کیسی ماں ہو تم
غریب عورت کا المیہ یہ ہے کہ وہ شوہر کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
میں چشم تصور سے، سکھیکی کی سرگودھا روڈ پر، جھنگ برانچ نہر کے پل مونا جھال پر پہنچی۔ سردی میری ہڈیوں کو چیر رہی تھی اور نہر کا پانی دیکھ کر ہی مجھے لگ رہا تھا کہ وہ پانی بہت ٹھنڈا ہو گا۔ پھر مجھے کچھ معصوموں کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیں، میں نے سامنے، دائیں، بائیں، پیجھے، اوپر اور نیچے دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا۔ میں نے جھک کر نہر کے گدلے پانی میں جھانکا، وہاں بھنور بن رہے تھے، میںنے دیکھا تو اس میں سے مجھے ڈوبتا ابھرتاکچھ دکھائی دینے لگا۔
غور کرنے پر علم ہوا کہ وہ تین ننھے ننھے بچوں کی آنکھیں تھیں، کون تھے وہ بچے؟ میں نے سوچا۔ وہ آنکھیں مجھ سے ایک سوال پوچھتی ہوئی نظر آئیں... ''ہمارا کیا قصور تھا؟'' میں نے ان سے کچھ سوالات کیے تو جانا کہ وہ آنکھیں پانچ سالہ زارا فاطمہ، چار سالہ فیضان اور دو سالہ احمد کی آنکھیں تھیں۔ وہ بچے اس نہر میں ڈوب کر اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ انھیں ایک ایک کر کے نہر میں پھینکنے والی ماں کا دل نہ کانپا مگر آسمان کانپ گیا، یہ بچے اپنی ماں زرینہ کی بربریت کا شکار ہو گئے...
انھیں اس بھوکی نہر کے حوالے کر کے اس نے بس نہیں کیا، اس کے بعد اس نے خود بھی اس نہر میں چھلانگ لگا لی، اس کی بد قسمتی کہ کسی نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا اور وہ اپنے بچوں سمیت اس ظالم دنیا سے نہ جا سکی اور یہیں رہ گئی، باقی کی زندگی اور طرح کے عذاب سہنے کے لیے۔ عمر بھر کے لیے پچھتاؤں اور طعنوں کے ساتھ جینے کے لیے، دنیا کا سامنا کرنے کے خوف میں مبتلا رہ کر، اپنے مردہ ضمیر کے کچوکے کھانے کے لیے اور مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے کے لیے۔
کوئی اس سے پوچھے کہ اس کا جھگڑا تو اپنے شوہر عابد حسین ہواتھا، غصہ اس پر تھا۔ بچوں کو کیوںاسکول لے جانے کے بہانے تیار کیا؟ وہ تین معصوم پھولوں جیسے بچے، اپنے انجام سے بے خبر، ماں کے اعتماد میں اندھے، کتنے چاؤ سے اچھلتے کودتے اسکول جانے کا سوچ کر جا رہے ہوں گے... ان کی ماں کے وجود میںجو جوار بھاٹے اٹھ رہے تھے، وہ معصوم اس سے بے خبر تھے۔ انھیں کیا معلوم کہ ان کے باپ سے جھگڑا کر کے وہ جذباتیت کی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ جہاں وہ ایک ماں نہیں بلکہ ایک شیطان نماعورت بن چکی تھی۔ عور ت بھی ایسی کہ جس کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ سر میں دماغ، دماغ نہ ہو گا تو اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، شیطان غالب آ جاتا ہے۔ دل نہ ہو تو عورت عورت نہیں بلکہ مٹی کی ایک ڈھیری بن جاتی ہے، محبت کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں، وجود کا انتشار اس کی سوچ اور فہم کی ساری صلاحیتوں کو ختم کر دیتا ہے۔
کتنا بڑا جھگڑا ہوا ہو گا اس کا اپنے شوہر سے کہ جس کے نتیجے میں وہ غصے کی اس انتہا کو پہنچی؟ بانجھ تو نہیں تھی اور نہ ہی فقط بیٹیاں پیدا کرنے کی قصور وار ... بھٹوں پر کام کرنے والوں کی جہالت کا لیول اسی طرح کی وجوہات ہوسکتی ہیںنا؟ بد زبان ہو گی، پھوہڑ ہو گی، شوہر کے لیے وقت پر کھانا یا چائے نہیں بنائی ہو گی یا اس کے کپڑے نہیں دھوئے ہوں گے!!
اس کی اوقات سے بڑھ کر کوئی مطالبہ کر دیا ہو گا، اسے کسی بات کا طعنہ دے دیا ہو گا، اس پر کسی سنی سنائی کی بنا پر یا حقیقت کی بنیاد پر کسی دوسری عورت سے مراسم کاشک کیا ہوگا اور اس کا اظہار کر دیا ہو گا۔ خط غربت کے بھی نچلے طبقے پر رہنے والوں میں میاں بیوی کے مابین جھگڑوں کے اسباب ایسے ہی ہوتے ہوں گے اور سچ مانیں تو معاشرے کے ہر طبقے میں، غریب سے غریب تر اور امیر سے امیر ترین تک، جاہل سے جاہل اور پڑھے لکھوں میں بھی، میاں بیوی کے مابین جھگڑوں کی عمومی وجوہات یہی ہوتی ہیں۔
الفاظ اور انداز اور اظہار کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں مگروجوہات اور جذبات اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مہذب لوگ بھی آپس میں جھگڑتے وقت یوں ہی ہوتے ہیں کہ کوئی ایک فریق جو دلائل میں دب جاتا ہے اس کا دل یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو ختم کر دے، اس کا گلا گھونٹ دے یااسے چھوڑ دے۔ امیر ترین جوڑوں میں عورتیں اور مرد ہر وقت طلاق کی تلوار ہاتھ میں لیے بیٹھے ہوتے ہیں اور معمولی سے معمولی جھگڑے پر بھی وہ تلواریں نکال لیتے ہیں۔ متوسط گھرانوں کی عورتیں سوچتی بہت کچھ ہیں، کڑھ کڑھ کر ختم ہو جاتی ہیں، طلاق تک کا سوچ لیتی ہیں مگر میکے کی بدنامی اور بچوں کی مجبوریوں کے باعث اپنے جذبات پر قابو پا لیتی ہیں اور نئے جذبے سے شوہر کے قدموں تلے بچھ جاتی ہیں۔
غریب عورت کا المیہ یہ ہے کہ وہ شوہر کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، غربت کے ساتھ جہالت کا تڑکا لگا ہو تو اس پر بھی مستزادکہ وہ خود اپنی زندگی کے خاتمے کو سارے مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ زرینہ بی بی جیسی عورتیں وہ ہیں جن کے بارے میں ہمارے ہاں پنجابی کی کہاو ت ہے، (ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمہا ر تے) جس کا ترجمہ ہے کہ گدھے سے گر کر کمہار پر غصہ کرنا۔
ہمارے معاشرے میں عموماً صابرین کا صبر ایسا ہی ہوتا ہے کہ دفتر میں باس سے ڈانٹ کھا کر نکلتے ہیں تو دماغ کھول رہا ہوتا ہے،با س کے کمرے سے باہر نکل کر دروازے کو ٹھوکر مار یں گے، دفتر کے باہر بیٹھے باس کے چپڑاسی کو سلام کے جواب میں گھوری ماریں گے... اپنے دفتر میں جاتے ہوئے راستے میں آنے والے ماتحتوں کو خواہ مخواہ ڈانٹیں گے۔ سڑک پر چلتے ہوئے ہر شخص کو ماں بہن کی گالی دیں گے، کسی کو ہاتھ کے اشارے سے غصہ دکھائیں گے اور کسی کو ہارن سے دھمکائیں گے۔ گھر جا کر بچوں اور بیوی پر رعب ڈالیں گے اور اس کے علاوہ بھی کوئی سامنے آئے گا اس کے لتے لیں گے۔
ہمارے اندر اشتعال ختم ہی نہیں ہوتا، اشتعال دلانے والی وجوہات کو یاد کر کر کے ہم اسے ضربیں دیتے ہیں۔ غصے پر قابو پانا کسی جن پر قابو پانے سے بڑا کام ہے کہ یہ سب سے بڑا عفریت ہے جو انسان کے اندر ہر اچھے جذبے اور سوچ کو قتل کر دیتا ہے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفقود کر دیتا ہے۔
غصہ ایک ایسا موذی جانور ہے جو انسان کو سالم نگل لیتا ہے اور اسے حیوان بنا کر واپس تھوک دیتا ہے۔ جتنا زیادہ وقت ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو سوچیں اور اس کے عتاب کا نشانہ ان لوگو ں کو بناتے رہیں گے جو کہ ہمارے کسی بھی طرح ماتحت ہیں تو ہماری اس نفسانی جبلت کی بھوک مٹتی رہے گی اور ہمیں اس احساس تفاخر میں مبتلا کرتی رہے گی جس میں مبتلا ہو کر انسان باقی انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
شوہر ناراض ہوتے ہیں تو ''دامے، درمے، سخنے اور قدمے'' بیویوں کی ''عزت افزائی'' کرتے ہیں، اس رویے کے لیے معاشرے کے کسی طبقے سے تعلق ہونے کی تفریق نہیں۔ ہر کوئی اپنے درجے اور مرتبے کے مطابق بیویوں کو بے عزت کرتا ہے۔ بیویاں بھی یقیناً شوہروں کو تنگ کرتی ہیں، زچ کرتی ہیں اور انھیںغصہ دلاتی ہیں۔ دن بھر ان کے ساتھ جو جو زیادتیاں ہوتی ہیں ان کا سارا نزلہ شوہر پر ہی گرتا ہے مگر ایسی بیویوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی جو شوہر پر ہاتھ اٹھاتی ہیں۔ عموما تو وہ کڑھ کر رہ جاتی ہیں یا اس سے اگلے درجے پر چلی جائیں تو خود کو ہی نقصان پہنچالیتی ہیں۔ اس کے بعد زرینہ جیسی عورتیں آ جاتی ہیں جو اپنا غصہ اس انتہا تک لے جاتی ہیں اور ان کا نشانہ عموما وہ لوگ بنتے ہیں جو ان کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ملازمین یا بچے، بچے جو اس سارے میں شاید اس بات کے قصور وار ہیں کہ انھوںنے اس جوڑے کے ہاں جنم لیا تھا۔
یہاں تک شنید ہے کہ بعض مائیں اپنی کسی اولاد کو اس لیے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس اولاد کو ان کا شوہر بہت زیادہ پیار کرتا ہے اوربیوی کے مقابلے میں اس کی کسی بات کو رد نہیں کرتا۔ عورت مرد کی بلا شرکت محبت اور توجہ کی اتنی متمنی ہوتی ہے کہ دوسری عورت تو کجا... اس سے بسا اوقات اپنی جنمی ہوئی اولاد بھی برداشت نہیں ہوتی۔ غربت، تعلیم کا فقدان، برداشت کی کمی، تربیت کی کجیاں، اپنے فرائض اور حقوق سے لاعلمی، مذہب سے دوری اور اخلاقیات سے دوسری ایسے اسباب ہیں جو اس طرح کے واقعات کو جنم دیتے ہیں اور معاشرے میں بربریت کی ایسی مثالیں چھوڑ جاتے ہیں کہ جن سے ہمارا معاشرہ داغدار ہوتا ہے۔