دینی سیاسی جماعتوں کا مستقبل
دینی سیاسی جماعتوں کو پاکستان میں سیاسی قوت کے بجائے مزاحمتی گروپ ہی سمجھا گیا ہے۔
KARACHI:
گزشتہ ماہ کراچی میں واقع ایک نجی اسکول میں دینی جماعت کی جانب سے سالانہ تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ آخری روز اجتماع عام تھا، جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ اس اجتماع عام کے آخری روز ایک کالم نگار تشریف لائے، جن کا تعلق دینی سیاسی جماعت کے ترجمان اخبار سے تھا۔ انھوں نے اقامت دین یعنی دین کے عملی نفاذ کی جدوجہد کے حوالے سے ایک پراثر تقریر کی۔
تقریر کے آخر میں انھوں نے فرمایا ''قیام پاکستان سے اب تک اقامت دین کی جدوجہد جاری ہے لیکن اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی، اس کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں ہمیں یہ جدوجہد جاری رکھنی ہے۔ کامیابی ملے یا ناکامی اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اقامت دین کو مذہبی اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دینا ہے۔'' یہ وہ الفاظ تھے جنھیں میں بڑے غور سے سن رہا تھا، محترم کالم نگار کا یہ نقطہ نظر کس حد تک درست ہے، اس کا بہتر جواب تو اہل علم و دانش ہی دے سکتے ہیں، میرے نزدیک یہ نقطہ نظر یا اصول ایک مبلغ کے لیے تو ہوسکتا ہے لیکن ایک سیاست دان کے لیے نہیں۔
سیاست کامیابی کے تصور کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ کامیابی کے بغیر سیاست کا کوئی مفہوم نہیں، اس لیے دینی سیاسی جماعتوں کو غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور ضرور کرنا چاہیے، تاکہ اس کی روشنی میں اس کے تدارک کے ذریعے کامیابی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں، ان کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔
پاکستان کے عوام بھی ان دینی اور مذہبی جماعتوں سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، ان جماعتوں کے پاس مخلص کارکنان ایک اثاثے کی صورت میں موجود ہیں، جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان جماعتوں میں لبرل اور سیکولر جماعتوں کے کارکنان کے مقابلے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تڑپ، جذبہ اور اخلاص زیادہ پایا جاتا ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے نصب العین کے حوالے سے واضح مقصد حیات ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود دینی سیاسی جماعتیں عوام کی اکثریتی حمایت کے حصول میں کیوں ناکام ہیں۔ پاکستان میں زیادہ پذیرائی انھی جماعتوں کو حاصل رہی ہے جو اپنے نظریے، منشور اور مزاج کے حوالے سے لبرل اور سیکولر سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت نے اپنے سیاسی معاملات کبھی دینی سیاسی جماعتوں کے حوالے نہیں کیے، یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کی حیثیت پاکستان کی سیاست میں ایک پریشر گروپ کی رہی ہے جن کی موجودگی میں سیکولر قوتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع کبھی میسر نہ آسکا۔
دینی سیاسی جماعتوں کو پاکستان میں سیاسی قوت کے بجائے مزاحمتی گروپ ہی سمجھا گیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں جو ووٹ پڑتا ہے وہ ان کی مقبولیت کا نہیں بلکہ ایک احتجاجی ووٹ ہوتا ہے جو لبرل اور سیکولر جماعتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتوں کے حصے میں آجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام کیوں ہیں؟ آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں عمومی طور پر سیاسی جماعتیں خاص حالات کی پیداوار ہوتی ہیں، ابتدا میں کچھ جوشیلے افراد اپنے ذوق اور وقت کی ضرورت کے تحت ان تحریکوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان افراد کی کوششوں کے نتیجے میں یہ اپنے معتقدین (ووٹر) کا ایک محدود حلقہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں یہ جماعتیں غیر موثر ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ شروع میں شامل ہوتے ہیں یہ جماعتیں انھی لوگوں پر محدود ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک وقت تک مسلکی، فرقہ واریت یا لسانیت کے سہارے اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں، کچھ عرصے بعد اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔
بعض سیاسی اور دینی سیاسی جماعتیں نادیدہ قوتوں کی سیاسی نظام میں مداخلت کے نتیجے میں ملکی سیاست کی نقشہ گری کی صورت میں وجود میں لائی جاتی ہیں، غیر فطری طریقے سے وجود میں آنے والی جماعتیں کبھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکتیں۔ نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ سیاست میں یہ رجحان سیاسی بالخصوص دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کا بڑا سبب ہے۔ دوسری بڑی وجہ عوام کے بااثر اور بالادست طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ مولوی حضرات کا دائرہ عمل مساجد اور دینی مدارس کی تعمیر عقائد کی اصلاح، اخلاقیات کا درس، نماز کی امامت، نکاح و طلاق کے معاملات دیکھنا اور دیگر اسلامی رسوم کی ادائیگی تک محدود ہے۔
نظام حکومت چلانے کی نہ ہی ان میں صلاحیت ہے اور نہ ہی ان کے بس کا روگ۔ اس لیے انھیں سیاست میں حصہ لینے کے بجائے اپنے دائرہ عمل تک محدود رہنا چاہیے (بعض مذہبی حلقوں کے طرز عمل نے اس طرز فکر کو فروغ دیا ہے) اس طرز فکر کی وجہ سے اسلامی زندگی یعنی پوری زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھالنے والا نظریہ عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام رہی ہیں۔
ہمارے ملک میں رائج مغرب کا یہ سیاسی نظام ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ اس میں دینی سیاسی جماعتوں کا کامیابی سے ہم کنار ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس نظام میں سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے، اس میں اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ اسے سیاست کا حسن اور خوبصورتی قرار دیا جاتا ہے اور اس میں سمجھوتے کے ذریعے عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔ لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتیں اسی اصول پر کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انھیں معاشرے کے تمام طبقات کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔
دینی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ عمل انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ انھیں وہی فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق درست ہوں۔ ان جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ فحاشی اور عریانی کے حامی عناصر کی خوشنودی کے لیے اسے جائز قرار دے دیں۔ ایسے حالات میں دینی سیاسی جماعتوں کا دائرہ عمل محدود ہوجاتا ہے۔ یعنی منظم اقلیت اکثریت کو بے اثر بنا دیتی ہے۔
نتیجے میں دینی جماعتیں انتخابات میں ناکام ہوجاتی ہیں موجودہ سیاسی نظام اور طرز انتخابات میں ناچ گانے، ڈھول تاشے، سیاسی جوڑ توڑ، جھوٹ، فریب، مکاری، روپے پیسے کا بے دریغ استعمال، غنڈہ عناصر کی پشت پناہی، دھاندلی، انتظامی اثر و رسوخ کا استعمال ایسے عوامل ہیں جو انتخاب میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کا دینی تشخص ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ یہ سب کچھ کریں، اگر وہ محض سیاسی فتوحات کے لیے اس راستے پر چل پڑیں تو اس سے ان کا دینی تشخص متاثر ہوتا ہے۔
اس طرز عمل سے عوام ہی نہیں بلکہ ان جماعتوں کے حامی ووٹر بھی ان سے دور ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتوں کی سیاسی میدان میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں اجتماعی قیادت کی باگ ڈور جن عناصر بالخصوص بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں ہے ان کے نزدیک موجودہ دور میں اسلامی قوانین قابل عمل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک انگریزی قوانین ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں۔
بالادست قوتوں کی جانب سے عدم تعاون اور ان کے منفی رویے کی وجہ سے پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل نہ صرف غیر اطمینان بخش رہا بلکہ اس لحاظ سے بھی ناکام رہا کہ اس کے معاشرے پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہ ہوسکے۔ مختلف حکومتوں کے دور حکومت میں اسلامائزیشن کے حوالے سے ادھورے اقدامات نے مستقبل قریب میں اسلامی نقطہ نظر سے کسی بڑی تبدیلی کے راستوں کو بھی بند کردیا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں سیاسی شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ جب تک ان دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان اسباب کے تدارک کے لیے لائحہ عمل نہیں بنایا جائے گا وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتیں۔ اگر ان اسباب کا تدارک ممکن نہیں تو پھر دینی سیاسی جماعتوں کو معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے نئے خطوط پر غور کرنا چاہیے۔ ورنہ یہی صورتحال رہے گی۔ بقول شاعر:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
گزشتہ ماہ کراچی میں واقع ایک نجی اسکول میں دینی جماعت کی جانب سے سالانہ تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ آخری روز اجتماع عام تھا، جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ اس اجتماع عام کے آخری روز ایک کالم نگار تشریف لائے، جن کا تعلق دینی سیاسی جماعت کے ترجمان اخبار سے تھا۔ انھوں نے اقامت دین یعنی دین کے عملی نفاذ کی جدوجہد کے حوالے سے ایک پراثر تقریر کی۔
تقریر کے آخر میں انھوں نے فرمایا ''قیام پاکستان سے اب تک اقامت دین کی جدوجہد جاری ہے لیکن اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی، اس کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں ہمیں یہ جدوجہد جاری رکھنی ہے۔ کامیابی ملے یا ناکامی اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اقامت دین کو مذہبی اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دینا ہے۔'' یہ وہ الفاظ تھے جنھیں میں بڑے غور سے سن رہا تھا، محترم کالم نگار کا یہ نقطہ نظر کس حد تک درست ہے، اس کا بہتر جواب تو اہل علم و دانش ہی دے سکتے ہیں، میرے نزدیک یہ نقطہ نظر یا اصول ایک مبلغ کے لیے تو ہوسکتا ہے لیکن ایک سیاست دان کے لیے نہیں۔
سیاست کامیابی کے تصور کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ کامیابی کے بغیر سیاست کا کوئی مفہوم نہیں، اس لیے دینی سیاسی جماعتوں کو غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور ضرور کرنا چاہیے، تاکہ اس کی روشنی میں اس کے تدارک کے ذریعے کامیابی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں، ان کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔
پاکستان کے عوام بھی ان دینی اور مذہبی جماعتوں سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، ان جماعتوں کے پاس مخلص کارکنان ایک اثاثے کی صورت میں موجود ہیں، جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان جماعتوں میں لبرل اور سیکولر جماعتوں کے کارکنان کے مقابلے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تڑپ، جذبہ اور اخلاص زیادہ پایا جاتا ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے نصب العین کے حوالے سے واضح مقصد حیات ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود دینی سیاسی جماعتیں عوام کی اکثریتی حمایت کے حصول میں کیوں ناکام ہیں۔ پاکستان میں زیادہ پذیرائی انھی جماعتوں کو حاصل رہی ہے جو اپنے نظریے، منشور اور مزاج کے حوالے سے لبرل اور سیکولر سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت نے اپنے سیاسی معاملات کبھی دینی سیاسی جماعتوں کے حوالے نہیں کیے، یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کی حیثیت پاکستان کی سیاست میں ایک پریشر گروپ کی رہی ہے جن کی موجودگی میں سیکولر قوتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع کبھی میسر نہ آسکا۔
دینی سیاسی جماعتوں کو پاکستان میں سیاسی قوت کے بجائے مزاحمتی گروپ ہی سمجھا گیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں جو ووٹ پڑتا ہے وہ ان کی مقبولیت کا نہیں بلکہ ایک احتجاجی ووٹ ہوتا ہے جو لبرل اور سیکولر جماعتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتوں کے حصے میں آجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام کیوں ہیں؟ آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں عمومی طور پر سیاسی جماعتیں خاص حالات کی پیداوار ہوتی ہیں، ابتدا میں کچھ جوشیلے افراد اپنے ذوق اور وقت کی ضرورت کے تحت ان تحریکوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان افراد کی کوششوں کے نتیجے میں یہ اپنے معتقدین (ووٹر) کا ایک محدود حلقہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں یہ جماعتیں غیر موثر ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ شروع میں شامل ہوتے ہیں یہ جماعتیں انھی لوگوں پر محدود ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک وقت تک مسلکی، فرقہ واریت یا لسانیت کے سہارے اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں، کچھ عرصے بعد اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔
بعض سیاسی اور دینی سیاسی جماعتیں نادیدہ قوتوں کی سیاسی نظام میں مداخلت کے نتیجے میں ملکی سیاست کی نقشہ گری کی صورت میں وجود میں لائی جاتی ہیں، غیر فطری طریقے سے وجود میں آنے والی جماعتیں کبھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکتیں۔ نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ سیاست میں یہ رجحان سیاسی بالخصوص دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کا بڑا سبب ہے۔ دوسری بڑی وجہ عوام کے بااثر اور بالادست طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ مولوی حضرات کا دائرہ عمل مساجد اور دینی مدارس کی تعمیر عقائد کی اصلاح، اخلاقیات کا درس، نماز کی امامت، نکاح و طلاق کے معاملات دیکھنا اور دیگر اسلامی رسوم کی ادائیگی تک محدود ہے۔
نظام حکومت چلانے کی نہ ہی ان میں صلاحیت ہے اور نہ ہی ان کے بس کا روگ۔ اس لیے انھیں سیاست میں حصہ لینے کے بجائے اپنے دائرہ عمل تک محدود رہنا چاہیے (بعض مذہبی حلقوں کے طرز عمل نے اس طرز فکر کو فروغ دیا ہے) اس طرز فکر کی وجہ سے اسلامی زندگی یعنی پوری زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھالنے والا نظریہ عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام رہی ہیں۔
ہمارے ملک میں رائج مغرب کا یہ سیاسی نظام ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ اس میں دینی سیاسی جماعتوں کا کامیابی سے ہم کنار ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس نظام میں سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے، اس میں اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ اسے سیاست کا حسن اور خوبصورتی قرار دیا جاتا ہے اور اس میں سمجھوتے کے ذریعے عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔ لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتیں اسی اصول پر کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انھیں معاشرے کے تمام طبقات کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔
دینی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ عمل انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ انھیں وہی فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق درست ہوں۔ ان جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ فحاشی اور عریانی کے حامی عناصر کی خوشنودی کے لیے اسے جائز قرار دے دیں۔ ایسے حالات میں دینی سیاسی جماعتوں کا دائرہ عمل محدود ہوجاتا ہے۔ یعنی منظم اقلیت اکثریت کو بے اثر بنا دیتی ہے۔
نتیجے میں دینی جماعتیں انتخابات میں ناکام ہوجاتی ہیں موجودہ سیاسی نظام اور طرز انتخابات میں ناچ گانے، ڈھول تاشے، سیاسی جوڑ توڑ، جھوٹ، فریب، مکاری، روپے پیسے کا بے دریغ استعمال، غنڈہ عناصر کی پشت پناہی، دھاندلی، انتظامی اثر و رسوخ کا استعمال ایسے عوامل ہیں جو انتخاب میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کا دینی تشخص ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ یہ سب کچھ کریں، اگر وہ محض سیاسی فتوحات کے لیے اس راستے پر چل پڑیں تو اس سے ان کا دینی تشخص متاثر ہوتا ہے۔
اس طرز عمل سے عوام ہی نہیں بلکہ ان جماعتوں کے حامی ووٹر بھی ان سے دور ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتوں کی سیاسی میدان میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں اجتماعی قیادت کی باگ ڈور جن عناصر بالخصوص بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں ہے ان کے نزدیک موجودہ دور میں اسلامی قوانین قابل عمل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک انگریزی قوانین ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں۔
بالادست قوتوں کی جانب سے عدم تعاون اور ان کے منفی رویے کی وجہ سے پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل نہ صرف غیر اطمینان بخش رہا بلکہ اس لحاظ سے بھی ناکام رہا کہ اس کے معاشرے پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہ ہوسکے۔ مختلف حکومتوں کے دور حکومت میں اسلامائزیشن کے حوالے سے ادھورے اقدامات نے مستقبل قریب میں اسلامی نقطہ نظر سے کسی بڑی تبدیلی کے راستوں کو بھی بند کردیا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں سیاسی شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ جب تک ان دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان اسباب کے تدارک کے لیے لائحہ عمل نہیں بنایا جائے گا وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتیں۔ اگر ان اسباب کا تدارک ممکن نہیں تو پھر دینی سیاسی جماعتوں کو معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے نئے خطوط پر غور کرنا چاہیے۔ ورنہ یہی صورتحال رہے گی۔ بقول شاعر:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے