کرکٹ کرپشن کا جن قابو سے باہر ٹیلنٹ کو نگلنے لگا
نجی ٹورنامنٹس سے روک تھام مشکل، پاکستان آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کی خدمات نہیں لیتا، رپورٹ
کرکٹ کرپشن کا جن قابو سے باہر ہو گیا اور ٹیلنٹ کو بھی نگلنے لگا جب کہ مختصر طرز کی لیگززہرقاتل قرار دے دی گئیں۔
ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں کرکٹ کی ساکھ کو فکسنگ سے لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے،اس میں بتایا گیاکہ 90کی دہائی میں یہ دھندا عروج پر اور بڑی ٹیموں کے سینکڑوں کرکٹرز بکیز کی نظروں میں تھے،جدید دور میں کئی نئے فارمیٹ متعارف کرائے جانے کے بعد فکسنگ کے خدشات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا،جدید ٹیکنالوجی اور براہ راست نشریات کی وافر سہولیات میسر آنے کی وجہ سے میچ کے نتیجے سے قطعہ نظر کچھ حصے فکسڈ کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پایا ہے،ویمنز اور جونیئر ٹیمیں بھی بکیز کا آسان شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ متعارف کرائے جانے کے بعد سٹے بازوں کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، رواں سال بکیز نے پی ایس ایل میں شریک پاکستانی کرکٹرز کو دام میں پھنسایا اور ان کو بورڈ نے سزائیں بھی سنائیں، بعد ازاں صرف 2ماہ میں 3قومی ٹیموں کے کپتانوں کو بھی فکسنگ میں تعاون کیلیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک کی رقم پیش کی گئی۔
انٹرنیشنل سینٹر فار اسپورٹس سیکیورٹی نے کرکٹ میں جوئے پر لگائی جانے والی رقم کا اندازہ 2کھرب ڈالر کے قریب لگایا ہے،اس میں مختلف ذرائع سے نشر کیے جانے والے چھوٹے بڑے ٹورنامنٹ شامل ہیں، آئی سی سی صرف انٹرنیشنل میچز کی نگرانی کرتی ہے،ملکی کرکٹ بورڈز صرف ڈومیسٹک مقابلوں پر نظر رکھتے ہیں،فکسنگ کیسز کی وجہ سے بدنام ہونے والی پاکستان اور بنگلادیش لیگز دونوں ہی آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کو اپنی سپورٹ کیلیے بلانا ضروری خیال نہیں کرتیں۔
فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹ پلیئرز ایسوسی ایشن (فیکا)کے ایگزیکٹیو چیئرمین ٹونی آئرش کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن کرکٹ کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں،اس کھیل کو لاحق خطرات کا سامنا کرنے کیلیے تیاریاں سست روی کا شکار ہیں،کرکٹ کی ساکھ داؤ پر لگی ہے، اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو کمزور اینٹی کرپشن پالیسی رکھنے والی لیگز کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوگا۔
ٹونی آئرش نے کہا کہ چند لیگز کرپشن کیخلاف اقدامات کا کم از کم معیار برقرار رکھتی ہیں جبکہ دیگر اس کی کوئی فکر نہیں کرتیں،کرکٹرز کو اس بارے میں تعلیم دینے کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی،بیشتر ملکوں میں ایسے قوانین ہی وضع نہیں کیے گئے کہ فکسرز پر آہنی ہاتھ ڈالا جائے،انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کرکٹ پرصرف 15فیصد جوا قانونی ہوتا ہے دیگر تمام لین دین بکیز خفیہ ذرائع سے کرتے ہیں،اس لیے ان کو کھلاڑیوں سے دور رکھنا یا پکڑے جانے پر کارروائی کرنا کوئی آسان کام نہیں، بھارت میں خاص طور پر سٹے بازی میں بھی اتنی ورائٹی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلیے بھی ہاتھ ڈالنا آسان نہیں، وہاں جوئے کے کئی ریکٹ سال بھر مختلف صورتوں میں سرگرم رہتے اور کھیل کیلیے خطرہ بنتے ہیں۔
ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں کرکٹ کی ساکھ کو فکسنگ سے لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے،اس میں بتایا گیاکہ 90کی دہائی میں یہ دھندا عروج پر اور بڑی ٹیموں کے سینکڑوں کرکٹرز بکیز کی نظروں میں تھے،جدید دور میں کئی نئے فارمیٹ متعارف کرائے جانے کے بعد فکسنگ کے خدشات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا،جدید ٹیکنالوجی اور براہ راست نشریات کی وافر سہولیات میسر آنے کی وجہ سے میچ کے نتیجے سے قطعہ نظر کچھ حصے فکسڈ کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پایا ہے،ویمنز اور جونیئر ٹیمیں بھی بکیز کا آسان شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ متعارف کرائے جانے کے بعد سٹے بازوں کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، رواں سال بکیز نے پی ایس ایل میں شریک پاکستانی کرکٹرز کو دام میں پھنسایا اور ان کو بورڈ نے سزائیں بھی سنائیں، بعد ازاں صرف 2ماہ میں 3قومی ٹیموں کے کپتانوں کو بھی فکسنگ میں تعاون کیلیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک کی رقم پیش کی گئی۔
انٹرنیشنل سینٹر فار اسپورٹس سیکیورٹی نے کرکٹ میں جوئے پر لگائی جانے والی رقم کا اندازہ 2کھرب ڈالر کے قریب لگایا ہے،اس میں مختلف ذرائع سے نشر کیے جانے والے چھوٹے بڑے ٹورنامنٹ شامل ہیں، آئی سی سی صرف انٹرنیشنل میچز کی نگرانی کرتی ہے،ملکی کرکٹ بورڈز صرف ڈومیسٹک مقابلوں پر نظر رکھتے ہیں،فکسنگ کیسز کی وجہ سے بدنام ہونے والی پاکستان اور بنگلادیش لیگز دونوں ہی آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کو اپنی سپورٹ کیلیے بلانا ضروری خیال نہیں کرتیں۔
فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹ پلیئرز ایسوسی ایشن (فیکا)کے ایگزیکٹیو چیئرمین ٹونی آئرش کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن کرکٹ کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں،اس کھیل کو لاحق خطرات کا سامنا کرنے کیلیے تیاریاں سست روی کا شکار ہیں،کرکٹ کی ساکھ داؤ پر لگی ہے، اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو کمزور اینٹی کرپشن پالیسی رکھنے والی لیگز کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوگا۔
ٹونی آئرش نے کہا کہ چند لیگز کرپشن کیخلاف اقدامات کا کم از کم معیار برقرار رکھتی ہیں جبکہ دیگر اس کی کوئی فکر نہیں کرتیں،کرکٹرز کو اس بارے میں تعلیم دینے کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی،بیشتر ملکوں میں ایسے قوانین ہی وضع نہیں کیے گئے کہ فکسرز پر آہنی ہاتھ ڈالا جائے،انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کرکٹ پرصرف 15فیصد جوا قانونی ہوتا ہے دیگر تمام لین دین بکیز خفیہ ذرائع سے کرتے ہیں،اس لیے ان کو کھلاڑیوں سے دور رکھنا یا پکڑے جانے پر کارروائی کرنا کوئی آسان کام نہیں، بھارت میں خاص طور پر سٹے بازی میں بھی اتنی ورائٹی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلیے بھی ہاتھ ڈالنا آسان نہیں، وہاں جوئے کے کئی ریکٹ سال بھر مختلف صورتوں میں سرگرم رہتے اور کھیل کیلیے خطرہ بنتے ہیں۔