امن کا قیام ناگزیر ہے
گزشتہ چند سال سے بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے آگ و خون کا الاؤ روشن ہے اب تک ہزاروں لوگ اس کا ایندھن بن چکے ہیں۔
بلاشبہ وطن عزیز میں امن و امان کا قیام سیاسی و عسکری قیادت، قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے گزشتہ کئی سال سے ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ بن کر رہ گیا ہے اور اس کی ڈور اس قدر الجھ چکی ہے کہ کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی اس گمبھیر مسئلے کے حل کی تمام کوششوں کا تادم تحریر کوئی قابل ذکر نتیجہ سامنے آیا ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی تا خیبر ایک آب خوں رواں ہے جس میں روزانہ درجنوں بیگناہ لوگ ڈوب جاتے ہیں، دہشتگردی کے عفریت نے پورے ملک کو بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے خونریز و دلخراش سانحات دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنتے جا رہے ہیں۔
بازاروں، سڑکوں، عبادت گاہوں، رہائشی عمارتوں، اہم و حساس عسکری و سول اداروں، ان کے اہلکاروں اور ملک کی اہم مذہبی، سیاسی و حکومتی شخصیات کو نشانہ بنانا دہشتگردوں کے لیے آسان بنتا جا رہا ہے بالخصوص کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں گزشتہ چند ماہ کے دوران تسلسل کے ساتھ ہونے والے بربریت اور دہشت گردی کے المناک خونی واقعات نے نہ صرف اہل وطن کو مغموم، دل گرفتہ اور سوگوار کر دیا ہے بلکہ ارباب اقتدار کی فکر مندی، اضطراب اور پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اگر ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پر جلد قابو نہ پایا گیا تو الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑ سکتا ہے ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچ سکتا ہے بالخصوص کراچی جو ملک کی معاشی شہ رگ اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا مصروف ترین صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔
گزشتہ چند سال سے بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے آگ و خون کا الاؤ روشن ہے اب تک ہزاروں لوگ اس کا ایندھن بن چکے ہیں۔ صبح و شام رقص ابلیس جاری ہے لہٰذا اس شہر بے اماں میں امن کا قیام ازبس ضروری ہے، صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کے پیش نظر صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شہر قائد میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے بعض ناگزیر اقدامات اٹھائے اور رینجرز و پولیس کو ''ٹارگٹیڈ آپریشن'' کرنے کے لیے ''فری ہینڈ'' دے دیا ہے۔ انھیں جدید ہتھیاروں و آلات سے بھی لیس کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ گورنر و وزیر اعلیٰ سندھ مذکورہ آپریشن کی از خود نگرانی کریں گے اور اگر ایک ہفتے میں صورت حال بہتر نہ ہوئی تو مزید سخت اقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
ادھر کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی کراچی میں جاری لاقانونیت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق شرکائے کانفرنس نے زور دیا ہے کہ شہر بدترین حالات کا شکار ہے اگر فوری قدم نہ اٹھایا گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ بعینہ عدالت عظمیٰ نے بھی کراچی بدامنی کیس میں شہر میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور رینجرز کی سخت سرزنش کی ہے۔ یہ ساری صورت حال اہل وطن کے لیے بلاشبہ لمحہ فکریہ ہے۔
امن و امان اور معاشی عدم توازن کے حوالے سے پاکستان آج جس بحرانی و ہیجانی کیفیت سے گزر رہا ہے اس کے اسباب و عوامل کی کڑیاں سابقہ دور آمریت میں تلاش کی جا سکتی ہیں جب کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے 9/22 کے سانحے کے بعد امریکی دباؤ اور دھمکیوں سے مرعوب ہو کر دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ملک میں امریکا مخالف مذہبی حلقوں میں انتشار پیدا ہوا، نفرتوں کی چنگاریاں بھڑکیں اور انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی کو فروغ حاصل ہوا، پھر طالبانائزیشن کے جنم نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور چند ہی سال میں پورا ملک خوفناک قسم کی بربریت کی لپیٹ میں آ گیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پاک فوج کے جوان ملک کے حساس قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کے عفریت کا پھن کچلنے کے لیے مستعدی سے مصروف عمل ہیں اب تک 5 ہزار سے زائد جوان شہید ہو چکے ہیں لیکن شرپسند عناصر کا تاحال کلی طور پر قلع قمع کرنا ممکن نہ ہو سکا بلکہ خودکش بمباروں کے گروہ ملک کے کونے کونے میں پھیلنے لگے ہیں بعض کالعدم انتہا پسند تنظیموں نے بھی اپنے نیٹ ورک کو پھر سے منظم کرنا شروع کر دیا ہے بالخصوص کراچی، کوئٹہ اور پشاور ان کا خاص ہدف ہیں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار دہشتگرد عناصر کی مذموم سرگرمیوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ نتیجتاً کراچی تا خیبر رقص ابلیس جاری ہے، آج قومی سلامتی اور عام آدمی کی جان و مال کے تحفظ کے سوال کا جواب تلاش کرنا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے وہیں اس جنگ کے شعلوں نے قومی معیشت کو بھی جھلسا دیا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق 7 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اب تک ہو چکا ہے جس سے قومی اقتصادی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، کمانڈو جنرل نے امریکی دباؤ کے آگے سر جھکایا اور ملکی امن و معیشت کو دلدل میں دھکیل دیا، جب کہ جمہوری صدر آصف علی زرداری نے شدید امریکی دباؤ مسترد کرتے ہوئے قومی معیشت کے استحکام کے لیے ایران سے گیس پائپ لائن کا جرأت مندانہ معاہدہ کیا یہی تو فرق ہوتا ہے آمریت اور جمہوریت میں ایک آمر جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتا ہے جب کہ سول حکمران جمہوریت کی آبیاری و پاسداری کرتے ہیں، ایک آمر سیاستدان کو تختہ دار پر لٹکاتا ہے جب کہ کسی سیاستدان سول حکمران نے آج تک کسی جنرل کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا۔
ایک آمر چیف جسٹس کو برطرف کر دیتا ہے جب کہ سیاستدان سول حکمراں معزول چیف جسٹس کو بحال کر دیتا ہے، ایک آمر ملک کے اہم ترین صنعتی ادارے پاکستان اسٹیل کو اونے پونے فروخت کر کے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کرنے کی سازش کرتا ہے لیکن سیاسی جماعت کے کارکن اور بھٹو کے سپاہی شمشاد قریشی بھٹو کی نشانی اسٹیل مل اور ہزاروں لوگوں کے روزگار کو بچانے میدان عمل میں نکل کر آمر کی سازش کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اب اسٹیل ملز تیزی سے بحالی کی سمت گامزن ہے ادارے کی سی بی اے کے چیئرمین اور ممبر بورڈ آف ڈائریکٹر شمشاد قریشی کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حکومت سے بیل آؤٹ پیکیج کی رقم ملنے پر اسٹیل ملز کی مالی پوزیشن بہتر اور خام مال کی درآمد شروع ہو گئی ہے جلد ہی اسٹیل ملز قومی معیشت میں فعال اور نفع بخش کردار ادا کرنا شروع کر دے گا۔