گوروں کی نقالی کر کے ورلڈ چیمپئن نہیں بن سکتے نوید عالم
پی ایچ ایف کے ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ نوید عالم سے خصوصی نشست کا احوال
دنیا بھر میں قومیں اپنے لیجنڈز کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں لیجنڈز کو منفرد انداز میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے جس نے70 سال کے عرصہ میں ملک کو ان گنت میڈلز جتوائے ہیں۔
عالمی سطح پر سبز ہلالی پرچم لہرانے والے ہاکی سٹارز کی فہرست خاصی طویل ہے،انہیں روشن ستاروں میں ایک ستارہ نوید عالم کا بھی ہے جو ملکی نیک نامی کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہے، ورلڈ کپ 1994 کے فاتح سکواڈ کا حصہ رہنے والے سابق اولمپئن کی ہاکی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ نوید عالم اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن میں ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ کے اہم عہدہ پر فائز ہیں۔ ''ایکسپریس'' نے نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں ان سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔
نوید عالم کا کہنا ہے کہ قومی انڈر 16بوائز ہاکی چیمپئن شپ میں 16 ٹیمیں شریک ہوئیں، یہ ملکی تاریخ کی پہلی چیمپئن شپ تھی جس میں گراس روٹ سطح پر پلیئرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع فراہم کیا گیا، ایونٹ میں 2002 میں پیدا ہونے والے بچوں کو ہی اس لئے حصہ بنایا گیا تاکہ عمدہ کارکردگی دکھا کر آگے آنے والے پلیئرز 2022ء کا ورلڈکپ بھی کھیل سکیں۔ نوید عالم کی رائے میں ماضی میں پریکٹس رہی کہ سلیکشن کے طریقہ کار میں باریکیوں کو پرکھا گیا اور نہ ہی بچوں، کوچز، امپائرز اور مقامی ایسوسی ایشنز کو ایجوکیٹ کیا گیا۔
ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر ٹورنامنٹس کا انعقاد کروایا جاتارہا جس کی وجہ سے ملک سے اچھے کھلاڑی ناپید ہو گئے۔ میں صدر پی ایچ ایف بریگیڈیئر (ر) خالد سجاد کھوکر کو خصوصی طور پر مبارکباد پیش کروں گا کہ انہوں نے ایج گروپ کے حوالے سے مجھے زیرو ٹالیرنس کا اختیار دیا، ٹیموں کے انتخاب میں من پسند کی بجائے صرف اور صرف میرٹ کو ترجیح دی گئی۔میرے اپنے بیٹے حذیفہ نوید اور بھانجے عبداللہ جاوید کو اس لئے پنجاب کی ٹیموں میں شامل نہ کیا گیا کیونکہ ان کی عمریں 6، 6 ماہ زیادہ تھیں۔ انڈر 16 بوائز چیمپئن شپ کے دوران کچھ ایسے بچے بھی تھے جو جعلی ب فارم اور سکول سرٹیفکیٹس پر آئے ہوئے تھے۔ بعض نے تو اپنے باپ تک کے نام تبدیل کروا رکھے تھے، سکروٹنی کمیٹی اور سلیکشن کمیٹی نے ایسے 67 بچوں کو چیمپئن شپ سے باہر کیا۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جب 16 سال کا بچہ ہی بد دیانتی پر مبنی پریکٹس میں آ جائے گا تو پاکستان کو عزت کیسے ملے گی؟
نوید عالم کے مطابق عمروں میں ہیر پھیر کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب 20 یا 22 سال کا کھلاڑی انڈر 16کھیلتا ہے تو وقتی طور پر تو وہ بہت اچھا لگے گا، اس کی کارکردگی بھی بہت زبردست ہوگی تاہم ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں ٹیلنٹ چاہیے یا جیت، یقینی طور پر اس کا جواب ٹیلنٹ کا انتخاب ہی ہونا چاہیے۔ ایک اور پہلو پر اس لئے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب 22 سال کا کھلاڑی انڈر 16 کھیلے گا تو2022ء میں اس کی عمر 27 سال ہو جائے گی تو وہ اور کتنی دیر تک قومی ٹیم کیلئے پرفارم کر سکے گا؟ ماضی میں28 اور 29 سال کے کھلاڑی جونیئر ورلڈکپ کھیل گئے، 1993ء میں ہم لوگ تراسا میں جونیئر ورلڈ کپ کھیلے،اس میں ہمارا ایج گروپ کا فرق صرف سال ڈیرھ سال کا ہی تھا، ہم واپس آئے اور1994 کی چیمپئنز ٹرافی کے ساتھ ورلڈ کپ بھی جیت گئے۔
پی ایچ ایف کے اعلی عہدیدار کی رائے میں پچھلے 15 برسوں سے ملکی ہاکی کی تباہی و بربادی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ جونیئر کیٹیگری میں سینئر کھلاڑی کھیلتے رہے۔ 80 فیصد کے قریب وہ کھلاڑی نیشنل ٹیموں میں آئے جن کی عمریں 27 اور 28 سال کے درمیان تھیں، حالانکہ اس عمر میں اچھے کھلاڑی انٹرنیشنل ہاکی کو خیرباد کہنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے کھلاڑی جب قومی ٹیم کی طرف سے کھیلے تو ان پلیئرزکے فٹنس مسائل بھی سامنے آئے۔
سابق اولیمپئنز اور ٹیکنوکریٹس ٹی وی پر بیٹھ کر اظہار خیال کرتے ہیں کہ قومی ٹیم کا فٹنس ایشو ہے، یہ مسئلہ کیوں ہے؟ یہ آج تک کسی نے نہیں بتایا۔ کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل اس لئے ہیں کہ ہم کلب، تحصیل، ڈسٹرکٹ یا صوبائی سطح کے ایونٹس جتوانے کے لئے اوور ایج بچے لیتے ہیں جس کا خمیازہ آگے جاکر قومی جونیئر اور سینئر ٹیموں کو بھگتنا پڑتا ہے، میرا کہنا ہے کہ جب پراسیس کے بغیر کوچز، امپائرز، عہدیداروں کی تقرری ہو گی تو وہ ملکی ہاکی کی بربادی کا سبب ہی بنے گی۔
گزشتہ15 سے 20 برسوں میں مخصوص لوگوں کے آئیڈیاز پر ہاکی ہوتی رہی، ریئلٹی کے اوپر کوئی عہدیدار نہیںگیا جس کا خمیازہ قومی ٹیموں کا بار بار ناکامیوں کی صورت میں سامنے آیا۔ اب اس پریکٹس کو تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں اس بربادی کو روکنے کیلئے موجودہ پی ایچ ایف انتظامیہ نے بولڈ سٹیپ لیاہے اور وہ پلیئرز اور کوچز جنہوں نے انڈر 16 چیمپئن شپ کے دوران غلط بیانی کی، ان کی فہرست تیار کی ہے جنہیں پی ایچ ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پیش کروں گا۔
ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ پی ایچ ایف کی نظر میں قومی ہاکی چیمپئن شپ واحد ایونٹ ہوتا ہے جس میں پلیئر کو جاب سکیورٹی کے ساتھ قومی سطح پر صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملتا ہے اور اسی ایونٹ کے ذریعے کھلاڑیوں، آفیشلز اور امپائرز کی گریڈنگ بھی ہوتی ہے۔ رواں ماہ شیڈول قومی ہاکی چیمپئن شپ میں پہلی بار 30 کے قریب ٹیمیں بننے جا رہی ہیں۔ 16سے18 محکمے ہوں گے، ہر صوبے سے 2، 2 ٹیمیں الگ سے شامل ہوں گی۔اے جے کے، اسلام آباد، فاٹا کو بھی شامل کیا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان میں 300 باصلاحیت پلیئرز کا پول اب بھی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے کبھی وسائل کا رونا، کبھی قیام وطعام کا رونا، کبھی موسم کے معاملات درپیش آتے ہیں، کروڑوں روپے ہم نے میلوں ٹھیلوں پر لگا دیئے، لیکن پلیئرز کیلئے وہ کچھ نہ کیا جس کے وہ مستحق تھے۔
نوید عالم کی رائے میں اب21 کیٹگری میں اسی عمر کا کھلاڑی ہی کھیلے گا۔سینئر زکے بعد ڈویلپمنٹ اور 21 کا سکواڈ آئے گا،پھر انڈر19، 18 اور انڈر16 ٹیموں کا نمبر آئے گا۔موجودہ پی ایچ ایف نے آپ کو ہر عمر کا ایک سانچہ دے دیا،اب سب کو اندازہ ہے کہ اس نے اپنا رول کس طرح اور کس انداز میں ادا کرنا ہے۔ نوید عالم کے مطابق پاکستان دنیا کو فالو کر کے اور ان کے کوچز کے طریقہ کار کو اپنا کر ورلڈ چیمپئن نہیں بن سکتا، ہمیں عالمی چیمپئن بننے کیلئے خواجہ ذکاالدین، بریگیڈیئر عاطف، خالد محمود، منظور جونیئر، شہباز سینئر کو فالو کرنا ہوگا کہ وہ کس انداز کی ہاکی کھیلتے تھے ۔ اسی ہاکی کو اپنے بچوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں یہ پریکٹس رہی کہ جس کوچ کو باہر بھیجا گیا وہ گوروں کی نقل کر کے وطن واپس آ گیا اور اس نے پاکستانی بچوں کو بھی اسی انداز میں ہاکی کھلانا شروع کر دی، ٹیمیں نقالی سے نہیں بنتی، فائٹر کھلاڑی بنانا کوچز کا مقصد ہونا چاہیے۔ سکول چیمپئن شپ کے دوران میں نے جتنا ٹیلنٹ دیکھا، اس کے بعد دعویٰ سے کہتا ہوں کہ پاکستان مستقبل میں ہر ٹائٹل جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ پلیئرز کی سلیکشن اور گرومنگ پر کسی بھی طرح کا کوئی بھی کمپرومائز نہ کیا جائے۔
عالمی سطح پر سبز ہلالی پرچم لہرانے والے ہاکی سٹارز کی فہرست خاصی طویل ہے،انہیں روشن ستاروں میں ایک ستارہ نوید عالم کا بھی ہے جو ملکی نیک نامی کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہے، ورلڈ کپ 1994 کے فاتح سکواڈ کا حصہ رہنے والے سابق اولمپئن کی ہاکی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ نوید عالم اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن میں ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ کے اہم عہدہ پر فائز ہیں۔ ''ایکسپریس'' نے نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں ان سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔
نوید عالم کا کہنا ہے کہ قومی انڈر 16بوائز ہاکی چیمپئن شپ میں 16 ٹیمیں شریک ہوئیں، یہ ملکی تاریخ کی پہلی چیمپئن شپ تھی جس میں گراس روٹ سطح پر پلیئرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع فراہم کیا گیا، ایونٹ میں 2002 میں پیدا ہونے والے بچوں کو ہی اس لئے حصہ بنایا گیا تاکہ عمدہ کارکردگی دکھا کر آگے آنے والے پلیئرز 2022ء کا ورلڈکپ بھی کھیل سکیں۔ نوید عالم کی رائے میں ماضی میں پریکٹس رہی کہ سلیکشن کے طریقہ کار میں باریکیوں کو پرکھا گیا اور نہ ہی بچوں، کوچز، امپائرز اور مقامی ایسوسی ایشنز کو ایجوکیٹ کیا گیا۔
ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر ٹورنامنٹس کا انعقاد کروایا جاتارہا جس کی وجہ سے ملک سے اچھے کھلاڑی ناپید ہو گئے۔ میں صدر پی ایچ ایف بریگیڈیئر (ر) خالد سجاد کھوکر کو خصوصی طور پر مبارکباد پیش کروں گا کہ انہوں نے ایج گروپ کے حوالے سے مجھے زیرو ٹالیرنس کا اختیار دیا، ٹیموں کے انتخاب میں من پسند کی بجائے صرف اور صرف میرٹ کو ترجیح دی گئی۔میرے اپنے بیٹے حذیفہ نوید اور بھانجے عبداللہ جاوید کو اس لئے پنجاب کی ٹیموں میں شامل نہ کیا گیا کیونکہ ان کی عمریں 6، 6 ماہ زیادہ تھیں۔ انڈر 16 بوائز چیمپئن شپ کے دوران کچھ ایسے بچے بھی تھے جو جعلی ب فارم اور سکول سرٹیفکیٹس پر آئے ہوئے تھے۔ بعض نے تو اپنے باپ تک کے نام تبدیل کروا رکھے تھے، سکروٹنی کمیٹی اور سلیکشن کمیٹی نے ایسے 67 بچوں کو چیمپئن شپ سے باہر کیا۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جب 16 سال کا بچہ ہی بد دیانتی پر مبنی پریکٹس میں آ جائے گا تو پاکستان کو عزت کیسے ملے گی؟
نوید عالم کے مطابق عمروں میں ہیر پھیر کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب 20 یا 22 سال کا کھلاڑی انڈر 16کھیلتا ہے تو وقتی طور پر تو وہ بہت اچھا لگے گا، اس کی کارکردگی بھی بہت زبردست ہوگی تاہم ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں ٹیلنٹ چاہیے یا جیت، یقینی طور پر اس کا جواب ٹیلنٹ کا انتخاب ہی ہونا چاہیے۔ ایک اور پہلو پر اس لئے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب 22 سال کا کھلاڑی انڈر 16 کھیلے گا تو2022ء میں اس کی عمر 27 سال ہو جائے گی تو وہ اور کتنی دیر تک قومی ٹیم کیلئے پرفارم کر سکے گا؟ ماضی میں28 اور 29 سال کے کھلاڑی جونیئر ورلڈکپ کھیل گئے، 1993ء میں ہم لوگ تراسا میں جونیئر ورلڈ کپ کھیلے،اس میں ہمارا ایج گروپ کا فرق صرف سال ڈیرھ سال کا ہی تھا، ہم واپس آئے اور1994 کی چیمپئنز ٹرافی کے ساتھ ورلڈ کپ بھی جیت گئے۔
پی ایچ ایف کے اعلی عہدیدار کی رائے میں پچھلے 15 برسوں سے ملکی ہاکی کی تباہی و بربادی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ جونیئر کیٹیگری میں سینئر کھلاڑی کھیلتے رہے۔ 80 فیصد کے قریب وہ کھلاڑی نیشنل ٹیموں میں آئے جن کی عمریں 27 اور 28 سال کے درمیان تھیں، حالانکہ اس عمر میں اچھے کھلاڑی انٹرنیشنل ہاکی کو خیرباد کہنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے کھلاڑی جب قومی ٹیم کی طرف سے کھیلے تو ان پلیئرزکے فٹنس مسائل بھی سامنے آئے۔
سابق اولیمپئنز اور ٹیکنوکریٹس ٹی وی پر بیٹھ کر اظہار خیال کرتے ہیں کہ قومی ٹیم کا فٹنس ایشو ہے، یہ مسئلہ کیوں ہے؟ یہ آج تک کسی نے نہیں بتایا۔ کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل اس لئے ہیں کہ ہم کلب، تحصیل، ڈسٹرکٹ یا صوبائی سطح کے ایونٹس جتوانے کے لئے اوور ایج بچے لیتے ہیں جس کا خمیازہ آگے جاکر قومی جونیئر اور سینئر ٹیموں کو بھگتنا پڑتا ہے، میرا کہنا ہے کہ جب پراسیس کے بغیر کوچز، امپائرز، عہدیداروں کی تقرری ہو گی تو وہ ملکی ہاکی کی بربادی کا سبب ہی بنے گی۔
گزشتہ15 سے 20 برسوں میں مخصوص لوگوں کے آئیڈیاز پر ہاکی ہوتی رہی، ریئلٹی کے اوپر کوئی عہدیدار نہیںگیا جس کا خمیازہ قومی ٹیموں کا بار بار ناکامیوں کی صورت میں سامنے آیا۔ اب اس پریکٹس کو تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں اس بربادی کو روکنے کیلئے موجودہ پی ایچ ایف انتظامیہ نے بولڈ سٹیپ لیاہے اور وہ پلیئرز اور کوچز جنہوں نے انڈر 16 چیمپئن شپ کے دوران غلط بیانی کی، ان کی فہرست تیار کی ہے جنہیں پی ایچ ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پیش کروں گا۔
ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ پی ایچ ایف کی نظر میں قومی ہاکی چیمپئن شپ واحد ایونٹ ہوتا ہے جس میں پلیئر کو جاب سکیورٹی کے ساتھ قومی سطح پر صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملتا ہے اور اسی ایونٹ کے ذریعے کھلاڑیوں، آفیشلز اور امپائرز کی گریڈنگ بھی ہوتی ہے۔ رواں ماہ شیڈول قومی ہاکی چیمپئن شپ میں پہلی بار 30 کے قریب ٹیمیں بننے جا رہی ہیں۔ 16سے18 محکمے ہوں گے، ہر صوبے سے 2، 2 ٹیمیں الگ سے شامل ہوں گی۔اے جے کے، اسلام آباد، فاٹا کو بھی شامل کیا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان میں 300 باصلاحیت پلیئرز کا پول اب بھی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے کبھی وسائل کا رونا، کبھی قیام وطعام کا رونا، کبھی موسم کے معاملات درپیش آتے ہیں، کروڑوں روپے ہم نے میلوں ٹھیلوں پر لگا دیئے، لیکن پلیئرز کیلئے وہ کچھ نہ کیا جس کے وہ مستحق تھے۔
نوید عالم کی رائے میں اب21 کیٹگری میں اسی عمر کا کھلاڑی ہی کھیلے گا۔سینئر زکے بعد ڈویلپمنٹ اور 21 کا سکواڈ آئے گا،پھر انڈر19، 18 اور انڈر16 ٹیموں کا نمبر آئے گا۔موجودہ پی ایچ ایف نے آپ کو ہر عمر کا ایک سانچہ دے دیا،اب سب کو اندازہ ہے کہ اس نے اپنا رول کس طرح اور کس انداز میں ادا کرنا ہے۔ نوید عالم کے مطابق پاکستان دنیا کو فالو کر کے اور ان کے کوچز کے طریقہ کار کو اپنا کر ورلڈ چیمپئن نہیں بن سکتا، ہمیں عالمی چیمپئن بننے کیلئے خواجہ ذکاالدین، بریگیڈیئر عاطف، خالد محمود، منظور جونیئر، شہباز سینئر کو فالو کرنا ہوگا کہ وہ کس انداز کی ہاکی کھیلتے تھے ۔ اسی ہاکی کو اپنے بچوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں یہ پریکٹس رہی کہ جس کوچ کو باہر بھیجا گیا وہ گوروں کی نقل کر کے وطن واپس آ گیا اور اس نے پاکستانی بچوں کو بھی اسی انداز میں ہاکی کھلانا شروع کر دی، ٹیمیں نقالی سے نہیں بنتی، فائٹر کھلاڑی بنانا کوچز کا مقصد ہونا چاہیے۔ سکول چیمپئن شپ کے دوران میں نے جتنا ٹیلنٹ دیکھا، اس کے بعد دعویٰ سے کہتا ہوں کہ پاکستان مستقبل میں ہر ٹائٹل جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ پلیئرز کی سلیکشن اور گرومنگ پر کسی بھی طرح کا کوئی بھی کمپرومائز نہ کیا جائے۔