جنسی ہراسانی اور MeToo تحریک
جنسی ہراسانی جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کےلیے ہمارے ملک میں بھی ’’می ٹو‘‘ جیسی تحریک کی اشد ضرورت ہے۔
ایک ماہ قبل امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے ''می ٹوِ'' کے ہیش ٹیگ سے ٹوئیٹ کیا تھا کہ جنسی حملے اور ہراسانی کا شکار خواتین اس ٹوئیٹ کو ری ٹوئیٹ کریں تا کہ لوگ اس مسئلے کی شدت کو سمجھ سکیں۔ ہوا کیا کہ چوبیس گھنٹوں میں مختلف ممالک سے ٹوئیٹر کے تقریباً پانچ لاکھ خواتین صارفین نے ''می ٹو'' والے ٹوئیٹ کو ریٹوئیٹ کر کہ ساری دنیا کو جنسی ہراسانی کے مسئلے سے متوجہ کیا کہ ہم بھی ہراسانی کا شکار ہوئے ہیں۔ کچھ گھنٹوں میں ہی "می ٹو" ٹوئیٹ ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگا اور اس طرح ٹوئیٹ کے ذریعے ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے سے ''می ٹو'' تحریک بن گئی۔
حال ہی میں امریکہ کے معروف شہر لاس اینجلس میں سینکڑوں افراد نے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ''می ٹو'' تحریک سے متاثر ہو کر جنسی ہراسانی کے متاثرین کی حمایت میں جلوس نکالا ہے۔ سوشل میڈیا پر ''می ٹو'' کا ہیش ٹیگ سب سے پہلے ترانا برکے نے استعمال کیا تھا جس کو ہاروی وائن اسٹین کے خلاف اٹھنے والے شور میں اداکارہ الیسا میلانو نے مقبول بنایا۔
دراصل ''می ٹو'' تحریک ہالی وڈ کے معروف فلمساز ہاروی وائن اسٹین کے اسکینڈل کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ہالی وڈ کی کئی اداکاراؤں نے وائن اسٹین پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے۔ ان کے اوپر الزام لگانے والی اداکاراؤں میں اینجلینا جولی، ہیدر گراہم اور کارا دیلی سمیت کئی معروف اداکارائیں بھی شامل ہیں۔
ہالی وڈ کے معروف فلمساز ہاروی وائن اسٹین کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد امریکہ کی فلمی اور ٹی وی صنعت میں کئی معروف شخصیتوں کے خلاف بھی ایسے الزامات سامنے آئے ہیں۔
دیکھا جائے تو جنسی ہراسانی کے واقعات محض ہالی ووڈ تک محدود نہیں۔ دنیا کے ہر ملک، ہر شہر اور ہر قصبے میں ایسے واقعات معمول کی بات ہے۔ اگر مردانگی کے جزبات دو منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ کر اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ چاہے پانچ سالہ بچی ہو یا نوجوان لڑکی، یا پھر عمر رسیدہ خواتین ہی کیوں نہ ہوں، ہمارے معاشرے میں مردوں کی نظریں ان پر ٹکی ہوتی ہیں، ہر گھڑی موقعے کے منتظر گندے لوگ موقع ملتے ہی اپنے وحشی پن اور درندگی کا مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ کو اس بات پر یقین نا آئے تو روزانہ کے اخبارات اٹھاکے دیکھیے، معلوم ہو جائے گا کہ اس قسم کے واقعات کتنی بڑی تعداد میں ہوتے رہتے ہیں۔
یہاں تعلیمی ادارے ہوں یا پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے دفاتر، آپ کو ہر جگہ ایسے ہاروے وائن اسٹین ملیں گے جو اپنی شخصیت اور عہدے کو استعمال کرکے معصوم خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنے کی خبریں آئے روز رپورٹ ہوتی ہیں، چاہے پنجاب ہو یا کوئی اور صوبہ، جنسی حملے اور ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی خبر حال ہی میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے بھی رپورٹ ہوئی ہے کہ اساتذہ طالبات کو امتحان میں پاس کرنے کے لیے جنسی ہراساں کر رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتیں کے ساتھ مردوں کا مختلف برتاؤ دیکھنا ہو تو ان گنت مثالیں سامنے آجائیں گی۔ جیسے کہ ملالہ یوسف زئی، قندیل بلوچ، عائشہ گلالئی اور ماہرہ خان کی مثالیں پیش پیش ہیں۔
یہ تو صرف موضوع بحث مثالیں ہیں، عمومی طور پر کسی بھی مردِ مجاہد سے خواتین کے بارے میں رائے سنیں گے تو دماغ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ خواتین سے متعلق ان کی رائے سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذہب صرف اسی ملک کے لیے ہی ہے۔
ہمارے ملک میں مذہب کو عام اور خاص فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ہم جیسے عام لوگوں کے سامنے موجود ہیں۔ سلمان تاثیر کا قتل کون بھولا ہوگا؟ مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والا واقعہ کس کو یاد نہ ہوگا؟ کوئی کیسے بھول سکتا ہے ضمیر کو جنجھوڑنے والا بھورو بھیل کا واقعہ! سندھ کے اندر نام نہاد غیرت کے نام پر عورتوں کا ہونے والا قتل عام کس کی آنکھوں سے اور کیسے اوجھل ہوگا؟
ہمارے یہاں اس قسم کے ہونے والے واقعات معاشرے میں رائج پدرشاہی نظام کے نتائج ہیں۔ عجیب قسم کی منطق ہے کہ عورت کو انسان کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اشرف المخلوقات محض مرد حضرات ہی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر مذہبی حوالے سے خواتین کے بارے میں ان لوگوں کے خیالات پر دلائل سے بحث کرو گے تو آپ کے اوپر توہین کا الزام لگا دیا جائے گا۔ کیونکہ یہاں پر فتوے دینے میں کوئی دیر ہی نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں مختلف ٹھپے بنے ہوئے ہیں، غدار کا ٹھپا، کافر کا ٹھپا تو کوئی اور ٹھپا۔ یعنی کہ کسی کی بات صحیح نہ لگے تو لگا ٹھپا، پھر بیٹھ کر تماشا دیکھیے کہ ہوتا ہے کیا۔
ہمارے معاشرے میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جب بھی کسی عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے یا انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار عورت کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملوث ملزم باآسانی آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات معمول کے مطابق ہوتے رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب عورت کے بارے میں اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔ ہمیں عورت کو یہ بتانا بند کرنا ہوگا کہ "چپ رہو، صبر سے کام لو، معاملے کو نظرانداز کرو تو اسی میں تمہاری اور تمہارے خاندان کی بہتری اور عزت ہے۔ ہمیں تو انہیں یہ حوصلہ دینا چاہیے کہ ''ظلم اور جبر کے خلاف اٹھو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔''
جب تک ہم اس قسم کا ماحول پیدا نہیں کریں گے، جنسی ہراسانی جیسے سنگین مسائل ختم نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہم سبھی کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کےلیے ہمارے ملک میں بھی ''می ٹو'' جیسی تحریک کی اشد ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
حال ہی میں امریکہ کے معروف شہر لاس اینجلس میں سینکڑوں افراد نے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ''می ٹو'' تحریک سے متاثر ہو کر جنسی ہراسانی کے متاثرین کی حمایت میں جلوس نکالا ہے۔ سوشل میڈیا پر ''می ٹو'' کا ہیش ٹیگ سب سے پہلے ترانا برکے نے استعمال کیا تھا جس کو ہاروی وائن اسٹین کے خلاف اٹھنے والے شور میں اداکارہ الیسا میلانو نے مقبول بنایا۔
دراصل ''می ٹو'' تحریک ہالی وڈ کے معروف فلمساز ہاروی وائن اسٹین کے اسکینڈل کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ہالی وڈ کی کئی اداکاراؤں نے وائن اسٹین پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے۔ ان کے اوپر الزام لگانے والی اداکاراؤں میں اینجلینا جولی، ہیدر گراہم اور کارا دیلی سمیت کئی معروف اداکارائیں بھی شامل ہیں۔
ہالی وڈ کے معروف فلمساز ہاروی وائن اسٹین کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد امریکہ کی فلمی اور ٹی وی صنعت میں کئی معروف شخصیتوں کے خلاف بھی ایسے الزامات سامنے آئے ہیں۔
دیکھا جائے تو جنسی ہراسانی کے واقعات محض ہالی ووڈ تک محدود نہیں۔ دنیا کے ہر ملک، ہر شہر اور ہر قصبے میں ایسے واقعات معمول کی بات ہے۔ اگر مردانگی کے جزبات دو منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ کر اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ چاہے پانچ سالہ بچی ہو یا نوجوان لڑکی، یا پھر عمر رسیدہ خواتین ہی کیوں نہ ہوں، ہمارے معاشرے میں مردوں کی نظریں ان پر ٹکی ہوتی ہیں، ہر گھڑی موقعے کے منتظر گندے لوگ موقع ملتے ہی اپنے وحشی پن اور درندگی کا مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ کو اس بات پر یقین نا آئے تو روزانہ کے اخبارات اٹھاکے دیکھیے، معلوم ہو جائے گا کہ اس قسم کے واقعات کتنی بڑی تعداد میں ہوتے رہتے ہیں۔
یہاں تعلیمی ادارے ہوں یا پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے دفاتر، آپ کو ہر جگہ ایسے ہاروے وائن اسٹین ملیں گے جو اپنی شخصیت اور عہدے کو استعمال کرکے معصوم خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنے کی خبریں آئے روز رپورٹ ہوتی ہیں، چاہے پنجاب ہو یا کوئی اور صوبہ، جنسی حملے اور ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی خبر حال ہی میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے بھی رپورٹ ہوئی ہے کہ اساتذہ طالبات کو امتحان میں پاس کرنے کے لیے جنسی ہراساں کر رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتیں کے ساتھ مردوں کا مختلف برتاؤ دیکھنا ہو تو ان گنت مثالیں سامنے آجائیں گی۔ جیسے کہ ملالہ یوسف زئی، قندیل بلوچ، عائشہ گلالئی اور ماہرہ خان کی مثالیں پیش پیش ہیں۔
یہ تو صرف موضوع بحث مثالیں ہیں، عمومی طور پر کسی بھی مردِ مجاہد سے خواتین کے بارے میں رائے سنیں گے تو دماغ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ خواتین سے متعلق ان کی رائے سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذہب صرف اسی ملک کے لیے ہی ہے۔
ہمارے ملک میں مذہب کو عام اور خاص فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ہم جیسے عام لوگوں کے سامنے موجود ہیں۔ سلمان تاثیر کا قتل کون بھولا ہوگا؟ مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والا واقعہ کس کو یاد نہ ہوگا؟ کوئی کیسے بھول سکتا ہے ضمیر کو جنجھوڑنے والا بھورو بھیل کا واقعہ! سندھ کے اندر نام نہاد غیرت کے نام پر عورتوں کا ہونے والا قتل عام کس کی آنکھوں سے اور کیسے اوجھل ہوگا؟
ہمارے یہاں اس قسم کے ہونے والے واقعات معاشرے میں رائج پدرشاہی نظام کے نتائج ہیں۔ عجیب قسم کی منطق ہے کہ عورت کو انسان کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اشرف المخلوقات محض مرد حضرات ہی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر مذہبی حوالے سے خواتین کے بارے میں ان لوگوں کے خیالات پر دلائل سے بحث کرو گے تو آپ کے اوپر توہین کا الزام لگا دیا جائے گا۔ کیونکہ یہاں پر فتوے دینے میں کوئی دیر ہی نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں مختلف ٹھپے بنے ہوئے ہیں، غدار کا ٹھپا، کافر کا ٹھپا تو کوئی اور ٹھپا۔ یعنی کہ کسی کی بات صحیح نہ لگے تو لگا ٹھپا، پھر بیٹھ کر تماشا دیکھیے کہ ہوتا ہے کیا۔
ہمارے معاشرے میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جب بھی کسی عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے یا انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار عورت کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملوث ملزم باآسانی آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات معمول کے مطابق ہوتے رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب عورت کے بارے میں اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔ ہمیں عورت کو یہ بتانا بند کرنا ہوگا کہ "چپ رہو، صبر سے کام لو، معاملے کو نظرانداز کرو تو اسی میں تمہاری اور تمہارے خاندان کی بہتری اور عزت ہے۔ ہمیں تو انہیں یہ حوصلہ دینا چاہیے کہ ''ظلم اور جبر کے خلاف اٹھو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔''
جب تک ہم اس قسم کا ماحول پیدا نہیں کریں گے، جنسی ہراسانی جیسے سنگین مسائل ختم نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہم سبھی کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کےلیے ہمارے ملک میں بھی ''می ٹو'' جیسی تحریک کی اشد ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔