بھارتی میڈیا اور ہمارا میڈیا
آخر ہمارا میڈیا جب حب الوطنی کے سلسلے میں بھارتی میڈیا سے کیوں کچھ نہیں سیکھتا۔
خیبرپختونخوا کے شہر ہری پور میں ایک شخص نے اپنے گھر کی بیرونی دیوار پر ''ہندوستان زندہ باد'' کا نعرہ کیوں لکھا، اس کا کھوج لگانے کے لیے پولیس انکوائری کر رہی ہے۔ اس شخص کا نام ساجد بتایا جا رہا ہے۔ پولیس کو جیسے ہی اس واقعے کی خبر ملی اس نے فوراً ہی ساجد کو گرفتار کرلیا اور اس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 لگا دی۔ کچھ عرصہ قبل پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آچکا ہے، وہاں عمر دراز نامی شخص نے اپنے گھر کی چھت پر بھارتی ترنگا لہرا دیا تھا، جس پر وہاں کی پولیس نے فوراً ایکشن لے کر عمر دراز کو گرفتار کرلیا تھا اور اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا۔
ہمارے میڈیا نے ان دونوں واقعات کی خبروں کو پورے ملک میں پھیلانے میں ذرا دیر نہیں کی تھی اور چند ہی منٹوں میں مغربی میڈیا نے ان واقعات کو بین الاقوامی خبریں بنادیا تھا۔ بہت سے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں ان کے دوررس نتائج نکلنے کی بنا پر قومی تناظر میں نہایت تحمل اور احتیاط سے رپورٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دونوں واقعات سے ملکی سطح پر بھی یقیناً عوام میں مایوسی پھیلی اور ہوسکتا ہے انھیں بطور خاص بعض ملک دشمن عناصر نے رونما ہی اسی لیے کرایا ہو تاکہ ان کے اثرات صرف پاکستانیوں پر ہی نہیں کشمیریوں پر بھی مرتب ہوں۔
ہم یہ بات اس لیے بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ دشمن کے ایجنٹوں کی کمی نہیں ہے جو دہشتگردی کے علاوہ پاکستانی عوام میں وطن عزیز سے متعلق مایوسی اور غلط فہمی بھی پیدا کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ یہ واقعات ویسے تو پاکستانیوں پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کرسکتے کیونکہ پاکستانی قوم اپنے دشمن کے ہر اوچھے ہتھکنڈے سے اچھی طرح واقف ہے، مگر اصل مسئلہ کشمیریوں کا ہے جو اس وقت دل و جان سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہ اپنی سرزمین سے بھارت کے ناجائز قبضے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ختم کرنے کے لیے جس بہادری اور ذوق و شوق سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے ان کی آزادی کو اب بھارت کسی طور پر بھی نہیں روک سکے گا، البتہ بھارتی حکمراں ان کی آزادی کے آگے بند باندھنے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبۂ آزادی کو سرد کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کشمیری رہنماؤں کو جھوٹے الزامات لگا کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں، بعض کو پورا پورا سال گھروں میں نظر بند رکھتے ہیں۔ ان کے بچوں کے علاوہ دیگر کشمیری نوجوانوں کو اغوا کرکے اذیت ناک سزائیں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے خلاف بدترین جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
کشمیریوں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ پاکستان ان کے لیے دوزخ سے کم ثابت نہیں ہوگا، پاکستان انھیں محض دریاؤں کے پانی کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے ورنہ کشمیریوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مگر اس تمام ڈرانے دھمکانے کے باوجود وہ پاکستان کی محبت میں دل و جان سے دیوانے ہو رہے ہیں اور پاکستانی پرچم کو ہر وقت سربلند کر رہے ہیں۔
اگر ایسے ماحول میں وہاں پاکستان سے متعلق کوئی بھی مایوس کن خبر پہنچتی ہے کہ خود پاکستانی پاکستان سے بیزار ہیں اور وہ بھارت کو اپنی مصیبتوں کا مداوا سمجھتے ہیں اور اس کے ردعمل کے طور پر وہ کبھی اپنے گھر کی چھت پر بھارتی پرچم لہراتے ہیں تو کبھی اپنے مکان کی دیوار پر ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لکھ دیتے ہیں تو پاکستان میں رونما ہونے والے ان دل شکن واقعات کو بھارت کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو سرد کرنے یا بدظن کرنے کے لیے خوب خوب استعمال کرتا ہے، اور اس امکان کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ واقعات محض اسی مقصد کے تحت رونما کرائے جارہے ہوں۔
چنانچہ ان واقعات کے سلسلے میں ہماری پولیس اور میڈیا کو احتیاط برتنا ہوگی، کیونکہ مغربی میڈیا اس وقت بھارت کا زر خرید غلام بنا ہوا ہے۔ وہ پاکستان سے آنے والی بھارت کے مفاد کی خبروں کی تاک میں رہتا ہے۔ دراصل وہ بھی کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھارت کی پوری پوری مدد کر رہا ہے۔
آخر ہمارا میڈیا جب حب الوطنی کے سلسلے میں بھارتی میڈیا سے کیوں کچھ نہیں سیکھتا۔ بھارتی میڈیا کشمیر کے سلسلے میں مکمل طور پر مودی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی فوجیوں کے مظالم سے وہ ہمیشہ اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے وہ کشمیر سے متعلق ٹاڈا جیسے کالے قوانین کا حامی اور فوج کی بربریت کا طرفدار ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کی شہادتوں پر جشن مناتا ہے۔ وہ ہر کشمیری مجاہد کو دہشتگرد کے نام سے پکارتا ہے اور ان کے جنازوں میں شریک ہونے والے ہزاروں کشمیریوں کے مجمع پر لعن طعن کرتا ہے۔
بھارتی میڈیا کا یہ کردار کسی طور پر بھی انسانی حقوق کے معیار پر پورا نہیں اترتا مگر ہمارے بعض دانشور حضرات بھارتی میڈیا کی غیر جانبداری کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ اس وقت پورے بھارت میں مودی حکومت کے دور میں ہندوتوا کا دور دورہ ہے بھارتی میڈیا جو خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتا، ہندوتوا کے پرچار میں آر ایس ایس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے۔
بھارتی بزرگ صحافی کلدیپ نیئر خود بھارتی میڈیا کے دوغلے پن پر اشکبار ہیں۔ وہ اپنے ایک کالم میں بھارتی میڈیا پر ماتم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''کیا یہ وہی میڈیا ہے جو کبھی خود پر اپنے سیکولر ہونے پر فخر سے جھوم اٹھتا تھا مگر آج وہ محض چند سکوں کی خاطر پستی کی گہرائیوں میں پہنچ چکا ہے۔ اسی میڈیا نے چند سکوں کی خاطر مودی کے چالباز دست راست امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی کرپشن کی خبر کو عوام سے چھپائے رکھا تھا تاکہ اس سے گجرات میں منعقد ہونے والے ریاستی الیکشن میں مودی کی جیت ہار میں نہ تبدیل ہوجائے۔
اسی میڈیا نے اترپردیش میں بی جے پی کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں کی جانے والی کارستانی کے ذریعے سے ملنے والی جعلی فتح کا راز معلوم ہوتے ہوئے بھی اس سے عوام کو لاعلم رکھا تھا۔ ان تمام ووٹنگ مشینوں کو پہلے سے کنول کے پھول پر فکس کردیا گیا تھا چنانچہ کسی بھی بٹن کے دبانے سے صرف کنول کو ہی ووٹ جاتا تھا۔
اس وقت بی جے پی نوٹ بندی کی وجہ سے سخت عوامی غیظ و غضب کا شکار تھی، چنانچہ اسے یوپی کا الیکشن جیتنا محال نظر آرہا تھا تاہم ان مشینوں نے اس کی لاج رکھ لی تھی اور وہ وہاں حیرت انگیز طور پر الیکشن جیت گئی تھی، بعد میں اندور کے ضمنی الیکشن میں یوپی سے گئی ان ووٹنگ مشینوں میں کی گئی کارستانی کا راز فاش ہوگیا تھا۔ حالانکہ بی جے پی نے یہ ایک خطرناک کھیل کھیلا تھا جس پر دوسری بھارتی سیاسی پارٹیاں طوفان کھڑا کرسکتی تھیں اور اس سے پورے بھارت میں سیاسی ہلچل مچ سکتی تھی مگر ملک میں امن اور سیاسی استحکام برقرار رکھنے کی خاطر نہ کوئی بڑا احتجاج ہوا نہ ریلیاں نکالی گئیں اور نہ ہی دھرنا دیا گیا البتہ سماج وادی پارٹی جس کی اتر پردیش میں حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا، کی جانب سے اس کی پارٹی میٹنگ میں بی جے پی کی دھاندلی کے خلاف ایک قرارداد ضرور پاس کی گئی تھی۔ لیکن اگر پاکستان میں ایسی انتخابی دھاندلی کا واقعہ رونما ہوجاتا تو نہ جانے کیا ہوجاتا۔
اس وقت پاکستان میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر کئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے مگر الیکشن کمیشن ان مشکوک مشینوں کے استعمال سے باز ہی رہے تو بہتر ہے ورنہ پاکستان میں ان کے استعمال سے نہ صرف دھرنوں کی قطاریں لگ سکتی ہیں بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اب جہاں تک بھارتی پولیس اور فوج کا تعلق ہے وہ ممبئی سے پٹھانکوٹ تک پاکستان کے خلاف ہر بھارتی ڈرامے کو حکومتی ہدایت کے عین مطابق کامیاب بناتے رہے ہیں۔
کاش کہ ہمارا میڈیا اور پولیس بھی بھارتی میڈیا اور پولیس سے کچھ سیکھ سکیں، وہ بے شک اپنے فرائض منصبی کو کماحقہ پورا کریں مگر حساس قومی معاملات اور واقعات کو رپورٹ کرنے میں تحمل اور احتیاط سے کام لیں تو ہمارے دشمنوں کو ہمیں بدنام کرنے کے ایسے مواقع میسر نہ آسکیں۔
ہمارے میڈیا نے ان دونوں واقعات کی خبروں کو پورے ملک میں پھیلانے میں ذرا دیر نہیں کی تھی اور چند ہی منٹوں میں مغربی میڈیا نے ان واقعات کو بین الاقوامی خبریں بنادیا تھا۔ بہت سے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں ان کے دوررس نتائج نکلنے کی بنا پر قومی تناظر میں نہایت تحمل اور احتیاط سے رپورٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دونوں واقعات سے ملکی سطح پر بھی یقیناً عوام میں مایوسی پھیلی اور ہوسکتا ہے انھیں بطور خاص بعض ملک دشمن عناصر نے رونما ہی اسی لیے کرایا ہو تاکہ ان کے اثرات صرف پاکستانیوں پر ہی نہیں کشمیریوں پر بھی مرتب ہوں۔
ہم یہ بات اس لیے بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ دشمن کے ایجنٹوں کی کمی نہیں ہے جو دہشتگردی کے علاوہ پاکستانی عوام میں وطن عزیز سے متعلق مایوسی اور غلط فہمی بھی پیدا کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ یہ واقعات ویسے تو پاکستانیوں پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کرسکتے کیونکہ پاکستانی قوم اپنے دشمن کے ہر اوچھے ہتھکنڈے سے اچھی طرح واقف ہے، مگر اصل مسئلہ کشمیریوں کا ہے جو اس وقت دل و جان سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہ اپنی سرزمین سے بھارت کے ناجائز قبضے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ختم کرنے کے لیے جس بہادری اور ذوق و شوق سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے ان کی آزادی کو اب بھارت کسی طور پر بھی نہیں روک سکے گا، البتہ بھارتی حکمراں ان کی آزادی کے آگے بند باندھنے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبۂ آزادی کو سرد کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کشمیری رہنماؤں کو جھوٹے الزامات لگا کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں، بعض کو پورا پورا سال گھروں میں نظر بند رکھتے ہیں۔ ان کے بچوں کے علاوہ دیگر کشمیری نوجوانوں کو اغوا کرکے اذیت ناک سزائیں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے خلاف بدترین جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
کشمیریوں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ پاکستان ان کے لیے دوزخ سے کم ثابت نہیں ہوگا، پاکستان انھیں محض دریاؤں کے پانی کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے ورنہ کشمیریوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مگر اس تمام ڈرانے دھمکانے کے باوجود وہ پاکستان کی محبت میں دل و جان سے دیوانے ہو رہے ہیں اور پاکستانی پرچم کو ہر وقت سربلند کر رہے ہیں۔
اگر ایسے ماحول میں وہاں پاکستان سے متعلق کوئی بھی مایوس کن خبر پہنچتی ہے کہ خود پاکستانی پاکستان سے بیزار ہیں اور وہ بھارت کو اپنی مصیبتوں کا مداوا سمجھتے ہیں اور اس کے ردعمل کے طور پر وہ کبھی اپنے گھر کی چھت پر بھارتی پرچم لہراتے ہیں تو کبھی اپنے مکان کی دیوار پر ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لکھ دیتے ہیں تو پاکستان میں رونما ہونے والے ان دل شکن واقعات کو بھارت کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو سرد کرنے یا بدظن کرنے کے لیے خوب خوب استعمال کرتا ہے، اور اس امکان کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ واقعات محض اسی مقصد کے تحت رونما کرائے جارہے ہوں۔
چنانچہ ان واقعات کے سلسلے میں ہماری پولیس اور میڈیا کو احتیاط برتنا ہوگی، کیونکہ مغربی میڈیا اس وقت بھارت کا زر خرید غلام بنا ہوا ہے۔ وہ پاکستان سے آنے والی بھارت کے مفاد کی خبروں کی تاک میں رہتا ہے۔ دراصل وہ بھی کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھارت کی پوری پوری مدد کر رہا ہے۔
آخر ہمارا میڈیا جب حب الوطنی کے سلسلے میں بھارتی میڈیا سے کیوں کچھ نہیں سیکھتا۔ بھارتی میڈیا کشمیر کے سلسلے میں مکمل طور پر مودی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی فوجیوں کے مظالم سے وہ ہمیشہ اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے وہ کشمیر سے متعلق ٹاڈا جیسے کالے قوانین کا حامی اور فوج کی بربریت کا طرفدار ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کی شہادتوں پر جشن مناتا ہے۔ وہ ہر کشمیری مجاہد کو دہشتگرد کے نام سے پکارتا ہے اور ان کے جنازوں میں شریک ہونے والے ہزاروں کشمیریوں کے مجمع پر لعن طعن کرتا ہے۔
بھارتی میڈیا کا یہ کردار کسی طور پر بھی انسانی حقوق کے معیار پر پورا نہیں اترتا مگر ہمارے بعض دانشور حضرات بھارتی میڈیا کی غیر جانبداری کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ اس وقت پورے بھارت میں مودی حکومت کے دور میں ہندوتوا کا دور دورہ ہے بھارتی میڈیا جو خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتا، ہندوتوا کے پرچار میں آر ایس ایس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے۔
بھارتی بزرگ صحافی کلدیپ نیئر خود بھارتی میڈیا کے دوغلے پن پر اشکبار ہیں۔ وہ اپنے ایک کالم میں بھارتی میڈیا پر ماتم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''کیا یہ وہی میڈیا ہے جو کبھی خود پر اپنے سیکولر ہونے پر فخر سے جھوم اٹھتا تھا مگر آج وہ محض چند سکوں کی خاطر پستی کی گہرائیوں میں پہنچ چکا ہے۔ اسی میڈیا نے چند سکوں کی خاطر مودی کے چالباز دست راست امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی کرپشن کی خبر کو عوام سے چھپائے رکھا تھا تاکہ اس سے گجرات میں منعقد ہونے والے ریاستی الیکشن میں مودی کی جیت ہار میں نہ تبدیل ہوجائے۔
اسی میڈیا نے اترپردیش میں بی جے پی کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں کی جانے والی کارستانی کے ذریعے سے ملنے والی جعلی فتح کا راز معلوم ہوتے ہوئے بھی اس سے عوام کو لاعلم رکھا تھا۔ ان تمام ووٹنگ مشینوں کو پہلے سے کنول کے پھول پر فکس کردیا گیا تھا چنانچہ کسی بھی بٹن کے دبانے سے صرف کنول کو ہی ووٹ جاتا تھا۔
اس وقت بی جے پی نوٹ بندی کی وجہ سے سخت عوامی غیظ و غضب کا شکار تھی، چنانچہ اسے یوپی کا الیکشن جیتنا محال نظر آرہا تھا تاہم ان مشینوں نے اس کی لاج رکھ لی تھی اور وہ وہاں حیرت انگیز طور پر الیکشن جیت گئی تھی، بعد میں اندور کے ضمنی الیکشن میں یوپی سے گئی ان ووٹنگ مشینوں میں کی گئی کارستانی کا راز فاش ہوگیا تھا۔ حالانکہ بی جے پی نے یہ ایک خطرناک کھیل کھیلا تھا جس پر دوسری بھارتی سیاسی پارٹیاں طوفان کھڑا کرسکتی تھیں اور اس سے پورے بھارت میں سیاسی ہلچل مچ سکتی تھی مگر ملک میں امن اور سیاسی استحکام برقرار رکھنے کی خاطر نہ کوئی بڑا احتجاج ہوا نہ ریلیاں نکالی گئیں اور نہ ہی دھرنا دیا گیا البتہ سماج وادی پارٹی جس کی اتر پردیش میں حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا، کی جانب سے اس کی پارٹی میٹنگ میں بی جے پی کی دھاندلی کے خلاف ایک قرارداد ضرور پاس کی گئی تھی۔ لیکن اگر پاکستان میں ایسی انتخابی دھاندلی کا واقعہ رونما ہوجاتا تو نہ جانے کیا ہوجاتا۔
اس وقت پاکستان میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر کئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے مگر الیکشن کمیشن ان مشکوک مشینوں کے استعمال سے باز ہی رہے تو بہتر ہے ورنہ پاکستان میں ان کے استعمال سے نہ صرف دھرنوں کی قطاریں لگ سکتی ہیں بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اب جہاں تک بھارتی پولیس اور فوج کا تعلق ہے وہ ممبئی سے پٹھانکوٹ تک پاکستان کے خلاف ہر بھارتی ڈرامے کو حکومتی ہدایت کے عین مطابق کامیاب بناتے رہے ہیں۔
کاش کہ ہمارا میڈیا اور پولیس بھی بھارتی میڈیا اور پولیس سے کچھ سیکھ سکیں، وہ بے شک اپنے فرائض منصبی کو کماحقہ پورا کریں مگر حساس قومی معاملات اور واقعات کو رپورٹ کرنے میں تحمل اور احتیاط سے کام لیں تو ہمارے دشمنوں کو ہمیں بدنام کرنے کے ایسے مواقع میسر نہ آسکیں۔