اللہ تیرا شکر ہے

تو یہ سب سن کر ہمیں بے حد دکھ ہوا اور اسی دن سے ہمیں اس سے گہری دلی ہمدردی ہو گئی تھی۔


سائرہ اکبر March 13, 2013

ہم نے پہلے حیرت سے اپنے گھر کام کرنے والی کو دیکھا جو ہمارے یہاں کئی برسوں سے کام کر رہی ہے اور پھر اس کے ساتھ آنے والی اس نحیف و نزار لڑکی کو جو اپنے پیروں پر بڑی مشکل سے کھڑی تھی، سانولی رنگت، چہرے پر عجیب طرح کی کرختگی اور تناؤ، غرض اس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو کسی انسان کو اس کی جانب متوجہ کرتی، سوائے اس کی آواز کے جو سننے میں کانوں کو بھلی لگتی تھی، اسے اپنے ہاں صفائی ستھرائی یا پھر کسی اور کام کے لیے رکھ لو، یہ بے حد ضرورت مند ہے، جس پر ہم نے ایک مرتبہ پھر پختہ عمر مہترانی کو دیکھا اور پھر کہا گھر والوں سے مشورہ کر کے بتائیں گے۔

اس سے قبل اسی کمزور و دبلی پتلی لڑکی کو ہم نے کچھ عرصہ قبل اس مہترانی کی بیٹی کے ساتھ اس وقت دیکھا تھا جو اپنی ماں کی عدم موجودگی میں کئی دنوں تک تسلسل کے ساتھ آتی رہی تھی تو اس کے ہمراہ یہ بھی ہوتی تھی تو اس وقت اس نے بھی اپنی ماں کی طرح اسے کسی کام پر رکھنے کا کہا تھا، جس پر ہم نے کہا تھا کہ کوئی کام ہو گا تو ضرور بتا دیں گے تو ان ہی دنوں ایک دن کام کے دوران نہ جانے مہترانی کی بیٹی نے ایسا کیا کہا جسے سن کر یہی لاغر سی لڑکی زار و قطار رونے لگی تھی جس کے بعد اسے چپ کرانا مشکل ہو گیا تھا تو یہ دیکھ کر مہترانی کی بیٹی نے پہلے اسے تسلی تشفی دی پھر ہمیں دیکھ کر کہنے لگی باجی! یہ بہت بدنصیب ہے اس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا، اس کے دو بچے تھے دونوں ہی بدقسمتی سے فوت ہو گئے۔

تو یہ سب سن کر ہمیں بے حد دکھ ہوا اور اسی دن سے ہمیں اس سے گہری دلی ہمدردی ہو گئی تھی جس کے بعد پھر اس نے اس دن کے بعد سے آنا کم کر دیا اور پھر ہم بھی کچھ دن بعد اسے بھول گئے کہ ایک روز پھر جب ہمارے یہاں صفائی ستھرائی کرنے والی کی ضرورت پڑی تو اس مہترانی نے اسی کمزور و سانولی سی لڑکی کو بھیج دیا تو اسے دیکھ کر جس نے اپنا نام نمو (نورین) بتایا تھا ہم نے حیرانی سے کہا کہ تم بھلا اتنی صفائی ستھرائی والا کام کیسے کرو گی کیونکہ پاؤں میں نقص کی وجہ سے وہ صحیح سے چل بھی نہیں سکتی تھی اس بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ گاؤں میں کام کرتے وقت گر گئی تھی اسی وقت سے اس کے پیر میں نقص ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ بے حد ضرورت مند تھی لہٰذا ہر حال میں یہ کام حاصل کرنا چاہتی تھی جس پر گھر کے دیگر افراد کے ساتھ مشورے کے بعد اسے کام پر رکھ لیا گیا جس کے بعد سے یوں لگا جیسے ہماری ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ وہ پیر کی معذوری کی وجہ سے کسی کی مدد کے بغیر کوئی بھی کام بہتر طور پر اور مقررہ وقت پر نہیں کر پا رہی تھی یوں ہمیں لگا کہ اس کے آنے سے ہمارے کام کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔

بہر طور کیونکہ اسے رکھا جا چکا تھا لہٰذا صبح سے دوپہر تک ہم اپنے کاموں کے ساتھ ساتھ الٹا اس کا ہاتھ بھی بٹانے لگے تو دن کا آدھا حصہ اس کے ساتھ گزرانے کے سبب ہمیں اس کے حوالے سے مزید جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ہماری مہترانی نے بالکل صحیح کہا تھا کہ یہ حالات کی ستائی ہوئی وہ مظلوم عورت ہے جو اپنے ہی لوگوں کے درمیان ایک بوجھ بن کر رہ رہی ہے جس کا وجود ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں اور اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ اپنے ہی گھر (میکے میں) اسے دو وقت کھانے کو مشکل سے ملتا تھا اور اسے کہا گیا تھا کہ جب باہر سے کما کر لاؤ گی تو ہی تمہیں دال روٹی میسر آئے گی۔

سخت سردی کے باوجود اسے کھلی اور ہوا دار جگہ پر سلایا جاتا تھا، شدید بیماری کی حالت میں اسے کوئی دو گھونٹ پانی پلانے کا روادار نہیں تھا، انتہائی سخت سردی کے دنوں میں اس کے جسم پر ہلکے اور بوسیدہ کپڑے ہوتے تھے، جس کے باعث ناتواں جسم مختلف بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا تھا اسی حوالے سے ایک بات ہمارے ذہن سے محو ہو گئی تھی کہ اس کی کمر میں بھی مختلف بیماریوں کے سبب نقص پیدا ہو چکا تھا جس کے باعث اسے اٹھنے بیٹھنے میں بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا وہ مذہباً غیر مسلم تھی، کام کے دوران اکثر اپنے گاؤں (سسرال) اور شوہر کو یاد کرتی رہتی تھی، وہ بتاتی تھی کہ وہ بے حد خدمت گزار بیوی، بہو اور بھابھی تھی، اس نے حتیٰ المقدور سارے گھر والوں کی خدمتیں کیں۔

نمو کا کہنا تھا کہ اس کے رہتے وہ خاندان کبھی نہ بکھرا اور نہ ہی کوئی ایک شخص کبھی دوسرے سے جدا ہوا، اگر کوئی کسی بات پر روٹھ جاتا یا ناراض ہو جاتا تو یہ فوراً اپنے حسن اخلاق سے اسے منا کر دوبارہ اس گھر میں لے آتی، پر ان سب کے باوجود وہاں (سسرال میں) کسی نے اس کے ان انمول جذبوں کی قدر نہیں کی اور اسے ان ساری ریاضتوں و قربانیوں کا یہ صلہ ملا کہ اس کا شوہر اسے ایک دن گاڑی میں بٹھا کر شہر لے آیا اور پھر اس نے مڑ کر اس کی خبر نہیں لی کہ وہ زندہ بھی ہے یا مر گئی، تو وہ ان تمام تر محرومیوں اور زندگی میں حاصل کردہ ناکامیوں کے باوجود ...وہ بات بات پر مثال کے طور پر پانی کا گلاس میسر آ جانے پر پیٹ بھر کھانا کھانے یا گھر کا کوئی بھی کام مکمل ہو جانے پر اپنے ربّ کا شکر ادا کرتی ہے، جسے پہلی بار ہم نے اس وقت سنا جب وہ کسی کام کی غرض سے ہمارے نزدیک ہی بیٹھی تھی تو کام ختم ہونے پر بڑی عاجزی و انکساری سے بولی تھی ''اللہ تیرا شکر ہے''۔

تو یہ سن کر ہمیں شدید جھٹکا سا لگا، جس کے بعد پھر ہم نے اسے متعدد بار اپنے اللہ کا شکر ادا کرتے دیکھا۔ تو یہ سن کر بے اختیار ہمارے دل میں خیال آیا جس کے باعث ہم پر شرمندگی غالب آتی چلی گئی کہ ہم جو کچھ عرصے سے ایک مسئلے کی وجہ سے شدید ذہنی و قلبی الجھن کا شکار تھے اور ہمیں یوں لگتا تھا جیسے اس مسئلے نے ہمیں اپنے شکنجے میں کچھ اس طرح جکڑ لیا ہے کہ جس کے باعث ہمیں کبھی کبھی سانس تک لینا محال لگتا تھا، دن رات اسی حوالے سے سوچ سوچ کر ہمارا دل و دماغ شل ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے پژمردگی و یاسیت پوری طرح ہم پر طاری ہونے لگی تھی جس کے باعث ہم کبھی کبھی یہ سوچتے تھے کہ یہ گھاؤ وہ ناسور ہے جو کبھی مندمل نہیں ہو گا اور اس کی ٹیسیں ہمیں ہمیشہ بے چین و بے قرار رکھیں گی۔

مگر اس روز پہلی مرتبہ اس مفلوک الحال، لاچار اور بے بس عورت کے منہ سے یہ لفظ ''اللہ تیرا شکر ہے'' سن کر ہم جیسے چشم زدن میں ہوش کی دنیا میں آ گئے اور ساتھ ہی بے حد ندامت سے سوچنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار آسائشیں اور نعمتیں عطا کی ہیں، ماشاء اللہ زندگی آسودگی کے سائے میں بسر ہو رہی ہے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود زندگی میں آنے والی چند رکاوٹوں و مسائل کے باعث ہم نے خود کو اس قدر ہلکان کر رکھا ہے کہ ہمیں اپنے ربّ کی عطا کردہ بیش بہا نعمتیں نظر نہیں آتیں، جس کی بناء پر خدانخواستہ ہم اپنے اس عمل سے کہیں اس کے ناشکرے بندوں میں تو شمار نہیں ہو رہے، تو زندگی میں پہلی بار ہم اس رخ پر نمو کی وجہ سے سوچنے پر مجبور ہوئے تھے اور پھر اس کا اور اپنا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں شدت سے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہونے لگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں