عدم برداشت ہمارے معاشرے کا سلگتا ہوا مسئلہ
ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر احتجاج، غصے، تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کے مظاہر عام ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں ''عالمی یوم برداشت'' منایا گیا۔ دنیا کے گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے اس دن کی گونج ہمارے ہاں بھی سنائی دی اور بعض شہروں میں اس حوالے سے تقاریب کا انعقاد بھی کیا گیا، جس میں برداشت کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کوئی دن منا تو لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ جڑے سبق کو پورا سال فراموش کیے رکھتے ہیں۔ ''یوم برداشت'' بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر احتجاج، غصے، تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کے مظاہر عام ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے بیانات ہوں یا ٹی وی مذاکرے، چینلز کے میزبانوں کا لب و لہجہ ہو یا کالم نگاروں کی زبان تعلیمی اداروں میں طلبا کے مطالبات ہوں یا سوشل میڈیا پر سیاسی، مذہبی اور سماجی موضوعات پر جاری بحثیں، مخالفین کے خلاف سیاسی قائدین کی مہم جوئیاں ہوں یا علمائے دین کے خطبات اور ان کے عقیدت مندوں کی تحریکیں، ہر جگہ غیظ و غضب کا ہوشربا اظہار، درشت اطوار کا غیر ضروری مظاہرہ اور غیر شائستہ الفاظ کا بے محابہ استعمال اب بالعموم ہماری قومی زندگی کا لازمہ بن گیا ہے۔ کہیں بھتے کی وصولی کے لیے بھری پری مزدوروں کی فیکٹری پھونک ڈالتے ہیں۔ لال مسجد کا سانحہ ہو، ماڈل ٹاؤن لاہور کا المیہ ہو، لانگ مارچ یا دھرنے ہر معاملے میں اسی طرح کی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ کسی مسئلے پر جب کوئی مخالفانہ سوچ سامنے آتی ہے تو حکومت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے معاملات کو مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے نمٹانے کے بجائے اس حد تک جانے دیتی ہے کہ حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں۔ اسلام آباد کا دھرنا بھی حکومت کی اسی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ثابت ہوا۔
دوسری طرف بعض گروہ اپنی سوچ سب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے ہر حد تک جانے پر تیار رہتے ہیں، کوئی زمینی حقیقت کوئی عقلی دلیل اور قومی مفاد کا کوئی تقاضا انھیں تصادم اور محاذ آرائی کے راستے پر چلنے سے نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت سب کو مدنظر رکھنی چاہیے کہ آزادی کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ دھرنے، مظاہرے، جلسے جلوس اور احتجاج بے شک جمہوری آزادی کے تحت جائز ہیں لیکن کچھ آئینی و قانونی حدود کے اندر۔ ملک طاقت اور ڈنڈے کے زور سے نہیں چلتے۔ امن و امان کو تباہ اور نظام حکومت کو مفلوج کرنے کی آزادی دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں نہیں دی جاتی۔
نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے ہر ملک کا اپنا اپنا آئین اور اپنے اپنے قوانین ہیں جن کی پابندی اس کے ہر شہری پر لازم ہے۔ مسائل اور تنازعات ہر ملک میں جنم لیتے ہیں جنھیں حل کرنے کا مہذب اور قانونی طریقہ باہمی مذاکرات ہیں۔ فریقین نیک نیتی سے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اختلافات کو دور کرلیتے ہیں، خود ایسا نہ کرسکیں تو عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو بعض عدالتی فیصلوں تک میں ایسے فقرے لکھے گئے ہیں جن میں قانونی تقاضوں کے بجائے غصے کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جس سماج میں طرز بودوباش روبہ زوال ہوجائے اور پھر ہوتا ہی چلا جائے، وہاں اسی نسبت سے جرائم بے لگام ہوجاتے ہیں اور اخلاقی اقدار کا تو گویا جنازہ ہی نکل جاتا ہے۔ اس اصول کو ملکی معاشرے کے تناظر میں دیکھیں تو حقیقت حال عیاں ہوجائے گی کہ وطن عزیز میں سماجی اور اخلاقی جرائم کیوں روزافزوں ہیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی کا منطقی نتیجہ غربت ہے، جو حد سے بڑھ جائے تو تمام تر قواعد و قوانین تو کیا نظریات و عقائد تک کو روند ڈالتی ہے۔
گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ''بیروزگاری اور مہنگائی'' ہے۔ اور اسی کے باعث کم و بیش آدھے سے زائد پاکستانی خط افلاس کے نیچے سسک رہے ہیں۔ باقی قباحتوں اور برائیوں نے اسی بیروزگاری اور مہنگائی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ہر سال لاکھوں نوجوان معقول تعلیمی اسناد لے کر ملازمتوں کی تلاش میں سرکاری اور نجی شعبے سے رجوع کرتے ہیں لیکن ان کی مراد بر نہیں آتی۔ دربدری اور تلاش بسیار کے بعد روزگار کے حصول میں ناکامی انھیں یاس کی اندھیر نگری اور جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتی ہے۔
سماج کی اکائی خاندان ہے اور خاندانی نظام تلپٹ ہوجائے تو خرابی لازم ٹھہرتی ہے، ایسی خرابی پورے سماج کا احاطہ کرلیتی ہے۔وطن عزیز میں انتہاؤں کو چھوتی غربت، مہنگائی، بیروزگاری، جرائم میں ہوش ربا اضافہ، بدامنی، کرپشن، لاقانونیت، سیاست کا بھسم ہوتا تشخص اور سب سے بڑھ کر لوگوں میں عدم برداشت عروج پر ہے۔ اور یہ سب کا سب یہ ظاہر کرتا کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بیمار ہے اور مسیحا دور دور تک کوئی دکھائی نہیں پڑتا۔
ہمارے ارباب اختیار اور سیاست دانوں کی اکثریت جھوٹ بولتی ہے، لوگوں سے فریب کرتی ہے، انھیں ملک اور اس کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں انھیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ وہ جس اسمبلی میں بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اس کی چھت پر اللہ تعالیٰ کے 99 نام لکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ان ناموں میں جبار بھی ہے اور قہار بھی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ انھیں روز محشر کا بھی کوئی خرد نہیں۔
ملکی منظرنامے میں حال ہی میں دھرنے کے حوالے سے جو کچھ دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو ملا وہ نہ صرف ہماری سیاسی بلکہ مذہبی قیادت کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ تشدد، سختی یا زور زبردستی سے اپنی بات منوانے کی اسلامی یا جمہوری معاشروں میں کوئی گنجائش نہیں۔ اختلافی معاملات طے کرنے کے لیے آئین میں جو طریق کار طے ہوگیا اس کی سب کو پابندی کرنی چاہیے، اور کسی پارٹی، تنظیم، طبقے یا گروہ کو کسی معاملے پر اختلاف ہو تو حکومتوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ بات حد سے بڑھ جائے بروقت اسے حل کریں تاکہ ملک انتشار اور انارکی سے محفوظ رہے۔
ہمارے مذہب اسلام میں تو ویسے بھی تحمل، برداشت، رواداری، صلہ رحمی اور عفوودرگزر جیسے معاملات کی بے حد تاکید کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اسلام کے نام پر قائم ہمارے ملک میں عدم برداشت دن بدن بڑھ رہی ہے اور بسا اوقات یہ عدم برداشت انتہا پسندی کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ دینی معاملات تک کو ہم تشدد اور لاقانونیت کی نہج تک لے جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کون نہیں جانتا کہ دینی معاملات کی نزاکت اور حساسیت محتاج بیاں نہیں۔
اس بابت لوگوں کے عقائد و نظریات اس قدر راسخ ہوتے ہیں وہ اپنے مکتبہ فکر کے تناظر میں جس بات کو درست خیال نہیں کرتے اس کے خلاف کسی بھی حد تک جانے اور کچھ بھی کر گزرنے میں ذرہ برابر بھی متأمل نہیں ہوتے۔ کوئی دلیل، کوئی معذرت قبول نہیں کی جاتی اور اپنے مطالبے کو من و عن تسلیم کیا جانا معاملات کی درستی کا آخری عمل قرار دیا جاتا ہے۔
نرم دل انسان اللہ کی سب سے حسین تخلیق قرار دی گئی ہے اور صبر، درگزر اور معاف کر دینا خیر کے خزانوں میں ایک خزانہ کہا گیا ہے اور یہ تک کہا گیا ہے کہ انسان کا برا اخلاق نیک عمل کو ایسے برباد کردیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم مندرجہ بالا صداقتوں پر دل سے ایمان لے آئیں اور اپنے طرز عمل میں تبدیلی لاکر معاشرے کو سنوارنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔
ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر احتجاج، غصے، تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کے مظاہر عام ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے بیانات ہوں یا ٹی وی مذاکرے، چینلز کے میزبانوں کا لب و لہجہ ہو یا کالم نگاروں کی زبان تعلیمی اداروں میں طلبا کے مطالبات ہوں یا سوشل میڈیا پر سیاسی، مذہبی اور سماجی موضوعات پر جاری بحثیں، مخالفین کے خلاف سیاسی قائدین کی مہم جوئیاں ہوں یا علمائے دین کے خطبات اور ان کے عقیدت مندوں کی تحریکیں، ہر جگہ غیظ و غضب کا ہوشربا اظہار، درشت اطوار کا غیر ضروری مظاہرہ اور غیر شائستہ الفاظ کا بے محابہ استعمال اب بالعموم ہماری قومی زندگی کا لازمہ بن گیا ہے۔ کہیں بھتے کی وصولی کے لیے بھری پری مزدوروں کی فیکٹری پھونک ڈالتے ہیں۔ لال مسجد کا سانحہ ہو، ماڈل ٹاؤن لاہور کا المیہ ہو، لانگ مارچ یا دھرنے ہر معاملے میں اسی طرح کی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ کسی مسئلے پر جب کوئی مخالفانہ سوچ سامنے آتی ہے تو حکومت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے معاملات کو مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے نمٹانے کے بجائے اس حد تک جانے دیتی ہے کہ حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں۔ اسلام آباد کا دھرنا بھی حکومت کی اسی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ثابت ہوا۔
دوسری طرف بعض گروہ اپنی سوچ سب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے ہر حد تک جانے پر تیار رہتے ہیں، کوئی زمینی حقیقت کوئی عقلی دلیل اور قومی مفاد کا کوئی تقاضا انھیں تصادم اور محاذ آرائی کے راستے پر چلنے سے نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت سب کو مدنظر رکھنی چاہیے کہ آزادی کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ دھرنے، مظاہرے، جلسے جلوس اور احتجاج بے شک جمہوری آزادی کے تحت جائز ہیں لیکن کچھ آئینی و قانونی حدود کے اندر۔ ملک طاقت اور ڈنڈے کے زور سے نہیں چلتے۔ امن و امان کو تباہ اور نظام حکومت کو مفلوج کرنے کی آزادی دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں نہیں دی جاتی۔
نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے ہر ملک کا اپنا اپنا آئین اور اپنے اپنے قوانین ہیں جن کی پابندی اس کے ہر شہری پر لازم ہے۔ مسائل اور تنازعات ہر ملک میں جنم لیتے ہیں جنھیں حل کرنے کا مہذب اور قانونی طریقہ باہمی مذاکرات ہیں۔ فریقین نیک نیتی سے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اختلافات کو دور کرلیتے ہیں، خود ایسا نہ کرسکیں تو عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو بعض عدالتی فیصلوں تک میں ایسے فقرے لکھے گئے ہیں جن میں قانونی تقاضوں کے بجائے غصے کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جس سماج میں طرز بودوباش روبہ زوال ہوجائے اور پھر ہوتا ہی چلا جائے، وہاں اسی نسبت سے جرائم بے لگام ہوجاتے ہیں اور اخلاقی اقدار کا تو گویا جنازہ ہی نکل جاتا ہے۔ اس اصول کو ملکی معاشرے کے تناظر میں دیکھیں تو حقیقت حال عیاں ہوجائے گی کہ وطن عزیز میں سماجی اور اخلاقی جرائم کیوں روزافزوں ہیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی کا منطقی نتیجہ غربت ہے، جو حد سے بڑھ جائے تو تمام تر قواعد و قوانین تو کیا نظریات و عقائد تک کو روند ڈالتی ہے۔
گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ''بیروزگاری اور مہنگائی'' ہے۔ اور اسی کے باعث کم و بیش آدھے سے زائد پاکستانی خط افلاس کے نیچے سسک رہے ہیں۔ باقی قباحتوں اور برائیوں نے اسی بیروزگاری اور مہنگائی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ہر سال لاکھوں نوجوان معقول تعلیمی اسناد لے کر ملازمتوں کی تلاش میں سرکاری اور نجی شعبے سے رجوع کرتے ہیں لیکن ان کی مراد بر نہیں آتی۔ دربدری اور تلاش بسیار کے بعد روزگار کے حصول میں ناکامی انھیں یاس کی اندھیر نگری اور جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتی ہے۔
سماج کی اکائی خاندان ہے اور خاندانی نظام تلپٹ ہوجائے تو خرابی لازم ٹھہرتی ہے، ایسی خرابی پورے سماج کا احاطہ کرلیتی ہے۔وطن عزیز میں انتہاؤں کو چھوتی غربت، مہنگائی، بیروزگاری، جرائم میں ہوش ربا اضافہ، بدامنی، کرپشن، لاقانونیت، سیاست کا بھسم ہوتا تشخص اور سب سے بڑھ کر لوگوں میں عدم برداشت عروج پر ہے۔ اور یہ سب کا سب یہ ظاہر کرتا کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بیمار ہے اور مسیحا دور دور تک کوئی دکھائی نہیں پڑتا۔
ہمارے ارباب اختیار اور سیاست دانوں کی اکثریت جھوٹ بولتی ہے، لوگوں سے فریب کرتی ہے، انھیں ملک اور اس کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں انھیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ وہ جس اسمبلی میں بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اس کی چھت پر اللہ تعالیٰ کے 99 نام لکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ان ناموں میں جبار بھی ہے اور قہار بھی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ انھیں روز محشر کا بھی کوئی خرد نہیں۔
ملکی منظرنامے میں حال ہی میں دھرنے کے حوالے سے جو کچھ دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو ملا وہ نہ صرف ہماری سیاسی بلکہ مذہبی قیادت کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ تشدد، سختی یا زور زبردستی سے اپنی بات منوانے کی اسلامی یا جمہوری معاشروں میں کوئی گنجائش نہیں۔ اختلافی معاملات طے کرنے کے لیے آئین میں جو طریق کار طے ہوگیا اس کی سب کو پابندی کرنی چاہیے، اور کسی پارٹی، تنظیم، طبقے یا گروہ کو کسی معاملے پر اختلاف ہو تو حکومتوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ بات حد سے بڑھ جائے بروقت اسے حل کریں تاکہ ملک انتشار اور انارکی سے محفوظ رہے۔
ہمارے مذہب اسلام میں تو ویسے بھی تحمل، برداشت، رواداری، صلہ رحمی اور عفوودرگزر جیسے معاملات کی بے حد تاکید کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اسلام کے نام پر قائم ہمارے ملک میں عدم برداشت دن بدن بڑھ رہی ہے اور بسا اوقات یہ عدم برداشت انتہا پسندی کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ دینی معاملات تک کو ہم تشدد اور لاقانونیت کی نہج تک لے جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کون نہیں جانتا کہ دینی معاملات کی نزاکت اور حساسیت محتاج بیاں نہیں۔
اس بابت لوگوں کے عقائد و نظریات اس قدر راسخ ہوتے ہیں وہ اپنے مکتبہ فکر کے تناظر میں جس بات کو درست خیال نہیں کرتے اس کے خلاف کسی بھی حد تک جانے اور کچھ بھی کر گزرنے میں ذرہ برابر بھی متأمل نہیں ہوتے۔ کوئی دلیل، کوئی معذرت قبول نہیں کی جاتی اور اپنے مطالبے کو من و عن تسلیم کیا جانا معاملات کی درستی کا آخری عمل قرار دیا جاتا ہے۔
نرم دل انسان اللہ کی سب سے حسین تخلیق قرار دی گئی ہے اور صبر، درگزر اور معاف کر دینا خیر کے خزانوں میں ایک خزانہ کہا گیا ہے اور یہ تک کہا گیا ہے کہ انسان کا برا اخلاق نیک عمل کو ایسے برباد کردیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم مندرجہ بالا صداقتوں پر دل سے ایمان لے آئیں اور اپنے طرز عمل میں تبدیلی لاکر معاشرے کو سنوارنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔