بالادست کون۔ قانون یا دولت

بااثر افراد قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر کب تک خود کو بچاتے رہیں گے؟

tahirnajmi@express.com.pk

قانون کسی بھی مہذب معاشرے کی معاشی، سیاسی و سماجی ترقی کی بنیاد ہوتا ہے اور ایسے معاشرے میں کوئی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، کوئی چاہے کسی بھی حوالے سے جتنا بھی طاقتور ہووہ ریاست کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے بے بس و لاچار ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قانون کو مکڑی کے ایسے جال سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے جس میں صرف کمزور ا ور غریب ہی پھنستا ہے جب کہ امیر اوربااثر ہمیشہ اس جال کو توڑ کر نکل جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ 5سال قبل کراچی میں ایک دولت مند و بااثر شخص کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان شاہ زیب کے مقدمے میں نظر آرہا ہے۔

اندرون سندھ تانیہ خاصخیلی کا قتل ہو یا کوئٹہ میں رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کی گاڑی سے ٹریفک سارجنٹ کی ہلاکت، ملتان کے علاقے مظفر آباد میں لڑکی کی بے حرمتی کے بدلے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ ہو یا اب شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی سزائیں ختم کرنیکا فیصلہ ہو،خود بتا رہا ہے کہ وطن عزیز میں غریب اور امیر کے لیے قانون آج بھی الگ الگ ہے، بالا دست طبقہ مجبور و تہی دست طبقے کے حقوق کو پامال کرکے اس کا استحصال کررہا ہے، عام آدمی کی سمجھ میں بس اتنا ہی آتا ہے کہ قانون صرف غریب کے لیے بنا ہے۔

گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں ملزمان شاہ رخ جتوئی اور دیگر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت سمیت دیگر سزاؤں کو کالعدم قرار دیدیا۔ ملزمان کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل کی سماعت میںعدالت نے قتل کو ذاتی عناد قرار دیا اور کہاکہ پولیس نے کیس میں دہشتگردی ایکٹ کی دفعات کا غلط استعمال کیا ہے اور ماتحت عدالت کو حکم دیا کہ معاملہ کی ازسر نو سماعت کرکے قتل کے محرکات کاجائزہ لیا جائے کہ آیا یہ قتل ذاتی عناد ہے یا دہشت گردی۔

پانچ سال قبل 25دسمبر2012 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں جواں سال طالبعلم شاہ زیب کو سندھ کی ایک دولتمند شخصیت کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے چار ساتھیوں کے ساتھ ملکر قتل کردیا تھا، جس پرملک بھر میں شور مچا تھا، سپریم کورٹ نے واقعہ کا از خود نوٹس لیا تو پولیس کو متحرک ہونا پڑا، مگر دولت ہار کہاں ماننے والی تھی اس نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو گرفتاری سے بچانے کی خاطر ملک سے فرار کرا دیا بعد ازاں عدلیہ اور میڈیا کے دباؤ پر اسے دبئی سے پکڑکر لایا گیا ' قتل کے جرم میں جون 2013 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور کو سزائے موت و دیگر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن اب 4سال بعد اس کیس میں اہم موڑ آیا ہے۔ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ملزمان کی رہائی کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے اور ملزمان کے سروں پر سزائے موت کی لٹکنے والی تلوار ٹل گئی ہے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ جب ملزمان کے خلاف یہ مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں زیر سماعت تھا اس وقت ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ یہ مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں نہ چلایا جائے، جس پر سندھ ہائی کورٹ کے ہی اس وقت کے ڈویژنل بینچ نے اس معاملے کو دہشتگردی کا معاملہ قرار دیا تھا اور فیصلہ دیا تھا کہ اس قتل سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے، اس لیے یہ دہشتگردی ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے لہذا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہی چلے گا، پھر مقدمہ چلا، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو سزا سنائی اور اب 4سال گزرنے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے ہی دو رکنی بینچ نے نہ صرف ملزمان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیدیا بلکہ اسے ذاتی عناد قرار دیکر از سر نو سماعت کا حکم دیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سزائیں ملنے کے بعد ملزمان نے مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات نکالنے کے لیے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بھی اپیل دائر کی تھی اور اس وقت کے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے بینچ نے ملزمان کی درخواست مسترد کردی تھی۔


سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ میں دہرا نظام ہے، فیصلہ دینے والے جج اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مقدمے میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ غلط شامل کی گئی تھی تو پھر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر بھی سوال اٹھتا ہے، کیونکہ اکثر مقدمات میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ انسداد دہشتگردی کی عدالتیں ملزمان کو سزائیں دیتی ہیں اور ملزمان ان سزاؤں کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کردیتے ہیں پھر قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ مقدمے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اس طرح قوم کا وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتے ہیں۔

اس کیس میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ اس کیس کو دہشتگردی ایکٹ کے زمرے میں آجانے کا کہہ چکی تھی اور سپریم کورٹ نے بھی ملزمان کی جانب سے دہشت گردی ایکٹ کی دفعات نکالنے کی اپیل مسترد کردی تھی اس کے باوجود ایسا فیصلہ آنے سے لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ جس جج نے شاہ رخ جتوئی کے حق میں فیصلہ دیا ہے وہ کسی نہ کسی طرح '' دباؤ '' میں آگیا ہو گا کیونکہ ملزمان کے ورثاء شروع دن سے ہی اپنی دولت کی طاقت پر نازاں تھے اور انھیں یہ زعم تھا جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ کوئی ہمیں ہرا نہیں دے سکتا۔

اصل میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعات ہی ملزمان کو سلاخوں کے پیچھے رکھے ہوئی ہیں، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے قانون کے تحت مقتول کے ورثاء قصاص یا دیت لے کر یا پھر فی سبیل اللہ ملزم کو معاف کرسکتے ہیں لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7کے تحت ملزمان کو معافی نہیں مل سکتی۔ اس بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مقتول کے لواحقین ملزمان سے صلح نامہ کرچکے ہیں اور خون بہا کے عوض 27کروڑ روپے، ڈیفنس میں 500گز کا بنگلہ، آسٹریلیا میں فلیٹ لیا گیا ہے۔

مذکورہ سماعت میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے بھی عدالت کو بتایا کہ مقدمہ میں مقتول شاہ زیب اور ملزم شاہ رخ کے اہل خانہ کے درمیان صلح ہوچکی ہے، صلح نامے کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ ہر ذی شعوربخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مقتول کے لواحقین نے کن حالات اور مجبوریوں کے تحت یہ معاہدہ کیا ہوگا۔

ہمارے ملک میں پولیس' قانون اور انصاف کا جو نظام قائم ہے اس میں قدم قدم پر امتیازات، جانبداری اور نا انصافی کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ حکمران طبقات اور اہل سیاست قانون اور انصاف کی برتری کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن وطن عزیز میں قانون کے بجائے دولت کی حکمرانی اور بالا دست طبقات کی بادشاہت بڑے طمطراق سے قائم و دائم ہے، جس کے سامنے قانون بھی بے بس ہے، ان کی نظر میں قانون کی اہمیت کسی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں اور وہ اس کاغذ کے ٹکڑے کو کاغذ کے دوسرے ٹکڑے کے ذریعے ہمیشہ آسانی سے خرید لیتے ہیں۔

پولیس ان کے اشارہ ابرو کی منتظر اور سیاسی جماعتیں ان کی مٹھی میں ہوتی ہیں، یہ جو چاہیں جیسا چاہیں، کرسکتے ہیں، کسی کی بہن بیٹی کی عزت پر ہاتھ ڈالنا ہو، نشے میں دھت ہوکر کسی غریب کی درگت بنانا ہو یا کسی کی جان لینی ہو، غرض کہ غریب عوام کی زندگیوں پر ان کو سارے حق حاصل ہیں، یہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، پسماندہ علاقوں میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں ایسے بااثر وڈیرے اور زمیندار موجود ہیں جو اپنی نجی جیلیں رکھتے ہیں، جہاں بے قصور لوگوں کو سالوں قید میں رکھا جاتا ہے، ان کی بگڑی ہوئی اولادیں گاؤں والوں کی زندگیوں میں زہر گھولتی رہتی ہیں۔ ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا؟

بااثر افراد قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر کب تک خود کو بچاتے رہیں گے؟ شاہ زیب قتل کیس میں اگر ملزمان کو رہا کردیا جاتا ہے جیسا کہ اب ان کی رہائی کی راہ بھی ہموارہوتی نظر آ رہی ہے تو پھر بااثر طبقات کا حوصلہ مزید بلند ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ اس بری روایت کو پروان چڑھنے سے روکا جائے، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر معاملے کی تحقیقات کرائیں کہ سپریم کورٹ اور خود سندھ ہائی کورٹ نے بھی جس کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھیجا اسی کیس میں اب سندھ ہائی کورٹ کے جج کو قانونی سقم کیوں نظر آرہے ہیں، قانون سازوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ایسا قانون بنائیں جسے بالا دست طبقات اثر و رسوخ اور دولت کی بنیاد پر اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہ کرسکیں اور ملزم چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے۔
Load Next Story