اصولی سیاست تک پہنچنے کا راستہ…

پارلیمانی جمہوریت میں کیونکہ حکومت سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اندر سیاسی جماعت کی عددی برتری کا ہونا از حد ضروری ہوتا ہے


Nasir Alauddin Mehmood March 13, 2013

16 مارچ کو موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کر لے گی اور اس کی جگہ عبوری مدت کے لیے ایک نگراں حکومت قائم کر دی جائے گی جو اپنی آئینی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے مقررہ وقت میں شفاف و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن بنائے گی اور عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والے ارکان کو اقتدار منتقل کر دے گی۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ملک میں سیاسی سرگرمیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مرحلے پر الیکشن میں منتخب ہونے کی اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی آمد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آخر وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے ملک میں نئی روایت قائم کرتے ہوئے اصولی سیاست کی اور کچھ اصول بھی وضع کیے تھے انھیں اب اس آخری مرحلے پر اپنے اصولی مؤقف کو ترک کر کے ہر قسم کے افراد کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ ایک رائے کے مطابق ایسی جماعتوں کی عوامی پذیرائی میں اضافہ بھی محض اصولی سیاست، منفرد انداز فکر اختیار کرنے کے نتیجے میں ہوا تھا جسے ترک کرنے سے ان کی مقبولیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ اصولی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو روایتی انداز کی سیاست کرنے سے فائدہ ہو گا یا نقصان، تاہم، یہ نکتہ بڑا اہم ہے کہ ماضی میں آئین میں منظور کی گئی 14 ویں ترمیم اور موجودہ دور حکومت میں منظور کی گئیں آئینی ترامیم کے بعد جب منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے تو انھیں اپنی جماعت سے وفادار رہنا ہو گا اور وہ اپنی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد ہی دوسری جماعت میں شامل ہو سکیں گے۔

بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بظاہر اس طرح کا روایتی انداز اختیار کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ پارلیمانی طرز نظام میں پارلیمنٹ کے اندر محض حکومت سازی کے لیے ہی نہیں بلکہ قانون سازی کے لیے بھی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے اور آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ان جماعتوں کے قائدین اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ملک میں حقیقی اور انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کے لیے ان کی جماعتوں کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے بعد ہی تو وہ ملک میں اپنی منشا کے مطابق پالیسیاں ترتیب دے کر اس کے نتائج حاصل کر سکیں گے۔بے اصولی کا طعنہ دینے سے قبل ہمیں اس انتہائی اہم اور توجہ طلب پہلو کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ اصولی سیاست کا عزم رکھنے والی سیاسی جماعتیں کیا اپنی پارٹی کی بنیادی پالیسیوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کا کوئی عندیہ دے کر امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کر رہی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس صورتحال کو ایک مختلف تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

ہمارے ملک میں جہاں کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہی علاقوں پر مبنی ہے اور ملک کی کل آبادی کا محض 30 فیصد شہری علاقوں میں آباد ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے نسبتاً زیادہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جب کہ دیہی علاقوں کے عوام زیادہ تر اپنے علاقوں کی برادریوں، سرداروں اور وڈیروں کے زیر اثر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علاقے کا با اثر ترین سیاستدان جس جماعت میں شامل ہوتا ہے اس حلقے کے عوام اس ہی جماعت کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ چونکہ گزشتہ 65 برسوں میں سیاسی عمل کا تسلسل قائم نہیں رہا لہٰذا اس مخصوص صورتحال کے اثرات بھی زیادہ کم نہیں ہو سکے ہیں۔

پارلیمانی جمہوریت میں کیونکہ حکومت سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اندر سیاسی جماعت کی عددی برتری کا ہونا از حد ضروری ہوتا ہے لہٰذا عام حالات میں اصولی سیاست کا عزم رکھنے والی سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقعے پر اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر امیداروں کے انتخاب میں روایتی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال زیادہ خوش کن نہیں ہے۔ آج کے حالات میں یہ خوش آیند امر ہے کہ انتخابات میں کامیاب ہونے کی اہلیت رکھنے والے افراد نئی اور چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ہی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

اس رجحان کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں جو پارلیمنٹ میں طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں اور حکومت سازی کے آخری مراحل میں فیصلہ کن حیثیت دلوانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان کی بلیک میلنگ اور منفی کردار کو ختم کیا جا سکے گا۔ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہ یا جماعتیں حکومت سازی کی اہلیت کی بناء پر اپنی شرائط پر اس جماعت سے اتحاد کرتی ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اتنا دبائو ڈالتی ہیں کہ اتحادی حکومت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اصولی سیاست کے چکر میں چونکہ پارلیمنٹ میں فیصلہ کن برتری حاصل نہیں کر پاتیں لہٰذا ان کی اصولی سیاست دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گروپس حکومت کا حصہ بن کر زیادہ فائدے میں رہتے ہیں اور سب سے بڑی اتحادی جماعت اپنے منشور پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہتی ہے۔ اس صورتحال کی بدترین مثال موجودہ اتحادی حکومت کا تجربہ ہے۔ اس زمینی حقائق کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انتخابات کے موقعے پر منتخب ہونے کی اہلیت رکھنے والے افراد کو بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ تھوڑی سی عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے اور مستقبل میں ایک مستقل درد سری سے بچا جا سکے۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ اصولی سیاست تک پہنچنے کا راستہ روایتی سیاست کے درمیان سے ہو کر گزرتا ہے۔

سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات میں کامیابی اور بعد ازاں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اصولی سیاست کرنے والی جماعتیں اور ان کے قائدین اپنے طرز حکمرانی اور انداز فکر میں کیا تبدیلی لاتے ہیں۔ اگر وہ اپنے انتخابی منشور پر عمل کریں گے، معیشت کو مضبوط و مستحکم بنائیں گے، مہنگائی، بے روزگاری کو کم کرتے ہوئے تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے منصوبوں پر بھرپور سرمایہ کاری اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کریں گے۔ نیز امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے تو لوگ اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ ایک مستحکم جمہوری حکومت کے قیام کی خاطر بعض لوگوں کی پارٹی میں شمولیت کو نہ روکنا ان کی کوئی بڑی غلطی یا زیادہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ ایسا نہ ہوا تو لوگوں کا سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔