انسانی حقوق کی پامالی کب تک
خواتین کے حقوق کی پامالی عام سی بات ہے اور خواتین پر ہونے والے جبر کے اکثر کیس منظر عام پر نہیں آتے۔
ایک جانب کیفیت ہے کہ آئے روز مختلف حوالوں سے یوم منائے جاتے ہیں جیسے کہ یکم مئی یوم مزدور، 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن، 3 دسمبر کو معذوروں کے حقوق کا عالمی دن، 26 جولائی کو خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن وغیرہ وغیرہ، اسی طرح 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن۔ ان ایام کو عالمی سطح پر منانے کے مقاصد یہ ہوتے ہیں کہ عالمی سطح پر عوام الناس میں یہ شعور بیدار و پیدا کرنا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی قسم کی برائی ہو اس کا تدارک ضروری ہے۔
مزید یہ کہ آج کے انسان کو اپنے حقوق کے لیے کس طرح جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرکیف ہم 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منا رہے ہیں جیسے کہ ہر برس منایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود بھی آج کے جدید دور میں انسانی حقوق کی پامالی کا عمل جاری ہے۔
اس سلسلے میں اولین مثال ہے افریقی ممالک کی، جہاں دنیا کے مہذب ترین لوگ فقط گوری رنگت کے باعث افریقیوں پر تمام قسم کے جبر و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ مظالم 13 ویں صدی سے جاری ہیں، گویا آٹھ سو برس ہو رہے ہیں مگر یہ مظالم ہنوز جاری ہیں۔ آٹھ سو برسوں سے گورے افریقیوں کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور ان افریقیوں کی زندگیاں غلاموں سے بھی بدتر ہیں۔
جنوبی افریقہ میں یہ لوگ اپنے ہی وطن میں ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم تھے۔ گو کہ جنوبی افریقہ میں اب طویل جدوجہد کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے، البتہ دیگر افریقی ممالک کی معاشی کیفیت قابل رحم ہے، کیونکہ تمام تر وسائل گوری رنگت والوں کے ہاتھوں میں ہونے کے باعث افریقی باشندے تمام قسم کے جبر کا شکار ہیں اور یوں یہ افریقی باشندے تمام قسم کے حقوق سے بھی محروم ہیں، وہ بھی اپنے ہی ممالک میں۔ فقط اسی باعث کہ ان افریقیوں کی رنگت کالی ہے، البتہ ان افریقیوں پر جبر و ستم کرنے والے پہلے برطانوی تھے اب امریکی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جبر کرنے والے و جبر کا شکار دونوں اکثریت میں ہم مذہب ہیں، پھر بھی یہ جبر رواں ہے، اس سے بڑھ کر انسانی حقوق کی پامالی کی کیا مثال دی جائے؟
لیکن ٹھہریے آپ دیگر ممالک کا تذکرہ کرتے ہیں جہاں انسانی حقوق کا شاید تصور بھی ابھی تک نہیں ہے، چنانچہ دوم مثال ہے عرب ممالک کی جہاں 20 لاکھ سے زائد انسان غلاموں سے بھی بدتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، ان لوگوں میں اکثریت کا تعلق بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، یمن، افریقہ، بھارت و پاکستان سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوکہ بہتر روزگار کی تلاش میں عرب ممالک میں گھریلو ملازمتیں کرتے ہیں، ان میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے، یعنی کوئی پچاسی فیصد خواتین۔
ان گھریلو ملازمین کا ڈیوٹی ٹائم لامحدود ہوتا ہے، تمام قسم کا جسمانی و جنسی تشدد ان کا مقصد بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ لوگ اس جبر سے تنگ آکر اپنے اپنے ممالک واپس جا سکیں، کیونکہ ان کے پاسپورٹ و دیگر سفری دستاویزات ان کے آقا کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ یوں جب یہ آقا چاہیں گے تب ہی ان مظلوم لوگوں کی اپنی وطن روانگی ممکن ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان ممالک میں اس قسم کے جبر پر عالمی میڈیا اب تک خاموش ہے، نامعلوم یہ خاموشی کب تک رہے گی؟
سوم مثال ہے بھارت کی۔ بھارت وہ ملک ہے جوکہ دنیا میں خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، مگر اندرونی کیفیت بھارت کی یہ ہے کہ 15 منٹ بعد ایک جنسی تشدد کا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ بھارتی حکومت کی اپنی جاری کردہ انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق 2016ء میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگ جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ ان تشدد کا شکار ہونے والوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے، یعنی دس برس کے بچے بھی ہوتے ہیں۔ مگر بھارت میں اس قسم کا جبر کا شکار ہونے والوں کو انصاف نہیں مل پاتا جب کہ ذات پات، اونچ نیچ کے نام پر جبر یا انسانی حقوق کی پامالی میں بھارت گویا اپنی مثال خود ہی ہے۔
چہارم ذکر ہے وطن عزیز پاکستان کا۔ کیفیت یہ ہے کہ اس خطے یعنی پاکستان نے جغرافیائی اعتبار سے 70 برس قبل آزادی حاصل کرلی تھی، مگر پاکستانی شہری آج تک سماجی آزادی سے محروم ہیں۔ فقط خواتین کے انسانی حقوق کی پامالی کا ہی ذکر کیا جائے تو کیفیت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ 17 دسمبر 1999ء سے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے پاس ہونے کے باعث ہر برس 25 نومبر کو خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایسا لگتا ہے کہ خواتین کے حقوق پامال ہونے کا تو ذکر ہی کیا، شاید خواتین کے کوئی حقوق ہی نہیں۔ بالخصوص دیہی خواتین کے۔
یوں تو خواتین کے حقوق کی پامالی عام سی بات ہے اور خواتین پر ہونے والے جبر کے اکثر کیس منظر عام پر نہیں آتے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سال 2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2016ء میں خواتین پر ہونے والے جبر کے کیسز کی تفصیلات یہ ہیں۔ ملک بھر میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے 2500 کیس ریکارڈ ہوئے جن میں جنسی تشدد کے 1003 کیس، گھریلو تشدد کے 386 کیس، 988 خواتین پر تیزاب گردی ہوئی۔ 138 خواتین نے خودکشی کی۔
1001 خواتین نے خودکشی کی کوشش کی، 988 خواتین کو اغوا کیا گیا۔ یہ بھی شرمناک حقیقت ہے کہ سال بھر میں تین سو سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے وہ بھی فقط صوبہ سندھ میں۔ ان تمام جرائم کے خلاف قوانین موجود ہیں مگر اس قسم کے کیسز میں سزا کم ہی لوگوں کو ملتی ہے۔ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں نجی جیلیں موجود ہیں، ان جیلوں میں 18 لاکھ شہری اسیر ہیں۔ ایک نجی جیل ایسے سردار خاندان نے بھی قائم کر رکھی ہے جس سردار خاندان کے بعض افراد پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کی دہائی دے رہے ہیں۔ اس سردار خان کے آبائی علاقے میں آج بھی نجی جیل قائم ہے اور لوگ اس جیل میں اسیر ہیں۔
کہنے کو وطن عزیز میں جمہوریت ہے جوکہ میری نظر میں سرمایہ داری آمریت ہے مگر پھر بھی سیاسی قیدی پابند سلاسل ہیں جس میں ایک زندہ مثال گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما بابا جان ہیں، جوکہ گزشتہ سات برس سے زندان میں ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے پولیس کے خلاف احتجاج منظم کیا اور بااثر خاندان کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی۔ مگر گواہان و ثبوت کی محتاج عدالت نے بابا جان کو 80 برس قید کی سزا سنائی، البتہ نظرثانی کی درخواست دائر ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے 13 نومبر 2016 کو ان کی 80 سالہ سزا میں تخفیف کرکے وہ سزا 40 برس کردی گئی۔
اب یہ صاحب 40 سالہ سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سماج کا جو شہری اپنے سماج میں پھیلے جبر کے خلاف و اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے لاٹھی و گولی گویا اس شہری یا شہریوں کا مقدر ٹھہرتی ہے، پھر ریاستی پولیس یہ تفریق نہیں کرتی کہ ان کے سامنے نابینا افراد ہیں یا تعلیم جیسے مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کرام۔ البتہ دھرنا نشین اس سے مبرا ہیں، میں اپنے سماج کے لوگوں سے فقط اتنا ہی کہوں گا کہ یہ جبر کب تک برداشت کرو گے؟