فکسنگ کی چنگاریاں کب تک بڑھکتی رہیں گی

صرف کرکٹرز ہی قصوروار کیوں،بکیز پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔


Abbas Raza December 10, 2017
پاکستان کرکٹ میں بدقسمتی سے بار بار فکسنگ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔ فوٹو: فائل

SRINAGAR: کرپشن کا گھن کسی بھی سسٹم کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا سبب بنتا ہے،کھیلوں کا تو مقصد ہی نئی نسل کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرتے ہوئے جیت کیساتھ ہار بھی برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن اگر اس میں کھوٹ آجائے تو نئی نسل کو منفی پیغام جاتا ہے۔

پاکستان کرکٹ میں بدقسمتی سے بار بار فکسنگ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے،یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا،17 سال قبل ملکی کرکٹ کے سٹار کرپشن سے آلودہ ہوئے، دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی، تحقیقات کے بعد جسٹس قیوم رپورٹ میں کئے داغدار چہروں کی نشاندہی بھی ہوئی، سفارشات کی روشنی میں سلیم ملک اور عطاء الرحمان تاحیات پابندی کا شکار ہوئے،دیگر کئی کرکٹرز کو چھوٹ دیدی،ان میں کئی کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کی قیادت اور ملکی کرکٹ میں کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش بھی کئی گئی تھی لیکن سب ایک ایک کرکے مختلف ذمہ داریوں کے لیے منتخب کئے گئے اور آج بڑے معتبر ناموں میں شامل ہوتے ہیں،بعد ازاں بھی ہر چیئرمین پی سی بی نے زیروٹالرنس پالیسی اپنانے کا نعرہ ضرور لگایا لیکن عملی طور پر کرپشن کے آتش فشاں کو نظر انداز کیا،مختلف ادوار میں اس سے اٹھنے والے چنگاریاں پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو خاکستر کرنے کا سبب بنتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

لارڈز ٹیسٹ2010 کے دوران کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے، بکی مظہر مجید کے کہنے پر نوبال کروانے والی پاکستانی کرکٹرز سٹنگ آپریشن میں ناقابل تردید ثبوت چھوڑ گئے اور برطانیہ میں قید کی سزا بھی کاٹی، آئی سی سی نے تینوں کرکٹرز پر 5سال کی پابندی عائد کی تھی، زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے چیمپئن کرکٹ بورڈ نے سزا کی مدت پوری ہونے پر محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ممکن بنائی،نجم سیٹھی کا اس میں اہم کردار رہا، امتیازی سلوک کا شکار سلمان بٹ اور محمد آصف موقع ملنے کے انتظار میں ہیں۔

رواں سال پاکستان سپر لیگ کے آغاز میں سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے ایک بار پھر دنیا کرکٹ میں تہلکہ مچایا، پی سی بی کا اینٹی کرپشن ٹریبیونل شرجیل خان اور خالد لطیف کو سزائیں سنا چکا، محمد عرفان 6ماہ کی معطلی کے بعد کرکٹ میں واپسی بھی کرچکے، شرجیل خان ڈھائی سال معطل سمیت 5سال کی سزا سنائی گئی،ان کی اپیل بھی مسترد ہوچکی اور اب عدالت سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہیں، خالد لطیف پر 5سال کے لیے کرکٹ کے دروازے بند کئے گئے تھے، ان کی اپیل کا کیس جاری ہے، ناصر جمشید کا فیصلہ پیر کو متوقع جبکہ شاہ زیب حسن کا کیس اینٹی کرپشن ٹریبیونل میں زیر سماعت ہے،پی ایس ایل کا تیسرا ایڈیشن شروع ہونے کے قریب ہے لیکن گزشتہ گند صاف ہونے سے قبل ہی فکسنگ کے آتش فشاں سے ایک اور چنگاری اٹھتی نظر آرہی ہے،

بی پی ایل میں شرکت کرنے والے محمد سمیع کو بنگلہ دیش سے واپس بلاکر باز پرس کئے جانے کے بعد مزید انکشافات سامنے آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، گرچہ ابھی پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ کرنل (ر) اعظم نے ابتدائی چھان بین کرتے ہوئے بیان ریکارڈکیا، بورڈ کے جی ایم لیگل سلمان نصیر نے وجوہات بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے تحقیقات آگے بڑھنے پر اگر شوکاز نوٹس جاری ہونے کے امکانات بھی مسترد نہیں کئے۔

ذرائع کا کہنا ہے پی سی بی نے پیسر کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے رکن کے بیان پر طلب کیا ہے، غیر ملکی آفیشل نے سپاٹ فکسنگ کے حوالے سے محمد سمیع سمیت 2 پاکستانی کرکٹر کے نام لیے تھے، سلمان نصیر کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ پی سی بی کو کچھ معلومات ملی تھیں جس کی بنیاد پر پیسر کو نوٹس آف ڈیمانڈ دیکر بلایا گیا، پاکستان کے لیے آخری انٹرنیشنل میچ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016میں کھیلنے والے پیسر اور دیگر 2کرکٹرز کے بارے میں حقائق آگے چل کر سامنے آجائیں گے، ہمیشہ سے مشکوک سمجھی جانے والی بی پی ایل کے بارے میں چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی خود بھی کہہ چکے ہیں، بنگلہ دیشی لیگ میں شکوک سامنے آنے پر کھلاڑیوں کے خلاف تحقیقات کرنا چاہتے تھے لیکن بی سی بی نے تعاون سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ معاملات بورڈ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، محمد سمیع کا کیس سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

دراصل پیسے کی دوڑ کرکٹ کو مسلسل آلودہ کررہی ہے، نجی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں اتنا مال ہے کہ کئی نامور کرکٹرز قومی ٹیموں کی نمائندگی کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں سمجھتے، فکسنگ کے رجحان کوختم کرنا صرف آئی سی سی کا کام نہیں یہ کرکٹ بورڈز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات پر کڑی نظر رکھیں،اس کے لیے ملکی سطح کے مقابلوں میں معاوضوں کو پرکشش بنانا اور کرکٹرز کو فکسنگ کے حوالے سے تعلیم دینا ضروری ہے لیکن ہویہ رہا ہے کہ ہر ملک نے تو اپنی ٹی ٹوئنٹی لیگ شروع کر رکھی ہے۔

یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ اگر غیر ملکی لیگز میں اپنے کھلاڑی نہیں بھیجے تو دوسرے بھی نہیں آنے دینگے،اس معاملے میں پی سی بی سب سے زیادہ نرم رویہ رکھتا ہے،ایک طرٖف ڈومیسٹک کرکٹ کے میچز چل رہے ہوتے ہیں،دوسری جانب سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ قومی کرکٹرز غیر ملکی لیگز میں شریک ہوتے ہیں، حال ہی میں قومی ٹوئنٹی لیگ ادھوری چھوڑ کر پی پی ایل میں شرکت کے لیے این او سی جاری کردیئے گئے،قائداعظم ٹرافی کا سپر ایٹ مرحلہ ملک میں جاری ہے اور ٹاپ سٹارز متنازعہ سمجھی جانے والی ٹی 10 لیگ میں شریک ہونگے۔

اس طرح کی پالیسیوں کیساتھ کھلاڑیوں کو مال کمانے کی مشین بنائے جانے کے بعد اگر کوئی فکسنگ شکوک کی زد میں آتا ہے تو اس کو دھر لیا جاتا ہے لیکن مختلف لیگز میں کرکٹرز کو خراب کرنے والے بکیز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، جتنے کیس پکڑے گئے ان میں مظہر مجید کے سوا کسی بکی کو قانون کی گرفت میں لائے جانے کی اطلاع نہیں،یکطرفہ ٹریفک چلائے جانے کا نتیجہ ہے کہ کھلاڑیوں کے آس پاس دندناتے پھرنے والے بکیز کسی نہ کسی کو پھانس لیتے ہیں۔

سرفراز احمد کی طرح جرات کا مظاہرہ کرنے والے کم اور محمد عرفان کی طرح بکی کے بارے میں بتانے سے ہی گریز کرنے والے زیادہ ہیں،اس صورتحال میں بکیز کو سزائیں دلوائے بغیر فکسنگ کیخلاف مہم کامیاب ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی،اگر کوئی بکی کسی پرستار کے روپ میں کہیں بھی کھلاڑی سے ملے اور کوئی معاملہ طے بھی نہ پائے تب بھی شکوک تو پیدا ہوجائیں گے، پلیئر انکوائری کی زد میں آنے کے بعد اپنا دامن صاف ثابت کرنے میں بھی شدید پریشانی کا شکار رہے گا، کرکٹرز کے لیے کوئی معافی نہیں تو بکیز کو کیوں چھوڑا جاتا ہے۔

دوسری جانب محمد حفیظ آل راؤنڈر کا سٹیٹس بحال کرنے کے لیے زیادہ ہی بیتاب نظر آرہے ہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ جتنی کرکٹ باقی ہے بیٹنگ پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا، واضح رہے کہ محمد حفیظ 2014 سے بولنگ ایکشن کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں، پہلی مرتبہ 2014 میں رپورٹ ہوئے اور اسی سال دسمبر میں بولنگ سے معطل کردیا گیا تھا، آزادانہ جائزے کے بعد اپریل 2015 میں ان کے ایکشن کو درست قرار دے کر بولنگ کی اجازت دیدی گئی تھی لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہی اور جون 2015 میں سری لنکا کے خلاف گال ٹیسٹ میں ان کا ایکشن دوبارہ رپورٹ ہوا، جولائی 2015 میں ایکشن دوسری بار غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں بولنگ پر ایک سال کی پابندی لگادی گئی تھی۔

گزشتہ سال نومبر میں برسبین کے نیشنل کرکٹ سنٹر میں ٹیسٹ ہوا تو ایکشن درست قرار پایا تھا اوربولنگ کی اجازت مل گئی لیکن ایک سال کے اندر ہی دوبارہ گرفت میں آگئے، پابندی ختم کرانے کی کوشش میں محمد حفیظ آئندہ ہفتے انگلینڈ روانہ ہورہے ہیں جہاں بائیومکینک ایکسپرٹ پال ہورین اور بولنگ کوچ کارل کرو ان کے مسائل کا جائزہ لینے کے بعد بولنگ ایکشن کی درستگی کا پلان بناکر دینگے،انگلینڈ میں موجود قومی کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ اظہر محمود بھی اس موقع پر موجود ہوں گے، وطن واپسی پر غیر ملکی ماہرین کی جانب سے تجویز کئے گئے طریقہ کار کے مطابق نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ایکشن کی اصلاح کے لیے پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا، اس دوران مقامی یونیورسٹی میں قائم پی سی بی کی بائیو مکینک لیب میں بھیج کر ایکشن کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، تسلی ہونے پر آئی سی سی کے تحت بولنگ ایکشن ٹیسٹ کیلیے بھجوایا جائے گا۔

پی سی بی کے پلان میں تو کوئی خرابی نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سعید اجمل کا ایکشن درست ہوا تو انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی اور وہ سخت قوانین کا شکوہ کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے، آفر سپنر کے برعکس محمد حفیظ کے پاس تو کیریئر جاری رکھنے کے لیے بیٹنگ کا ہنر موجود ہے، بولنگ ایکشن کی درستگی پر بورڈ کے لاکھوں روپے اور اپنی توانائی صرف کرنے کے بجائے خود کو قومی ٹیم کے قابل ثابت کرنے کے لیے بیٹنگ میں محنت کریں تو زیادہ بہتر ہوگا جو مسائل 3کوششوں کے بعد بھی ختم نہیں ہوسکے،اب بھی برقرار رہے تو پیسہ اور وقت دونوں برباد ہوں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں