مختصر سفرنامے اور رپورتاژ آخری حصہ
دلی جو بھی جاتا ہے واپسی پر یہی کہا ہے کہ بار بار آؤ، دلی دل چھین لیتی ہے لیکن ان کے جو صاحب دل ہوں۔
''بیس سال بعد بمبئی میں'' نذر سجاد حیدر کا سفرنامہ ہے، جو قرۃ العین حیدر کی والدہ اور سجاد حیدر یلدرم کی اہلیہ تھیں۔ اس سفرنامے میں ماضی کی یادیں ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب یلدرم صاحب وفات پاچکے تھے اور نذر سجاد حیدر ہر جگہ ہر مقام پر اپنے رفیق حیات کو یاد کرتی ہیں۔
''کراچی میں میرے پاس دوستوں اور عزیزوں کا مجمع رہتا تھا، پرانا کوئی ملنے والا نظر نہیں آتا اور نئے بنانے کی اب طاقت نہیں، عینی کو دفتر سے فرصت نہیں، بہت وقت تنہائی میں گزرتا ہے۔ یہ بھی بتادوں کہ اس وقت صرف ان تین گھروں سے ہماری عزیزوں جیسی بے تکلفی ہے، ایک تو مسز اندرا راج آنند اور ایک ہماری پہلی واقف علی گڑھ کی لڑکی جو مصطفیٰ حیدر کے ساتھ لکھنو یونیورسٹی میں پڑھی ہے اور سلطانہ منہاج ایم اے، جو اب شادی ہوکر مسز جعفری کہلاتی ہیں۔ وہ دونوں میاں بیوی آجاتے ہیں اور ایک اور مشہور اور قابل ادیب خواجہ احمد عباس ہیں، جن کے خاندان سے میری بہت پرانی دوستی ہے، یہ مولانا حالیؔ کے نواسے ہیں اور تیس سال سے یہاں قیام پذیر ہیں۔ بیس سال بعد کی بمبئی دیکھ نہیں سکتی کس قدر تبدیلیاں ہوچکی ہیں اس زمانے میں جو سمندر کے کنارے جنگل ویران پڑے تھے اب وہاں چھ سات منزل محل کھڑے ہیں۔ مجھے بچپن سے ایک مرض ہے اور وہ یہ کہ پچھلی چیزیں دیکھنا چاہتی ہوں، جہاں بچپن گزرا وہ مقامات بھی جہاں میرا اور ان کا ساتھ تھا۔ جس دن سے بمبئی میں قدم رکھا ہے بیس برس بعد اس خیال سے بے چین ہوں کہ وہ مقامات ضرور دیکھ لوں جہاں سجاد صاحب کے ساتھ ہوٹلوں میں ٹھہری اور سیر گاہوں میں پھری تھی۔ ان کناروں پر جاؤں جہاں اکثر شامیں گزریں اور کشتیوں میں مع دوستوں کے ہم دونوں نے گھنٹوں سمندر پر وقت گزارا''۔
نذر سجاد حیدر کا سفرنامہ بہت جذباتی ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ وہ خاتون بہت باہمت اور مضبوط اعصاب کی مالک تھیں جو ان مقامات کو اکیلے دیکھنا چاہتی تھیں جہاں جہاں وہ اپنے ہم سفر کے ہمراہ گئی تھیں۔ ادھر میرا یہ حال ہے کہ میں ان مقامات پر جانے سے کتراتی ہوں جہاں جہاں اختر میرے ساتھ ہوتے تھے۔ ان راستوں کو، ان جگہوں کو، ان تفریح گاہوں کو دیکھنا اب میرے بس کی بات نہیں۔
آرٹس کونسل بھی جانا چھوڑ دیا ہے، صرف ووٹ دینے احباب کے اصرار پر چلی جاتی ہوں۔ شاید میرے اعصاب اتنے مضبوط نہیں؟ یا پھر میں نے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ گئے ہیں۔ گھر بدل لیا کہ ان کی یادوں سے چھٹکارا پاؤں لیکن وہ تو مسلسل میرے ساتھ ہیں۔ ہر جگہ، ہر وقت، کیسے بھلاؤں؟
''خواجہ حافظؔ کے مزار پر'' آغا اشرف کا دلچسپ سفرنامہ ہے، جو 1939 میں دہلی سے ماہنامہ ''ساقی'' میں شایع ہوا، جس کے مدیر شاہد احمد دہلوی تھے۔ آغا صاحب لکھتے ہیں ''اب ذرا حافظیہ چلیے۔ خواجہ حافظؔ کی شہرت اور بقائے دوام کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ عمارت بہت شاندار ہوگی لیکن میں نے تو یہاں ایک قدیم قبرستان دیکھا جس میں بے شمار قبروں کی لوحیں نظر آتی ہیں، گزشتہ سال سے رضا شاہ پہلوی نے فردوسیؔ کے مزار کی طرح اس پر بھی ایک نہایت شاندار جدید طرز کی عمارت بنوانے کا حکم دیا ہے جو غالباً اب مکمل ہوچکی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ حافظ کے انتقال کے وقت علمائے شہر نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی، جس کی وجہ حافظؔ کے رندانہ اشعار تھے، بعد میں کافی ردو کد کے بعد لوگوں نے ان کے دیوان کی طرف رجوع کیا تو یہ شعر نکلا۔
قدم دریغ مدار از جنازۂ حافظؔ
کہ گرچہ غرق گناہ است میر و دبہ بہشت
اس غیبی اشارے پر سب خاموش ہوگئے اور حافظؔ کو دفن کردیا گیا۔ اس کے بعد زمانے کا ایسا انقلاب ہوا کہ بڑے بڑے بادشاہوں اور امیروں نے حافظؔ کی قبر کے قریب دفن ہونے کی وصیت کی، چنانچہ اب یہ جگہ مستقل قبرستان بن گئی ہے''
حافظ کے مندرجہ بالا شعر کا مفہوم یہ ہے کہ حافظ کے جنازے سے قدم نہ روک، اگرچہ گناہ میں ڈوبا ہوا ہے بہشت میں جارہا ہے۔
''بمبئی سے بھوپال'' عصمت چغتائی کا رپورتاژ ہے جو 1977 میں لکھا گیا، یہ ترقی پسند مصنّفین کے ساتھ ریل کا سفر ہے جس میں متعدد ادیب اور شاعر شریک ہیں۔ لکھتی ہیں:
''مجروحؔ ایک تو ترقی پسند مشاعروں کے نمائندہ بن کر جارہے تھے کہ اللہ کے دیے ایک وہی بچ رہے تھے دوسرے دولہا بن کر بھی جارہے تھے کیونکہ بھوپال سے انھیں سیدھے اپنی بارات میں شرکت کرنے کے لیے جانا تھا لیکن وہ نہایت کھرے پن سے جھینپ رہے تھے، جیسے اگر وہ دولہا بن گئے تو انقلاب نہ لاسکیں گے۔ شادی بذات خود ایک رجعت پسندانہ فعل ہے، خاص طور پر ایسی حالت میں کہ فریق مخالف گاؤں کی ایک ناخواندہ الہڑ دلہن ہو، جیسی کہ مجروح کے پلے باندھی جارہی تھی'' (مجروح سے مراد ممتاز انقلابی شاعر مجروح سلطان پوری ہے)
''انجمن گل'' (پاکستانی مصنفین کی کانفرنس کراچی 1959) از ڈاکٹر عبادت بریلوی ''جہانگیر روڈ پر ایک چھوٹا سا پنڈال ایک میدان میں بنا ہوا ہے، پنڈال میں کرسیاں پڑی ہیں، ڈائس پر لوگ بیٹھے ہیں، کچھو دوڑ دھوپ میں بھی مصروف ہیں اور آپس میں بنگلہ بول رہے ہیں، جلسے کا آغاز ہوا، پہلے تلاوت کلام پاک ہوئی، اس کے بعد نذرالاسلام اور جسیم الدین کے گیت گاکر سنائے گئے۔ جمیل الدین عالیؔ اور حفیظ جالندھری نے بھی اپنی نظمیں سنائیں۔ عالیؔ کے دوہے بہت خوب تھے، ان کے اثر سے سارے پنڈال میں زندگی سی پیدا ہوگئی۔ حفیظ جالندھری کی نظم ویسی ہی تھی جیسی عام طور پر وہ آج لکھتے ہیں۔ خلوص سے خالی، جذب و شوق سے محروم، قافیہ پیمائی اس میں خوب کی گئی تھی، اسی لیے کسی پر کچھ اثر نہ ہوا اور داد بے داد میں تبدیل ہوگئی''۔ (یہ قصہ مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے سے پہلے کا ہے)
''دلی سے واپسی پر'' از وزیر آغا۔ ''میرؔ و غالبؔ کی دلی مرچکی ہے۔ اب اس کی خاک سے ایک نئی دلی نے جنم لیا ہے۔ ان میں ایک بزرگانہ وقار تھا اور وہ ضبط و تحمل و سکون و اطمینان کا گہوارہ تھی، بیٹی شان و شوکت، غرور و تمکنت اور بناؤ سنگھار کی طرف مائل ہے۔ ماں کے پاؤں زمین پر تھے اور نظریں آسمان کی روشنی پر، بیٹی ساتویں منزل پر بعد ناز و ادا ایستادہ ہے، لیکن اس کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی ہیں، ممکن ہے آپ کہیں کہ شرم سے، لیکن شرم کی اس میں بات ہی کیا ہے۔ اغلباً اس وجہ سے کہ آسمان ایک فریب نظر ہے اور اسے فریب نظر سے کوئی سروکار نہیں''۔
''قطب مینار کی کئی منازل ہیں اور ہر منزل پر زندگی اور کائنات کی ایک مختلف تصویر آنکھوں کے سامنے آتی ہے، میں جب پہلی منزل پر پہنچا تو سڑک پر چلتے ہوئے انسان کیرے مکوڑوں کی طرح رینگتے نظر آئے، عمارتیں پچکی ہوئی نظر آنے لگیں، دوسری منزل پر انسان قطعاً غائب ہوگئے، جھاڑیاں ننھے ننھے نقطوں کی صورت میں تبدیل ہوگئیں۔ تیسری منزل پہ پہنچا تو افق بھی میرے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑا ہوگیا، نظر کی حدود حیرت انگیز طور پر پھیلتی چلی گئیں لیکن جب میں آخری منزل پر پہنچا تو زمین کے سارے نشیب و فراز برابر ہوگئے، اوپر آسمان کی بے پناہ وسعتیں تھیں، نیچے زمین کا کشادہ سینہ تھا اور اس کشادہ سینے پر نئی دلی کی بلند و بالا عمارتیں چھوٹی چھوٹی سفید قبروں کی طرح پھیلتی چلی گئیں تھیں۔ میں نے ان سے نظریں ہٹا کر قطب مینار کی طرف دیکھا، عمارتوں کے اس قبرستان میں میرؔ و غالبؔ کی دلی اب بھی فاتحانہ انداز سے کھڑی تھی، اس کی نگاہیں آسمانی رفعتوں کی طرف تھیں اور اس کے ہونٹوں پر ماضی کی ساری درخشندگی ایک ہلکا سا تبسم بن کر جگمگارہی تھی''۔
وزیر آغا صاحب 1958 میں دلی گئے تھے اس وقت قطب مینار کی تمام منزلوں پر جانے کی اجازت تھی، ہم تین بار دلی گئے لیکن قطب مینار کی سیڑھیاں دیکھنے سے محروم رہے کہ قطب مینار پر چڑھ کر خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے باعث دروازہ مقفل کردیا گیا ہے۔ لوہے کے دروازے میں بڑا سا علی گڑھ والا تالا پڑا ہے، پتا نہیں خودکشی کرنے والوں میں ناکام عاشقوں کی تعداد زیادہ تھی یا غربت کے باعث زندگی سے منہ موڑنے والوں کی۔ کاش وزیر آغا کی طرح ہم بھی قطب مینار کی اونچائی تک پہنچ پاتے، یہاں تو بس گردن اٹھاکر دیکھنے کی جسارت بھی ممکن نہ تھی کہ گردن کہیں 180 کے زاویے پر جاکر ٹوٹ ہی نہ جائے۔
سو دور دور سے نظارہ کرلیا اور حسرت دل میں لے کر آگئے کہ اس وقت دلی کیوں نہ آئے جب قطب مینار کے دوازے کھلے ہوتے تھے۔ دلی جو بھی جاتا ہے واپسی پر یہی کہا ہے کہ بار بار آؤ، دلی دل چھین لیتی ہے لیکن ان کے جو صاحب دل ہوں، تاریخ کے اسرار سے واقف ہوں، سدا سہاگن دلی کے سات بار اجڑنے اور بسنے کا حال جانتے ہوں۔ چاندنی چوک میں عین گردوارے دلی میں قتل عام کا حکم دیا تھا کہ اس کی فوج کے ایک سپاہی کی جھڑپ کسی دلی والے کے کبوتر پر تھی۔
''کراچی میں میرے پاس دوستوں اور عزیزوں کا مجمع رہتا تھا، پرانا کوئی ملنے والا نظر نہیں آتا اور نئے بنانے کی اب طاقت نہیں، عینی کو دفتر سے فرصت نہیں، بہت وقت تنہائی میں گزرتا ہے۔ یہ بھی بتادوں کہ اس وقت صرف ان تین گھروں سے ہماری عزیزوں جیسی بے تکلفی ہے، ایک تو مسز اندرا راج آنند اور ایک ہماری پہلی واقف علی گڑھ کی لڑکی جو مصطفیٰ حیدر کے ساتھ لکھنو یونیورسٹی میں پڑھی ہے اور سلطانہ منہاج ایم اے، جو اب شادی ہوکر مسز جعفری کہلاتی ہیں۔ وہ دونوں میاں بیوی آجاتے ہیں اور ایک اور مشہور اور قابل ادیب خواجہ احمد عباس ہیں، جن کے خاندان سے میری بہت پرانی دوستی ہے، یہ مولانا حالیؔ کے نواسے ہیں اور تیس سال سے یہاں قیام پذیر ہیں۔ بیس سال بعد کی بمبئی دیکھ نہیں سکتی کس قدر تبدیلیاں ہوچکی ہیں اس زمانے میں جو سمندر کے کنارے جنگل ویران پڑے تھے اب وہاں چھ سات منزل محل کھڑے ہیں۔ مجھے بچپن سے ایک مرض ہے اور وہ یہ کہ پچھلی چیزیں دیکھنا چاہتی ہوں، جہاں بچپن گزرا وہ مقامات بھی جہاں میرا اور ان کا ساتھ تھا۔ جس دن سے بمبئی میں قدم رکھا ہے بیس برس بعد اس خیال سے بے چین ہوں کہ وہ مقامات ضرور دیکھ لوں جہاں سجاد صاحب کے ساتھ ہوٹلوں میں ٹھہری اور سیر گاہوں میں پھری تھی۔ ان کناروں پر جاؤں جہاں اکثر شامیں گزریں اور کشتیوں میں مع دوستوں کے ہم دونوں نے گھنٹوں سمندر پر وقت گزارا''۔
نذر سجاد حیدر کا سفرنامہ بہت جذباتی ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ وہ خاتون بہت باہمت اور مضبوط اعصاب کی مالک تھیں جو ان مقامات کو اکیلے دیکھنا چاہتی تھیں جہاں جہاں وہ اپنے ہم سفر کے ہمراہ گئی تھیں۔ ادھر میرا یہ حال ہے کہ میں ان مقامات پر جانے سے کتراتی ہوں جہاں جہاں اختر میرے ساتھ ہوتے تھے۔ ان راستوں کو، ان جگہوں کو، ان تفریح گاہوں کو دیکھنا اب میرے بس کی بات نہیں۔
آرٹس کونسل بھی جانا چھوڑ دیا ہے، صرف ووٹ دینے احباب کے اصرار پر چلی جاتی ہوں۔ شاید میرے اعصاب اتنے مضبوط نہیں؟ یا پھر میں نے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ گئے ہیں۔ گھر بدل لیا کہ ان کی یادوں سے چھٹکارا پاؤں لیکن وہ تو مسلسل میرے ساتھ ہیں۔ ہر جگہ، ہر وقت، کیسے بھلاؤں؟
''خواجہ حافظؔ کے مزار پر'' آغا اشرف کا دلچسپ سفرنامہ ہے، جو 1939 میں دہلی سے ماہنامہ ''ساقی'' میں شایع ہوا، جس کے مدیر شاہد احمد دہلوی تھے۔ آغا صاحب لکھتے ہیں ''اب ذرا حافظیہ چلیے۔ خواجہ حافظؔ کی شہرت اور بقائے دوام کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ عمارت بہت شاندار ہوگی لیکن میں نے تو یہاں ایک قدیم قبرستان دیکھا جس میں بے شمار قبروں کی لوحیں نظر آتی ہیں، گزشتہ سال سے رضا شاہ پہلوی نے فردوسیؔ کے مزار کی طرح اس پر بھی ایک نہایت شاندار جدید طرز کی عمارت بنوانے کا حکم دیا ہے جو غالباً اب مکمل ہوچکی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ حافظ کے انتقال کے وقت علمائے شہر نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی، جس کی وجہ حافظؔ کے رندانہ اشعار تھے، بعد میں کافی ردو کد کے بعد لوگوں نے ان کے دیوان کی طرف رجوع کیا تو یہ شعر نکلا۔
قدم دریغ مدار از جنازۂ حافظؔ
کہ گرچہ غرق گناہ است میر و دبہ بہشت
اس غیبی اشارے پر سب خاموش ہوگئے اور حافظؔ کو دفن کردیا گیا۔ اس کے بعد زمانے کا ایسا انقلاب ہوا کہ بڑے بڑے بادشاہوں اور امیروں نے حافظؔ کی قبر کے قریب دفن ہونے کی وصیت کی، چنانچہ اب یہ جگہ مستقل قبرستان بن گئی ہے''
حافظ کے مندرجہ بالا شعر کا مفہوم یہ ہے کہ حافظ کے جنازے سے قدم نہ روک، اگرچہ گناہ میں ڈوبا ہوا ہے بہشت میں جارہا ہے۔
''بمبئی سے بھوپال'' عصمت چغتائی کا رپورتاژ ہے جو 1977 میں لکھا گیا، یہ ترقی پسند مصنّفین کے ساتھ ریل کا سفر ہے جس میں متعدد ادیب اور شاعر شریک ہیں۔ لکھتی ہیں:
''مجروحؔ ایک تو ترقی پسند مشاعروں کے نمائندہ بن کر جارہے تھے کہ اللہ کے دیے ایک وہی بچ رہے تھے دوسرے دولہا بن کر بھی جارہے تھے کیونکہ بھوپال سے انھیں سیدھے اپنی بارات میں شرکت کرنے کے لیے جانا تھا لیکن وہ نہایت کھرے پن سے جھینپ رہے تھے، جیسے اگر وہ دولہا بن گئے تو انقلاب نہ لاسکیں گے۔ شادی بذات خود ایک رجعت پسندانہ فعل ہے، خاص طور پر ایسی حالت میں کہ فریق مخالف گاؤں کی ایک ناخواندہ الہڑ دلہن ہو، جیسی کہ مجروح کے پلے باندھی جارہی تھی'' (مجروح سے مراد ممتاز انقلابی شاعر مجروح سلطان پوری ہے)
''انجمن گل'' (پاکستانی مصنفین کی کانفرنس کراچی 1959) از ڈاکٹر عبادت بریلوی ''جہانگیر روڈ پر ایک چھوٹا سا پنڈال ایک میدان میں بنا ہوا ہے، پنڈال میں کرسیاں پڑی ہیں، ڈائس پر لوگ بیٹھے ہیں، کچھو دوڑ دھوپ میں بھی مصروف ہیں اور آپس میں بنگلہ بول رہے ہیں، جلسے کا آغاز ہوا، پہلے تلاوت کلام پاک ہوئی، اس کے بعد نذرالاسلام اور جسیم الدین کے گیت گاکر سنائے گئے۔ جمیل الدین عالیؔ اور حفیظ جالندھری نے بھی اپنی نظمیں سنائیں۔ عالیؔ کے دوہے بہت خوب تھے، ان کے اثر سے سارے پنڈال میں زندگی سی پیدا ہوگئی۔ حفیظ جالندھری کی نظم ویسی ہی تھی جیسی عام طور پر وہ آج لکھتے ہیں۔ خلوص سے خالی، جذب و شوق سے محروم، قافیہ پیمائی اس میں خوب کی گئی تھی، اسی لیے کسی پر کچھ اثر نہ ہوا اور داد بے داد میں تبدیل ہوگئی''۔ (یہ قصہ مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے سے پہلے کا ہے)
''دلی سے واپسی پر'' از وزیر آغا۔ ''میرؔ و غالبؔ کی دلی مرچکی ہے۔ اب اس کی خاک سے ایک نئی دلی نے جنم لیا ہے۔ ان میں ایک بزرگانہ وقار تھا اور وہ ضبط و تحمل و سکون و اطمینان کا گہوارہ تھی، بیٹی شان و شوکت، غرور و تمکنت اور بناؤ سنگھار کی طرف مائل ہے۔ ماں کے پاؤں زمین پر تھے اور نظریں آسمان کی روشنی پر، بیٹی ساتویں منزل پر بعد ناز و ادا ایستادہ ہے، لیکن اس کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی ہیں، ممکن ہے آپ کہیں کہ شرم سے، لیکن شرم کی اس میں بات ہی کیا ہے۔ اغلباً اس وجہ سے کہ آسمان ایک فریب نظر ہے اور اسے فریب نظر سے کوئی سروکار نہیں''۔
''قطب مینار کی کئی منازل ہیں اور ہر منزل پر زندگی اور کائنات کی ایک مختلف تصویر آنکھوں کے سامنے آتی ہے، میں جب پہلی منزل پر پہنچا تو سڑک پر چلتے ہوئے انسان کیرے مکوڑوں کی طرح رینگتے نظر آئے، عمارتیں پچکی ہوئی نظر آنے لگیں، دوسری منزل پر انسان قطعاً غائب ہوگئے، جھاڑیاں ننھے ننھے نقطوں کی صورت میں تبدیل ہوگئیں۔ تیسری منزل پہ پہنچا تو افق بھی میرے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑا ہوگیا، نظر کی حدود حیرت انگیز طور پر پھیلتی چلی گئیں لیکن جب میں آخری منزل پر پہنچا تو زمین کے سارے نشیب و فراز برابر ہوگئے، اوپر آسمان کی بے پناہ وسعتیں تھیں، نیچے زمین کا کشادہ سینہ تھا اور اس کشادہ سینے پر نئی دلی کی بلند و بالا عمارتیں چھوٹی چھوٹی سفید قبروں کی طرح پھیلتی چلی گئیں تھیں۔ میں نے ان سے نظریں ہٹا کر قطب مینار کی طرف دیکھا، عمارتوں کے اس قبرستان میں میرؔ و غالبؔ کی دلی اب بھی فاتحانہ انداز سے کھڑی تھی، اس کی نگاہیں آسمانی رفعتوں کی طرف تھیں اور اس کے ہونٹوں پر ماضی کی ساری درخشندگی ایک ہلکا سا تبسم بن کر جگمگارہی تھی''۔
وزیر آغا صاحب 1958 میں دلی گئے تھے اس وقت قطب مینار کی تمام منزلوں پر جانے کی اجازت تھی، ہم تین بار دلی گئے لیکن قطب مینار کی سیڑھیاں دیکھنے سے محروم رہے کہ قطب مینار پر چڑھ کر خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے باعث دروازہ مقفل کردیا گیا ہے۔ لوہے کے دروازے میں بڑا سا علی گڑھ والا تالا پڑا ہے، پتا نہیں خودکشی کرنے والوں میں ناکام عاشقوں کی تعداد زیادہ تھی یا غربت کے باعث زندگی سے منہ موڑنے والوں کی۔ کاش وزیر آغا کی طرح ہم بھی قطب مینار کی اونچائی تک پہنچ پاتے، یہاں تو بس گردن اٹھاکر دیکھنے کی جسارت بھی ممکن نہ تھی کہ گردن کہیں 180 کے زاویے پر جاکر ٹوٹ ہی نہ جائے۔
سو دور دور سے نظارہ کرلیا اور حسرت دل میں لے کر آگئے کہ اس وقت دلی کیوں نہ آئے جب قطب مینار کے دوازے کھلے ہوتے تھے۔ دلی جو بھی جاتا ہے واپسی پر یہی کہا ہے کہ بار بار آؤ، دلی دل چھین لیتی ہے لیکن ان کے جو صاحب دل ہوں، تاریخ کے اسرار سے واقف ہوں، سدا سہاگن دلی کے سات بار اجڑنے اور بسنے کا حال جانتے ہوں۔ چاندنی چوک میں عین گردوارے دلی میں قتل عام کا حکم دیا تھا کہ اس کی فوج کے ایک سپاہی کی جھڑپ کسی دلی والے کے کبوتر پر تھی۔