انتخابات اور اعلیٰ قیادت کا خواب
اب پھر انتخابی عمل انگڑائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔
پاکستان کے عوام و خواص کی اکثریت متفق ہے کہ پاکستان کی بقاء و استحکام کے لیے یہاں جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے۔ ایسا ہی اتفاق اب سے قریباً 5برس قبل اس وقت دیکھنے میں آ رہا تھا جب ملک میں عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تھا، دائیں بازو کے افراد ہوں یا بائیں بازو کے، مذہبی سیاسی قیادت، لبرل سیاسی قیادت، قریباً سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کو ایک اچھی قیادت میسر آئے گی، اگر دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہنے لگیں تب بھی گزشتہ پر آشوب اور آمرانہ دور سے بہتر دور ہو گا لیکن انتخابات کے نتیجے میں جو قیادت مسلط کردی گئی اس نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔
یہاں تک ہونے لگا کہ لوگ آمرانہ دور کو یاد کرنے پر مجبور ہو گئے جمہوریت اور انتخابات کے طلبگار انگشت بدنداں تھے کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا۔ جمہوریت آمریت سے بدتر کیسے ہو گئی۔ اب سے کئی سال پہلے ہی یہ مباحث شروع ہو گئے تھے کہ آمرانہ دور بہتر تھا، امیدوں کے برعکس جمہوریت کے بدترین نتائج سامنے آ رہے تھے۔ تاریخ نے اس جمہوریت کا مشاہدہ کیا جس میں عوام اپنی فلاح اور ترقی کو بھول گئے۔
لوگوں نے مہنگائی اور روزگار کا سوچنا چھوڑ دیا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی صدائیں کبھی کبھار ہی بلند ہوئیں، سب جانتے ہیں کہ ایسا اس لیے نہیں تھا کہ جمہوری آقاؤں نے جمہور تک یہ تما م چیزیں اپنے اور جمہوریت کے وعدے کے موافق مہیا کر دی تھیں۔ اصل بات یہ رہی کہ اس ملک کی عوام کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ اس تمام عرصے میں اس خطے میں وہ قتل و غارت گری ہوئی ہے، اتنے بم دھماکے ہوئے ہیں کہ خطے کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، لوگوں کو اپنی جان کی فکر لاحق رہی، وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ:
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
یوں جمہوریت نے وعدے کے مطابق لوگوں کو غم روزگار سے آزاد کر دیا۔
اب پھر انتخابی عمل انگڑائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ماسوائے ایک نہایت قلیل تعداد کے ملکی و غیرملکی قریباً تمام افراد کا اجماع ہے کہ پاکستانی عوام کی بھلائی اس میں مضمر ہے کہ یہاں انتخابات ہوں، شفاف انتخابات۔ جمہوریت عمل کا تسلسل اس ملک و قوم کی بقاء، استحکام اور ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں جو قیادت سامنے آئے گی وہ پاکستان کی تقدیر بدل دے گی وغیرہ۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانشور اس سوال پر توجہ دینے پر تیار نہیں ہیں کہ گزشتہ انتخابات کے نتائج اتنے بھیانک کیوں ظاہر ہوئے۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں اگر اعلیٰ قیادت ہی سامنے آنی چاہیے تو یہ واقعہ کبھی کہیں رونما کیوں نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ حقائق کبھی بھی خواہشات کے تابع نہیں ہوا کرتے۔ ایلوے کے درخت سے آم کا پھل ملے گا یہ خام خیالی ہے۔
دیگر کئی ممالک کی طرح ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے۔ کہنے کو تو یہ طرز حکومت عوام کے لیے ہوا کرتا ہے لیکن اصل میں یہ عوام کی خدمت سے زیادہ سرمائے کی خدمت کے لیے ہوتا ہے۔ عوامی بھلائی اور خدمت سرمائے کی خدمت کے مقصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ نہ کہ اصل اصول کے طور پر۔ دنیا کی ہر جمہوری حکومت میں ایسا ہی ہوتا ہے، سرمائے میں اضافہ ہی تمام ریاستی پالیسیوں کی اصل بنیاد ہوا کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی جمہوری حکومت کی کارکردگی معاشی پیمانوں سے جانچی جاتی ہے۔
مثلاً یہ کہ جی ڈی پی کتنا رہا، شرح نمو کیا تھی، افراط زر کس سطح پر تھا، غیرملکی سرمایہ کاری کتنی ہوئی، خود ہمارے ہاں غیرملکی کرنسی کے اثاثہ جات کتنے ہیں، وغیرہ۔ آپ دیکھیے تخت لاہور والے میٹرو بس کو اپنا بڑا کارنامہ ثابت کرتے ہیں، صرف اسی ایک منصوبے پر غور کر لیجیے۔ یہ کس مقصد کی تکمیل کے لیے ہے۔ کیا ان بسوں میں بیٹھنے سے لوگوں کے اخلاق و کردار میں سدھار آنے والا ہے؟ وہ روحانی ترقی کی منزلیں طے کریں گے؟ یا افراد کا پیسے کمانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آسان ہو جائے گا؟ اگر مقصد پیسہ ہی ہے تو یہ انسان کی خدمت تو نہیں ہوئی، یہ تو سرمائے کی خدمت کی گئی، اور آپ اسے ہی اپنے بڑے کارنامے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہتا، ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی جمہوری جدوجہد میں سرمائے کے اضافے کے اصول کو مان کر مساوی طور پر سرمائے کی خدمت میں جتی رہتی ہیں۔ گزشتہ انتخابی مواقعے کو سامنے لائیں، اب پھر ایک نیا انتخابی معرکہ برپا ہونے کو ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کے مقاصد اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقاصد سرمایہ دارانہ منشور پر ایک نظر آتے ہیں؟ مثلاً یہ کہ بے روزگاری ختم ہو، لوگوں کی آمدنی محفوظ ہو، ان کو ملازمت کا حق حاصل ہو، افراد کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے عمل میں شرکت کے مساوی مواقعے میسر ہوں وغیرہ۔ ایم ایم اے کی حکومت کو یاد کیجیے۔
سرمائے کی وہ کون سی خدمت ہے جو اس نے نہ کی ہو۔ کیا وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر استعمار کی آلہ کار نہیں بنی رہی؟ یاد کیجیے اس دور میں بھی صوبے کی معاشی پالیسیاں کس کے حوالے تھیں؟ کیا اس دور میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا اثر بلکہ عمل دخل نہیں تھا؟ کیا ان اداروں سے حکومت کے لیے سود پر قرضے در قرضے نہیں لیے گئے تھے؟ کراچی کی طرف آ جائیے، مصطفی کمال نے تو مذہبی حوالوں سے خیر کبھی کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا۔ لیکن ان سے قبل آنے والی مذہبی باریش قیادت، وہ اپنے اعلیٰ کارناموں کی فہرست کیا گنواتے ہیں؟
بزرگوار کا منہ نہیں سوکھتا سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، نالوں اور گٹروں کی صفائی، مخلوط اجتماعات کے لیے پارکوں کے قیام کا ذکر کرتے؟ آخر دونوں میں فرق کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان تمام رفاہی کاموں کا مذہبی سیاسی جماعت کے منشور اسلامی انقلاب سے کیا تال میل ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہماری سیاسی مذہبی جماعتیں جس بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں وہ ان کی خدا اور خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے گئے دین سے سچی وابستگی اور خدمت کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام میں مخلص اور دیانت دارانہ کارکردگی ہوا کرتی ہے۔
جمہوری سیاست میں یہ سوال ہی لایعنی ہوتا ہے کہ سرمائے میں اضافے کے نتیجے میں طلاق، زنا و بدکاری، ناجائز بچوں کی پیدائش میں اضافہ، منافقت کی فراوانی، اخلاق و کردار کی گراوٹ، حب مال، حب جاہ اور حب دنیا وغیرہ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اسی طرح انتخابی عمل کے نتیجے میں جس طرح کی قیادت بھی مسلط ہو جائے اسے برداشت کرنا ہی جمہوریت کا حسن قرار پاتا ہے۔ جمہوری تجربے کے فی الاصل غلط ثابت ہو جانے پر بھی جمہوریت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ جمہوریت کے آبا اس کا ایک ہی حل تجویز فرماتے ہیں۔ ''مزید جمہوریت''۔ عجب لطیفہ ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ مریض پر دوا کے الٹ اثرات ظاہر ہوں، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق مریض دم بہ لب ہو جائے۔ تب بھی ڈاکٹر نسخے کی تبدیلی کے بجائے وہی دوا کھلائے جانے پر اصرار کرے۔
موجودہ انتخابات بھی ایک مرتبہ پھر اس خوش گمانی کو ہوا دے رہے ہیں کہ اب کے اچھی قیادت آئے گی۔ ہمارے مسائل حل ہو جائینگے۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا انتخابات کے نتیجے میں کبھی معاشرے کے اعلیٰ افراد سامنے آتے ہیں؟ کیا جماعت اسلامی میں مسلسل انتخابی عمل کے بعد ان کے حصے میں مولانا مودودی سے بہتر قیادت آئی؟ کیا امریکا میں انتخابی عمل کے نتیجے میں ابراہام لنکن وغیرہ سے زیادہ بڑے افراد کبھی صدر بن سکے؟ کیا بھارت میں انتخابی عمل کے نتیجے میں گاندھی اور نہرو سے بڑے رہنما میسر آ سکے؟ کیا ایران میں انتخابی عمل کے نتیجے میں احمدی نژاد، علیم فضل اور تقوے میں سید خاتمی ہی کے ہم پلہ نظر آتے ہیں؟ پاکستان کی کیا بات کریں، ہم قائد اعظم، لیاقت علی خان سے زرداری صاحب تک آ گئے ہیں۔ جان لیجیے انتخابات میں مقبول قیادت سامنے آتی ہے نہ کہ اعلیٰ قیادت۔
یہاں تک ہونے لگا کہ لوگ آمرانہ دور کو یاد کرنے پر مجبور ہو گئے جمہوریت اور انتخابات کے طلبگار انگشت بدنداں تھے کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا۔ جمہوریت آمریت سے بدتر کیسے ہو گئی۔ اب سے کئی سال پہلے ہی یہ مباحث شروع ہو گئے تھے کہ آمرانہ دور بہتر تھا، امیدوں کے برعکس جمہوریت کے بدترین نتائج سامنے آ رہے تھے۔ تاریخ نے اس جمہوریت کا مشاہدہ کیا جس میں عوام اپنی فلاح اور ترقی کو بھول گئے۔
لوگوں نے مہنگائی اور روزگار کا سوچنا چھوڑ دیا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی صدائیں کبھی کبھار ہی بلند ہوئیں، سب جانتے ہیں کہ ایسا اس لیے نہیں تھا کہ جمہوری آقاؤں نے جمہور تک یہ تما م چیزیں اپنے اور جمہوریت کے وعدے کے موافق مہیا کر دی تھیں۔ اصل بات یہ رہی کہ اس ملک کی عوام کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ اس تمام عرصے میں اس خطے میں وہ قتل و غارت گری ہوئی ہے، اتنے بم دھماکے ہوئے ہیں کہ خطے کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، لوگوں کو اپنی جان کی فکر لاحق رہی، وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ:
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
یوں جمہوریت نے وعدے کے مطابق لوگوں کو غم روزگار سے آزاد کر دیا۔
اب پھر انتخابی عمل انگڑائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ماسوائے ایک نہایت قلیل تعداد کے ملکی و غیرملکی قریباً تمام افراد کا اجماع ہے کہ پاکستانی عوام کی بھلائی اس میں مضمر ہے کہ یہاں انتخابات ہوں، شفاف انتخابات۔ جمہوریت عمل کا تسلسل اس ملک و قوم کی بقاء، استحکام اور ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں جو قیادت سامنے آئے گی وہ پاکستان کی تقدیر بدل دے گی وغیرہ۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانشور اس سوال پر توجہ دینے پر تیار نہیں ہیں کہ گزشتہ انتخابات کے نتائج اتنے بھیانک کیوں ظاہر ہوئے۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں اگر اعلیٰ قیادت ہی سامنے آنی چاہیے تو یہ واقعہ کبھی کہیں رونما کیوں نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ حقائق کبھی بھی خواہشات کے تابع نہیں ہوا کرتے۔ ایلوے کے درخت سے آم کا پھل ملے گا یہ خام خیالی ہے۔
دیگر کئی ممالک کی طرح ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے۔ کہنے کو تو یہ طرز حکومت عوام کے لیے ہوا کرتا ہے لیکن اصل میں یہ عوام کی خدمت سے زیادہ سرمائے کی خدمت کے لیے ہوتا ہے۔ عوامی بھلائی اور خدمت سرمائے کی خدمت کے مقصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ نہ کہ اصل اصول کے طور پر۔ دنیا کی ہر جمہوری حکومت میں ایسا ہی ہوتا ہے، سرمائے میں اضافہ ہی تمام ریاستی پالیسیوں کی اصل بنیاد ہوا کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی جمہوری حکومت کی کارکردگی معاشی پیمانوں سے جانچی جاتی ہے۔
مثلاً یہ کہ جی ڈی پی کتنا رہا، شرح نمو کیا تھی، افراط زر کس سطح پر تھا، غیرملکی سرمایہ کاری کتنی ہوئی، خود ہمارے ہاں غیرملکی کرنسی کے اثاثہ جات کتنے ہیں، وغیرہ۔ آپ دیکھیے تخت لاہور والے میٹرو بس کو اپنا بڑا کارنامہ ثابت کرتے ہیں، صرف اسی ایک منصوبے پر غور کر لیجیے۔ یہ کس مقصد کی تکمیل کے لیے ہے۔ کیا ان بسوں میں بیٹھنے سے لوگوں کے اخلاق و کردار میں سدھار آنے والا ہے؟ وہ روحانی ترقی کی منزلیں طے کریں گے؟ یا افراد کا پیسے کمانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آسان ہو جائے گا؟ اگر مقصد پیسہ ہی ہے تو یہ انسان کی خدمت تو نہیں ہوئی، یہ تو سرمائے کی خدمت کی گئی، اور آپ اسے ہی اپنے بڑے کارنامے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہتا، ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی جمہوری جدوجہد میں سرمائے کے اضافے کے اصول کو مان کر مساوی طور پر سرمائے کی خدمت میں جتی رہتی ہیں۔ گزشتہ انتخابی مواقعے کو سامنے لائیں، اب پھر ایک نیا انتخابی معرکہ برپا ہونے کو ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کے مقاصد اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقاصد سرمایہ دارانہ منشور پر ایک نظر آتے ہیں؟ مثلاً یہ کہ بے روزگاری ختم ہو، لوگوں کی آمدنی محفوظ ہو، ان کو ملازمت کا حق حاصل ہو، افراد کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے عمل میں شرکت کے مساوی مواقعے میسر ہوں وغیرہ۔ ایم ایم اے کی حکومت کو یاد کیجیے۔
سرمائے کی وہ کون سی خدمت ہے جو اس نے نہ کی ہو۔ کیا وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر استعمار کی آلہ کار نہیں بنی رہی؟ یاد کیجیے اس دور میں بھی صوبے کی معاشی پالیسیاں کس کے حوالے تھیں؟ کیا اس دور میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا اثر بلکہ عمل دخل نہیں تھا؟ کیا ان اداروں سے حکومت کے لیے سود پر قرضے در قرضے نہیں لیے گئے تھے؟ کراچی کی طرف آ جائیے، مصطفی کمال نے تو مذہبی حوالوں سے خیر کبھی کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا۔ لیکن ان سے قبل آنے والی مذہبی باریش قیادت، وہ اپنے اعلیٰ کارناموں کی فہرست کیا گنواتے ہیں؟
بزرگوار کا منہ نہیں سوکھتا سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، نالوں اور گٹروں کی صفائی، مخلوط اجتماعات کے لیے پارکوں کے قیام کا ذکر کرتے؟ آخر دونوں میں فرق کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان تمام رفاہی کاموں کا مذہبی سیاسی جماعت کے منشور اسلامی انقلاب سے کیا تال میل ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہماری سیاسی مذہبی جماعتیں جس بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں وہ ان کی خدا اور خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے گئے دین سے سچی وابستگی اور خدمت کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام میں مخلص اور دیانت دارانہ کارکردگی ہوا کرتی ہے۔
جمہوری سیاست میں یہ سوال ہی لایعنی ہوتا ہے کہ سرمائے میں اضافے کے نتیجے میں طلاق، زنا و بدکاری، ناجائز بچوں کی پیدائش میں اضافہ، منافقت کی فراوانی، اخلاق و کردار کی گراوٹ، حب مال، حب جاہ اور حب دنیا وغیرہ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اسی طرح انتخابی عمل کے نتیجے میں جس طرح کی قیادت بھی مسلط ہو جائے اسے برداشت کرنا ہی جمہوریت کا حسن قرار پاتا ہے۔ جمہوری تجربے کے فی الاصل غلط ثابت ہو جانے پر بھی جمہوریت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ جمہوریت کے آبا اس کا ایک ہی حل تجویز فرماتے ہیں۔ ''مزید جمہوریت''۔ عجب لطیفہ ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ مریض پر دوا کے الٹ اثرات ظاہر ہوں، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق مریض دم بہ لب ہو جائے۔ تب بھی ڈاکٹر نسخے کی تبدیلی کے بجائے وہی دوا کھلائے جانے پر اصرار کرے۔
موجودہ انتخابات بھی ایک مرتبہ پھر اس خوش گمانی کو ہوا دے رہے ہیں کہ اب کے اچھی قیادت آئے گی۔ ہمارے مسائل حل ہو جائینگے۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا انتخابات کے نتیجے میں کبھی معاشرے کے اعلیٰ افراد سامنے آتے ہیں؟ کیا جماعت اسلامی میں مسلسل انتخابی عمل کے بعد ان کے حصے میں مولانا مودودی سے بہتر قیادت آئی؟ کیا امریکا میں انتخابی عمل کے نتیجے میں ابراہام لنکن وغیرہ سے زیادہ بڑے افراد کبھی صدر بن سکے؟ کیا بھارت میں انتخابی عمل کے نتیجے میں گاندھی اور نہرو سے بڑے رہنما میسر آ سکے؟ کیا ایران میں انتخابی عمل کے نتیجے میں احمدی نژاد، علیم فضل اور تقوے میں سید خاتمی ہی کے ہم پلہ نظر آتے ہیں؟ پاکستان کی کیا بات کریں، ہم قائد اعظم، لیاقت علی خان سے زرداری صاحب تک آ گئے ہیں۔ جان لیجیے انتخابات میں مقبول قیادت سامنے آتی ہے نہ کہ اعلیٰ قیادت۔