٹس تو کمال کی ہوتی ہیں لیکن لائیکس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بہترین پوسٹ کی credibility سوشل میڈیا پر شاید صفر ہوجاتی ہے، لیکن اصل دنیا میں ان کی تخلیقی سوچ کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔

لائیکس کا رحجان اکثر اپنے سے منسلک پوسٹ سیلفی، کھانے کی تصویرں، فیملی فن یا کسی ذاتی تخلیق کیے ہوئے اسٹیٹس پر ہی زیادہ دیکھنے کو آیا ہے اور دوسروں کی شیئر کی گئی پوسٹ پر اس کی تعداد سے لوگوں کو کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کےلیے لائیک کا بٹن مثبت ردعمل سے زیادہ بن کر رہ گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جنتے لائیکس آپ حاصل کریں گے، اتنا ہی آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کو لوگوں کی طرف سے پیار اور توجہ دی جارہی ہے، آپ کی سوچ اور بہترین زندگی کو سراہا جارہا ہے۔

بشریات داں کرسٹل ڈی کوسٹا (Krystal D'Costa) کے مطابق لائیک بٹن ایک آلے کے طور پر اتنا مؤثر بن گیا ہے کہ یہ کسی کی حرکت یا عمل کو فروغ دینے یا بگاڑ میں بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لائیکس سائنسی طور پر ہمارے دماغ میں مثبت آخذوں (positive receptors) کو فعال کرنے کےلیے بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پوسٹ کرکے لوگ لائیکس کے انتظار میں ہوتے ہیں اور بار بار پوسٹ پر ہونے والے لائیکس کے نمبروں کو چیک کرتے رہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کا یہ رویہ بالکل نارمل ہے کیونکہ اگر پوسٹ پر لائیکس آتے ہیں تو لوگوں کے اندر بالکل ایسی خوشی پیدا کرتے ہیں جو خوشی چاکلیٹ کھا کر یا کوئی پیسے جیت کر حاصل ہوتی ہے۔ اسی نارمل رویّے کے پیش نظر طبیعت میں جیسے زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنے کی خواہش رہتی ہے، اسی طرح مزید لائیکس کی طلب بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔


یہ لائیکس بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں کہ کسی کو ملنے پر آئے تو چھپڑ پھاڑ کر ملے۔ اس لیے ان لوگوں میں خود اعتمادی دیکھنے میں آئی ہے جنہیں پوسٹ پر بے شمار لائیکس وصول ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ خطرناک صورت تب اختیار کرنے لگتا ہے جب کسی پوسٹ پر لائیکس بالکل وصول نہیں ہوتے یا پھر توقعات سے بہت کم آتے ہیں۔ ایسے میں زیادہ تر لوگوں کا رویہ کچھ یوں دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ کوئی دوسری پوسٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اگر پھر بھی کوئی اچھا رسپانس نہیں آتا تو پوسٹ ڈیلیٹ کردی جاتی ہے یا پھر اس پر مزید خیالات کا اظہار کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس رویّے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مستقل ایسا کرتے رہنے سے لوگ خود اعتمادی سے محروم ہوسکتے ہیں اور خود کے خلاف منفی رویہ رکھنا شروع کردیتے ہیں، جیسے وہ اپنے آپ سے یا اپنے ہی خیالات سے خود کو مطمئن محسوس نہیں کرتے۔

اس لائیک بٹن کے پیچھے جو انسانی نفسیات کام کرتی ہے، اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ انہیں اپنی عزتِ نفس (self esteem) سب سے پہلے عزیز ہونی چاہیے اور جہاں انہیں اس پر دھچکے لگتے محسوس ہوں تو بجائے اس پر منفی سوچ کو پروان چڑھانے کے، اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا کی یہ زندگی صرف شارٹ ٹائم ہیرو بننے کے علاوہ اور کچھ بھی تو نہیں۔ ایک پوسٹ کا دورانیہ مشکل سے چند گھنٹے سے ایک دن کا ہوتا ہے، پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کا سا معاملہ بن جاتا ہے۔ کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ فلاں دن آپ کی کی پوسٹ پر کتنوں کے لائیکس وصول ہوئے تھے لیکن آپ کی نفسیات دوسروں کے لائیکس سے موازنہ مسلسل کررہی ہوتی ہے اور یہی خوداعتمادی کو کم کرنے کا سب سے بڑا مؤجب بنتی ہے۔

اپنے بارے میں منفی رویّے رکھنے کے بجائے اپنی سوچ میں اعتماد کو بحال کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ منفی رویّے مستقبل میں ملک کی ترقی کو بہت متاثر کر سکتے ہیں اور نئی نسل میں ایسی سوچ کے پروان چڑھنے سے رہنماؤں اور لیڈروں کی تعداد میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اپنی خوداعتمادی کو صرف لائیکس کی تعداد کا محتاج کر دینا اپنی ذات کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے جس کا لاشعوری طور پر ہم سب نشانہ بن رہے ہیں۔ آج ہمیں اپنے آپ سے خوش اور مطمئن رہنے کےلیے ان لائیکس کی قید سے آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔ اپنی خود اعتمادی کو بحال کیجیے، یہ جان کر کہ آپ اپنے لیے انمول ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story